مہندی کی ساری تیاریاں ہو گئی ہیں.. ماما آپ پلیز فکر چھوڑ دیں میں سب سنبھال لونگی۔۔ ثانیہ ماما کو پرسکون کرکے اب باقی کے کاموں پر نظر دوڑا رہی تھی۔۔۔
گھر میں سب کاموں میں بزی تھے اور ہوتے بھی کیوں نہ یہ ان کے گھر کی پہلی خوشی تھی۔ رانیہ ثانیہ سے ایک سال چھوٹی اور بہت گہری دوست تھی وہ ہمیشہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بہت مل جل کر رہی تھیں ۔۔ صرف دو ہی بہنیں ہونے کی وجہ سے وہ گھر کی لاڈلی بھی تھیں ۔۔ ثانیہ بچپن سے زیادہ پڑھنے کی عادی تھی لیکن اس کے برعکس رانیہ نے گریجویشن بھی بہت بیزاریت سے کیا تھا۔۔ گھر میں سب چاہتے تھے کہ پہلے ثانیہ شادی کرے لیکن بار بار اس کے منع کرنے اور بدلتی عادات کی وجہ سے کوئی بھی اس پر زور نہیں دیتا تھا اور اسی کے مشورے پر پہلے رانیہ کی شادی ہو رہی تھی۔۔
تم نے سب دوستوں کو انوائٹ کرلیا نا؟؟ ماما اب کاموں میں الجھی ثانیہ سے پوچھ رہی تھیں ۔۔
جی سب کو فون کر چکی ہوں ۔۔آپ بے فکر رہیں۔
* * *
ہائے ثانیہ!! کیسی ہو؟؟ ارم پیچھے سے آ کر ثانیہ سے لپٹ چکی تھی۔۔
بالکل ٹھیک! تم کیسی ہو؟ ثانیہ پنک اور یلو کے کمبینیشن میں غضب ڈھا رہی تھی۔۔
میں بھی اچھی ہوں ۔ سنو فنکشن سے فری ہو کر تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں میں نے۔۔ارم اس سے کہتی اب باقی دوستوں سے ملنے میں مشغول ہو چکی تھی۔۔
سب ہی بہت اچھے لگ رہے تھے ثانیہ بھی بہت اہتمام سے تیار ہوئی تھی جیولری کے طور پر اس نے پھولوں کے زیور پہنے تھے اور بالوں کو چٹیا کی صورت ميں خوبصورتی سے باندہ تھا ۔۔۔رانیہ بھی سادہ سی مگر بہت دلکش لگ رہی تھی۔۔
آہستہ آہستہ ارسل، منصور ،حسن اور افراء بھی آ گئے تھے۔۔ سب نے ہی ثانیہ کا یہ دلکش روپ بہت غور سے دیکھا تھا اور ارسل تو اپنے آپ کو تعریف کرنے سے روک نہ سکا تھا۔۔
واہ جی واہ ڈاکٹر ثانیہ جو آدھا ٹائم چپ یا آدھا ٹائم غصے میں ہی رہتی تھیں وہ اتنی خوبصورت کیسے لگ سکتی ہیں۔۔ اگر یہ تعریف تھی تو بہت ہی بے ہودہ تھی۔۔ ثانیہ بھی ہنسنے پر مجبور ہو چکی تھی۔۔۔
یوں ہی ہنسی مذاق میں ، ڈھول باجے ، گانوں اور کھانے پینے میں یہ تقریب اچھی گزر گئی ۔
کچوری اور سالن سے لطف اندوز ہوتے ارسل نے قریب سے گزرتی ثانیہ سے پوچھنا اب بھی نہ بولا تھا ۔۔۔آپ تو کھائیں گی نہیں۔۔" ہے نا"
ہے نہ .. کچھ زور سے بولنے کا مقصد ثانیہ کا حد درجہ کمزور ہونا تھا ۔۔
اور پھر بھی وہ مزے سے آپ کھائیے کہہ کر دامن چھڑ ا کر جا چکی تھی اور ارسل یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ کیا چیز تھی ثانیہ میں جو اس کے بار بار پیچھے ہٹ جانے کا اشارہ دینے کے باوجود اس کے پیچھے لے کر جاتی تھی۔۔۔
* * *
ثانیہ اشعر سے ملیں تم؟؟
شادی کی ساری تقریبات ختم ہونے کے بعد ارم نے باہر ثانیہ کو ملنے بلایا تھا۔
ہاں ملی ہوں ۔جب اس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا وہ میرے ہسپتال ہی آیا تھا۔
مطلب کوئی بات نہیں ہوئی تمہاری؟
نہیں!
