٭موسم کی بار بار تبدیلی سے چچا کو نزلہ ہو گیا ۔ کافی دنوں تک نزلے نے پریشان کیا ۔ جب نزلہ ٹھیک ہو گیا ، تو چچا کی ناک بند رہنے لگی ۔ بیزار ہو کر چچا خود کلامی کرنے لگے ۔ ’’ یہ انگریزی دوا کی بھی خوب رہی ، ایک مرض کا علاج کرو ، تو دوسرا لاحق ہو جاتا ہے ۔ پندرہ دنوں سے نزلے کا علاج کیا جا رہا ہے … نزلہ کیا بند ہوا ساتھ ساتھ ناک ہی بند ہو گئی ۔ سانس تک لینا دشوار ہو گیا ۔ ایک دور تھا حکیم صاحب علاج کیا کرتے تھے ۔ ادھر نبض دیکھی ، پھکی دے دی ایک یا دو ہی پھکی میں راحت ہو جایا کرتی تھی ۔ ‘‘
چچا کی یہ خو د کلامی چونکہ بہ آوازِ بلند تھی ، چچی نے سنتے ہی مشورہ دیا ۔ ’’ منے کے ابا ِ ، سنتے ہو ؟ اب آپ کو اپنا علاج ایسے ویسے ڈاکٹر سے نہیں کروانا چاہیے ۔ناک، کان اور گلے کے امراض کے ماہر سے کروانا چاہیے ۔‘‘ یہ سن کر چچا جھلائے ’’ لو او ر سنو ناک ،کان اور گلے کے ماہر … اب جسم کے ہر عضو کے مختلف ماہر ہوا کرتے ہیں ۔ یہ کرشمے ہیں علم کے ، تو وہ ہمارے حکیم صاحب کا دور ہی کیا برا تھا؟ مرض چاہے پیٹ کا ہو یا ناک کان کا ایک ہی حکیم صاحب ہر مرض کا علاج کیا کرتے تھے ۔ نہ کوئی ٹیسٹ ہوتا تھا اور نہ ہی ایکسرے ، سونو گرافی اور نہ جانے کون کون سے ٹیسٹ اب کروائے جاتے ہیں ۔اب پیٹ کا ڈاکٹر الگ ، ہڈی کا الگ ، دل کے امراض کے ڈاکٹر الگ ۔‘‘
چچی جھلائیں ’’ دل اور دماغ کے ڈاکٹر کیا آپ کے نزلہ زکام کا علاج کریں گے ؟ارے، زمانے نے اتنی ترقی کر لی کہ اب پورے جسم کی ڈاکٹری نہیں پڑھی جا رہی ہے ایک ایک عضو کا مختلف ڈاکٹر پیدا ہو کر رہ گیا ہے ۔ ‘‘
بہر حال خوب دل کی بھڑاس نکال کر چچا ای این ٹی کلنک پہنچے ۔ ایک گھنٹے بعد ڈاکٹر سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔ ڈاکٹر نے معائنے کے بعد جانچ کی پرچی بھی لکھ کر دے دی اور دو روز بعد بلایا ۔ یہ سن کر چچا کا دماغ خراب ہونے لگا ، مگر کیا کرتے؟ اس پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔
چچا نے با دلِ نخواستہ لیب پہنچ کر جانچ کروا لی، رپورٹ ملنے کے بعد پھر ای این ٹی کلنک پہنچے ۔ چچا بڑی بے صبری سے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے ۔ جب چچا کی ملاقات ڈاکٹر سے ہوئی ، تو رپورٹ دیکھ کر ڈاکٹر نے کہا ’’ چچا میں آپ کی ناک کا علاج نہیں کر سکتا ۔ کیوںکہ مسئلہ آپ کی ناک کی ہڈی کا ہے ۔ اس لیے میں آپ کو ایسے ڈاکٹر کے پاس بھیج رہا ہوں ، جو خاص طور سے ناک کی ہڈی میں ہونے والے امراض کا علاج کرتے ہیں ۔ ‘‘ یہ سن کر چچا کا پارہ چڑھ گیا ’’ یہ کیا مذاق ہے ؟ آپ نے بورڈ لگا رکھا ہے گلے ، کان اور ناک کے علاج کا اور آپ کہہ رہے ہیں آپ ناک کی ہڈی کا علاج نہیں کر سکتے … کسی اور ڈاکٹر کے پاس بھیج رہے ہیں ۔ سائنس نے جتنی ترقی کی ہے ، ہم اتنے ہی پیچھے آ گئے ہیں ۔ ‘‘
