Dear GOD
If I’m wrong correct me ,
If I’m lost , guide me
If i start to give up , keep me going
Thanku GOD
مارننگ پریئر کرلی تم نے !
یس پاپا ۔۔۔
وہ بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی ساتھ ہی بانہیں اسکی جانب پھیلائیں ۔۔۔
اسے اٹھائے واش بیسن کے سامنے لاکھڑا کیا ۔۔ اور برش پر ٹوتھ پیسٹ لگا کر اسے تھمائی ۔۔۔ جو ایزی نے کنی کتراتے ہوئے منہ کے دائیں بائیں گھما کر اسکی جانب بڑھایا ۔۔۔
میں تمہیں ہی دیکھ رہا ہوں ایزی ! ٹھیک سے کرو
دائم نے سختی سے اسے ٹوکا ۔۔۔
اب تو میں نے ٹوتھ پیسٹ کھالی پاپا !
وہ معصومیت بھرے انداز میں اعتراف کرتی اسکے سامنے سے ہٹنے لگی ۔۔۔
اے لڑکی ۔۔۔ رکو ،، ہیئر برش کون کرے گا؟
دائم نے فورا سے اسے دبوچ کر دوبارہ اپنے سامنے کھڑا کیا ۔۔
اور ہیئر برش اٹھا کر اسکے بالوں میں گھمانے لگا ۔۔۔
پاپا؟؟؟ وہ چہکی
ہوں !؟؟؟ اس نے صرف ہوں پر اکتفا کیا ۔۔۔۔
آپ کو نہیں لگتا مجھے اب ‘ممی ‘ کی ضرورت ہے !
اس کے سوال پر دائم کے حرکت کرتے ہاتھ تھمے ۔۔۔
صبح صبح تمہیں یہ خیال کیوں آیا ؟ اور ہماری اس بارے میں بات ہوچکی ہے نا ایزی ؟
وہ اسکے بالوں کو ربڑ بینڈ میں مقیم کرنے لگا
وہ تو دو مہینے ۔۔آٹھ دن پہلے بات ہوئی تھی نا ؟
آپ نے کہا تھا ‘سوچوں گا ‘؟ پھر آپ نے کیا سوچا پاپا؟
وہ حیران ہی تو رہ گیا تھا ۔۔۔ حساب کتاب میں اسکی بیٹی بلکل اسکا پرتو تھی ۔۔۔وہ کبھی ایسی باتیں کر جاتی تھی کہ وہ دم بخود رہ جاتا ۔۔۔ حالانکہ اسکی عمر ہی کیا تھی ۔۔۔ ابھی تو وہ ساتوے سال میں لگی تھی ۔۔۔
کیا سوچا ؟ بتائیں نا؟
وہ جاننے کے لئے بے تاب تھی ۔۔.
ایزی !! اب تم بابا کو sad کر رہی ہو چلو شاباش بیٹا چینج کرکے آئو میں ناشتے پر تمہارا انتظار کر رہا ہوں !
وہ اسے رسان سے سمجھاتا کمرے سے نکل گیا ۔۔۔
کیا کھائو گی بتائو؟؟؟
آملیٹ !!! وہ خفگی سے بولی ۔۔
اسکے انداز پر دائم کے لبوں پر تبسم بکھرا ۔۔۔
دیکھو میری جان ۔۔۔تم اچھے سے جانتی ہو پاپا کی جاب
ہے نا؟؟ ایسے میں صرف تم ہی مجھے سمجھ سکتی ہو ،ہم کسی اور کو اس گھر میں ہینڈل نہیں کر سکتے۔۔
وہ رسان سے اسے سمجھانے لگا ۔۔
لیکن آپ کی سوپر ہیرو والی جاب کے بارے میں ہمیں سب کو بتانا چاہیئے ! تبھی تو بات بنے گی
وہ بحث پر اتر آئی ۔۔
ہاں مگر یہ خفیہ جاب ہے ، ہم سب کو اسکے بارے میں بتا نہیں سکتے بیٹا !
وہ اسکا گال کھینچتا ہوا واپس مڑا اور فریزر سے انڈے نکالنے لگا ۔۔۔
لیکن شفق ۔۔۔
شفق صرف میری دوست ہے ایزی ۔۔۔ اس کے بارے میں اپنا دماغ مزید مت چلائو !
