رات کے ایک بجنے کو تھے ۔۔ عمارا کو نیند آکے نہیں دے رہی تھی ۔۔ وہ کبھی کروٹیں بدلتی تو کبھی کشن سختی سے آنکھوں پر جما لیتی مگر اس شخص کے بھاری گمبھیر لہجے میں کہے گئے الفاظ اسکے کانوں کے گنبد میں گونج رہے تھے ۔۔۔وہ بے چین سی ہوکر اٹھ بیٹھی ۔۔
اگر واقعی وہ دہشت گرد تھا تو اس سے انجانے میں جرم سرزد ہوگیا تھا ۔۔
وہ اسکا علاج کر بیٹھی تھی ہمدردی میں ۔۔
جو اب اسے بہت بھاری پڑ رہی تھی ۔۔
اسکا باپ چھوٹی سی فرم چلاتا تھا ۔۔۔بہت بڑا بزنس مین نہیں تھا اسکے باوجود وہ ہزاروں روپے ٹیکس ادا کرتے
حتی کہ زمہ دار شہری ہونے کا بھرپور کردار ادا کر رہے تھے ۔۔ انکا کیا ہوگا ؟
اور اسکا کریئر تو شروع ہونے سے پہلے ختم ہوجاتا ۔۔۔ ! اس نے ہاسپٹل کے سینئیر ڈاکٹر علی کو اعتماد میں لینے کا سوچا ۔۔۔ وہ اسے کل سب کچھ بتا دے گی ۔۔۔
کم از کم اسکے پاس اپنے دفاع میں مضبوط دلیل یا شواہد تو ہوں گے ۔۔ باقی جو ہوگا دیکھا جائے ۔۔
اس نے باقی کا گلاس حلق میں انڈیل کر خشک گلا تٙر کیا اور گلاس واپس رکھ کر ایک نظر ابراہیم کی وجیہہ تصویر پر ڈالی ۔۔ جو ہمیشہ اسکی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی تھی ۔۔ اور کمفرٹر کھینچ کر لیٹ گئی ۔۔
______________________________________
درباس ؟؟؟؟
حاکم کی آواز پر بھی اسکے وجود میں کوئی جنبش نہیں ہوئی ۔۔۔ وہ یونہی کھوئے ہوئے انداز میں بیٹھا رہا
لکڑی سے زمین پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچتا رہا ۔۔
درباس؟؟؟؟
حاکم نے اس بار قدرے غصے اور تحکم بھرے انداز میں پکارا ۔۔ جو درباس کو رتی برابر نہ بھایا ۔۔
کیا ہے ؟؟؟
اس نے مڑ کر کھا جانے والے انداز میں پوچھا ۔۔۔
کمانڈر نے بلایا ہے تمہیں ۔۔۔
حاکم نے بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا ۔۔
ایک تو وہ درباس کو ویسے ہی پسند نہیں کرتا تھا ۔۔۔
کمانڈر کے ساتھ وہ دو سالوں سے تھا اب تک انکا جانشیں نہیں بن پایا تھا اور درباس نے ہفتے کے دوسرے دن ہی کمانڈر کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی تھی ۔۔ وہ ایسے ایسے کارنامے کر جاتا تھا کہ پل بھر کو حاکم بھی دمبخود رہ جاتا ۔۔۔ اسے درباس سے جلن محسوس ہونے لگتی ۔۔ تو کبھی وہ اس پر شک کرنے لگتا ۔۔ نہ جانے یہ جلن اسکے کارناموں کی دین تھی یا واقعی اس میں ایسا کچھ تھا جو ناقابل فراموش تھا ۔۔
درباس خاموشی سے اٹھا اور اس پر غلط نگاہ ڈالے بغیر کچے سے مکان کی جانب بڑھا ۔۔۔ جہاں انکا قیام عارضی تھا
وہ رہائشیں بدلتے رہتے تھے ۔۔
کمانڈر ٹیبل پر کئی لیپ ٹاپ اور ہزاروں کی تعداد میں مختلف نیٹ ورک کی سِمیں ، پینڈرائیو ! جن سے وہ بیک وقت کام لئے ہوئے تھے ۔۔۔اپنے سامنے پھیلائے مصروف انداز میں اسے بیٹھنے کا اشارہ دیا ۔۔
وہ خاموشی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا ۔۔۔
تیاری کرلو ، آج شام ہم بارڈر پر جارہے ہیں !
قاسم کو چھڑانے ۔۔!!
وہ اندر سے بری طرح سے چونکا مگر تاثرات چھپا گیا ۔۔ قاسم کمانڈر کے سابقہ جانشین کا بھائی تھا ۔۔ جو کمانڈر کو بھائیوں ہی کی طرح عزیز تھا ۔۔۔ عسکری سپاہیوں اور ان کے مقابلے میں جانشین مارا گیا تھا جبکے قاسم تب سے کمانڈر کے ہاں اسکی نشست سنبھالنے لگا ۔۔۔
وہ اگلی سرگرمیوں کی تیاری میں کابُ* سے پاکستان جارہا تھا ۔۔۔کہ کسی نے انکی مخبری کردی اور قاسم پکڑا گیا ۔۔ کمانڈر نے اُس آفیسر کو تلاش کرکے ازیت ناک موت مارنے کا حکم نامہ پہلے سے جاری کر رکھا تھا ۔۔۔
کیا ہوا ؟ تم جب سے ہاسپٹل سے لوٹے ہو چپ چپ ہو ؟؟ کوئی مسلہ ہے ؟
کمانڈر کو اسکی خاموشی کھلی ۔۔
نہیں ! کچھ خاص نہیں !
وہ مخصوص ٹھنڈے لہجے میں کہتا کرسی سرکا کر اٹھ گیا ۔۔
کہاں چلے اب تم ؟؟
کمانڈر اسے جاتا دیکھ کر تعجب سے پوچھا
اس نے اب کی بار کوئی رائے کا اظہار بھی نہیں کیا تھا ۔۔ کچھ نہیں آتا ہوں !
وہ کہہ کر باہر نکل گیا ۔۔۔ مکان کی کچی دیوار سے لگ کر اس نے اطراف کا جائزہ لیا ۔۔ اور جیب چھوٹا سا فون نکال کر اس میں سِم ڈالی ۔۔۔ تیزی سے انگلیوں کو حرکت دیتے ہوئے ایک پیغام چھوڑا ۔۔ موبائل آف کرنے کے بعد سم توڑ کر پھینک دی اور موبائل جیب میں ڈال لیا ۔۔۔
جانے کے لئے پلٹا ہی تھا کہ حاکم کو دیکھ کر پل بھر کے لئے اسکے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔۔۔
کس کو میسیج کر رہے ہو چھپ چھپ کر ؟؟؟
وہ شکی نگاہوں سے گھورتا ہوا پوچھنے لگا ۔۔
اپنے کام سے کام رکھو !
