Cuckoo Clock….ککو کلاک!
چابی سے چلنے والے گھڑیال تو اب بھی اکثر لوگوں کے گھر مل جائیں گے۔ ہمارے پاس ایک برطانیہ کی بنی ککو کلاک تھی جس میں چابی تو نہیں دی جاتی تھی لیکن اس میں تین عدد زنجیریں کون نما فولادی وزن کے ساتھ لٹکی ہوتی تھیں۔ جیسے جیسے کلاک چلتا وہ زنجیریں نیچے آتی جاتی تھیں اور چوبیس گھنٹے میں بالکل نیچے پہنچ جاتی تھیں ان کو کھینچ دیجئے تو پھر اوپر چڑھ جاتی تھیں اور کلاک چلتا رہتا تھا۔ یہ کلاک ہم کو ہماری ایک بھابھی نے دیا تھا جن کی نانی برٹش تھیں اور شاید سن چالیس کی دھائ میں یہ ککو کلاک برطانیہ سے اپنے ساتھ لائ تھیں۔
یہ ایک لکڑی کی جھونپڑی نما کلاک تھا جس کے ڈائل کے اوپر زرا سی گول کھڑکی کے پٹ کھلتے اس میں سےایک ننھی سی ککو برڈ نکل کر کو کو کرتی تھی۔ ساتھ ہی ایک گول پلیٹ ایک عجیب جلترنگ جیسے میوزک کے ساتھ گھومتی تھی جس کے کناروں پر ننھے ننھے سپاہی کھڑے ہوتے تھے۔
اور باری باری گول کھڑکی کے سامنے سے گزرتے ہوئے اندر غائب ہوجاتے۔ یہ بہت پرانی تھی۔
مجھے یہ بہت پسند تھی اور کافی عرصہ ہمارے گھر چلتی رہی۔
ایک مرتبہ یعنی کوئ پندرہ سال پہلے وہ خراب ہوگئ۔
یعنی ککو نے نکلنا اور بولنا چھوڑ دیا۔ اب مسئلہ یہ کہ کوئ اس کی مرمت کرنے والا نہ ملے۔ پورا کراچی ڈھونڈ مارا ۔ بڑی تلاش بسیار اور پوچھ گچھ کے بعد پتہ چلا کہ ایمپریس مارکیٹ کے پیچھے ایک بہت ہی پرانی کوٹھری نما دکان میں ایک بڑے میاں ایسے کلاک کی مرمت کرتے ہیں۔ سنا تھا کہ وہ ایمپریس مارکیٹ کے اوپر موجود کلاک کی مرمت بھی کیا کرتے تھے۔ تلاش کرتے ان کی دکان تک پہنچے۔ دکان کیا تھی ایک کباڑ خانہ تھی۔ ان کی دکان دیکھ کر مجھے ایسا لگا کہ میں آج سے سو سال پہلے کے کسی زمانے میں پہنچ گیا ہوں۔ ایسی دکانوں کی بلیک اینڈوائٹ دھندلی سی تصاویر آپ بھی یقینا'' فیس بک پر دیکھتے ہونگے جن کے نیچے کچھ ایسا لکھا ہوتا ہے۔
Calcutta- 1907- A watch repairing shop
کاٹھ کباڑ زنگ آلود کلاک، ڈبے برنیاں جار، جن میں جانے کیا کیا پرزے بھرے ہوئے تھے۔ دکان کا دروازہ لکڑی کا دو پٹوں والا۔ روشنی کا واحد ذریعہ دیوار میں چھت کے قریب موجود ایک لوہے کی سلاخوں والا روشندان تھا جس سے سورج کی روشنی چھن چھن کر دکان کے عین درمیان میلے کچیلے فرش پر دھوپ کے قتلے بنا رہی تھی۔ پوری دکان میں مٹی کے تیل اور کچھ پٹرول کی سی بو پھیلی ہوئ تھی۔ دکان میں پرانے کلاکس اور ٹائم پیسز کے علاوہ پرانی گیس لالٹینیں ، مٹی کے تیل سے جلنے والے اسٹووز بھی لٹکے ہوئے تھے ایک دیوار پر انتہائ دھندلا سا گتے کا کیلنڈر بھی لگا ہوا تھا جس پر واٹر بریز کمپائونڈ نامی ٹانک کی بوتل بنی تھی جس پر سن 1965درج تھا۔ ۔ ۔