وہ تپ کر بولا تو علیزے خاموش ہوگئی ۔۔
وہ اکثر اسے بہلا پھسلا کر خاموش کروا دیا کرتا تھا ۔۔۔ مگر وہ بھی اسی کا خون تھی ۔۔ بھرپور بحث کرنے کے بعد ان کی گفتگو کا اختتام یونہی ہوا کرتا تھا ۔۔۔ دائم اپنی جاب کی کچھ وجوہات کے بعث دوبارہ شادی نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔ جبکے اسے معلوم تھا کہ اسکی پہلی شادی بھی وقت کی قلت اور کئی ہفتوں اسکی گھر پر عدم موجودگی کی وجہ سے ٹوٹی تھی ۔۔۔۔ وہ مشن پر تھا جب مشن سے لوٹا تو اس نے سوچ رکھا تھا کہ بیوی کو سب بتا دے گا ۔۔۔ مگر ۔۔ !! اسکی بری قسمت اسکی بیوی نے خود سے اخذ کرلیا تھا کہ اسکا ایکٹرا میریٹل افیئر چل رہا ہے جسکی وجہ وہ ہفتوں باہر رہتا ہے۔۔۔ اور دائم کچھ بول ہی نہ سکا ۔۔ ۔
علیزے چند ماہ کی تھی جب وہ اس سے طلاق لے کر چلی گئی ۔۔۔ اور پھر دو سال بعد دوبارہ لوٹی تو علیزے کو بھی اسکی جھولی میں ڈال گئی کیونکہ وہ دوسری شادی کرنا چاہتی تھی ۔۔ یہ اسکی زندگی کا کٹھن ترین مرحلہ تھا ۔۔۔ وہ دو سال کی بچی اور اپنی جاب دونوں ایک ساتھ مینیج نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔ جاب بھی وہ جس میں اسے وطن کی خاطر ہر دم جان جوکھوں میں ڈالنی پڑتی تھی ۔۔. ان حالات میں شفق نے اسکا بہت ساتھ دیا وہ ہائی اسکول کے زمانے سے اسکی دوست تھی ۔۔۔
پاپا ؟؟؟ میں لیٹ ہو رہی ہوں ؟
وہ کرسی پر پیر جھلاتی ہوئی بولی ۔۔۔
اس نے سوچوں کو جھٹکتے ہوئے جلدی سے فرائی پین ٹیبل پر رکھا ۔۔۔ اور ایپرن اتار نوال بنا بنا کر اسکے منہ میں ڈالنے لگا ۔۔۔
اس ہاتھ پر کیا ہوا پاپا ؟
وہ تعجب سے بولی ۔۔۔
کچھ نہیں بس ہلکی سی چوٹ ہے ۔۔
وہ بے نیازی سے بولا
آج اسکول کے بعد آپ مجھے مال لے جائیں گے نا ؟
مال کیوں؟
آپ بھول کیسے گئے ! علی کا برتھ ڈے ہے !
اچھاااااا ؟ علی کون ؟
اسکی سبز آنکھوں میں شوخی اتری ۔۔۔
میرا کلاس فیلو ۔۔۔ ہماری کل ہی فرینڈ شپ ہوئی ہے
وہ مسکرا کر بتانے لگی ۔۔
تم نے تو کہا تھا لڑکیاں صرف ہینڈسم لڑکوں کو اپنا دوست بناتی ہیں ؟؟؟
وہ شرارتاً بولا
وہ بھی ہینڈسم ہے !
کیا مجھ سے زیادہ ہینڈسم ہے ؟
وہ جھک کر قدرے خفگی سے پوچھنے لگا ۔۔
اُتنا نہیں !
وہ ناک چڑھا کر بولی ۔۔
ہاہاہاہا۔۔
دائم بے ساختہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا ۔۔۔
ٹھیک ہے ۔۔ تمہارے آنے کے بعد ہم علی کے لئے گفٹ لینے جائیں گے !
وہ اسے چیئر سے اتار کر بیگ اسکے کندھوں پر ڈالنے لگا ۔۔۔
بائے پاپا ۔۔۔ آپ یہیں رہنا میرے آنے تک کہیں جانا مت اوکے ؟؟
وہ اسے تاکید دروازے کی جانب بھاگی ۔۔
جیسے آپ کہیں مادام !
دائم نے مسکرا کر سر جھکایا ۔۔
اور فون اٹھا کر نمبر ڈائل کرنے لگا ۔۔۔ اسی لمحے داخلی دروازے پر دستک ہوئی ۔۔اسے لگا شفق ہوگی سو وہ موبائل پر مصروف سا دروازہ کھول کر ایک طرف ہوگیا ۔۔
کسی احساس کے تحت اس نے سر اٹھایا تو حیران رہ گیا ۔۔
جنرل آپ؟؟؟
گرے بالوں والا پچاس سالہ شخص آنکھوں پر چشمہ سجائے ہشاش بشاش سا اسکے گھر کا جائزہ لے رہا تھا ۔۔۔
وہ عام حلیے میں اس سے ملنے آئے تھے
میں آپ ہی کو فون کرنے والا تھا ۔۔
وہ فورا فون جیب ڈال کے انکی جانب متوجہ ہوا ۔۔
ہممم ۔۔۔ کیا کر رہے تھے تم ؟؟؟
وہ بے ترتیب کچن کو تاسف سے دیکھتے ہوئے بولے ۔۔
ناشتہ بنانے کی کوشش !
وہ خجل سا ہوکر بولا ۔۔
کچھ لیں گے آپ ؟؟
ہاں مگر یہاں نہیں ! اچھی سی چائے بنائو اور لائونج میں آجائو ، اور ہاں ! شوگر کم ڈالنا !