وہ دو ٹوک بول کر جانے لئے آگے بڑھا مگر حاکم نے اسکے سینے پر دبائو ڈال کر اسے روکا ۔۔
بتائو !!
انداز میں تحکم اور استفسار تھا ۔۔
درباس نے ضابطانہ طور پر لب بھینچے اور اسکے ہاتھ جھٹک دیئے ۔۔
مجھے شروع سے ہی تم پر شک تھا !
اسکی آواز پر درباس کی رہا سہا ضبط بھی ٹوٹ گیا ۔۔وہ انتہائی غصے سے اس پر جھپٹ پڑا ۔۔۔
دربارس ۔۔۔ حاکم ۔۔۔۔ بس کرو تم دونو۔۔ کیسے وحشیوں کی طرح لڑ رہے ہو
وہ دونوں گتھم گتھا ہورہے تھے جب کمانڈر کی غصے سے بھرپور آواز کانوں سے ٹکرائی ۔۔
اسکا دماغ ٹھکانے لگا دیں ورنہ ، یہ میرے ہاتھوں مارا جائے گا کسی دن !
درباس نے اسے گریبان سے دبوچ کر دور پھینک دیا ۔۔۔
حد ادب درباس ،
اور کیا مسلا ہے تمہارا حاکم ؟؟
وہ دونوں کو ایک جواب میں نپٹا کر حاکم کو گھورنے لگا ۔۔۔
یہ یہاں چھپ چھپ کر کسی کو میسیج کر رہا تھا ، میرے پوچھنے پر میری یہ حالت کردی ، آپ ہی پوچھیں کس کو میسیج کر رہا تھا یہ !
حاکم پھبر کر بولا ۔۔۔
درباس کے چہرے پر لمحے کے لئے تفکر بھرا تاثر ابھرا ۔۔۔
کمانڈر بھی حیرت بھری نگاہوں سے درباس کو دیکھتا اسکی وضاحت کا انتظار کرنے لگے۔۔
اپنی محبوبہ کو میسیج کر رہا تھا ۔۔۔بس یا اور کچھ !!!
درباس تپ کر بولا ۔۔
جھوٹ بول رہا ہے ، بکواس کر رہا ہے یہ !
کمانڈر کے چہرے پر اطمینان اترتا دیکھ کر حاکم غصے سے سرخ پڑنے لگا ۔۔۔
درباس غصے سے پھر ایک بار اسکی جانب بڑھا ۔۔
درباس ،
کمانڈر کی دخل اندازی پر اسکے قدم وہیں تھم گئے۔۔
جائو تم یہاں سے ،
انہوں نے حکم صادر کیا ۔۔
درباس اسے کھاجانے والی نگاہوں سے گھورتا منظر سے ہٹ گیا ۔۔
اور تم حاکم ؟؟؟ ایسے بے وجہ الزام لگا کر کسی سپاہی کے درجے کو پامال مت کرو ، اگر تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے تو بات کرو ، بے وجہ الزام لگانا تمہیں شہبہ نہیں دیتا !
وہ اسے جھاڑ کر چلے گئے ۔۔
حاکم نے مسوڑوں سے بہتے خون کو تھووو کی صورت نفرت سے زمین پر تھوکا ۔۔ اور عزم کے ساتھ اٹھا ۔۔۔
تو کمانڈر کو ثبوت چاہئیے ۔!!!!
______________________________________
گڈ مارننگ ۔۔!!! مائی لمب (lamb) !
اس نے جھک کر اسکے ناک لے ناک رگڑی ۔۔۔
ایزی نے کسمسا کر آنکھیں کھول دیں ۔۔
ایک نظر اسے دیکھا اور دوربارہ کمفرٹر کھینچ لیا ۔۔
جسکا دوسرا کونا دائم نے قبضے میں لے کر اسکی حرکت کو ناکام بنایا ۔۔
پاپا آج سنڈے ہے ، اسکول بھی آف ہے !
وہ برا سا منہ بنانے لگی ۔۔۔
میری جان مجھے بہت ضروری کام سے جانا ہے ،تم جلدی سے برش کرو ، ناشتے کرنے بعد میں تمہیں شفق کی طرف چھوڑ دیتا ہوں !!
وہ روانی میں کہتے ہوئے دوسری طرف گیا اور اسکے سلیپرز اٹھا کر بیڈ کے آگے پھینکے ۔۔
چلو شاباش !
وہ برے برے منہ بناتی اٹھ بیٹھی ۔۔۔
دائم نے واشروم میں گھس کر اسکے برش پر حسب ضرورت ٹوتھ پیسٹ لگائی اور باقی ڈرار میں رکھ دی ۔۔
کیونکہ وہ اکثر پیسٹ کھا جایا کرتی تھی ۔۔
وہ واپس کمرے میں لوٹا تو ایزی گال پر ہاتھ جمائے نیند سے جھول رہی تھی ۔۔۔ وہ بے اختیار ہنسا ۔۔۔
ایک پل کے لئے اسے لگا وہ اس نے کچھ زیادہ ہی اسٹرکٹ باپ تھا ۔۔
لیکن اگر اسکی بیٹی اسکے جیسی اصول پسند بنتی تھی تو اس میں قباحت ہی کیا تھی ۔۔اور سات بجے اٹھنا ‘جلدی’ میں تو شمار نہیں ہوتا !
اس نے خود کو تسلی دیتے ہوئے سر جھٹکا ۔۔۔اور ایزی کی جانب بڑھا
ششش ، مادام !
اسکی آواز پر وہ جھٹکا کھا کر سیدھی ہوئی ۔۔
اور سرخ آنکھوں میں خفگی لیئے اسے گھورنے لگی ۔۔۔
دائم کو اس پر ڈھیروں پیار آیا ۔۔۔ وہ اسکی گال پر نرمی سے بوسہ دیتے ہوئے اسے بیسن کے سامنے اونچی سلب پر کھڑا کرنے لگا ۔۔
تمہیں پتا ہے نا شفق کیسا کھانا بناتی ہے ، اسلئے میں نے تمہارے لئے اچھا سا کھانا بھی تیار رکھا ہے ! اب جلدی کرو ! وہ اسکے کان میں سرگوشی کرتا بولا ۔۔
اوکے !
