وہ گھر کے باہر بیٹھی گھٹنوں میں سر دیئے رو رہی تھی جب کسی نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے ہلایا ۔لمبا سا قد بلیک پینٹ شرٹ پہنے ہلکی سی شیو میں اسکی وجاہت جھلک رہی تھی حروش نے اسے دیکھ کر اپنے آنسو صاف کئے جی بولیں !اس نے درد سے بھری آواز میں کہا ایکچولی میں صائم کا دوست ہوں یہ اسی کا گھر ہے نہ ۔اس نے حروش کو دیکھتے ہوئے حیرت سے کہا۔ آپ اندر تشریف لے جائیں۔ مگر آپ ہیں کون اوراس طرح باہر کیوں بیٹھی ہیں۔ اسنے حروش کی بات نظرانداز کرتے ہوئے ایک اور سوال پو چھا ۔۔۔دیکھیں میں جو بھی ہوں آپ کو کیا کرنا ہے آپ جس کام سے آئیں ہیں وہی کریں اس نے غصے میں اس قدر ہینڈسم دکھنے والے لڑکے کو جھاڑا۔ اوکے اوکے آپ غصہ نہ کریں میں جاتا ہوں یہ کہہ کر وہ اندر چلا گیا اتنے میں ہی عزیر وہاں آگیا حروش کو باہر بیٹھا دیکھ وہ سمجھ گیا تھا کہ گھر میں کوئی بات ہوئی ہے وہ حروش کے پاس جاکے پوچھنے لگا اسکو دیکھتے ہی حروش نے ہچکیوں کے ساتھ رونا شروع کردیا اور پوری بات اسے بتائی عزیر اس کا ہاتھ پکڑ اسے اند ر لے گیا
****
وہ جیسے ہی حروش کے ساتھ گھر میں داخل ہوا نرگس اور تیمور غصے سے اسے گھورنے لگے وہ اس وقت کچھ نہیں بول سکتے تھے کیونکہ صائم اور اسکا دوست ریان وہی بیٹھے تھے عزیر نے اندر آتے ہی نارمل انداز میں سلام کیا ۔ریان یہ میرا بھائی عزیر ہے۔ صائم نے ریان کا عزیر سے تعارف کرایا اور یہ انکے پیچھے کون ہیں اور یہ باہر بیٹھی کیوں رو رہی تھیں اس نے کچھ سوچتے ہوئے صائم سے پو چھا ارے یار یہ میری چھوٹی بہن ہے حروش یہ ہم سب کی بہت لاڈلی ہے آگر کوئی تھوڑا سا بھی کچھ بول دے تو یہ باہر جاکے رونا شروع کردیتی ہے اس نے صفائی سے جھوٹ بولا۔ اوووو اچھا ویسے یہ بلکل میری بہن کی طرح ہے وہ بھی سب کی بہت لاڈلی ہے تو اس کے بھی یہ سارے ناٹک رہتے ہیں اسنے حروش کی طرف دیکھ کر شوخ سے کہا حروش اسکو اور صائم کو خالی نظروں سے دیکھ رہی تھی چلیں آنکل آنٹی میں چلتا ہوں یہ کہہ کر ریان وہاں سے چلا گیا
یار کہیں تو عزت رکھ لیا کریں میری آگر اسکو گھر سے باہر نکالا تھا تو کہیں دور دفع کرکے آتے نہ آگر ابھی میں ریان سے جھوٹ نہیں بولتا تو کیا عزت رہ جاتی میری صائم نے دھاڑتے ہوئے کہا بس بھائی زبان کو لگام دیں جس طرح اپنے دوست کے سامنے اپنی محبت جتا رہے تھے ایسی آگر حقیقت میں ہوجائیں تو آپ کو جھوٹ بول کر گناھ کمانے کی ضرورت نہیں پڑے گی عزیر نے بھی صائم سے اسی انداز میں بات کی بس بند کرو تم دونوں لڑنا تیمور نے کھڑے ہوکر ان دونوں کو چپ کرایا اور یہ لڑکی اس گھر میں نہیں رہے گی انہوں نے اسکے ساتھ ایک اور حکم سنایا حروش کی آنکھوں میں آنسو آگئے کس طرح اسکا باپ اسکا محافظ اسکو اسکے ہی گھر سے نکال رہا تھا
