(Last Updated On: )
رات کے کھیت سے پھوٹتی رت کی خوشبو اڑی
جسم میں آہٹیں سی ہوئیں
نوجواں فصل کو کاٹنے کے لیے
دست آئندہ آگے بڑھا
خون میں ڈوب کر گولیاں گنگنانے لگیں
روشنی سے سلگتے ہوئے چوک میں جرأتیں
سر لٹانے لگیں
زید آہم بھی شامل ہوں بیساکھ کے جشن میں
اور اس جہل کی اوٹ میں چھپ کے بیٹھے ہوئے
کیسے بچ پائیں گے
سچ کی دوپہر
یلغار کرتی ہوئی ڈھونڈ لے گی ہمیں
ہم کہ آنکھوں کو اپنے ہی سائے سے ڈھانپے ہوئے
اور اپنے ہی پیچھے کھڑے
خود کو خود سے چھپانے کی کوشش میں مصروف ہیں
٭٭٭