جنرل بخشی نے بے ترتیب کچن کو دیکھتے ہوئے کہا تو وہ شرمندہ سا ہوا ۔۔
اس نے چائے بنائی اور لائونج میں آگیا ۔۔۔
میں تو پریشان ہوگیا تھا تمہارے لئے…. جب انوسٹیگیشن ڈپارٹمنٹ کے سربراہ نے رپورٹ کی کہ بارڈر پر دہشتگردوں کے گروہ کے کچھ لوگ مارے گئے اور ایک شخص گرفتار کرلیا گیا !
جنرل کہتے ہوئے اسکے ہاتھ سے کپ پکڑنے لگے
کس نے دیا یہ عظیم کارنامہ سر انجام ؟
دائم حیران ہوا
اُسی نے …جس سے کل تمہاری ملاقات خاصی ناگوار رہی ! جنرل نے اسکے زخمی بازو کی جانب اشارہ کیا ۔۔۔
کون ؟ وہ لڑکی ؟
اسکی حیرت کی انتہا نہ رہی ۔۔
بلکل وہی لڑکی ۔۔ نایا نوید حسین ….ہماری متعلقہ ایجنسی کی کامیاب ترین آفیسر میں شمار کی جاتی ہے ! اب جبکے وہ غیر متوقع طور پر اس کیس سے جُڑ چکی ہے تو تمہیں اسلئے بتا رہا ہوں کیونکہ تمہیں اس سے دو قدم آگے چلنا ہے ! وہ بہت تیز ہے !
جنرل نے اسے خبردار کیا ۔
اور وہ دہشتگرد؟
وہ تعجب سے پوچھنے لگا ۔۔
ان میں سے قاسم نامی شخص ہسپتال میں زیر علاج ہے ، اسکی تفتیش ابھی شروع نہیں کی گئی !
یہ وہی قاسم تو نہیں جو ہمیں آپریشن کے دوران ملا تھا !
دائم نے خدشہ ظاہر کیا
یہ پتا لگا کر تم رپورٹ کرنا، میں یہ معاملہ تم پر چھوڑتا ہوں !
جیسے آپ کہیں ! اس نے اثبات میں سر ہلایا
اور اس آفیسر سے ہوشیار رہو ، وہ تمہیں بھی انکا ساتھی سمجھ کر تمہارے تعقب میں ہے ، کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اسے مطمئن کرنا ضروری ہے
جنرل نے خبردار کیا ۔۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا
اگر وہ کیس انٹروگیٹ کرتی ہے تو اس میں برا کیا ؟
وہ ناسمجھی بولا ۔۔۔
ہمارا کام ان کے کام کو روکنا یا مداخلت کرنا نہیں ، اپنے کام کو خفیہ رکھنا ہے دائم!
بلکل ! اس نے جنرل کی بات پر اکتفا کیا
ضرورت پڑی تو ہم اُنکی خدمات بھی ضروت لیں گے !
جیسے آپ کہیں جنرل !
شزانہ کی کوئی خبر ؟؟
اسکے سوال پر جنرل کا چہرہ تاریک ہوا۔۔
ہمیں اب تک اس کے بارے میں کوئی خبر موصول نہیں ہوئی ۔۔۔
شزانہ کو ڈھونڈنا بہت ضروری ہے ، ہم نے مدد کا وعدہ کیا تھا لیکن ۔۔۔۔ اس نے بات ادھوری چھوڑ دی
تم فکر مت کرو ۔۔وہ جلد مل جائے گی
وہ پرامید تھے
انشااللہ ۔۔
جنرل کی بات پر وہ سوچوں کو جھٹکتا بولا !
خیر میں چلتا ہوں ، تم ابھی لوٹے ہو مشن سے ، تھوڑا آرام کرو مگر ۔۔۔ جنرل رکے ۔۔
دائم ہلکا سا مسکرایا ۔۔
ان کے ‘ مگر ‘میں بہت کچھ نہ کچھ پوشیدہ رہتا تھا ۔۔
قاسم تمہارے حوالے !
وہ اسکا کندھا تھپتھپا کر باہر نکل گئے
دائم تکان بھرے انداز میں صوفے پر گر سا گیا ۔۔۔ اسے رہ رہ کر شزانہ کا خیال آنے لگا ۔۔۔
وہ بے چین سا ہوکر سیدھا ہو بیٹھا ۔۔۔
اسکا زہن ماضی میں سفر کرنے لگا جب وہ مشن پر تھا ۔۔۔
____________________________________
ھیرات | افغانستان |
طالب*ن چار سو سے زائد سے حلقوں پر قابظ ہو چکے ہیں ، ہمیں فوری طور پر کوئی قدم اٹھانا ہوگا بابا !
پچھلا معائدہ پارٹی کے احمقانہ رویہ کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا، پارٹی اب ٹکروں میں بکھر چکی ہے ۔۔۔ اسلئے ہمیں اپنے بارے میں سوچنا ہے …
لیث کی پریشان کن آواز پر شزانہ کے راہداری میں بڑھتے قدم رکے۔۔ اسکے کان کھڑے ہوگئے
اگر پارٹی کو علم ہوگیا کہ ہم ان کی ناک کے نیچے کیا کر رہے ہیں تو وہ لوگ اپنا دامن بچانے کی خاطر طالب*ن کو سب کچھ بتا دیں گے
زہیر اعظمیٰ ہراساں ہوکر بولے
سہی کہہ رہے ہیں آپ بابا !