حروش یہاں سے کہی نہیں جائے ورنہ میں بھی اس گھر میں نہیں رہوں گا اسکی بات سنتے ہی نرگس نے رنگ بدلے تھے وہ جانتی تھی اگر عزیر یہاں سے چلا گیا تو اسکے حصے کی دولت بھی جائے گی
ارے کیا ہوگیا بیٹا ہر گھر میں ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں اسکا مطلب یہ تو نہیں کے گھر چھوڑ کر چلے جائو اسنے مصنوعی پیار دکھایا ۔تو حروش کے معاملے میں بھی گھر میں رکھیں نہ بات اسکو کیوں باہر نکالا جارہا ہے اس نے طنزیہ لہجے میں بات مکمل کی اور اپنے کمرے میں چلا گیا حروش بھی اسکے پیچھے اپنے کمرے میں چلی گئی
*****
کمرے میں جاتے ہی وہ اپنے بستر پر لیٹ گئی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے اللہ پاک اتنی بری ہوتی ہیں بیٹیاں تو آپ نے ہمیں بنایا ہی کیوں ۔یہ تو سب جہالت کی بات تھی آگر عورت زات نہ ہوتی تو یہ دنیا نہ ہوتی آگر عورت نہ ہوتی تو مرد کا بھی وجود نہ ہوتا عورت زات کے لئے تو اللہ نے بے شمار حقوق اتارے ہیں عورت کو تو اسلام میں شہزادی کا رتبہ دیا گیا تھا ۔
روتے روتے کب اسکی آنکھ لگ گئی تھی اسے پتا نہیں چلا۔
*****
آگلے دن اس نے گھر کا سارا کام نمٹالیا تھا اب اس نے کچن کی راہ لی تھی جب اسے ڈرائنگ روم سے صائم اور نرگس کی باتوں کی آواز آئی مام بابا چاہتے ہیں کہ دبئی جاکے اپنا بزنس اسٹارٹ کروں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ پہلے میری شادی کردی جائے تاکہ میں وہی سیٹل ہوجائو اس نے اپنے دل کی بات نرگس کو بتاتے ہوئے کہا تمہیں کوئی پسند ہے یا پھر میں کوئی لڑکئ ڈھونڈوں ویسے میری نظر میں ایک لڑکی ہے نرگس نے اپنا جال بچھانا چاہا۔ نہیں مام میں اپنی کلاس فیلو عینا کو پسند کرتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ آپ اس کے پیرنٹس سے مل لیں ویسے وہ راضی ہیں بس آپ لوگ اسی مہینے شادی کی تاریخ پکی کردیں اسنے حکم کرتے ہوئے انداز سے نرگس کو بولا ۔۔
******
ایک ہفتے بعد صائم اور عینا کی شادی طے ہوگئی تھی نرگس نے گھر کا سارا کام حروش کی ذمہ ڈال دیا تھا اور خود شاپنگ میں لگی تھی نرگس کی ایک بھانجی ماہا بھی شادی کی رسمیں ادا کرنے کے لئے اس کے گھر پہنچ گئی تھی۔ وہ کافی خوش شکل اور خوش اخلاق لڑکی تھی
****
وہ جیسی اندر آیا اس کی نظر سامنے کرسی پر کھڑی لڑکی پر پڑی گلابی کلر کے قمیض شلوار میں پیلا دوپٹہ ایک سایڈ کرکے باندھا ہوا تھا کھلے ہوئے لمبے بال کمر پر گرے ہوئے تھے گورے رنگ پر ہلکی سی لائٹ لپ سٹک اسکے حسن کو مکمل کر رہی تھی وہ تھوڑی دیر کے لئے اسکے سحر میں کھو گیا تھا ریان بھائی آپ کب آئے عزیر نے اسکو اس طرح حروش کو دیکھتے ہوئے دیکھا تو اس کے پاس آکے پوچھنے لگا ۔وہ میں ابھی آیا تھا آج مہندئ کا فنکشن تھا تو سوچا میں بھی کچھ مدد کرلوں ریان نے جھینپ کر اسے جواب دیا اس کے اس طرح جھینپنیں پر عزیر کو ہنسی آگئی جی بھائی کام تو ہے آپ ایک کام کریں حروش کی مدد کردیں شاید اس سے دیوار پر پھول نہیں لگ رہے یہ بول کر وہ ہنسی کنٹرول کرنے لگا