وہ برش اٹھا کر منہ میں ڈالتی بڑبڑائی ۔۔۔ اس نے ہمیشہ کی طرح سمجھداری کا مظاہرہ کیا ۔۔۔ دائم کو اب اپنی مصروفیات پر غصہ آنے لگا تھا ۔۔۔وہ اسکا سر تھپتھپا کر کچن میں مصروف نظر آنے لگا ۔۔
وہ فریش سی کرسی پر آبیٹھی ۔۔ آنکھیں کھلی تو زہن بھی بیدار ہوچکا تھا ۔۔
اب پھر سے باتیں بگھارنے کے لئے تیار تھی ۔۔
پاپا ؟ کل رات کو کون آیا تھا ۔۔؟؟
ٹیبل پر بانہیں پھیلا کر مخصوص انداز میں چہکتے ہوئے باپ کو مخاطب کیا جو کائونٹر پر جھکا ہوا تھا ۔۔
کوئی بھی تو نہیں !
وہ ٹال گیا
آپ جھوٹ بول رہے ہیں نا پاپا!
وہ چور نظر اس پر ڈالتی مسکرائی
میں بھلا کیوں جھوٹ بولوں گا !
دائم حیرت سے پلٹا ۔۔
اسکی مسکراتی آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی ۔۔۔
کل ایک ٹیک پونی والی آنٹی آئیں تھی نا !میں نے دیکھ لیا تھا !
وہ نھنھے ہاتھ لبوں پر جماتی ہنس کر اپنی کارستانی بتانے لگی۔۔
تو تم سو نہیں رہی تھی ؟؟؟
دائم متحیرانہ نگاہوں سے اسے گھورتا نفی میں سر جھٹک کر مڑ گیا ۔۔
پاپا وہ کتنی پیاری تھی نا !
وہ اسکی بات کا جواب دیئے بغیر بولی ۔۔۔
پتا نہیں میں نے نوٹ نہیں کیا !
دائم نے اسکے آنکھوں میں چمکتے جگنوئوں سے گھبرا کر ناشتے کی ٹرے اسکے سامنے رکھی ۔۔۔
اس نے خود پر بند بانھ لیا تھا ۔۔اسکی زندگی میں اب دوسری عورت کی کوئی گنجائش نہیں تھی ۔۔ایسا نہیں تھا وہ سابقہ بیوی کے سحر سے نکل پارہا تھا ۔۔۔پہلا تجربہ اتنا تلخ تھا کہ اسکی ہمت ہی نہیں بن پائی ۔۔ دونوں کی ارینج میرج تھی دائم نے بھرپور کوشش کی نبھانے کی مگر کئی بار انسان کوششوں کے باجود ہار جاتا ہے ۔۔۔ اور سبین بھی شاید غلط نہیں تھی ایسے انسان کے نباہ کرنا واقعی کٹھن تھا ۔۔۔بڑا حوصلہ ہوتا ہے ، ان جوانوں کی بیوئیوں ،مائوں ،بہنوں میں جو وطن کی حفاظت کو گھر سے نکلتے ہیں اور کئی کئی برس شکل نہیں دکھاتے ۔۔
آپ جھوٹ کیوں بول رہے ہیں ؟ آپ بہت غور سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔ بتائیں نا کیسی لگی وہ آنٹی ؟ پیاری تھی ناں؟
ایزی نئی بات لے کر بیٹھ گئی تھی ۔۔
دائم کو اب غصہ آنے لگا تھا ۔۔
اب وہ اسے کیسے سمجھاتا ہر ‘دیکھنے’ کے پیچھے کسی کا ‘پیارا ” ہونا شرط نہیں تھا۔۔ اس کی جاب ہی ایسی تھی ۔۔ اسے ہر شخص کو گھورنا پڑتا تھا ۔۔۔
ہوگی پیاری ! تو ؟؟؟
وہ جان چھڑانے والے انداز میں کہتا کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا ۔۔۔
تو ایسی ہی مما چاہیئے !
وہ چہک کر فرمائش کرتی دائم کو کھانسنے پر مجبور کر گئی ۔۔
وہ حیرت کے مارے اس کی صورت دیکھنے لگا
پتا بھی ہے وہ پولیس آفیسر ہے ،
تمہیں اور مجھے دونوں کو بہت مارے گی اور پھر جیل میں ڈال دے گی! دوبارہ مت سوچنا ایسا !
اس نے ڈرانا چاہا ۔۔
پر کسی کو تو آنا پڑے گا نا اس گھر میں یار !
وہ زچ ہوئی ۔۔۔
دائم حیرت سے اسے دیکھے گیا ۔۔
اچھا بتائیں ۔۔۔ شفق کیسی لگتی ہے آپ کو پاپا ؟؟؟
وہ جھک کر رازدارانہ پوچھنے لگی ۔۔۔
اسٹاپ اٹ ایزی ۔۔ شفق ‘صرف’ میری دوست ہے !
وہ چڑ کر بولا ۔۔
پاپا اب آپ مجھے irritate کر رہے ہو
تم بھی صبح صبح دماغ مت کھائو میرا۔۔
میں شفق کو بتائو گی !
ایزی دھمکی آمیز لہجے میں بولی ۔۔
تم شفق سے کوئی بات نہیں کروگی !
اسکا لہجہ سخت گیر ہوا ۔۔
شفق میری بھی دوست ہے وہ میری بات ضرور مانے گی ،
اس لڑکی پر تو جیسے جنوں سوار ہوگیا تھا ۔۔
دائم ہکا بکا رہ گیا ۔۔
شفق میری دوست ہے وہ تمہاری بات کبھی نہیں مانے گی ،
وہ میری بھی دوست ہے
ایزی ناک پھلا کر گھورتی اسکے نزدیک ہوئی ۔۔
وہ صرف میری دوست ہے ! وہ بھی نزدیک ہوا۔۔
میری ہے ۔۔۔
میری بھی ہے !!
باپ رےےے ۔۔۔ کہیں یہ خواب تو نہیں ؟؟؟ دو بہت ہی خوبصورت لوگ میرے لئے لڑ رہے ہیں !
وہ سینے پر ہاتھ جمائے حیران سی دروازے پر کھڑی تھی ۔۔وہ دونوں باپ بیٹھی یک دم سیدھے ہوئے ۔۔
تو ۔۔کون جیتا بھئی ؟؟؟ کس کی ہوں میں ؟؟؟
وہ شوخی اور شرارت سے ایزی کی طرف بڑھی ۔۔
میری ۔۔ میری میری ۔۔
وہ چیختی ہوئے اپنی نشست پر کھڑی ہوگئی ۔۔۔
شفق ہنستے ہوئے اسے اپنے حصار میں لینے لگی ۔۔
دائم نے مسکرا کر سر جھٹکا ۔۔اور کافی کا کپ لبوں سے لگالیا ۔۔
شکر ہے تم جیت گئی ،اب میں تمہاری سائیڈ ہوں تمہارا باپ تو بڑا ہی بے مروت ہے ،
وہ شرارت سے ایزی کے کان میں سرگوشی کرنے لگی ۔۔۔
تم کیسے ہو دائم؟؟؟
شفق دائم کی جانب متوجہ ہوئی ۔۔۔ چست سی لائٹ برائون شرٹ ، اور جینز میں ملبوس وہ اپنے پورے قد کے ساتھ وہ ہمیشہ کی طرح انتہائی خوبصورت نظر آرہا تھا
شفق نے بے ساختہ نگاہیں ہٹالیں ۔۔
ٹھیک تم سنائو !