لیث ان کی بات پر متفق نظر آیا ۔۔
ک کیا کر رہے ہیں ہم ان کی سانس کے نیچے ؟؟؟ وہ دھیرے سے دروازہ سرکا کر اندر آگئی ۔۔
لیث نے بے اختیار باپ کو دیکھا ۔۔۔
شزانہ کی اڑی رنگت بتا رہی تھی وہ انکی گفتگو سن چکی ہے ۔۔
بتاتے کیوں نہیں آپ لوگ ؟؟؟ ک …کیا ہو رہا ہے بھائی ؟؟؟ اسکی بادامی رنگت سرخ پڑنے لگی ۔۔
وہ ہموار سانسیں لینے لگی ۔۔
ش۔۔شزززانہ !!! سکون کرو .. تمہارے مطلب کی بات نہیں ہے تم کیوں پریشان ہو رہی ہو…
وہ پریشانی سے اسکی جانب بڑھا …کرسی کھینچ کر اسے بٹھایا ۔۔ اور کھڑکی کے پٹ وا کر دیئے ۔۔
تاکہ وہ کھلی فضا میں سانس لے سکے ۔۔۔ چونکہ وہ دمہ کی مریضہ تھی ۔۔
بتائیں نا بابا؟؟؟ وہ بے چینی سے پوچھنے لگی. ۔
ہونا کیا ہے بیٹا ، ملک جنگی خانہ بن چکا ہے… لوگ پل بھر سکون کا سانس لینے کو ترس گئے ہیں !
زہیر عظمیٰ نے ضبط سے لب بھینچے ۔۔۔
شزانہ کو ان کے لہجے کی اداسی سے گھبراہٹ ہونے لگی تھی ۔۔ وہ گہری گہری سانسین لینے لگی ۔۔
تم کیوں ٹینش لے رہی ہوں ، تمہارا انتظام کردیا ہے میں نے تم خالہ کے پاس جارہی ہو !
لیث سے اسکی یہ حالت دیکھی نہ گئی۔۔۔
ن…نہیں بھائی۔۔ میں نہیں جائونگی ، میں آپ دونوں کو چھوڑ نہیں کہیں جائوگی !
اس نے بے ساختہ لیث کے ہاتھ تھام لئیے ۔۔
سمجھنے کی کوشش کرو شزانہ ، حالات بہت بگڑ چکے ہیں تمہارا یہاں رہنا ٹھیک نہیں ہے !
وہ بے بس سا ہوکر بولا
شزانہ کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں ۔۔
حالات بہتر ہوتے ہی ہم تمہیں واپس بلا لیں گے ! ہے نا بابا ؟؟؟
لیث نے تصدیق چاہی ۔۔
مگر زہیر عظمیٰ نہ جانے کن سوچوں میں غلطاں تھے ۔۔۔ شزانہ دکھ بھری نگاہوں سے انکی پشت کو گھورنے لگی ۔۔۔ وہ اسے ازحد پریشان دکھائی دے رہے تھے ۔۔۔
بابا ؟؟؟؟
لیث نے پھر سے پکارا
ہوں ؟؟؟ ہاں کیا کہہ رہے تھے تم ؟؟؟
لیث کی پکار پر وہ چونک کر مڑے ۔۔۔
میں کہہ رہا تھا شزانہ کو کچھ مہینے کے لئے خالہ کے پاس بھجوا دیتے ہیں ؟
اس نے اپنی بات دہرائی ۔۔
سہی فیصلہ کیا تم نے ،
وہ پھیکی سی مسکان اسکی جانب اچھالتے تسبیح اٹھا کر باہر نکل گئے ۔۔
شزانہ کو بہت عجیب لگا جبکے لیث کی پریشانی بھی ان سے مختلف نہ تھی ۔۔
کچھ دن تمہیں ادارہ جانے کی ضرورت نہیں ، میں تمہارے لئے ایک عدد باڈی گارڈ کا انتظام کرتا ہوں تم اسکے ساتھ آ جا سکو گی !!! اسکے بعد ہم موقع دیکھ کر تمہیں خالہ کے پاس پاکستان بھجوا دیں گے !
وہ اسے نرمی سے سمجھانے لگا ۔۔۔
باڈی گارڈ کیوں ؟؟؟
شزانہ کے اب سعی معنوں میں اوسان خطا ہونے لگے۔۔
انکی تعلیمی اداروں پر خاص طور نگرانی ہے ۔۔۔ کیونکہ انہیں پسند نہیں کہ لوگ تعلیم یافتہ اور خود مختار ہوکر اپنے حق کے لئے آواز اٹھائیں ، وہ اپنے اصول لوگوں پر مسلط کرکے اس ملک کو زندان بنانا چاہتے ہیں جہاں لوگ اپنی خواہش کے مطابق سانس بھی نہ لے سکیں
وہ تلخی سے گویا ہوا ۔۔۔
تو کیا میں اب کبھی تعلیم نہیں دے پائو گی???