وہ حروش کے پاس جاکے کھڑا ہوگیا تھا آف وائٹ کلر کے کرتے پر بلیک کلر کا کوٹ پہنے ہاتھ میں واچ ہلکی سی شیو میں وہ بہت وجیہہ لگ رہا تھا آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں حروش اسکو دیکھ کر چو نکی وہ میں آپکی مدد کرنے کے لئے آیا تھا وہ سر جھکا کر مسکرانے لگا اسکے گال پر گہرا ڈمپل پڑ تا دیکھ حروش کا دل کیا وہ اسکو ہی دیکھتی رہےوہ تھا ہی ایسا کوئی بھی اسے آرام سے پسند کرسکتا تھا اس وقت خوبصورتی میں دونوں ہی ایک دوسرے کے مقابل تھے
***
دوسری طرف عزیر ماہا کو دیکھتے ہی دل دے بیٹھا تھا معصوم سی شکل پر بے انتہا شرارت اسے بہت اچھی لگ رہی تھی اسکا دھیان ماہا سے ہٹ نہیں رہا تھا
****
مہندے کا فنکشن ختم ہو چکا تھا سب جا چکے تھے حروش سارا کام سمیٹ رہی تھی اگلے دن برات تھی وہ بری طرح تھک گئی تھی تھکن سے اسے بخار چڑ ھنے لگ گیا تھا وہ جلدی جلدی کام کرکے اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گئی۔
**
اگلے دن اسے تیز بخار تھا وہ ہمت کرکے اٹھ کر نیچے گئی آگر تم نے آرام کرلئے ہوں تو اب تھوڑا میرا ہاتھ بٹادو کام میں۔ نرگس نے اسکو دیکھتے ہی طنز کیا تھا۔ جی آنٹی میں آرہی تھی اس نے یہ کہہ کر کام شروع کردیا تھا رات میں برات جانے کے کئے تیار تھی اور حروش تیار بھی نہیں ہوئی تھی اسکا دل نہیں چاہ رہا تھا جانے کا جب ریان گھر کے اندر آیا
ارے آپ تیار نہیں ہوئیں اس نے حروش کو ایسے دیکھا تو وہ چونک گیا نہیں میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے میں نہیں جا سکتی اسنے بیزاریت سے جواب دیا ارے آپ اکلوتی بہن ہے صائم کی اور لاڈلی بھی ہیں آپ نہیں جائیں گی تو اسکو برا لگے گا حروش کو صائم کی بات یاد آگئی تھی اسے یہاں بھی اپنے بھائی کی عزت رکھنی تھی کیونکہ ریان اسکا دوست ہونے کے ساتھ ساتھ اسکا بزنس پارٹنر بھی تھا اس لئے حروش کو مجبورن تیار ہو نے کے لئے جانا پڑا لیکن برات نکلنے والی ہے میں کیسے جائوں گی اسکو اچانک خیال آیا ۔۔آپ تیار ہوجائیں میں آپکو اپنی گاڑی میں لے جائوں گا انہیں جانے دیں اس نے ہلکی سی آواز میں کہا
مگر وہ بھائی اور بابا غصہ کریں گے حروش نے اپنی پریشانی ظاہر کی
نہیں میں انہیں بول دوں گا آپ جائیں بس تیار ہوجائیں برات جا چکی تھی وہ وہی ڈرائنگ روم کے صوفے پر بیٹھ گیا تھا
۔۔۔۔۔
وہ جیسی زینے سے نیچے اتری ریان کی نظریں اسی پر اٹک گئیں بلیو اور پنک کنٹراسٹ کا لہنگا پہنے بالوں میں ٹیکا لگائے گلے میں نازک سا نیکلس ہاتھوں میں گجرے پہنے وہ کوئی شہزادی لگ رہی تھی یار یہ کتنی حسین ہے اسنے اپنے آپ سے کہا اور اس میں کھو گیا چلیں !حروش نے اسکو اپنی طرف ایسے دیکھتے ہوئے دیکھا تو جھینپ گئی اسے لگا وہ کچھ اوور تیار ہوگئی تھی مگر اسکی یہ سب شاپنگ ماہا اور نرگس نے ہی تیمور کے کہنے پر کی تھی کیونکہ خاندان والوں کو تو اپنا پیسہ دکھانا تھا نرگس کی یہی کوشش تھی کہ وہ سستا اور ہلکے کام کے ہی ڈریس خریدے مگر حروش نے اس سستے ڈریس کو پہن کر اسکی قیمت بڑھادی تھئ