وہ شاید عجلت میں تھا ۔۔
تبھی نوٹ نہیں کر پایا اسکی نگاہیں۔۔
میں بھی !
شفق نے مختصر سا کہا ۔۔
تمہاری چوٹ کیسی ہے ؟؟؟
وہ ٹھہر کو بولی ۔۔
دائم کا لبوں تک جاتا ہاتھ رکا ۔۔ اس نے رک کر اسے دیکھا۔۔۔۔اور لاپرواہ انداز میں کندھے اچکائے ۔۔اسے تو محسوس بھی نہیں ہوا تھا کہ اسے کوئی چوٹ لگی ہے ۔۔
مگر یہی بات کوئی شفق سے پوچھتا۔۔
ایزی کی باتوں کا برا مت ماننا یار ، وہ بچی ہے !
دائم نے سرسری سا کہا ۔۔
شفق کے دل میں ٹھیس سی اٹھی ۔۔ مگر وہ چھپا گئی ۔۔
سہی کہہ رہے ہو تم ، وہ تو بچی ہے !
زخمی سی مسکراہٹ اسکے لبوں پر ابھری وہ بلاارادہ برتن اٹھا کر سنگ میں جمع کرنے لگی
اچھا سنو یار؟؟؟ مجھے ضروری کام سے جانا ہے ، تم ایزی کو اپنے ساتھ لے جائو ، میں واپسی پر پک کرلوں گا!!
وہ کرسی دھکیلا کر اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔
آرام سے جائو ،کوئی مسلہ نہیں ہے !
وہ فراغ دلی سے بولی ۔۔
دائم کو اسکی یہی خاصیت بہت بھاتی تھی ۔۔۔
تمہیں پتا ہے شفق ،
وہ پرجوش سا ہوکر اسکی جانب جھکا ۔۔
شفق کا دل اچھل کر حلق میں آگی۔۔ اس نے بے ساختہ سلب تھامی ۔۔۔
دنیا میں سب سے زیادہ خوبصورت دل اگر کسی کے پاس ہے تو وہ تم ہو ! واقعی ۔۔ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ میرے پاس تم جیسی دوست ہے۔۔
وہ اپنی سبز رنگی آنکھیں اس پر جمائے محبت بھرے انداز میں کہتا شفق کی دھڑکنیں منتشر کرگیا ۔۔۔
اپنا اور ایزی کا خیال رکھنا !
اسی انداز سے کہتے ہوئے اس نے شرارتًا سے اسکی ناک دبائی ۔۔۔اور کوٹ اٹھا باہر نکل گیا ۔۔
شفق رکی ہوئی سانسیں بحال کرنے لگی ۔۔۔ دائم کا انداز اسکا دل دھڑکا جاتا تھا ۔۔ وہ ہمیشہ اس سے اپنی محبت کا کھلا اظہار کرتا تھا ۔۔ اسکے یہی انداز شفق کے دل میں محبت جگانے کا سبب بنے تھے ۔۔۔ مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ دائم کی یہ محبت ‘دوست’ کی حیثیت سے ہے ۔۔ اسکا اپنے دل پر قابو نہیں تھا ۔۔۔
وہ پچس کی ہوچکی تھی اس نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی ۔۔۔ دائم ،اماں اسے کہہ کہہ کر ہارے تھے مگر وہ ان دونوں سے اصل بات چھپائے ہوئے تھی ۔۔
وہ دائم کو ہائی اسکول کے زمانے سے چاہتی تھی ۔۔اسکی پہلی محبت تھا وہ شخص ۔۔اور پہلی محبت سے دستبردار ہونا تقریبا ناممکن تھا
______________________________________
کیا کر رہی ہے ہماری بیٹی آج کل ؟
مہمان عورت کے پوچھے جانے پر وہ خفت زدہ سی ہونے لگی ۔۔
سب بڑوں کے بیچ انکا “ہماری بیٹی ‘کہا جانا اسے نہ چاہتے ہوئے بھی شرم سی آنے لگی ۔۔
اور ان کے سپوت کی نظریں بھی گابگاہے اسے اپنے وجود سے چپکی نظر آتی وہ کوفت کا شکار ہونے لگی ۔۔
اگر بڑوں کا لحاظ نہ ہوتا تو وہ کب کی اٹھ کر جا چکی ہوتی ۔ ۔۔
لاسٹ سیمیسٹر چل رہا ہے ، فائنلز کی تیاری کر رہی ہوں ! وہ آہستگی سے بولی ۔۔۔
ماشاللہ ، چلو اچھا ہے پڑھائی تو پوری ہوئی ، باقی سب تو شادی کے بعد ہوتا رہے گا !
انکی اس گل افشانی پر نوال کا رنگ اڑ گیا ۔۔
شادی؟؟؟ اس نے بے ساختہ امی کو دیکھا ۔۔
جو مسکراتی ہوئی اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔
مطلب انکا ایسا ہی کوئی ارادہ تھا !
البتہ شاہین ماموں اپنے دوست بمع اسکے ہونے والے سسر سے محو کلام تھے ۔۔۔ اسکی آنکھیں جل تھل ہونے لگی ۔۔۔ تاشا کو بھی امید نہیں تھی کہ اتنی جلدی شادی تک کا پروگرام طے کر لیا جائے گا ۔۔۔
آ ۔۔ آہممم پھپھو ہم جائیں !
تاشا نے اسکی جگہ خود کو رکھ کر سوچا ۔۔۔اسکا دل بھی بھاگنے کو چاہتا شادی کے ذکر پر۔۔
ہا۔۔۔ہاں کیوں نہیں ، روشن اور رومیشہ سے کہنا چائے کا بندوبست کریں !
پھپھو نوال کی سرخ پڑتی رنگت کو دیکھ کر کچھ کچھ سمجھ چکی تھی۔ ۔۔۔
جبکے رامس کی نظریں تو نوال سے جیسے چپک ہی گئیں تھیں ۔۔۔
اس دھڑلے سے سر محفل گھورے جانا نوال کو غصہ آنے لگا ۔۔۔
تاشا نے اسکا بازو پکڑا اور اسے تقریبا ااپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے باہر لے آئی ۔۔۔
نوال کے چہرے پر نظر ڈالی تو وہ پھر سے آنسو بہانے کے لئے تیار تھی ۔۔
تاشا نے ایک طویل سانس لی ۔۔۔
تمہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر مشکل کا حل آنسو نہیں ہوتے پاگل لڑکی !
