فگ ویسپ یا انجیر کی بھڑ ایک کیڑا ہے جس کی مادہ نے انڈے دینے ہیں اور اس کے انڈے دینے کی ایک ہی جگہ ہے۔ انجیر کا پھول۔ اس میں بہت چھوٹا سا سوراخ ہے۔ یہ بھڑ اس میں بڑی مشکل سے داخل ہو گی۔ اس کے پر اور اس کا اینٹینا اس میں داخل ہونے کی کشمکش میں ٹوٹ گئے۔ لیکن یہ اپنے سر کی مدد سے زور لگا کر اندر گھس گئی۔ اندر جا کر اس نے انڈے دئے۔ اس تمام جدوجہد کے بعد یہ مر گئی۔ انجیر میں موجود فیسین نام کی پروٹین نے اس مردہ کیڑے کو ہضم کر لیا۔
انڈوں سے نر کیڑے پہلے نکلے۔ ان کے پر نہیں اور یہ اس پھول کے باہر زندہ نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے مادہ کیڑوں کے لاروا ڈھونڈ کر ان سے جنسی عمل کیا۔ باہر نکلنے کی کوشش کی اور باہر کے لئے سرنگیں بنائیں۔ زیادہ اندر ہی مر جائیں گے۔ اگر کوئی باہر نکلنے میں کامیاب ہو بھی گیا تو زندہ نہیں رہ سکے گا۔ ان کو بھی انجیر کا پودے ہضم کر لے گا۔ اب مادہ کیڑوں کے نکلنے کی باری ہے۔ یہ نر کیڑوں کی بنائی سرنگوں کی مدد سے باآسانی باہر نکل جائیں گی۔ ان کے پر بھی ہیں اور باہر زندہ بھی رہ سکتی ہیں۔ یہ اب اپنی زندگی کا چکر چلانے کے لئے اگلا انجیر کا پھول دیکھیں گی۔ اس دوران اس کا پولن ان کے جسم کو لگ جائے گا۔
انجیر کا پھول نر اور مادہ الگ الگ ہیں۔ ہم مادہ پھل کھاتے ہیں (اس کی ویری ایشن اس سے زیادہ ہے لیکن وہ آپ نیچے کے لنک سے دیکھ سکتے ہیں)۔ یہ سب کچھ نر پھل میں ہوا تھا اور اڑنے والے کیڑوں نے نر سے یہ پولن اکٹھے کئے ہیں۔
پھل میں سوراخ نر میں بھی ہے اور مادہ میں بھی۔ اس بھڑ کو علم نہیں کہ وہ جس میں داخل ہو گی، وہ نر ہے یا مادہ۔ اگر وہ نر ہوا تو بھڑ کی زندگی کا چکر اسی طریقے سے جاری رہے گا۔ اگر وہ مادہ ہوا تو اس میں بھڑ کے انڈے دینے کی جگہ نہیں۔ وہ مر جائے گی اور اپنا پولن اس تک منتقل کر دے گی جس سے انجیر کی زندگی کا چکر جاری رہے گا۔
انجیر کے بغیر اس بھڑ کی زندگی نہیں اور اس بھڑ کے بغیر انجیر کی۔ اس کی وجہ یہ کہ انجیر کے پھول کے پولن اور اووری باقی پھولوں کے برعکس اس کے اندر کی طرف ہے۔ شہد کی مکھیاں یا دوسرے پولینیٹر اس کے پولن نہیں اٹھا سکتے۔ صرف فگ ویسپ اس طریقے سے اندر جا کر یہ کام کر سکتی ہے۔
یہاں پر ایک دلچسپ بات یہ کہ ارسطو نے انجیر سے یہ کیڑے نکلتے دیکھ کر یہ خیال کر لیا تھا کہ یہ خود ہی اس کے اندر جنم کے لیتے ہیں اور یہ اپنی جانوروں کی تاریخ پر اپنی کتاب میں لکھا۔
انجیر اور اس بھڑ کی اس دوستی کی طرح زندگی میں کئی جگہ نظر آتی ہیں اور اس کو میوچل ازم کہا جاتا ہے۔ اس کا آغاز سات سے نو کروڑ سال پہلے کا قصہ ہے اور ان کا باہمی ارتقا (کوایولیوشن) کی ایک مثال ہے۔ اس کی مارفیولوجیکل اور مالیکیولر سٹڈی یہ بتاتی ہے کہ ان کا بدلاؤ اکٹھا اور ساتھ ساتھ ہوا اور جب انجیر کی ہائبریڈائیزیشن ہوئی تو ساتھ ساتھ کیڑوں کی بھی نئی سپیشز بنتی چلی گئیں۔
اس کے بارے میں وکی پیڈیا سے
https://en.wikipedia.org/wiki/Fig_wasp
اس عمل کے بارے میں یوٹیوب ویڈیو
https://youtu.be/ZM17EajwwEY
نئی انواع بننے پر آرٹیکل
https://onlinelibrary.wiley.com/…/…/j.1365-2311.2009.01148.x
باہمی ارتقا پر
https://www.cell.com/current-b…/…/S0960-9822(05)01466-1.pdf…
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