طاق صفیں
چار تکبیریں
دائیں بائیں سلام
یہ ہے ساری کہانی!
ابھی ابھی جنازہ پڑھ کر‘ قبر پر مٹی ڈال کر‘ دعا مانگ کر‘ تھکے تھکے بوجھل قدموں سے گھر لوٹنا ہوا ہے۔
کیا یہ ہے زندگی کی حقیقت؟ زندگی‘ جس کے لیے ہاہاکار مچی ہے! جس کے لیے گلے کاٹے جا رہے ہیں! جائیداد کے بٹواروں پر مقدمہ بازیاں ہو رہی ہیں۔ چُھپ چُھپ کر چالیں چلی جاتی ہیں۔ فلاں کو معلوم نہ ہو پائے۔ فلاں کو کچھ نہیں بتانا!
دوست دیرینہ وحید بھٹی کے صاحبزادے کی شادی ایک ماہ پہلے تھی۔ پھول ابھی مرجھائے نہ تھے۔ مبارکبادیں ابھی ختم نہ ہوئی تھیں۔ حجلۂ عروسی ابھی جوں کا توں سجا تھا۔ دلہن کے ہاتھوں پر حنا کا رنگ ابھی بھڑک رہا تھا۔ جوانِ رعنا عفان کمرے میں داخل ہوا۔ لائٹر سے ہیٹر جلایا۔ پورا کمرہ آگ کے شعلوں سے بھر گیا۔ گیس لیک ہو رہی تھی۔ تنصیبات اس ملک میں غیر معیاری ہیں۔ پلگ ہیں یا پائپ‘ بجلی کے بورڈ ہیں یا گیس کے متعلقہ آلات کسی شے پر اعتبار نہیں۔ ٹھپّہ چین کا یا تائیوان کا لگا ہوتا ہے‘ چیز دھرم پورے میں بنی ہوتی ہے۔ انسانوں کی زندگی سے کھیلنا اس ملک میں ایسے ہی ہے جیسے مکھی مچھر کو مار دینا۔ چند سکوں کی خاطر‘ دوائیں جعلی اور غذا ملاوٹ والی بیچی جا رہی ہے۔ گھروں میں پیراسٹامول بنانے کی ’’فیکٹریاں‘‘ قائم ہیں! خدا ہی جانتا ہے کہ بازار میں فروخت ہونے والا آٹا‘ گھی‘ دودھ‘ مرچ‘ مکھن‘ شہد‘ دہی اصل میں کیا ہیں۔ معصوم بچوں پر بھی رحم نہیں کیا جا رہا۔ دکانوں کے اوپر درود پاک لکھا ہے۔ شکلیں نورانی ہیں‘ وضع قطع‘ دیندار ہے مگر ہوس ایک ہی کہ‘ ہَل مِن مزید! ہم پاکستانیوں پر خدا رحم کرے‘ دروغ گوئی اور عہد شکنی میں ہمارا شاید ہی کوئی ثانی ہو۔ حرمتِ رسول پر جانیں نثار کرنے کے
لیے تیار‘ مگر اطاعتِ رسول ترجیحات میں ہی نہیں! ہمارا حال تو اب یہ ہے کہ فجر کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلتے ہیں تو اسلام ساتھ آنا چاہتا ہے مگر ہم اس کا ہاتھ پکڑ کر واپس محراب کے پاس لے جاتے ہیں۔ اس سے گلے ملتے ہیں اور اسے کہتے ہیں آپ یہیں بیٹھیں۔ پھر ہم مسجد سے تنہا باہر نکلتے ہیں اور جہاں کا رُخ کرتے ہیں‘ بازار ہے یا کارخانہ‘ دفتر ہے یا کھیت‘ سکول ہے یا مدرسہ‘ اسلام کا وہاں عمل دخل نہیں۔ تولنا ہے یا ماپنا ہے‘ فائل نکالنی ہے یا میٹنگ اٹنڈ کرنی ہے‘ مصنوعات ہیں یا زرعی پیداوار‘ رشتہ داروں سے معاملات ہیں یا دوستوں کے حقوق‘ ماں باپ کی خدمت ہے یا اولاد کے حقوق‘ جو کچھ بھی کرتے ہیں اپنی اغراض کو درمیان میں رکھ کر کرتے ہیں۔ پھر ظہر کے وقت مسجد جاتے ہیں تو اسلام کو وہیں بیٹھا دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ تعلق اسلام سے ہمارا قائم ہے! دھوکا! فریب! کس کو؟ اپنے آپ کو! خدا کو تو دے نہیں سکتے! رہی دنیا تو وہ بھی جان جاتی ہے اس لیے کہ نیکی ہو یا بدی‘ دیانت ہو یا خیانت‘ مالِ حرام ہو یا اکلِ حلال! چُھپتا کچھ نہیں! اگر ہمارے سامنے کوئی مروّت کی وجہ سے یا خوف سے یا وضع داری سے یا مصلحتاً خاموش رہتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے ہماری اصلیت نہیں معلوم! خدا نے ذہانت اپنی مخلوق میں کسی کی سفارش سے نہیں بانٹی! امرِ واقعہ یہ ہے کہ افسر یا وزیر یا صنعت کار یا جاگیردار جب گاڑی سے گردن اکڑا کر اترتا ہے تو اس کی گاڑی کا دروازہ کھولنے والا نائب قاصد اور اس کا بریف کیس اٹھا کر اس کے پیچھے پیچھے مودب ہو کر چلنے والا ملازم اس کی اصلیت‘ اس کی دیانت‘ اس کے فیملی بیک گرائونڈ‘ اس کی ذہنیت‘ غرض اس کی زندگی کے ہر پہلو سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے! ہمارے علماء بحث کر رہے ہیں کہ مردے سب کچھ جانتے ہیں یا نہیں‘ پہلے ہم یہ تو مانیں کہ زندوں کو ہمارے بارے میں سب کچھ معلوم ہے اور ملمّع سازیوں سے ہم اپنی رسوائی میں تو اضافہ کر سکتے ہیں عزت میں نہیں!
مقصود ذاتی غم کی تشہیر نہیں! ذات سے غم کائنات کا رُخ کرتا ہے۔ اگر ہم یہ منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ پہلے اپنی فلاں فلاں ضروریات پوری کر لیں‘ پھر اس کے بعد اہلِ حاجت پر توجہ دیں گے اور اُن ضرورت مندوں کی مدد کریں گے جن کا ہمارے ساتھ تعلق ہے‘ تو ہم احمقوں کی جنت میں بس رہے ہیں! اجل کا بٹ مار (قزاق) تاک میں ہے۔ جسم کا تار جو روح سے جُڑا ہے‘ حد درجہ ناپائدار ہے! اللہ کے بندو! اگر کسی ضرورت مند کو کچھ دینا ہے تو ابھی دو! انتظار کس چیز کا کر رہے ہو؟ آمدنی قلیل ہے تب بھی مہینے میں ہزار یا پانچ سو یا دس یا پانچ ہزار جو بھی کر سکتے ہو مختص کر لو۔ کتنے ہی سفید پوش تمہارے اردگرد عسرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عزتِ نفس انہیں مانگنے کی اجازت نہیں دیتی! کتنے ہی بچے تعلیم کا خرچ نہیں اٹھا سکتے۔ کتنوں ہی کی بیٹیاں استطاعت نہ ہو سکنے کی وجہ سے بالوں میں سیندور کے بجائے چاندی بھرے جا رہی ہیں! چلو مہینے میں ہزار روپے کا سودا سلف ہی کسی مستحق گھرانے کو دے دیا کرو!
سُوٹ مارک اینڈ سپنسر کا ہے یا کنالی کا‘ جوتا ’’کلارک‘‘ کا ہے یا ’’چرچ‘‘ کا ہاتھوں سے بنا ہوا! گاڑی آٹھ سو سی سی ہے یا بی ایم ڈبلیو‘ محل ڈیفنس میں ہے یا باتھ آئی لینڈ میں! جو کچھ بھی ہے خدا نصیب کرے مگر ساتھ نہیں جانے کا!