تاشا نے برہمی سے کہتے اسے اپنے ساتھ لگایا ۔۔
تم اس وقت انداز بھی نہیں لگا سکتی کہ میں کیسا محسوس کر رہی ہوں تاشا !
وہ انتہائی بے چارگی سے ہتھیلیاں مسلتی ہوئی بولی ۔۔
کیسا محسوس کر رہی ہیں ؟؟؟
مرادانہ آواز پر وہ دونوں کرنٹ کھا کر پلٹیں ۔۔۔
رامس جیبوں میں ہاتھ ڈالے نکھرا نکھرا سا انہی کی جانب متوجہ تھا ۔۔۔
تاشا نے بھی نوٹ کیا تھا وہ اچھا خاصا ہینڈسم لڑکا تھا ۔۔۔ اگر فاتح بیچ میں نہ آیا ہوتا تو یقینا نوال پہلی فرست میں اسکے لئے حامی بھر لیتی ۔۔۔
یہ یہاں بھی آگیا !
نوال نے بڑبڑاتے ہوئے ناگواری سے رخ موڑ لیا ۔۔۔
میں بات کر سکتا ہوں اِن سے ؟؟؟
مسکرا کر پوچھتا وہ تاشا کو مشکل میں ڈال چکا تھا ۔۔
وہ کبھی نوال کو تو کبھی اسے دیکھنے لگی ۔۔
آ ہاں ۔۔ کیوں نہیں !
بات ہی تو کرنا چاہتا ہے سب کے سامنے ۔۔۔ اس میں قباحت کیا ہے ۔۔تاشا نے سوچا اور منظر سے ہٹ گئی ۔۔
نوال کا دل کیا تاشا کا سر پھوڑ ڈالے ۔۔۔
آپ ہمیشہ سے ہی ایسی ہیں کیا ؟؟؟
وہ فاصلے چھوڑ کر اسکے برابر آکھڑا ہوا ۔۔
ایسی کیسی ؟
نوال نے تاشا کا غصہ اس پر نکالنا چاہا ۔۔۔
وہ روکھے پھیکے لہجے میں بولی ۔۔
تھوڑی سی پریشان، تھوڑی گھبرائی ،تھوڑی سہمی اور تھوڑی شرمائی سی !
جس کا جواب اس نے انتہائی سعادت مندانہ انداز میں دیا ۔۔۔وہ اسکے نگاہوں کے حصار میں لئے ہوئے تھا ۔۔۔
نوال کے لئے نگاہیں اٹھانا مشکل ہوگیا ۔۔۔
اسکا دل چاہا اسے ایک ٹکا سا جواب دے ۔۔تاکہ ساری عشق معشوقی نکل جائے ۔۔۔
جواب نہ پاکر کچھ توقف کے بعد وہ پھر سے بولا ۔۔۔
کوئی بات ہی کرلیں ، میری تو بولتی ہی بند کردی آپ نے چہرے سے نظر ہی ہٹا پارہا میں !
وہ کھوئے ہوئے انداز میں گویا ۔۔۔۔
نوال نے سختی سے لب بھینچے ۔۔
جبکے راہداری کی چوکھٹ پر قدم رکھتے فاتح نے اسکے الفاظ بخوبی سنے تھے ۔۔۔
اوہہہہ ،
اسکا ‘اوہ’ انتہائی تنزیہ اور تمسخرانہ تھا ۔۔
اسکی آواز پر وہ دونوں بیک وقت مڑے ۔۔۔
تمہیں ایک میچ کیا ہرایا تم تو میرے گھر پہنچ گئے یار،
اندر کی جلن تھی یا کیا اس کا لہجہ بری طرح سے رامس کو چونکا گیا ۔۔۔
رامس کا رنگ پھیکا پڑا ۔۔
مہمان نوازی کی اخلاقیات سے تو فاتح جیسے واقف ہی نہیں تھا ۔۔۔
آ۔۔آپ دونوں جانتے ہیں ایک دوسرے کو ؟؟
نوال نے بات بدلی ۔۔
ہاں ، یہ مجھے ایک فٹبال میچ کے دوران ملے تھے ، جو ہم بدقسمتی سے ہار گئے تھے! مجھے نہیں معلوم تھا یہ آپ کے کزن نکلیں گے۔۔۔
رامس کے لہجے میں بے چارگی تھی ۔۔۔
فاتح کے لبوں پر مسرور کن مسکراہٹ بکھری ۔۔۔
نوال کو اس لمحے وہ انتہائی مغرور معلوم ہوا ۔۔۔
تو تم اسکے خوابوں کے شہزادے سے میل کھاتے ہو ،
وہ فٹبال کو ہاتھ اور زمین کے درمیان حرکت دیتا بغور رامس کا جائزہ لیتا نوال سے مخاطب ہوا ۔۔ ۔
نوال کا رنگ اڑ گیا۔۔
اسے اندازہ نہیں تھا فاتح اس حد تک اس بات کو سیرئیس لے لے گا کہ اسے آتے جاتے طعنے سننے پڑیں گے ۔۔۔
کیا مطلب ؟؟؟
رامس الجھا۔۔
نوال نے کچھ بولنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ فاتح بول پڑا ۔۔۔
ارے ؟ تمہیں معلوم نہیں تم کتنے لکی ہو ، اسے تمہارے اندر اپنے خوابوں کا شہزادہ نظر آیا ہے ، ورنہ یہ تو انسان کو پرکھے بغیر ہی ریجکٹ کردیتی ہیں ہے نا ڈیئر کزن ؟؟؟ ہاتھ ملائو یار !
ایک کاٹدار مسکراہٹ نوال کی طرف اچھالتے ہوئے ہاتھ بڑھایا
ریئلی ؟؟
اصل بات سے بے خبر رامس نے حیران ہوتے ہوئے فاتح کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا ۔۔۔
اور نوال شرم سے پانی پانی ہونے لگی ۔۔ اسکا دل کیا فاتح کو منظر سے غائب کردے یا خود کہیں روپوش ہوجائے ۔۔۔
ضبط سے لب بھینچتے ہوئے اس نے کمرے کی جانب پیش قدمی کی ۔۔۔
فاتح کی نظروں میں ایک الگ سا سرور تھا ۔۔۔
وہ رامس کا ہاتھ چھوڑ کر سر کو ہلکا سا خم دیتا اپنے کمرے میں آگیا ۔۔۔ تاثرات یک لخت بدل گئے ۔۔ فٹبال کو زور زور سے دیوار پر مارتے ہوئے ۔۔۔ اسکے چہرے سے وحشت ٹپک رہی تھی ۔۔۔.
