آپ نے اکثر فلموں میں دیکھا ہوگا کہ جب ایک بڑے کرپٹ مافیا قسم کے سیاسی گماشتے پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو اس کے غنڈے سپورٹرز شہر میں دنگے فساد اور ہڑتالیں شروع کر دیتے ہیں جس سے یہ ثابت کروانا مقصود ہوتا ہے کہ جس بندے کو پکڑا گیا ہے وہ کوئی معمولی شے نہیں بلکہ ایک بلا ہے
اب آئیے ڈالر کی طرف…
عمران خان اور حکومتی نمائندوں کی جانب سے بار بار یہ عندیہ دیا جا رہا ہے کہ کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑا جائے گا. جو بھی کرپشن میں ملوث ہوا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی. جوں جوں ملک کی دولت لوٹنے والوں کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے توں توں سرمایہ کاری رک رہی ہے اور دوسری جانب کرپٹ افراد دھڑادھڑ ڈالر خرید کر روپے کی قدر میں کمی لا رہے ہیں. چونکہ پاکستانی بزنس مینوں کی اکثریت کا سیاست سے بھی تعلق ہے لہزا سٹاک مارکیٹ کو بھی مصنوعی طور پر نیچے گرایا جا رہا ہے.
اگر حکومت سخت اعلانات کرنے کے بجائے آنکھیں موند لیتی اور گزشتہ حکومتوں کی طرح کرپٹ لوگوں کو ملکی دولت لوٹنے کی کھلی چھٹی دے دیتی تو نہ سٹاک مارکیٹ گرتی اور نہ ہی روپیہ کی قدر میں تیزی سے کمی واقع ہوتی.
کچھ دوست بھول پنے میں کہہ دیتے ہیں کہ جناب پچھلی حکومت میں تو سب ٹھیک تھا. ان کی خدمت میں عرض ہے کہ بادام وادام کھائیں اور اپنی یادداشت کو کمزور ہونے سے بچائیں. پچھلی حکومت میں بھی روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہو رہی تھی لیکن اس کی رفتار اب سے تھوڑی کم تھی، وجہ یہ تھی کہ ہمارے مہان وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پراسرار "کاوشوں" سے ڈالر کی پرواز کو لگام دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ ملکی معشیت کو استحکام ملا ہے لیکن ماہر معاشیات بخوبی جانتے ہیں کہ وہ سارا مداری کا کرتب تھا.
باہر سے ادھار پیسا اٹھایا گیا تھا اور کچھ دنوں کے لیے اپنے بینکوں میں رکھا گیا تھا اور مصنوعی ریزور شو کر کے روپے کو تھوڑا ٹھہرایا گیا تھا اور ایسا محسوس کروایا گیا کہ ہماری معیشت بہت بلند جا رہی ہے. جبکہ سب جانتے ہیں کہ اسحاق ڈار اور نواز شریف کے فارغ ہوتے ہی بنک واپس خالی کر دئیے گئے اور پی ٹی آئی کی حکومت کے حلف اٹھانے سے پہلے ہی روپیہ تیزی سے گرنا شروع ہو گیا تھا.
سب جانتے ہیں کہ ملکی خزانہ پی ٹی آئی کی حکومت سے پہلے ہی خالی کر دیا گیا تھا.
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ نیب اور ایف آئی اے جیسے ادارے بڑے بڑے بزنس مینوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں. یہ بڑے سرمایہ دار ہی بینکوں کے سربراہان، بڑی ملوں کے مالکان اور پراپرٹی بزنس ٹائکون ہیں جن کا ملک میں ہر شعبے کے اندر پورا اثرو رسوخ ہے. یہ لوگ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ان پر ہاتھ ڈالا گیا تو ملکی معیشت تباہ ہو سکتی ہے
صورت حال آپکے سامنے ہے. روپے کی گراوٹ کا مصنوعی بحران پیدا کیا جا رہا ہے، حکومت کی اچھی اصلاحات کا دانستہ مذاق اڑایا جا رہا ہے اور اداروں کے ایکشن کو روکنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے.
جو دوست ڈالر کی اٹھان اور پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کو بھارت اور ترکی کی کرنسی کی گراوٹ کے ساتھ جوڑ رہے ہیں وہ میرے حساب سے درست نہیں. بھارت اور ترکی کی کرنسی انکی اپنی معاشی پالیسیوں اور دیگر وجوہات کی وجہ سے گر رہی ہے اس کا پاکستان سے کچھ لینا دینا نہیں.
لہذا پاکستانی ہونے کے ناطے ہم سب کو سوچنا ہو گا کہ ہمیں دو نمبر دانشوروں کی باتوں میں آ کر مایوس ہو کر بیٹھ جانا چاہئے یا حکومت کے جائز اقدامات کو سراہتے ہوئے اس کا ساتھ دینا چاہیے.
میں سمجھتا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی وزیراعظم کو ملک کے لئے اسقدر سنجیدہ اور بے قرار دیکھا گیا ہے اور یہی چیز ہماری آیندہ نسلوں کی راہ متعین کرے گی.
خیر اندیش : آصف وڑائچ 10/10/2018