کل میرے پاس اس کا فون آیا تھا ثانیہ مطلب پانچ سال بعد اس نے کانٹیکٹ کیا ۔ارم اب ثانیہ کو افسوس سے بتا رہی تھی۔۔
اچھا تو کیا بول رہا تھا؟
پہلے اِدھر اُدھر کی باتیں کیں پھر تمہارے بارے میں پوچھنے لگا کہ اس نے تمہیں کہا تھا کانٹیکٹ کرنا لیکن تم نے نہیں کیا۔
اچھا تو تم نے کیا کہا پھر؟
میں نے بتا دیا کہ تمہاری بہن کی شادی ہے اور تم بہت بزی ہو۔
پھر؟؟
پھر اس نے تمہاری شادی کا پوچھا۔۔
میں نے بتا دیا تمہاری شادی نہیں ہوئی۔
پھر وہ حیران ہوا تم سے پہلے رانیہ کی شادی اور تم نے اب تک شادی کیوں نہیں کی اور تم نے اسے رانیہ کی شادی میں بلایا کیوں نہیں۔۔
اچھا!! ثانیہ کا انداز بالکل نارمل اور پر سکون تھا جیسے وہ شخص اب اس کے لئے کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔۔
ثانیہ تم نے سوال نہیں کیا کہ وہ اچانک کہاں چلا گیا تھا اور پانچ سال تک کانٹیکٹ کیوں نہیں کیا اور شادی؟؟؟ اس نے کسی اور سے شادی کیوں کرلی۔ارم اب ثانیہ کے پرسکون جوابات سے اکتا گئی تھی۔
کیا پوچھتی؟؟ کہ مجھے بیچ راستے میں کیوں چھوڑ گیا ؟؟مجھے محبت کی راہ بچپن میں دیکھا کر کیوں غائب ہو گیا؟؟ مجھ سے کیے ہوئے وعدوں کو کیوں بھول گیا؟؟ کیا پوچھتی؟؟ یہ پوچھتی کیوں نہیں پوچھا کہ اس کے پیچھے میں نے پانچ سال کیسے گزارے؟؟ ارم جب صبر آ جائے نہ تو پھر یہ سوال نہیں پوچھے جاتے کہ جو کیا کیوں کیا۔ مجھے بھی صبر آگیا ہے ارم۔۔ میں یہ نہیں کہہ رہی اب محبت نہیں رہی بس اب واپسی محبت کی امنگ نہیں رہی ۔۔ درد ہوا تھا اب بھی ویسے ہی جیسے ہمیشہ اسے تکلیف میں دیکھ کر ہوتا تھا وہ میرے سامنے بہت تکلیف میں لیٹا تھا صرف ڈاکٹر ہونے کے ناطے نہیں تھی اتنی جلدی اسے ٹھیک کرنے کی ۔محبت بھی تھی جو چاہ رہی تھی وہ جلدی ٹھیک ہو جائے۔۔۔۔
آنکھوں میں ہلکا ہلکا نمکین پانی تھا جو آج کھل کر برسنا چاہتا تھا۔۔ جو بھی درد دل میں تھا باہر نکلنے کو بے تاب تھا۔۔۔ ہمیشہ کی طرح ثانیہ نے آنکھیں رگڑ لیں تھیں اور ہنس کر ارم کی طرف دیکھا۔۔۔
ثانیہ کیا محبت اتنا بدل دیتی ہے؟؟