نظیر اکبر آبادی نے تنبیہ کی تھی؎
کیا کیا جہاں میں اب ہیں ہماری سواریاں
دلچسپ دلفریب ہیں پیاری سواریاں
کس کس طرح کی ہم نے سنواری سواریاں
پر ہم سے کچھ نہ کر گئیں یاری سواریاں
جب چار کاندھے پر ہوئیں بھاری سواریاں
جھک مارتی یہ رہ گئیں ساری سواریاں
دولت حاصل کرنا جرم نہیں! اگر جائز مراحل سے گزر کر آئی ہے اور اس میں سے محروم طبقے کا حصّہ الگ مختص کیا جا رہا ہے اور فیّاضی سے مختص کیا جا رہا ہے تو یہ دولت نعمتوں میں سے ہے۔ ایسی جائز دولت کے لیے محنت کرنا بھی کارِ خیر ہے! مگر حصولِ زر کو اوڑھنا بچھونا بنا لینا‘ پھر اقربا کے حقوق سے روگردانی کرنا اور اہلِ حاجت کو درخورِ اعتنا نہ سمجھنا‘ یہ تو دولت کو وبالِ جان بنا دے گا! زرد دھات کی چھینک اور سانپ کی پھنکار دونوں آوازیں ایک ہی لہر پر سوار آتی ہیں اب یہ انسان کی اپنی صوابدید پر ہے کہ اِس آواز کو نرم بشارت میں تبدیل کر لے یا عذاب کی کرخت چیخ میں ڈھال لے!
یہ ملک جس شخص نے دھوتی پوش برہمنوں اور سفید فام متکّبر آقائوں کے جبڑوں سے چھین کر ہمارے حوالے کیا تھا۔ اُس شخص کا رویّہ کیا تھا؟ مرض الموت تھا اور زیارت کے خوشبودار درختوں کا ماحول ! جورابوں کی قیمت پوچھی اور واپس کرا دیں کہ مہنگی ہیں! خدمت گاروں نے لاہور سے باورچی منگوایا کہ شاید قلیل خوراک میں تھوڑا سا اضافہ ہو جائے‘ واپس بھجوا دیا! سرکاری میٹنگ سے پہلے پوچھا گیا کہ چائے پیش کرنی ہے‘ جواب دیا اپنے اپنے گھر سے پی کر آئیں۔ کبھی وہ روداد پڑھیے کہ سرکاری جہاز اور گاڑی خریدنے سے پہلے کیا کیا سوال جواب اور کیا کیا احتیاط نہ کی‘ جیسے متوسط طبقے کا کوئی فرد جیب سے خریداری کرتے وقت کرتا ہے‘ حالانکہ کار کے مالک اُس وقت تھے جب خال خال ہی کسی کے پاس ہوتی تھی‘ دلہن کو رونمائی میں جو رقم دی‘ اُس کا اُس زمانے میں کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا! پھر وہ اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہوئے اس حال میں کہ سامان میں بیت المال کا ایک پیسہ نہ تھا۔ خیانت تھی نہ دروغ گوئی! مائونٹ بیٹن سے لے کر گاندھی تک ہر ایک کے سامنے وہی بات کی جو دل میں تھی اور جسے صحیح سمجھا! دشمن بھی دیانت اور صدق گفتاری پر الزام نہ لگا سکے!
آج کے رہنمائوں کو بھی دیکھ لیجیے۔ سندھ کے ریگزاروں سے لے کر پنجاب کے میدانوں تک ثروت مندی کے جھنڈے گڑے ہیں! ملکیت اور ملوکیت چار دانگِ عالم میں پھیلی ہے! مگر آہ! پیاس ہے کہ بجھ نہیں رہی!
کیا خبر ان حضرات نے یقین دہانی حاصل کر لی ہو کہ اس خاک دان میں چند ہزار سال قیام فرمائیں گے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