اسکی آنکھیں اشک بار ہوئیں ۔۔
مایوس کیوں ہورہی ہو ، امید کا دامن مت چھوڑو تمام پارٹیاں امن کے معائدوں پر سرگرم ہیں ! اشااللہ جلد امن قائم ہوگا۔۔۔
تو کیا ۔۔۔ وہ مان جائیں گے ؟؟؟
اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ۔۔۔
لیث نے بے ساختہ بہن کی بھولی صورت کو دیکھا ۔۔۔
سچ پوچھو تو۔۔۔ امن تو اب ایک خواب سا لگنے لگا ہے ،
اس نے سرد آہ بھری
شزانہ نے سختی سے لب بھینچے ۔۔اسے حالات کی سنگینی کا شدت احساس ہونے لگا ۔۔ مگر کس حد تک سنگین تھے اسکا اندازہ انہیں ابھی ہونے والا تھا ۔۔!!!
____________________________________
اگلے دن اداس سی اپنے کمرے کی کھڑکی سے درختوں کی ڈالی پر چہچاتے چڑیوں کو دیکھ رہی تھی ۔۔ کبھی کبھی وہ سوچتی کاش اسکے پاس بھی پرندوں جتنی آزادی ہوتی ۔۔۔ اسکا جب دل چاہتا وہ ایک شاخ سے دوسری شاخ پر آشیانہ بنا لیتی ۔۔۔
آپ کو کہیں باہر جانا ہے بی بی ؟؟؟
مرادنہ آواز پر اسکی سوچوں کا ارتکاز ٹوٹا ۔۔ وہ چونک کر مڑی تو ۔۔۔ لمبی قدوقامت اور کسرتی جسم والا نوجوان شخص منتظر نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔سبز آنکھوں میں ہلکا سا تبسم جھلملا رہا تھا ۔۔۔
خوبصورت نقوشوں پر …
سیاہ داڑھی وہ بے حد خوبصورت تھا ۔۔۔
آپ کو کہیں باہر جانا ہے بی بی ؟؟؟
دائم نے اپنا سوال پھر سے دہرایا ۔۔۔
شزانہ نے بے تاثر چہرہ لئے ہلکا سر نفی میں ہلایا اور دوبارہ رخ موڑ لیا ۔۔۔
اگر آپ کو کہیں جانا ہو تو ، مجھے اس فون سے ایک کال کر دینا میں حاضر ہوجائوں گا !
وہ فون ٹیبل پر رکھ کر باہر نکل گیا ۔۔۔
شزانہ رخ موڑ کر دیکھا جہاں سے وہ گیا تھا اور بوریت دور کرنے کی خاطر کتاب کھول لی ۔۔۔
____________________________________
اگلی صبح لیث نے اسے اسکا پاسپورٹ لا دیا تھا۔۔
اور پیکنگ کرنے کا کہا ۔۔ وہ آج رات کو پاکستان جا رہی تھی ۔۔۔ پیکنگ کرنے کے بعد اس نے الوداعی ملاقات کے طور پر اپنی دوست جومانا سے ملنے کا سوچا۔۔ اس شخص کا فون ٹیبل پر جوں کا توں پڑا تھا ۔۔ اس نے پیغامی میسیج چھوڑا اور فریش ہونے کے بعد ڈھیلا ڈھالا سا ٹاپ پہنا اور اسکارف سر کے گرد لپیٹ لیا ۔۔
آپ تیار ہیں ؟؟؟
دائم نے دروازے پر دستک دیتے ہوئے پوچھا
اس نے سر ہلایا اور ہینڈ بیگ لے کر باہر نکل آئی ۔۔۔
انہوں نے روایتی بازار میں ایک چھوٹے سے کیفے کا رخ کیا ۔۔۔ جومانا ابھی تک نہیں آئی تھی ۔۔ اس نے کافی آرڈر کی اور دائیں بائیں بازاروں کا جائزہ لینے لگی۔۔۔
عام دنوں کے مقابلے میں آج یہاں رش نہ ہونے کے برابر تھا ۔۔۔ لوگوں میں خوف و ہراس اس قدر سرائیت کر چکا تھا کہ گھروں سے نکلنا ہی چھوڑ دیا تھا ۔۔۔ کسی احساس کے تحت اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہ قدرے اکتاہٹ لیئے آس پاس کا جائزہ کے رہا تھا ۔۔۔
بیٹھ جائو!
نہیں میں ایسے ہی ٹھیک ہوں !
دائم نے سرسری سا کہہ کر رخ موڑ لیا ۔۔
بیٹھ جائو !