چچا وہاں سے رخصت ہوئے ، دو روز بعد دوسرے ڈاکٹر کے پاس گئے ، جو صرف ناک کا علاج کیا کرتے تھے ۔
وہاں پہنچتے ہی چچا نے اپنا بول بچن شروع کر دیا ۔ ’’ ایک وقت تھا حکیم صاحب صرف نبض دیکھ کر تمام امراض کا علاج کیا کرتے تھے ۔ نہ ایسے آلات ہوا کرتے تھے ، نہ ہی ٹیسٹ ہوتے تھے ، نہ فائلیں بنتی تھیں ۔ حکیم صاحب نے ادھر دوا دی ، ادھر مرض غائب اور اب ذرا سی ناک کیا بند ہو گئی ، اس کے ٹسٹ کرواؤ۔ اس کے بھی ماہر ڈاکٹر کے پاس جاؤ ۔ لاکھوں روپے خرچ کر کے اگر ڈاکٹری ایسی پڑھی جا رہی ہے ، تو خدا کی پناہ ایسی ڈاکٹری سے ۔ دل کا ڈاکٹر ، دماغ کا ڈاکٹر ، کڈنی کا ڈاکٹر پھیپھڑوں کا ڈاکٹر ، ہڈی کا ڈاکٹر ، دانت کا ڈاکٹر یہ سب تو سنا تھا اور اب غضب یہ ہے کہ ناک کا بھی ڈاکٹر الگ ہو گیا ۔ ‘‘ ڈاکٹر نے دیکھا کہ چچا خاموش نہیں ہو رہے ہیں ، تو جلدی سے کہا ’’ چچا ذرا منہ کھولیے ، آ…آ کیجیے ۔ ‘‘ چچا نے معائنے کے لیے منہ کھولا اور فوراً بند کرتے ہوئے بولے ’’ اماں ، ناک کا علاج کروانے آیا ہوں ، میرا منہ کیوں کھلوا رہے ہو ؟ ‘‘ ڈاکٹر فوراً مطلب پر آ گیا ’’ چچا آپ ذرا دیر خاموش رہیں … میں ابھی آپ کی ناک چیک کیے دیتا ہوں ۔ ‘‘یہ سن کر چچا خاموش ہو گئے ۔ ڈاکٹر نے ،معائنے کے بعد کہا ’’ چچا میں آپ کا علاج نہیں کر سکتا کیونکہ آپ کا مرض ناک کے داہنے جانب کے نتھنے کا ہے اور میں صرف بائیں جانب کا اسپیشلسٹ ہوں ۔ ‘‘ یہ سنتے ہی نہ صرف چچا کا بول بچن ہارڈ ہوگیا ، بلکہ چچا نے ساتھ ہی اٹھائی اپنی چھڑی اور لگے ڈاکٹر کی خبر لینے … اس مار دھاڑ میں چچا کی ناک بھی مجروح ہو گئی ۔ چچا علامہ اقبال کا یہ شعر کہتے ہوئے گھر پہنچے ۔
اٹھا کر پھیک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
ہاں مگر چچا کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اس ہاتھا پائی میں ضرب لگنے سے ان کی ناک کسی علاج کے بغیر ہی ٹھیک ہو گئی ۔٭٭
پنجابی دے اچ کوٹی شاعر، کھوج کار، پارکھ تے کہانی کار غلام مصطفیٰ بسمل
ہواواں جسم دے پنجرے 'چ کد تکّ قید رکھو گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پنجابی دے اچ کوٹی شاعر ، کھوج کار ،...