کہ آپ کو واپسی بھی نہیں چاہیے ہوتی تم وہ ثانیہ تو نہیں اب تم بدل گئی ہو۔۔۔ محبت نے بدل دیا ہے تمہیں ۔۔ ارم ثانیہ کو گلے لگ جاتی ہے تاکہ وہ اپنا من ہلکا کر لے لیکن پھر بھی ثانیہ مسکرا دیتی ہے لیکن ایک آنسو نہیں گرنے دیتی۔۔۔۔۔
* * *
لائف اب معمول پر آ چکی تھی۔۔ ثانیہ ہسپتال میں بزی ہو چکی تھی اور اپنے کام کو بہت دل لگا کر رہی تھی۔۔۔
تم یہاں کیسے؟؟ ثانیہ ار سل کو دیکھ کر چونک گئی۔۔
تم نے نہ ہی کانٹیکٹ کیا اور نہ ہی ملنے آئیں تو مجھے ہی آنا پڑا ۔۔ارسل خوشی سے کرسی کھینچ کر اس کے سامنے بیٹھ چکا تھا۔۔۔
یار بزی ہوتی ہوں ٹائم ہی نہیں ملتا۔۔ وہی پرانا گھسا پٹا بہانہ مارنے کی ثانیہ نے بھرپور کوشش کی تھی مگر قابل بھی ارسل تھا۔
اوہو!! میڈم میں بھی ڈاکٹر ہی ہوں اور شاید آپ سے کہیں زیادہ بزی ..ارسل نے طعنہ مار کر ایک ادا سے آنکھیں گھمائیں جس پر ثانیہ ہنس دی۔
اچھا بتاؤ کیسے آنا ہوا ؟؟ثانیہ فائل کو دیکھنے لگی تھی..
کافی پینے چلیں؟؟ ارسل نے شوخی سے پوچھا..
نہیں یار دل نہیں میرا۔۔۔ ثانیہ اب بھی فائل میں ہی بزی تھی یہ دیکھے بنا کہ اس کے انکار سے کسی کے اندر زور سے کچھ ٹوٹا تھا۔۔
ثانیہ کیا میری طرف دیکھ کر بات کر سکتی ہو ورنہ میں چلوں ۔۔ اب کی بار ارسل بہت سیریس تھا۔۔
ارسل مجھے تمہارا بار بار آنا اور کافی کے لئے پوچھنا پسند نہیں ۔میں ایسی ہی ہوں ۔ پلیز سوری!
ثانیہ نے دو ٹوک بات کرنا ہی مناسب سمجھا تھا۔۔
میں تمہیں کوئی گلی چھاپ آوارہ مجنوں لگتا ہوں کیا ؟؟؟اب کی بار ارسل نے تحمل سے جواب کا انتظار کیا ۔۔
نہیں! لیکن مجھے تمہاری سمجھ نہیں آتی میں تمہیں بہت دفعہ اشاروں میں بتا چکی ہوں کہ مجھے تم میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے۔
کیا کمی ہے مجھ میں تم سے پیار کرتا ہوں شادی کرنا چاہتا ہوں.. پھر کیا ثانیہ؟
مجھے کسی کی محبت سے فرق نہیں پڑتا ان فیکٹ مجھے شادی بھی نہیں کرنی۔۔
ثانیہ اب بات ختم کر چکی تھی کہ بس اب آپ جا سکتے ہیں۔۔
اوکے اب یہ ارسل تمہارے پیچھے نہیں آئے گا۔۔ خوش رہو! بس یہ کہنا تھا اور وہ اٹھ کر وہاں سے چلا گیا کیونکہ آپ کچھ باقی نہیں رہا تھا کچھ کہنے سننے کو۔۔
* * *
السلام علیکم!! کیسی ہو میری جان؟؟
ارم ،ثانیہ کے گھر آکر اسے سرپرائز دیتی ہے..