اس بار اسکے انداز میں ہلکا سا تحکم تھا ۔۔
وہ خاموشی سے اسکے مقابل کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا ۔۔
کہاں سے آئے ہو تم ؟؟؟
وہ اداسی سے کپ کے گرد انگلیاں پھیرتی اس سے مخاطب ہوئی ۔۔۔
آہمممم ۔۔۔ کابُل کے نواحی علاقے سے !
وہ گلا کھنگار کر بولا ۔۔
نام کیا ہے تمہارا ؟؟؟
وہ کچھ توقف بعد پوچھنے لگی ۔۔۔
رامی ۔۔
وہ بہت سا سوچنے کے بعد بولا ۔۔ وہ ٹھہرے پانیوں کی طرح شفاف لڑکی تھی۔۔ اس کی زندگی جھوٹ کے سہارے زیادہ چلتی تھی لیکن دائم کا دل چاہا اسے سچ بتا دے مگر کچھ قوانین اس پر بھی لاگو ہوتے تھے ۔۔
کیا مطلب ہے اسکا ؟؟؟
وہ کھوئے ہوئے انداز میں پوچھنے لگی
خواہش ۔۔۔
وہ نرمی گویا ہوا۔۔
اسکے جواب پر شزانہ کے لبوں پر زخمی سے مسکراہٹ ابھری ۔۔ اس نے چپی سادھ لی
ان دونوں کے بیچ گہری خاموشی چھا گئی ۔ ۔۔ ایک گھنٹے سے زاہد ہوچکا تھا مگر جومانا نہیں آئی تھی ۔۔ اسکے آگے رکھی کافی ٹھنڈی ہوچکی تھی ۔۔ وہ کسی بے جان چیز کی طرح خلائوں میں گھور رہی تھی ۔۔۔
اس بے جا اداسی کا سبب ؟؟؟
دائم سے رہا نہیں گیا ۔۔
شزانہ نے سرخ نگاہیں اسکی جانب اٹھائیں ۔۔۔
یہ اداسی بے جا تو نہیں ہے ، جانتے ہو ہمارا ملک جنگ کے در پر ہے کوئی عسکری قیادت چاہتا ہے ، تو کوئی اسلام کے نام پر ملک پر قابض ہونے کو ہے ، سفاکیت قتل و غارت عام ہوچکی ہے روز اس جنگی جنوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کا خون بہایا جارہا ہے ۔۔۔ اداس نہ ہوئوں تو اور کیا کروں ؟
حد درجہ سادگی سے کہہ کر
اس نے آنکھوں کی سرخی چھپانے کی خاطر رخ موڑ لیا ۔۔
جانتے ہو ہم بہت سادہ لوگ ہیں۔۔ ہمیں صرف امن کی خواہش ہے۔۔۔یہ خواب اور خواہشیں تو جیسے کتابی باتیں لگنے لگیں ہیں ! جب سے ہوش سنبھالا ہے ہر طرف شر ،فساد اور جنگیں ہی دیکھی ہیں !
اسکی آنکھوں کٹورے بھیگنے لگے ۔۔۔
اللہ بصیرت اور درد دل رکھنے والا قائد عطا کرے گا اس زمین کو ! وہ تسلی بھرے انداز میں بولا
انشااللہ ۔۔۔!!
اس نے شدت دل سے کہا !
ایسے کیا دیکھ رہے ہو ؟؟؟
اسے اپنی طرف دیکھتا پاکر چونکی
تم مجھے کسی کی یاد دلاتی ہو ؟؟؟
وہ اسکے گھنگھریالے بالوں کو دیکھتا ہوا بولا ۔۔۔
کس کی ؟
اس نے بھنویں اچکائیں ۔۔
میری بیٹی کی ۔۔ تمہاری طرح اسکے بال بھی گھنگھریالے ہیں !
وہ مسکرایا
سچ میں ؟؟؟ وہ متحیر سی ہوکر بولی ۔۔
دراصل وہ اسکے شادی شدہ ہونے کی توقع نہیں کر رہی تھی ۔۔۔
بلکل ۔۔ کافی دنوں سے ملا نہیں ہوں اس سے ،
وہ دوستانہ لہجے میں بولا ۔۔
شزانہ جوابا ہلکا سا مسکرائی ۔۔
انکی گفتگو جاری رہتی اگر شزانہ کی نظر بلا ارادی طور کیفے میں داخل ہوتے اسلحہ سے لیس نقاب پوشوں پر پڑی ہوتی۔۔۔ اس نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری ۔۔
ڈرو مت ۔۔۔ ڈرو مت ۔۔ میںہوں تمہارے ساتھ
دائم نے اسکی نظروں کے تعقب میں دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔ اسکے لہجے میں بلا کا اعتماد اور سکون تھا ۔۔
شزانہ پر کپکپی طاری ہونے لگی ۔۔ اسے پتا ہی نہیں چلا کہ کب اسکے ہاتھوں نے اُسکا بازو تھام لیا ۔۔
وہ اسے آنکھوں میں تسلی دیتا خاموش رہنے کا اشارہ کرنے لگا ۔۔۔ کئی نقاب پوش نواجون ان کے ارد گرد پھیل گئے ۔۔ اور کیفے کا جائزہ لینے لگے ۔۔۔ جیسے وہ کسی شاہی باغ میں ٹہلنے نکلے ہو ۔۔۔ دائم کا مطمئن انداز دیکھ کر شزانہ کی رکی سانسیں بحال ہونے لگی ۔۔ مگر اگلے ہی وہ نقاب پوش کیفے میں کام کرتی ننگے سر والی عورت بالوں سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے باہر لے آئے ۔۔۔
اسکے لبوں سے بے ساختہ چیخ برآمد ہوئی ۔۔۔
دائم نے ضبط سے لب بھینچے ۔۔۔
وہ سبھی نقاب غیر متوقع طور پر اسکی جانب بڑھنے لگے ۔۔
بھاگوووو !!!