نوال سعید ۔۔۔۔!!! تمہیں بہت مہنگا پڑے گا میری تذلیل کرنا
اسکا دل کیا سب کچھ تہس نہس کردے ۔۔۔
__________________________________________
شفق نے کچن سمیٹ کر علیزے کی ضروری چیزیں بیگ میں ڈالیں اور دروازہ لاک کرنے کے بعد چابی مطلوبہ جگہ چھپا دی ۔۔وہ علیزے کا ہاتھ تھامے اپنی گاڑی کی جانب بڑھ رہی تھی کہ ایک اجنبی شخص کی نظروں سے خائف ہوکر اسکی طرف بڑھی ۔۔۔
کوئی مسلہ ہے ؟؟
وہ روکھے لہجے میں بولی ۔۔
سلام علیکم باجی ! یہ ایڈریس بتا سکتی ہیں ؟
ؓمجھے نہیں معلوم ، میں یہاں نہیں رہتی !
شفق نے دو ٹوک کہا ۔۔
اوہ ۔۔کوئی مسلہ نہیں ، ماشااللہ … بچی بڑی پیاری ہے
آپ کی ہے ؟؟؟
اس شخص کے عجیب انداز پر شفق نے گھبرا کر علیزے کو گاڑی طرف دھکیلا ۔۔
اور لمحہ ضایع کیئے بغیر اگنیشن میں چابی گھماتی تیزی سے گاڑی آگے بڑھا لے گئی ۔۔
وہ شخص فون پر نمبر ڈائل کرتا واپس پلٹ گیا ۔۔۔
ہاں سنو ؟؟ تم سہی کہہ رہے تھے وہ لڑکی شفق اس آدمی کے گھر آتی جاتی ہے ، پر اسکی بچی کی ماں نہیں ہے ، شاید انکے آپسی کوئی معمالات چل رہے ہیں جو دنیا سے پوشیدہ ہیں !
خباست سے کہتے مڑ کر جاتی گاڑی کو دیکھا ۔۔اور منظر سے اوجھل ہونے لگا ۔۔
اور کیا حکم ہے میرے لئے ؟؟؟
__________________________________________
آپ نے بلایا سر ؟
اس نے دروازہ ناک کرتے ہوئے اندر جھانکا ۔۔
ہاں ، آئو نایا !
جنرل نے چیئر گھمائی ۔۔اور اسکی جانب متوجہ ہوئے ۔۔۔
یہ کیس یہی کلوز ہوتا ہے ،متعلقہ ایجنسی کے جنرل نے مجھ سے رابطہ کیا ہے ، اب سے وہ اس معاملے کو دیکھیں گے ، اس لئے ہم قاسم کو ان کے سپرد کر رہے ہیں !
جنرل نے حتمی رپورٹ اسکی جانب بڑھائی ۔۔
آئی ایس آئی ؟؟؟
اس نے فائل تھام کر سرسری سا سوال کیا ۔۔
ہاں ، آئی ایس آئی کے لیفٹینینٹ-جنرل بخشی نے
اوکے سر ! میرے لئے کیا آرڈرز ہیں ؟؟؟
اس نے رپورٹ سے نظر گزارتے ہوئے پوچھا ۔۔۔
چونکہ تم اس کیس میں دلچسپی رکھتی ہو ، اسلئے میں تمہیں ایک فیور دے سکتا ہوں ، جنرل سے میری بات ہوگئی ہے اگر ضرورت پڑی تو وہ تمہاری خدمات بھی ضرورت لیں گے!
جنرل کے انکشاف پر اس کے لبوں پر تبسم بکھرا ۔۔
میرے لئے بعث فخر ہوگا سر!
وہ سعادت مندی سے بولی ۔۔۔
وہ آئی ایس آئی کے ساتھ کئی کیس مانیٹر کرچکی تھی۔۔ ہر بار تجربہ خاصا نیا اور مسرور کن تھا ۔۔ وطن کے لئے وہ ہر دم حاضر رہتی تھی ۔۔ پولیس ، رینجرز ، انٹلیجنس ! یا دوسری ایجنسیز ۔۔۔ چاہے اسے کہیں سے بھی طلب کیا جائے ۔۔ اسکا تجربہ خاصا وسیع ہوگیا تھا ۔۔ اب وہ ماہرین، اور بہترین میں جانی جاتی تھی ۔۔۔
تم آج قاسم کو ان کے سپرد کردینا! اسکے بعد تم آف لے لو چاہو تو،ویسے بھی تمہیں ریلیف نہیں مل سکی کافی عرصے سے!
جنرل کی اپنائیت پر وہ تشکر بھری نظروں سے سر جھکا گئی ۔۔ فائل اس نے گلشن کے حوالے کردی تھی ۔۔۔
آج سے تم ریلیف پر ہو لڑکی ، جائو میں تمہیں آزاد کرتی ہوں قانون کی گرفت سے !
وہ شرارتی انداز میں بولی تو گلشن ہلکا سا ہنس دی ۔۔۔
کیا خیال ہے کافی پینے چلیں ! اسی خوشی میں ،
گلشن نے موقع دیکھ کر فورا سے آفر کی ۔۔۔
وہ اسکے ساتھ وقت گزارنے اور سیکھنے کا کوئی موقع نہیں جانے دیتی تھی ۔۔ بہت محنتی اور لگن سے کام کرنے والی لڑکی تھی ۔۔ نایا منع نہیں کر پائی ۔۔
ٹھیک ہے ،مگر ہمیں نو بجے سے پہلے واپس لوٹنا ہوگا ، مجھے قاسم کو نئے لوگوں کے حوالے کرنا ہے !
وہ گھڑی دیکھتی ہوئی بولی ۔۔
اور میں ! چیف ؟؟؟ میں نہیں جارہی کیا؟
گلشن پریشان نظر آئی ۔۔۔
نہیں بس یہ چھوٹا سا کام ہے تمہیں زحمت دینا نہیں چاہتی !
وہ مناسب طریقے سے منع کر گئی ۔۔ گلشن ابھی ایک طرح سے ٹریننگ کے مراحل میں تھی ۔۔۔ اس خفیہ ملاقات پر اسے ساتھ لے جانا رسکی تھا ۔۔ یہ جذباتی فیصلہ نہیں تھا ۔۔۔قانونیت اور اصولاً واجب تھا ۔۔ جب وہ ٹریننگ کے مراحل میں تھی تو اسکے چیف انتہا کے اسٹرکٹ تھے ۔۔۔وہ جنرل کو رپورٹ کرتے وقت اسے آِئوٹ کردیا کرتے ۔۔حالانکہ وہ انہیں اسسٹ کر رہی تھی مگر ۔۔ یہی اصولا و ضوابط تھے ۔۔۔
پاس ہی کسی کیفے میں چلتے ہیں !