ارے تم! وعلیکم السلام !میں بالکل ٹھیک ٹھاک مزے میں. آپ سنائیں آج کیسے ٹائم مل گیا آپ کو ۔۔
اور ہماری ڈاکٹر ارم کی جاب کیسی چل رہی ہے.؟؟
ویسے ثانیہ یہ طعنے تمہارے منہ سے ذرا بھی اچھے نہیں لگتے خود تم کس دنیا میں ہوتی ہو کسی کو پتہ بھی نہیں ہوتا۔۔ ارم اب لگی لپٹی رکھے بنا ثانیہ کو سنا رہی تھی۔۔
ہی ہی ہی!! اچھا بیٹھو بھی ۔ میں چائے منگواتی ہوں۔
ہاں ضرور بہت تھکی ہوئی ہوں ۔۔ بہت سے کام کرتے ہوئے آرہی ہو۔
کیوں خیریت آج ہی کرنے تھے کیا سارے کام۔۔ ثانیہ ، ارم کی حالت دیکھ کر کہتی ہے۔۔
یہ لو ! ارم ثانیہ کے ہاتھ میں کارڈ پکڑا کر ہنستی ہے ۔۔
ارے یہ کیا ثانیہ مسکرا کر اب کارڈ کھول دیتی ہے۔۔
"ارم جہانگیر ویڈز حسن اقبال "
ماشاءاللہ مبارک ہو ارم۔۔۔ ایم سو ہیپی فور یو! ثانیہ خوشی سے ارم کو گلے سے لگا لیتی ہے۔۔
تھینکیو سارے فنکشن میں تمہیں انا ہے۔۔ میری بہن ہونے کے ناطے اب آگے کے سارے کام تم سنبھالو گی میں نے بہت کر لئے ۔
کیوں نہیں یار ضرور تم مجھے بتا دو کیا کام رہ گئے ہیں میں سارے کر دوں گی۔۔
ثانیہ میں نے اشعر کو بھی بلایا ہے تمھیں کوئی اعتراض تو نہیں ہے؟؟
نہیں مجھے کیوں اعتراض ہوگا تمہاری شادی ہے تم جسے چاہو بلانا۔۔
چلو ٹھیک ہے اب میں چلتی ہوں آگے بھی جانا ہے پھر ملیں گے۔۔۔
* * *
ماشاءاللہ !!! یہ تم ہی ہو مجھے یقین نہیں آرہا ہے... اشعر ارم کو دلہن بنے دیکھ کر تنگ کرنے لگتا ہے۔۔۔
جی! میں ہی ہوں، اب تمہاری طرح بے مروت تو ہوں نہیں کہ شادی بھی بنا بتائے کر لو۔۔ ارم اب تک اشعر کی اس حرکت سے خفا ہوتی ہے۔۔۔
اچھا بابا سوری کتنی بار معافی منگواؤ گی مجھ سے؟ اشعر کان پکڑنے کی ایکٹنگ کرنے لگتا ہے جس پر ارم مسکرا دیتی ہے۔۔
ثانیہ کو دور سے آتا دیکھ کر ارم خوشی سے اس کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ جس پر اشعر بھی مڑ کر ثانیہ کو دیکھتا ہے۔
ہائے !!میری پیاری بہن۔۔۔ قریب آ کر ثانیہ ارم کو پیار سے بولتی ہے ۔۔
اسلام علیکم ثانیہ کیسی ہو؟؟ مکمل نظر انداز ہونے کے احساس کے بعد بھی اشعر ثانیہ سے خیریت دریافت کرتا ہے۔۔
وعلیکم السلام! میں ٹھیک ہوں ..ثانیہ ہلکا سا مسکرا کر جواب دیتی ہے۔۔
چلو میں جاکر باقیوں سے ملتی ہوں۔۔ ثانیہ یہ کہ کر اب چئیرز کی طرف چل دیتی ہے۔۔۔