دائم برق رفتاری سے اسکا ہاتھ دبوچ کر کیفے سے باہر بھاگنے لگے ۔۔۔ اسکی بد قسمتی کہ بیگ جس میں اسکے ضروری دستاویزات تھے وہ وہیں رہ گیا ۔۔۔ اور سب سے ضروری چیز ۔۔ اسکا انہیلر ۔۔!!
وہ بھاگتے ہوئے کسی اونچے مقان کی سیڑھیوں کے نیچے کے نیچے چھپ گئے ۔۔
شزانہ کو سانس لینا دشوار ہورہا تھا ۔۔۔
ڈرو مت ، تم panic کر رہی ہو ۔۔۔ میں ہوں نا تمہیں کچھ نہیں ہوگا
دائم زوروں سے اسکا چہرہ تھپتھپانے لگا ۔۔۔جس پر غنودگی طاری ہورہی تھی ۔۔۔
وہ نا تو اسے خاموش کروا سکتا تھا نہ ہی اسکی مدد کر سکتا تھا ۔۔۔
قدموں کی چاپ سنتے ہی دائم نے ناچاہتے ہوئے بھی سختی سے ہاتھ اسکے لبوں پر جمایا ۔۔ اور اسے دبوچ کر سیڑھیوں کی اوٹ میں ہوگیا ۔۔۔ کئی لمحے گزرنے کے بعد ان کے جانے تسلی کرتے ہوئے اس نے باہر جھانکا تو کوئی نہیں تھا راستہ صاف تھا ۔۔۔
ش۔۔۔۔زز شزانہ ؟؟؟ وہ بے ہوش ہو چکی تھی ۔۔۔
اس نے جیب ٹٹولی تو خالی تھی ۔۔۔ شاید گاڑی کی چابی کیفے کے ٹیبل پر ہی رہ گئی تھی
اس پہلے وہ کچھ اور سوچتا اسے کوئی شخص اپنی آتا دیکھائی دیا ۔۔۔ اسکا ریوالور کی جانب ہاتھ بڑھا ہی تھا کہ وہ شخص بولا پڑا ۔۔۔
فکر مت کرو ہم تمہارے آس پاس ہی ہیں ! اس عمارت کے پیچھے سے نکل جائو ، اس سے پہلے کہ وہ اگلی گلی کا دورہ کریں ۔۔
وہ شخص بیگ اور جیپ کی چابی اسے تھماتا ہوا بولا ۔۔۔
دائم تیزی سے سر ہلاتا ہوا اسے اٹھا کر جیپ کی جانب بڑھا ۔۔۔
وہ اسے لیئے زہیر عظمیٰ کے ہاں پہنچا تو اسے کچھ گڑبڑ کا احساس ہوا ۔۔
وہ شزانہ کو لیث کے حوالے کر کے زہیر عظمیٰ کے اشارے پر انکے آفس نما اسٹڈی میں پہنچا ۔۔
کیا بات ہے ؟؟؟ آپ کچھ پریشان نظر آرہے ہیں ؟؟
اسے شبہ ہوا ۔۔۔ اس مشن سے زہیر بخوبی آگاہ تھا ۔۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وہ پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ان کی خفیہ طور پر مدد کررہا تھا ۔۔۔
دائم اور اسکے ساتھی (ایجنٹس) یہاں پاکستان کے ٹیلی کام ادارے کے اغوا کردہ افراد کو بازیاب کرنے کے مقصد سے آئے تھے ۔۔۔
مجھے لگتا ہے حُریت رہنمائوں کو مجھ پر شک ہو گیا ہے !
وہ بے چینی سے چکر کاٹنے لگے ۔۔۔
یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں ؟
دائم بری طرح چونکا ۔۔
ان لوگوں کو صرف شک ہوا ہے اور تصدیق کرنے کے لئے وقت درکار ہوگا ! اس پہلے تم اپنا کام کرو اور نکل جائو یہاں سے !
زہیر عظمی عجلت میں جھک کر کوئی چیز تلاش کرتا ہوا بولا ۔۔
اتنی جلدی یہ نا ممکن ہے !