وہ فون کا فرنٹ کیمرا کھول کر بال سنوارنے لگی ۔۔۔
نایا اسے دیکھ کر افسردگی سے مسکرائی ۔۔
کیا ہوا ؟؟؟
گلشن کے ہاتھ تھمے تھے ۔۔۔
ہم جیسی لڑکیاں صرف بال بناتی رہ جاتی ہیں گلشن ۔۔
وہ جذباتیت سے کہہ کر فائلیں سمیٹنے لگی ۔۔
ایسا کیوں ؟؟؟
گلشن نے گاڑی کی چابی اٹھائی اور اسکی تاکید میں چلتی ۔۔۔ بڑے اور وسیع گرائونڈ فلور سے گزرتی ایگزٹ کی جانب بڑھتی نظر آئیں ۔۔
کیونکہ نازک مزاق، اور چھوئی موئی سی لڑکیاں لوگوں کی توجہ کھینچتی ہیں ، اور ہم جیسی لڑکیاں دور ہی سے اچھی لگتی ہیں ، لوگ سراہتے ہیں ، پسند کرتے ہیں ، عزت بھی کرتے ہیں ، مگر اپنے بیٹے ، بھائی کے شریک سفر کے طور کم ہی پسند کرتے ہیں !
وہ گلشن کو کچھ مایوس لگی ۔۔۔
گلشن حیران تھی اسکی باتیں سن کر ۔۔۔اسکی شخصیت کا یہ حصہ پہلی بار دیکھنے کو ملا تھا ۔۔۔
ہوسکتا ہے آپ کی بات سچ ہو ، مگر میں اتفاق نہیں کرتی ، آپ بھی تو خوبصورت ہیں ، اور ہر کسی کو معصوم اور نازک لڑکیاں بھی نہیں بھاتیں ۔۔۔ کسی کسی کو آپ جیسی خوبصورت ، مضبوط اور ڈیپینڈنٹ لڑکیاں بھی پسند ہوتیں ہیں !!!
گلشن اپنائیت سے کہتی بغور اسکا جائزہ لینے لگی ۔۔۔
ڈھیلی سی پیرٹ کلر کی شرٹ اور جینز میں ملبوس ، بالوں کو اونچی پونی میں مقید کیئے ..وہ میک اپ سے عاری پرکشش خدوخال اور چکمتی صاف رنگت میں وہ بہت نمایاں تھی ۔۔۔
جو کسی بھی مرد کی دلی خواہش بن سکتی تھی ۔۔
اسی اثنا میں وہ کیفے تک پہنچ گئیں ۔۔ ۔
چھوٹا سا کیفے تھا ۔۔۔ رات کے اس وقت یہاں خاصا رش تھا ۔۔۔انکا پہلی بار اتفاق ہوا تھا اس کیفے میں آنے کا ۔۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل کرسی کھینچ کر بیٹھ گئیں ۔۔۔
ویٹر کی تلاش میں اطراف میں نگاہ دوڑا رہی تھیں کہ انہیں کائونٹر سے لڑکی برآمد ہوتی دکھائی دی ۔۔۔
عام سے حلیے میں ایپرن پہنے دبلی پتلی ، من موہنی سی صورت والی لڑکی غالباً اس کیفے کی مالک تھی یا ویٹر ۔۔
وہ پوچھنے ہی والی تھی کہ انکے قریب آتے ہی اسکا فون بجا ۔۔
pardon?
(سوری)
شفق معذرت خواہ نظروں سے ان دونوں کو دیکھتی جینز کی جیب سے فون نکال کر کان سے لگانے لگی ۔۔۔
دائم؟؟؟ تم اس وقت ؟؟؟
اسکی آواز قدرے بلند تھی ۔۔
۔وہ دونوں بے ساختہ متوجہ ہوئیں ۔۔
ہفففف … شکر ہے ایک تو تمہاری کال اوپر سے اس وقت پتا ہے پریشان ہوگئی تھی میں !!
اور یہ شکریہ کا دورہ کہاں سے پڑ گیا ؟؟؟ کہیں کچھ غلط تو نہیں کھا لیا تم نے ؟؟؟
اس نے حیرت سے آنکھیں پھیلائیں ۔۔
کم آن ، شکریہ کیسا ! تم صرف میرے دوست نہیں ہو اس سے کہیں زیادہ ہو ، اب بند کرو فون میرے کسٹمر ویٹ کر رہے ہیں ، خواہمخواہ کال کرکے پریشان کردیا !
وہ ڈپٹ کر کہتی کال کاٹنے لگی ۔۔
اسکا انداز ایسا تھا کہ وہ دونوں مسکرائے ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں ۔۔
سوری میرا فرینڈ تھا! اینی ویز…
کیا لیں گی آپ ؟؟
وہ فون جیب میں گھساتی آرڈر لینے لگی ۔۔۔
میں جانتی ہوں اب آپ کیا سوچ رہی ہیں ،
جب وہ چلی گئی تو گلشن نے اس سے کہا ۔۔۔
کیا ؟؟ اس نے ابرو اٹھایا ۔۔
یہی نا کہ آپکا کوئی دوست کیوں نہیں !
گلشن کے درست اندازے پر وہ ہلکا سا ہنس دی
ہممممم ! مگر میری جاب اس چیز کی اجازت نہیں دیتی ، چاہے وہ وقت کی صورت میں ہو یا لوگوں سے گھلنا ملنا وغیرہ ! مگر کبھی کبھی سوچوں تو شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ایک تو دوست ہوتا ہی کاش ۔۔۔ لیکن یہ سوچ بھی عارضی ہوتی ہے !کیونکہ سوچنے کا وقت ہی کہاں !
وہ کہتی کہتی ہنس دی ۔۔۔
اِدھر ادھر کی باتوں میں کافی ختم ہوگئی ۔۔
تو نایا اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔
اب تم گھر جائو ،اور مجھے آفس جانا ہوگا!
وہ کرسی دھکیلتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔
لیکن آپ کیسے جائیں گی !
تم فکر مت کرو گلشن ، میں چلی جائونگی ، تم اپنا خیال رکھنا
وہ اسکا کندھا تھپتھپا کر آگے بڑھ گئی ۔۔۔مین روڈ سے اسے ٹیکسی مل گئی ۔۔۔جس نے اسے دوبارہ آفس پہنچا دیا ۔۔۔
ہم ساتھ چل لیتے ہیں ، یا صرف میں !
اگر آپ چاہیں تو!
