چند روز پہلے کوئٹہ میں ہوئی اندوہناک دہشت گردی کے واقعے کے ضمن میں مقامی چینلوں پر ایک گیارہ بارہ برس کے بچے کو دھماکے سے پیشتر وکلاء کے درمیان دکھایا گیا ہے جو چینلوں کے مطابق عجیب یا مشکوک حرکات کر رہا تھا۔ ممکن ہے یہ بچہ دہشت گردی کے لیے استعمال کیا گیا ہو، یہ بھی چینلوں کی جانب سے ظاہر کردہ خدشہ تھا۔ بظاہر نہیں لگتا تھا کہ اس بچے کے بدن کے ساتھ دس پندرہ کلوگرام بارود اور لوہے کے ٹکڑے بندھے ہوئے ہونگے، اس دھماکے کی شدت ماہرین کے مطابق اتنے ہی وزن کے مواد کی تھی۔ تاہم ایک بات ضرور کھٹکتی ہے کہ بڑوں کے درمیان صرف ایک بچے کی موجودگی کسی کو کیوں نہیں عجیب نہیں لگی؟ اس کی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ دہشت گردی کی جائے وقوع ہسپتال تھا جہاں کسی کا بچہ بھٹک بھی سکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ کسی بچے میں جستجو اور تجسس زیادہ ہوسکتا ہے جو یہ دیکھنے آ گیا ہو کہ کالے کوٹوں والے زیادہ لوگ کیوں اکٹھے ہوئے ہیں۔ مگر اس میں دو باتوں کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ ہسپتال کے شعبہ ایمرجنسی میں لوگ مریض بچے تو لے کر آ سکتے ہیں لیکن صحت مند بچوں کو عموما" اپنے ساتھ نہیں لاتے، دوسری یہ کہ دہشت گردی کا جو عمومی لائحہ عمل دیکھا گیا ہے وہ یہ کہ پہلے ایک نسبتا" چھوٹا دھماکہ کرتے ہیں جب لوگ مدد کی خاطر اکٹھے ہوتے ہیں تو کوئی خود کش دیشت گرد جو مدد کی خاطر اکٹھے ہوئے لوگوں میں ہی ملا ہوتا ہے خود کو زیادہ زور دار دھماکے کے ساتھ اڑا لیتا ہے یوں بڑا جانی نقصان کیا جاتا ہے۔ وکلاء زیادہ باشعور ہوتے ہیں، وہ خطرات کا زیادہ ادراک رکھتے ہیں لیکن مقامی روایات اور وقتی غفلت نے انہیں احتیاط سے لاپرواہ کر دیا ہوگا۔
فرض کر لیتے ہیں کہ خود کش دھماکے میں مبینہ بچہ ہی استعمال ہوا ہوگا تو سوچنا پڑے گا کہ کونسے بچے ہوتے ہیں جنہیں دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کی خاطر بطور ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک تو وہ بچے ہوتے ہونگے جن کے ماں باپ نہ ہوں یا کم از کم باپ نہ ہو اور خاص طور پر وہ ماں باپ یا باپ جو کاؤنٹر اٹیک میں یا ڈرون حملوں میں مارے جا چکے ہوں کیونکہ ایسے بچوں میں حصول جنت کی آرزو کو ہوا دے کر، انتقام لینے کی خو کو مہمیز دے کر بدلہ لینے اور بہشت نشین ہو جانے کی خاطر جان قربان کر دینے پر آسانی سے راغب کیا جا سکتا ہے۔
دوسری قسم کے بچے وہ ہو سکتے ہیں جنہیں اغوا کیا گیا ہو پھر حسن سلوک کے ساتھ ساتھ تربیت و ترغیب سے "امریکہ کے دوست کفار" کے خلاف جہاد کی خاطر شہید ہو جانے پر مائل کیا گیا ہو۔ گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کے مختلف حصوں سے بچوں کے اغوا کی وارداتیں مسلسل ہونے لگی ہیں۔ بچوں کے اغوا کے سلسلے میں زیادہ زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ بچوں کے اعضاء فروخت کیے جانے کی غرض سے انہیں اغوا کیا جاتا ہے۔ یہ جواز زیادہ قرین قیاس اس لیے نہیں ہے کہ اعضاء کی زیادہ ضرورت بڑی عمر کے مریصوں کو ہوتی ہے جن کے جسموں میں بچوں کے اعضاء کی پیوند کاری کیا جانا بہت سی وجوہ کی بنا پر مناسب نہیں ہوتا۔ یوں زیادہ امکان یہ ہے کہ ان بچوں کو دہشت گردی اور دیگر جرائم میں استعمال کیے جانے کی خاطر تربیت دینے کے لیے اغوا کیا جاتا ہوگا۔ کم عمر بچے اگر مناسب رویے کے حامل ہوں اور ان کا ملبوس مناسب ہو تو ان پر زیادہ شک نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح وہ بہت آسانی سے ہجوم میں شامل ہو سکتے ہیں جیسے مبینہ طور پر فوٹیج میں دکھایا گیا بچہ شامل تھا۔
بچوں کے اغوا سہل ہونے کی وجوہ میں آبادی میں بے مہابا اضافہ ہونا بھی شامل ہے۔ معاشی طور پر غیر اسودہ لوگ ازواج کو اپنی تفریح کا سامان سمجھتے ہوئے مسلسل بچے پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ زیادہ بچوں کی کفالت نہ کر سکنا اپنی جگہ وہ تو ان کا خیال بھی اچھی طرح نہیں رکھ سکتے۔ اس طرح کے لوگوں کے گلیوں میں پھرتے ہوئے بچے زیادہ آسانی سے اغوا کرنے والوں کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
ہر طرح کے تحفظ بشمول بچوں کی سلامتی و نگہداشت کی ذمہ دار ریاست کو ہونا چاہیے لیکن جس ملک میں ریاست کا ڈھانچہ متزلزل ہو وہاں بچوں کی سلامتی اور تحفظ کی بھلا کسے پرواہ ہو سکتی ہے۔ اس ضمن میں ایک آئی جی کا بیان کہ بچوں کا اغواء کوئی اتنا سنگین معاملہ نہیں، اس حقیقت کو مزید آشکار کر دیتا ہے۔ پھر جس ملک میں پولیس کی بیشتر نفری اہم شخصیات کا تحفظ کرنے کے کام میں مصروف ہو وہاں بچوں کے اغواء کی وارداتوں کو بھلا کون کم کر سکتا ہے؟
ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو دہشت گردوں کے پاس پہلے سے تیار کردہ خود کش افراد کا ذخیرہ کم پڑ چکا ہے یا انہوں نے اپنا لائحہ عمل تبدیل کرکے کم عمر بچوں کو تربیت دے کر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ بچوں کو جنگوں میں بطور قاتلوں (سپاہیوں) کے اور ان کے ابدان کو منشیات کی سمگلنگ میں استعمال کیا جانا تو پہلے بھی عام تھا لیکن بچوں کو دہشت گردی میں استعمال کیے جانے کی روش، پہلی بار کچھ ہی عرصہ پیشتر افریقہ میں دہشت گرد گروہ "بوکو حرام" نے اختیار کی تھی۔ لائحہ عمل کی جدت پسندی چونکہ تیسری دنیا کے مجرموں اور دہشت گردوں میں مفقود ہوتی ہے اس لیے شاید یہ رواج اب پاکستان میں بھی فروغ پانے لگا ہے۔
حکومت سے بچوں کا تحفظ کنے جانے کی درخواست کرنا یا اس ضمن میں مناسب اور قابل عمل مشورے دینا ہمیشہ کی طرح بیکار اور بے سود ہوگا چناچہ عوام سے ہی التماس کیا جا سکتا ہے کہ اپنے بچوں کی خود ہی حد درجہ نگرانی کریں تاکہ ان کے جگر گوشہ کو نہ صرف یہ کہ ان سے چھین لیے جانے سے بلکہ انہیں درجنوں بھائی بندوں کو موت کے گھاٹ اتارے جانے کی خاطر قربانی کا بکرا بنائے جانے سی بھی روکا جا سکے۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1478869208805851
“