*****
وہ اسکے ساتھ ہال میں پہنچ چکے تھے ریان کو اس بات کی حیرت ہوئی کہ کسی کو کوئی فرق ہی نہیں پڑا تھا کہ حروش ان کے ساتھ نہیں پہنچی تھی عزیر تو بس ماہا کے آگے پیچھے گھوم رہا تھا انتہائی مہنگا جوڑا اور قیمتی میک اپ کئے وہ ایک حد تک حسین لگ رہی تھی ادھر نرگس نے بھی پچیس ہزار کی ساڑی پہنی ہوئی تھی ڈارک میک اپ کئے وہ اپنے آپ کو بہت خوبصورت لگ رہی تھی حروش کو دیکھتے ہی اسکا چہرہ اتر گیا حروش اسکے بگڑتے تیور دیکھ کر ایک سائیڈ پر بیٹھ گئی
*****
اسٹیج پر صائم کی سالیاں اسکی جوتا چھپائی کی رسم کررہی تھیں وہ بہت خوش اخلاقی سے ان سے بات کرہا تھا عینا بھی بہت قیمتی عروسی لباس پہنی ہوئی شکل صورت کی اتنی خاص نہیں تھی مگر دلہن بن کے اس پر روپ آیا تھا صائم اپنے برابر میں بیٹھی اپنی دلہن پر فدا ہوتا جارہا تھا ماہا اور عزیر بھی وہیں کھڑے تھے ماہا بھی عزیر کو پسند کرنے لگ گئی تھی تقریب ختم ہونے تک ریان کی نظر بس حروش پر ہی تھی اس نے بہت کچھ نوٹ کرلیا تھا
****
گھر پہنچ کر اسنے سوچ لیا تھا کہ وہ اپنی ماما کو حروش سے ملوائے گا حروش اسکی پسند تو تھی مگر وہ چاہتا تھا کہ اسکی ماما بھی اسے پسند کرلیں اسکے مما پاپا پڑھے لکھے تھے اسکی ایک چھوٹی بہن تھی جو اس سے چار سال چھوٹی تھی اسکے پاپا کا اپنا بزنس تھا مگر وہ اپنے خود کے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتا تھا اسلئے اس نے صائم کے ساتھ پاٹنر شپ کرکے بزنس اسٹارٹ کرنے کا سوچا تھا مگر اب صائم باہر ملک جارہاتھا جس کی وجہ سے ریان نے اپنے پاپا کا آفس جوائنٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا
****
وہ گھر جاتے ہی کام میں لگ گئی تھی ماہا نرگس اور عزیر دلہن کے کمرے میں بیٹھے رسمیں ادا کررہے تھے تیمور باہر اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے وہ کام ختم کرکے اپنے کمرے میں جانے لگئ جب تیمور کے دوست نے اسکو آواز دی حروش بیٹا ادھر آئو اسنے اپنے بابا کی طرف دیکھا تیمور نے اسکو دیکھ کر نظریں پھیر لی اسلام وعلیکم انکل اسنے ان کے پاس جاکے آہستہ سے سلام کیا وعلیکم سلام ماشااللہ تیمور کتنی بڑی ہوگئی ہے تمہاری گڑیا انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا یہ دیکھ تیمور آہستہ سے مسکرائے تھے اتنے عرصے میں یہ پہلی بار تھا حروش کے لئے جو تیمور اس کی موجودگی میں مسکرائے تھے وہ خوشی خوشی اپنے کمرے میں چلی گئی تھی اسکی ساری تھکن اتر چکی تھی لیٹتے ہی اسکی آنکھ لگ گئی تھی
۔۔