علی نے کہنی سے قاسم کو گھسیٹتے ہوئے اسکے سامنے لا کھڑا کیا ۔۔۔جسکے ہاتھ ہتھکڑیوں میں مقید تھے اور سر سیاہ کپڑے سے ڈھک رکھا تھا ۔۔۔
نہیں اسکی ضرورت نہیں ہے علی ، تمہارا شکریہ ۔۔۔
وہ اخلاقی طور پر علی کی آفر پر اسکا شکریہ ادا کرتی قاسم کا بازو دبوچ کر اسے اپنے ساتھ گھسیٹنے لگی ۔۔۔
اسے گاڑی کی بیک سیٹ پر دھکیلا اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی ۔۔۔
کہاں لے کر جارہی ہو مجھے؟؟؟
قاسم کی پریشان کن آواز نایا کے کانوں سے ٹکرائی ۔۔۔ جہنم کی سیر کو… تم انجوائے کرو
وہ سرد لہجے میں بولی ۔۔۔کچھ دیر گزرنے کے بعد
مطلوبہ جگہ پہنچ کر اس نے گاڑی روک دی ۔۔۔ پندرہ منٹ گزر چکے تھے ۔۔۔
گاڑی میں انتظار کرنے کے بعد اب وہ باہر نکل آئی ۔۔۔
یہ کپڑا تو ہٹائو میرا دم گھٹ رہا ہے !
وہ اطراف کا جائزہ کے رہی تھی جب قاسم کی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی ۔۔۔
وہ سنی ان سنی کر گئی ۔۔۔
غیر معمولی آہٹ پر وہ چونک کر محتاط ہوئی
خاموش رہنا !
قاسم کو سختی سے تاکید کرتے ہوئے اس نے گاڑی کی ونڈو سے ہاتھ بڑھا کر ریوالور کی میگزین اٹھانا چاہی تھی کہ لہلاتے کھیتوں میں سے ہیولہ سا برآمد ہوا ۔۔۔ وہ اندھیرے میں ڈھنگ سے نوٹ نہیں کر پائی ۔۔
اسکا چہرہ نقاب زدہ تھا ۔۔ صرف آنکھیں نمایاں تھیں ۔۔۔
فورا سے ریوالور کا رخ اسکی جانب موڑا ۔۔۔
وہیں رک جائو !
کجا کہ میگزین خالی تھی ۔۔۔مگر اسکا اطمینان قابل دید تھا۔۔
یہ لڑکی تو میرے پیچھے ہی پڑ گئی ہے !!!
دائم رکا اس نے پیش قدمی کرنی چاہی مگر سامنے بھی نایا تھی ۔۔۔
رک جائو …ورنہ گولی ماردونگی!
اسکی غصیلی آواز اور تحکمانہ لہجہ دائم کو طائو آیا ۔۔۔ مگر ڈھٹائی سے کھڑا رہا
Get down on your knees !
I said dowwwnnnn!!
وہ ریوالور کے اشارے سے بولی ۔۔۔انداز ویسا ہی تھا ۔۔۔
دائم جنرل بخشی کا انتظار کررہا تھا۔۔
ورنہ اسے تو کب کا اٹھا کر پٹخ چکا ہوتا ۔۔۔
اس نے چار و نہ چار نہ صرف ہاتھ اٹھائے بلکے گھٹنوں پر بیٹھ گیا ۔۔۔
کتنے شرم کی بات ہے ، بڑے بڑے مجرموں اور ٹارچر کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکنے والا ، آج چھٹانک بھر کی آفیسر کے سامنے جھک گیا تھا ۔۔۔
یہ اسکے زخمی وقار کی دہائیاں تھی ۔۔
مجھے باہر نکالو، کیا چل رہا ہے وہاں ؟ ؟؟
قاسم کی آواز پر وہ دونوں پل بھر کے لئے اسکی طرف متوجہ ہوئی ۔۔
بکواس بند کرو اپنی !
نایا نے کھاجانے والی نظر قاسم پر ڈالی اور لمحہ ضایع کیئے بغیر میگزین اٹھا کر ریوالور میں فکس کی ۔۔۔
دائم ہکا بکا رہ گیا ۔۔۔ یعنی حد ہوگئی ؟؟؟
وہ اس قدر اطمینان سے اس کو خالی بندوق سے ڈرا رہی تھی ۔۔۔
دائم کا اپنے کئی سالوں کے شاندار کرئیر پر لعنت بھیجنے کا دل کیا ۔۔۔ وہ اس لڑکی کی چال نہیں سمجھ پایا ۔۔۔
تبھی کہتے ہیں کسی کو انڈرسٹیمیٹ نہیں کرنا چاہیے ۔۔
کون جانے سامنے والا تم سے کتنا قابل ہو ۔۔۔
وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی دائم کی جانب بڑھ رہی تھی کہ اسکی تلاشی لی جائے ۔۔ ایک بار پھر سے سرسراہٹ ہوئی ۔۔اور ہیولہ نمودار ہوا ۔۔۔
نایا نے فورا سے ریوالور کا رخ اسکی جانب موڑا مگر اس بار وہ کوئی حکم نہیں صادر کر سکی ۔۔۔
گرے بالوں کو نفاست سے سیٹ کیئے ۔۔
عام سے حلیے میں ہمیشہ کی ہشاش بشاش
وہ جنرل بخشی تھے ۔۔۔
نایا ان سے آخری بار تین سال پہلے ملی تھی ۔۔۔
جب انہوں نے مشترکہ طور پر مشن میں کام کیا تھا ۔۔۔
آپ نے تو ہمارے ہی ایجنٹ کو یرغمال بنا لیا آفیسر !
جنرل بخشی ہلکا سا تنز کر گئے ۔۔۔
س۔۔۔سوری ۔۔جنرل !
وہ حیرانی سے مڑی ۔۔۔ تو وہ اسکی گاڑی سے قاسم کو لئے وہاں آرکا ۔۔۔
ایک مانوس سی خوشبو نایا کے نتھونوں سے ٹکرائی ۔۔
اسکے دماغ میں جھماکا سا ہوا ۔۔۔
سبز آنکھوں والا شخص ؟؟؟
وہ چاہنے کے باوجود اسکے خیال کو اس وقت جھٹک نہیں پائی ۔۔۔
خوش رہو ! کامیابیاں پائو !
جنرل کی آواز پر وہ بمشکل مسکرائی ۔۔۔
شاک اتنا شدید تھا کہ وہ منہ سے ایک لفظ نہیں نکال پائی ۔۔ وہ دونوں کب کے کھیت کھلیانوں میں غائب ہوچکے تھے ۔ ۔۔۔
نایا نے لامحدود سوچوں کو زہن سے جھٹکا اور گاڑی کی جانب بڑھی ۔۔۔
اس نے اس شخص کو زیادہ ہی حواسوں پر سوار کرلیا تھا ۔۔۔
محمد عارف کشمیری۔۔۔ ایک تعارف
خطہ کشمیر میں بہت سے ایسی قابل قدر شخصیات ہیں جنھوں نے کم وقت میں اپنی محنت اور خداداد صلاحیت...