(Last Updated On: )
تنگ سائے کے بدن پر کس قدر پوشاک تھی
دھوپ کی زریں قبا سو سو جگہ سے چاک تھی
در پہ ہوتی ہی رہیں بن کھٹکھٹائے دستکیں
ایک نامعلوم اندیشے کی گھر میں دھاک تھی
شہرِ دل میں تھا عجب جشنِ چراغاں کا سماں
ٹمٹماتی گرم بوندوں سے فضا نمناک تھی
مدتوں سے آشتی اپنی تھی اپنے آپ سے
اس رواداری میں لیکن عافیت کیا خاک تھی
تھے حد امکاں سے باہر بھی ارادے کے ہدف
حادثوں کو ورنہ کیوں دائم ہماری تاک تھی
ہم نے پایا تجربے کا بے بہا انعام تو
گو شکستِ خواب کی ساعت اذیت ناک تھی
حال آزادوں کو دور جبر میں کیا پوچھنا
اس فضا میں تو ہوا بھی حبس کی خوراک تھی
٭٭٭