* * *
تمہاری جاب کیسی چل رہی ہے ڈاکٹر صاحبہ؟؟ اشعر اب ثانیہ کی طرف ہی آکر چیئر پر بیٹھ جاتا ہے۔۔
اچھی چل رہی ہے بلکہ بھاگ رہی ہے ۔ ثانیہ بغیر دیکھے بس جواب دے دیتی ہے۔
کم گو ہو گئی ہو ؟؟اشعر اس کی آنکھوں میں جھانک کر کہتا ہے۔
ہاں اب بولنے کے لیے دوست نہیں بچے۔۔۔۔
کیوں میں تمہارا دوست نہیں ہوں کیا ؟؟اب اشعر بہت امید سے اس کے جواب کا انتظار کرتا ہے۔۔
دوست؟؟؟ اب کی بار ثانیہ اشعر کی طرف دیکھ کر پوچھتی ہے۔۔
اشعر دوست ایسا نہیں کرتے جو تم نے کیا ۔۔ ثانیہ یہ کہہ کر وہاں سے اٹھ گئی تھی وہ اس کا جواب سننا بھی نہیں چاہتی تھی۔۔۔
ثانیہ اشعر کی وہاں موجودگی کی وجہ سے ارم سے طبیعت خراب ہونے کا کہہ کر چلی گئی تھی.۔۔۔
* * *
چھ ماہ گزر چکے ہیں اور ان دنوں میں ارسل نے ثانیہ سے کوئی بات کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی کانٹیکٹ کیا ۔۔۔ ثانیہ پرسکون تھی اور اپنا کام دل لگا کر رہی تھی۔۔ گھر سے شادی کا پریشر تھا لیکن مصروفیت کا بہانہ کرکے ٹالنے میں کامیاب رہی تھی۔۔ اتنے میں ماما اس کو ہر طرح کا راستہ دکھا چکی تھی۔۔ لیکن ماما کو کون سمجھاتا مسئلہ شادی کا نہیں ہے۔۔ بس دل کا ہے اس کو راضی کون کرے گا۔ لیکن ثانیہ نے اب صرف ایک مہینہ مانگا تھا سوچنے کے لیے کہ وہ کوئی حتمی فیصلہ کر لے گی۔۔۔۔۔۔
* * *
ڈاکٹر ہارون آ چکے ہیں؟؟ میرا اپوائنمنٹ تھا.
جی وہ آج کسی ایمرجنسی کی وجہ سے نہیں آ سکے وہ اپنی جگہ دوسرے ڈاکٹر کو چارج دے کر گئے ہیں۔ وہ ڈاکٹر سے کانٹیکٹ میں ہیں باقی آپ کی فائل بھی ان ڈاکٹر کے پاس موجود ہیں وہ چیک کر لیں گی۔۔
* * *
محمد اشعر آپ آئیں آپ کا نمبر ہے۔۔
جی بیٹھے اشعر صاحب جیسا کہ اس میں لکھا ہے کہ سر کو آج آپ کی وائف کی رپورٹس چیک کرنی تھیں ۔۔ آپ لائے ہیں؟؟
ثانیہ فائلز میں دیکھ کر بس سامنے والے کو دیکھے بنا ان کے آنے کا بریف کرنے لگی تھی...
ثانیہ!!! جب ثانیہ اپنا بول چکی اور رپورٹس کی منتظر ہاتھ بڑھائے ہوئے تھی اشعر کی آواز سن کر سکتے میں آگئی۔۔
تم !! بس وہ اتنا ہی بول پائی تھی ابھی اس کو یہ سوچنے میں ٹائم لگ رہا تھا کہ جو فائل اس نے پڑھی وہ اشعر کی وائف کی تھی۔
مہوش!! اشعر، مہوش کو یہ سب کیسے ہوا؟؟؟
ثانیہ تھی کہ اس کا سانس ہی بحال نہیں رہا تھا۔۔
* * *