رہا سینے میں چھپ کر فرض کا احساس برسوں تک رہی اس راستے میں سنگ بن کر یاس برسوں تک وسائل ڈھونڈتا پھرتا رہا ہوں کام کرنے کے کشائش کو حریف گردش ایام کرنے کے غریبوں میں نظر آیا مجھے منظر تباہی کا امیروں نے روا رکھا طریقہ کم نگاہی کا تمنا تھی اگر مل جائے کوئی غزنوی مجھ کو ذرا آرام سے رہنے دے فکر زندگی مجھ کو تو اس آغاز جو ابجام کی منزل پہ لے جاؤں جہازِ آرزو مقصود کے ساحل پہ لے جاؤں