دائم نے نفی میں سر جھٹکا ۔۔
اسکے ساتھ دوسرے لوگ بھی اس مشن میں جڑے تھے ۔۔ جو انتہا پسندوں کے بیچ سرائیت کر چکے تھے ۔۔ انکا اچانک سے غائب ہونا ۔۔۔ اِنکا بنا بنایا کھیل بگاڑ سکتا تھا ۔۔ اور پھر ھانی السلام کی تلاش ابھی جاری تھی ۔۔ وہ اپنا (پاکستان کا) مجرم لئے بغیر واپس ہرگز نہیں جانا چاہتا تھا ۔۔۔
زہیر کو پریشان زدہ حال میں چھوڑ کر وہ جنرل کو کال ملانے لگا ۔۔ انہیں رپورٹ کرنا بہت ضروری تھا ۔۔۔ جنرل نے اسے دوسرے ایجنٹس سے رابطہ کرنے بعد کال کرنے کی یقین دہائی کروائی اور فون بند کردیا ۔۔۔ وہ ان کی جانب سے اگلی تعلیمات کے انتظار میں تھا کہ اس رات ایسا واقعہ پیش آیا جو ان کے گماں میں بھی نہ تھا ۔۔۔
____________________________________
کمرے میں گُھپ اندھیرا تھا ۔۔۔
کھڑکی کا پٹ ہلکا سا وا تھا ۔۔ تیز چلتی ہوا سے کمرے کے پردے ہلنے لگے …..دیوار پر آویزاں گھڑی کی ٹک ٹک کمرے میں مدھم سا ارتعاش پیدا کر رہی تھی ۔۔۔ وہ نرم و ملائم بستر میں دُبک کر سمٹی محو خواب تھی ۔۔
اچانک ایسا لگا کوئی کمرے میں داخل ہوا ہو جیسے ۔۔
کوئی حرکت کرتا وجود ۔۔ اسے آس پاس مانوس سی حدت کا احساس ہوا ۔۔جس کے ساتھ ہی ایک خوشبو اسکی سانسوں میں سمائی ۔۔۔
یہ اس وجود کی خوشبو تھی ….
اسے لگا وہ اس خوشبو کو پہچانتی ہے ۔۔۔
وہ ایک دم سے اٹھ بیٹھی ۔۔۔ اور ہموار سانسیں لینے لگی ۔۔۔ دھڑکنیں معمولی رفتار سے تیز دھڑک رہیں تھی ۔۔۔
اسکے آس پاس کوئی نہیں تھا ۔۔ کمرہ خالی تھا ۔۔ مگر دل نہیں مان رہا تھا ۔۔
یہ کیفیت وہ کئی راتوں سے محسوس کر رہی تھی ۔۔۔
وہی مانوس سی خوشبو …ویسی ہی حدت
ابراہیم کی موت کو بہت عرصہ بیت چکا تھا مگر ناقابل فہم احساسات اسے باور کرواتے رہتے تھے کہ وہ اسکے آس پاس ہے ۔۔ اسے دیکھ رہا ہے ۔۔۔ یا پھر شاید ۔۔۔
وہ اسے اتنا زیادہ سوچ لیتی تھی کہ اسکے متعلق وہی سب اسے خوابوں میں بھی نظر آنے لگتا ۔۔۔
اس نے بال سمیٹ کر کندھے پر ڈالے اور رخ موڑ سائیڈ ٹیبل پر پڑی اسکی مسکراتی تصویر کو دیکھنے لگی ۔۔۔
وہ میٹرک میں تھی جب خالہ کے رشتہ مانگنے پر امی نے نہ صرف اپنی چہیتی بہن کو ہاں کی بلکے فورا نکاح کی درخواست بھی کردی ۔۔ خالہ کو اور کیا چاہیئے تھا ۔۔۔
انکے بیٹے کی پسند تھی وہ ۔۔وہ فورا مانتی بنی ۔۔
البتہ عمارہ کچھ خاص خوش نہیں تھی اس رشتے سے ۔۔ بلکے وہ ابراہیم کو اس جلد بازی کا زمہ دار سمجھ کر اسے نا پسند کرنے لگی تھی ۔۔۔
مگر یہ سب کچی عمر کی باتیں تھی ۔۔۔ ابراہیم کی ناگہانی موت پر سب سے زیادہ صدمہ اسے ہوا تھا ۔۔۔
جو آج بھی تھا ۔۔ اتنا شدید تھا کہ وہ خوابوں خیالوں میں اسے تصور کرنے لگی ۔۔۔ جیسے کچھ دیر پہلے ۔۔۔
عمارا نے طویل سانس باہر دھکیلی اور گھڑی پر نظر ڈالی ۔۔ جو رات کے تین بجا رہی تھی ۔۔ اسے اب دوبارہ نیند آنا نا ممکن تھا ۔۔۔ سو وہ کمفرٹر ہٹاتی اٹھی اور اسٹڈی ٹیبل پر آگئی ۔۔ مطلوبہ فائل کھول کر پیشنٹ کا کیس اسٹڈی کرنے لگی ۔۔۔کھڑکی کے باہر رات اپنی جوبن پر تھی ۔۔۔
Aftab sikender آفتاب سکندر
Aftab sikender آفتاب سکندر