دکان کی ہر چیز اینٹیک لگتی تھی۔ ایک چھوٹی سی میز پر پرانے توا نما ھز ماسٹر وائس کے گرامو فون والے ریکارڈز کا ڈھیر دھرا تھا۔ جس وقت بڑے میاں کلاک کا معائنہ کر رہے تھے ہم نے سب سے اوپر رکھے ریکارڈ کے اوپر جمی دھول کو پھونک مار کر صاف کرکے اس میں موجود گانے کو دیکھنا چاہا۔ اس پر گانے کے بول چنے جور گرم، گلوکار کا نام ارون کمار مکھرجی، فلم کا نام بندھن اور سن 1940 درج تھا۔ خود دکان کے مالک بڑے میاں بھی 70-80 برس سے کم کے نہیں ہونگے۔ بھاری جسم سفید ڈاڑھی مونچھیں۔ ملگجا سا سفید کرتا پاجامہ۔آنکھوں پر انتہائ موٹے عدسوں والا چشمہ ۔ جب وہ نظر اٹھا کر اوپر دیکھتے تو ان عدسوں کے پیچھے ان کی گول گول ڈیلوں والی آنکھیں عام سائز سے کوئ تین گنا بڑی دکھائ دیتی تھیں جن میں براہ راست دیکھنے سے مجھے تو چکر سا آگیا۔ کلاک کا معائنہ کرنے کے بعد بڑی بے اعتنائ سے بولے کہ میاں ٹھیک ہوجائے گا۔ پندرہ دن بعد لے جانا۔ آٹھ سو روپے لگیں گے۔ ہم تو ان کی دکان میں موجود ایک ایک عجوبے کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے۔ جس میں نہ جانے کیا کیا الم غلم تھا۔ ایسی دکانیں اور اسٹورز آپ نے پزل گیمز میں دیکھے ہونگے جن میں طوطے سے لے کر الو تک، اور سائیکل کے پہے سے لے کر تیر کمان، فیڈر، تولیہ، لالٹین ،پیچکس، پلاس، جھاڑو، تتلی، ڈھول، چھتری، ٹوپی، ڈنڈا، بیٹ، چمگادڑ، گرگٹ، پیزا، چابی، قینچی، مارلن مونرو، بندوق، ماچس، ٹرک، بلی، پیالی، بھونپو، مچھلی، سیب، مرغی ، بھیڑ، گھوڑا، چیتا، شیر، نواز شریف، ریحام خان، شاہ محمود قریشی اور دنیا بھر کی ہر دماغ میں آنے والی اور نہ آنے والی چیزیں آپس میں گڈ مڈ ہوتی ہیں اور آپ کو نیچے لسٹ میں درج دس اشیا کو نام دیکھ کر ان کو اس کاٹھ کباڑ میں تلاش کر کے اس پر کلک کرنا ہوتا ہے۔ ہم تو بس اس کاٹھ کباڑ کے معائنے میں ایسے کھوئے
کہ ہمیشہ سے ایسی قدیم اشیا اور ماحول مجھے اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔
بہرحال پندرہ دن بعد جا کر ککو کلاک لے آئے جو درست ہوگیا تھا۔ بڑے میاں نے کچھ احتیاطی تدابیر بھی بتائیں کہ ایسے رکھنا ہے ایسے لٹکانا ہے ایسے چلانا ہے۔
گھر لا کر ککو کو دیوار سے لگا دیا۔ اس کے بعد کوئ ایک سال کلاک ٹھیک ٹھاک چلا۔ پھر ہماری لاپرواہی سے اس کے لٹکانے والےکون نما ویٹ میں سے دو گم ہوگئے۔ ایک مرتبہ پھر اس ککو کلاک کو لے کر بڑے میاں کی دکان پر پہنچے۔ بڑے میاں نے کہا کہ میاں چھوڑ جائو۔ اگر پرانے سامان میں اس کے ویٹ مل گئے تو لگادیں گے۔ ہم کلاک چھوڑ کر واپس آگئے۔
اس کے بعد کچھ مصروفیات ایسی ہوئیں کہ جانا ہی نہیں ہوا۔ ویسے بھی میرے علاوہ کسی کو اس قدیم ککو کلاک سے کوئ دلچسپی نہ تھی۔ آج پندرہ برس بیت گئے۔ واللہ عالم اب بھی وہ دکان اور بڑے میاں ہونگے یا نہیں۔ شاید بڑے میاں کے کاٹھ کباڑ میں یا دکان کی کسی دیوار پر وہ ککو کلاک بھی لٹک گیا ہوگا اور اپنے مالک کا انتظار کررہا ہوگا۔ بالکل جیسے ایدھی اولڈ ایج ہوم میں اولاد کے دھتکارے بوڑھے والدین ہر روز اس آس پر دروازے کی راہ تکتے ہیں کہ شاید آج کوئ گھر سے ان کو لینے آئے گا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