ڈاکٹر سعادت سعید جدید اردونظم کی روایت میں ایک الگ اور منفرد نام ہے۔ زیادہ تر شعرا اُن کی شاعری کو پڑھے بغیر ہی صفحات پلٹ دیتے ہیں، اس کی وجہ اُن کا Aشاعر کے ساتھ کوئی ذاتی اختلاف نہیں، بل کہ شاعری کی پہلی، دوسری قرات میں سمجھ میں نہ آنا ہے، اور سچ بات بھی یہی ہے کہ اگر ان کی شاعری خود شعرا کو سمجھ نہیں آتی، اور وہ استعمال کردہ الفاظ کے غیرمانوس ہونے کی شکایت کرتے ہیں، تو عام قاری بے چارہ کیا کرے گا۔ اور یہ اعتراض اپنی جگہ بالکل درست ہے، مگر سعادت سعید کو اس بات سے گلہ نہیں ہے۔ اس نے اپنے تخلیقی سفر کی ابتدا سے ہی اپنے لیے الگ راستے کا انتخاب کر لیا تھا اور وہ بغیر کسی تھکان اور اس راستے سے گریز کے، ابھی تک اس پر گامزن ہے۔ اردو ادب کے وہ شعرا جنہوں نے اپنے لیے الگ راستے کا انتخاب کیا، اُن میں سے بہت کم ایسے ہیں جن کو پذیرائی ملی، زیادہ تر وہ ہیں جو اپنا نام اوراپنی پہچان کی مقبولیت سے محروم رہے، مگر انہوں نے اپنا سفر جاری رکھا۔
سعادت سعید نے ادب اور خاص طور پر شاعری کے مروجہ تنقیدی ضابطے یکسر مسترد کر دیے اور ان سے الگ اپنا تنقیدی اور شعری وژن بنایا، اپنے لیے ضوابط طے کر لیے اور پھر اس راستے پر چل نکلا۔ اس کے نزدیک ادب برائے ادب، یا ادب برائے لذت و سکون کے نظریات قابل قبول نہیں ہیں۔ وہ اس بات سے بھی اتفاق نہیں کرتا کہ ادب کسی داخلی بحران کے اظہار کا نام ہے۔ اور نہ وہ یہ ماننے کے لیے تیار ہے کہ ادب جذباتی ابال کے لیے نکاسی کا بندوبست کرتا ہے۔وہ شعور کی رو کے فلسفے کو بھی اسی نوع کے ابال کا نکاس قرار دیتا ہے۔ وہ”سطحیت پسند نظریہ سازوں“سے بھی متفق نہیں ہے کہ ادب اطمینان قلب کی بازیابی کا وسیلہ ہے۔ وہ آورد کو ”صناعی کا نشہ“ اور آمد کو ”غلاظتوں کی ترسیل کا اطمینان“ قرار دیتا ہے۔ اس کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ”حقیقی فن فی الاصل باطنی احتسابی عمل کے نتیجے میں ظہور پاتا ہے“۔ اس کے نزدیک”باطنی احتساب فن کار کے شعور کی صداقیت کا سراغ رساں ہے۔یہ وہ معمار ہے جو تعمیر کی تکمیل اور اس کے بعد تک اپنے نقشوں میں تبدیلیاں کرتا رہتا ہے“۔ اس سارے عمل سے ایک نئی ترتیب تشکیل پاتی ہے جو پہلے سے موجود تشکیلات سے الگ اور منفرد اور معانی ومفہوم میں زیادہ گہری ہوتی ہے۔ فن کار کی ذمہ داری اس تک رسائی ہے۔
وجودیت پرستوں سے پہلے تخلیقی عمل کو آمد اور آورد تک ہی محدود رکھا جاتا تھا۔ شاعر کی آمد کو ایک سطح پر الہام سے ملا دیا جاتا تھا اور تخلیقی عمل کو آسمانی قرار دیا جاتا، زمین سے اس کا براہ راست تعلق نہیں تھا۔ اس کی وجہ دراصل ارسطو کا وہ فلسفہ تھا کہ آسمانوں پر، کہیں عالم بالا میں ہر نقل کی ایک اصل ہے۔ وہ آسمانوں پر موجود شے کو اصل اور اس کی کاپی کرنے والوں کو اس کی نقل قرار دیتا تھا، اور جتنے لوگ یہ نقل تیار کرتے تھے، وہ اس اصل کی ہی کاپی کرتے تھے۔ یہ تصور آسمانی کتابوں اور مذہبی تحریروں کی صورت میں انسانوں کے سامنے موجود رہا ہے جن میں صدیوں کی دانائی اور نسل در نسل انسانی تجربے کے اظہار کی تحریری صورت تھی۔ ایک عرصہ تک حروف تہجی متعارف ہونے کے باوجود، ایسی باتوں کو قلم بند کرنے سے منع کیا جاتا تھا۔ الہام کی یہ صورت انسانوں کی رہنمائی کے لیے قابل قبول رہی۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری سے منع بھی کیا جاتا رہا اور دوسری جانب شاعروں کو عام انسانوں سے بلند تر سمجھتے ہوئے، ان کو خاص مقام بھی دیا جاتا رہا۔شاعروں کے کلام کی اثرپذیری سے کبھی حکمران خائف بھی رہے۔ مگر جب اس تخلیقی علم کو زمین پر بسنے والوں سے جوڑا گیا تو اور طرح کی تخلیقی صلاحیتوں کا متقاضی ہوا۔ انسان کی مہارت اور تخلیقی صلاحیت کو اس کی ذاتی محنت سے جوڑا گیا مگر کہیں نہ کہیں اس صلاحیت کو بالا قوتوں کے ودیعت کرنے کے ساتھ ضرور منسلک کیا جاتا رہا ہے۔تخلیقی اظہار کی دوسری صورت سنگ تراش کی ہے۔ ایک ماہر سنگ تراش جب کسی پتھر یا چٹان کے ٹکڑے کو اپنے تخلیقی اظہار کے لیے منتخب کرتا ہے تو اس پتھر کے ٹکڑے کے اندر کیا پوشیدہ ہے، جسے اس نے باہر نکالنا ہے، یہ سنگ تراش کی آنکھ ہی دیکھ سکتی ہے۔ اور پھر جب وہ اپنی مہارت اور صلاحیت کے بل بوتے پر وہ مجسمہ تیار کرتا ہے، تو اس کی تخلیقی صلاحیتوں کااظہار ہوتا ہے۔ تخلیق کا یہ انسانی عمل، زمینی ہے جسے دیوی دیوتاؤں سے بھی جوڑا جاتا رہا ہے۔سعادت سعید ان دونوں تخلیقی عوامل کو مسترد کرتا ہے۔ اور تخلیق فن کو ”باطنی احتسابی عمل“ کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔
اردو ادب کی موجودہ صورت حال میں زیادہ تر شعرا ایسے ہیں جو پیراسائٹ یا خوشہ چین ہیں، ان کے اپنے کوئی نظریات نہیں، نہ ہی وہ مطالعہ کرتے ہیں، نہ ہی ان کا زندگی کے بارے میں کوئی نظریہ ہے۔وہ خوشہ چینی کرتے ہیں مگر اس طرح کہ دوسروں کو اس کا علم نہ ہو۔ وہ دوسروں کی شاعری میں پیش کردہ خیالات کو پڑھ کر، اسے اپنے اندر جذب کر کے، اسے اپنا تجربہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر کچھ موقعوں پر اسے اس میں کامیابی بھی حاصل ہو جاتی ہے تب بھی یہ تیسرے درجے کا مستعار شدہ تخلیقی مواد ہے جسے اپنے نام سے پیش کیا جاتا ہے، اور چوں کہ شعرا کی کثیر تعداد اس چوری یا خوشہ چینی کے عمل میں شریک رہتی ہے، بار بار ایک جیسی باتوں کو دہرانے سے ایک مانوسیت پیدا ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ایسی شاعری اور ایسے شعرا کو زیادہ داد ملتی ہے۔ وہ مشاعروں کے کامیاب شعرا ٹھہرتے ہیں۔ مگر سعادت سعید کا تعلق شعرا کے اس گروہ سے ہر گز نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ویسی مقبولیت اور قبولیت نہیں مل سکی۔
سعادت سعید کے ہاں بھی شعور کی رو میں بہتے ہوئے احساسات اور خیالات کو تخلیقی سطح پر پیش کیا گیا ہے مگر اسلوب میں الفاظ کے استعمال اور شعری سانچے میں باطنی خود احتسابی کے عمل کے سبب اُن کے ہاں معانی کی ترسیل میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ وہ بار بار یہ بات کرتا ہے کہ شاعری ”سوال اٹھاتی ہے“ مگر اس کی اس بات سے بھی اختلاف بنتا ہے کہ شاعری اگر سوال اٹھاتی ہے تو فلسفے کا کیا کام ہے؟ حقیقت تو یہی ہے کہ فلسفہ سوال اٹھاتا ہے اور پھر اس کے جوابات تلاش کیے جاتے ہیں، دیے جانے والے جوابات کے درست ثابت کرنے کے لیے دلیلیں دی جاتی ہیں مگر شاعری میں ایسا نہیں ہے۔ شاعری تو ایک سامنے کی صورت حال کی پیش کش کا نام ہے، یہ صورت حال ظاہری اور باطنی آنکھ کے سامنے ہو سکتی ہے مگر ایسا ہر گز نہیں ہے کہ شاعری میں شاعروں نے اپنے عصر سے جڑے محض سوالات اٹھائے ہوں۔علامہ اقبال کے ہاں انسانی صورت حال اور اس سے جڑے مسائل کے بارے میں شاعری کی پیش کش میں اسلامی تاریخ ایک خام مواد کے طور پر ساتھ ساتھ چلتی ہے، اس سے علامہ اقبال کو بہت آسانی ہو جاتی ہے۔ ماضی پرستی اور شاندار روایات کے ساتھ انسان کی جذباتی وابستگی رہی ہے، ایسی صورت حال کی پیش کش میں جذباتی ہو جانا،علامہ اقبال کے لیے ایک آسانی پیدا کرتا ہے اور وہ ان بر انگیخت شدہ انسانی جذبات کو ایک مرکزو محور کی جانب انگلی پکڑا کر لے جاتے ہیں۔ مگر سعادت سعید جیسے شاعروں کے سامنے آج کے انسان کی جذباتی، معاشی اور سماجی پیچیدگیوں سے تشکیل پانے والی شخصیت کے بارے میں تخلیقی اظہار بے پناہ صلاحیتوں کا متقاضی ٹھہرتا ہے۔ سعادت سعید نے ایسے ہی انسان کی کثیر الجہاتی صورت حال کے تخلیقی اظہار کی پیش کش کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا ہے۔ اور اس میں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ مگرعلامہ اقبال کی طرح وہ دریافت کے اس سفر میں کئی جگہوں پر تضادات کا شکار بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے ہاں اگر چہ اقبال کی شاعری کا تحرک اور مقصدیت بھی زیریں سطح پر ملتی ہے مگر اپنی شاعری میں وہ کہیں شعور کی رو کے تحت ادھر ادھر نکل جاتا ہے، کہیں وہ نظریاتی وابستگی کے سبب اپنے طے کردہ خود احتسابی کے دائرے سے باہر نکل جاتا ہے۔ اس کے ہاں ”رائیگانی“ اور ”بیگانگی“ کا تصور بھی بار بار ابھر کر سامنے آتا ہے جو بنیادی طور پر وجودیت پسندوں کی تخلیقات کا بنیادی متن رہا ہے۔ اپنی نظم ”خواہشوں کی خواہش میں ضم ہوتی مٹی“ میں وہ آغاز ان لائنوں سے کرتا ہے:”کسی کی چوکھٹ پہ سر جھکاتا رہا میں برسوں / گیا تو پھر لوٹ کر نہ آؤں گا/ آگیا بھی تو وہ نہ پائے گا/ میں نہ آؤں گا“۔
ایک دوسری نظم ”دستاویز(۲) کی یہ لائنیں دیکھئے: ”موت کے زعفرانی ہیولے/ رگوں کے معمر عذابوں میں اترے ہوئے ہیں / تصادم کے پھیلاؤ میں / میری شاداب سوچیں / خزاں یافتہ ریگ ہونے لگی ہیں / دھواں، راکھ، عفریت/ ہونٹوں کی لالی، گلے کی مصفیٰ صداؤں کو / میں نے چنا“۔
سعادت سعید واضح طور پر انتظار حسین کی ماضی پرستی اور ناسٹیلیجیا کو مسترد کرتا ہوا اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ ہمیں اپنے آج میں زندہ رہنا چاہئے، اپنا ماضی کہ جو گزر چکا ہے، اور اپنا حال کہ جو آنے والا ہے، دونوں پر انسان کا کوئی اختیار نہیں، ایسی بے اختیار زندگی، ایسی جبر اور غلامی کی زندگی انسان کے لیے موت ہے۔ ”موجود کا عدم تلاش کرنا اور عدم سے وجود میں آنا، یعنی اپنے آپ کو موجود پانا اور پائی موجودگی میں معدوم ہونا اور پھر اپنے وجود کو پانا، کربناکی کی مستقل صورت ہے“۔ سعادت سعید کے نزدیک ہمارے آج کے عہد کی بدقسمتی ہے کہ اس میں ”ماضی پرستوں اور مستقبلی خواب سازوں“ کی کثرت ہے۔ آج ادب لکھنا لاحاصل عمل نہیں ہے۔ اپنے عہد اور اپنے مسائل کے حقیقی معانی دریافت کرنے کا مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے آج کے انسانوں کو خواب سکھانے والے ادیبوں یا ماضی کی شاندار روایات میں اپنے حال کو غرق کر دینے والے ادیب و شاعر سعادت سعید کی نگاہ میں قابل ستائش نہیں ہیں۔ وہ لکھتے ہیں، ”آئیڈیلزم کی دھند میں خواب دیکھنے اور سوال کرنے والے فنکار خلاؤں میں زندہ رہتے ہیں۔ وہ یا تو ماضی کے کھوٹے سکوں کے بیوپاری بنتے ہیں یا مستقبل کی ناکارہ کرنسی چلانے کے درپے ہوتے ہیں“۔ یہ دونوں صورتیں سعادت سعید کے لیے قابل قبول نہیں، وہ اپنے آج میں زندہ رہنا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے اس کی سوچ صوفیا کے زیادہ قریب چلی جاتی ہے، جو اپنے گزرے وقت پر اس لیے افسوس نہیں کرتے کہ اس پر اب ان کا اختیار نہیں، اور آنے والا وقت اُن کی دسترس میں نہیں، وہ اپنے آج میں، اس لمحے میں زندہ رہتے ہیں، اسی لیے صوفیا کو ”ابن الوقت“ یعنی ”وقت کا بیٹا“ بھی کہا جاتا ہے۔
سعادت سعیدجب اپنے آپ کو عصر موجود سے جوڑتا ہے، تو وہ ترقی پسندوں کے نزدیک ہو جاتا ہے۔ سعادت سعید محض ترقی پسند نہیں، اس کا کینوس اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ وہ عصر موجود میں انسان کی بیگانگی اور رائیگانی کا جب تخلیقی اظہار کرتا ہے تو ترقی پسند انہیں اپنے قبیل میں سے سمجھنے لگتے ہیں، جب وہ علامہ اقبال کی شاعری میں موجود تحرک کی بات کرتا ہے تو وہ ماضی کی شاندار روایات کا پرچار نہیں کرتا، بل کہ اس کی توانائی کی بات کرتا ہے، جو اقبال کی شاعری نے قوم میں پھونکی تھی، مگر اس وقت اقبال پسندطبقہ انہیں دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔حالاں کہ ایسا بھی نہیں ہے۔وہ تاریخی جبریت سے خود کو رہا کرنے اور آزادی پا لینے کو انسان کے تخلیقی عمل کی ذمہ داری قرار دیتا ہے۔ اقبال کی طرح وہ بھی کچھ معاملات میں تضادات کا شکار ہو جاتا ہے مگر اس کا یہ دریافت کا عمل ہے، جس کے مختلف زینے طے کرتے ہوئے وہ تخلیقی اظہار کی منزلیں طے کرتے چلا جاتا ہے۔
سعادت سعید نے ”فنون آشوب“ کے عنوان سے ایک طویل نظم لکھی۔اس کا مقصد بھی دراصل مٹتے اور معدوم ہوتے فنون کا نوحہ نہیں تھا بل کہ اس سے جڑے کئی سوالات اٹھانا تھا۔ فنون کی مختلف صورتوں میں انسانی تخلیقی اظہار کے سوتے پھوٹتے ہیں، سعادت سعید ان سوتوں کی دریافت کے عمل سے گزرتا ہے اور ہمارے سماج، معاش اور سیاسیات پر پڑنے والے اثرات کو پیش کرتا ہے۔ اپنے پہلے شعری مجموعے ”کجلی بن“ میں وہ دنیا کو ایک ایسا ہاتھیوں کا جنگل قرار دیتا ہے، جہاں بہت سی اشیا، ہاتھیوں کے پاؤں تلے روندی جا رہی ہے، اشیا اور عمل کا باہمی تعلق واضح کرتے ہوئے وہ انسانی بے چارگی کے اس منظرنامے کی کئی جہات ہمارے سامنے رکھتا ہے۔ ’اپنے شعری مجموعے ”الحان“ میں اس نے ”صوتی شاعری“ کا ایک تجربہ کیا ہے۔ یہ اس دور کی شاعری ہے کہ جب وہ افتخار جالب کی نئی تشکیلات کی تحریک سے وہ متاثر تھا۔ شاعری ویسے تو اصوات پر ہی بنیاد کرتی ہے اور ر قافیے کی بنیاد بھی”صوت“ پر ہی رکھی جاتی ہے مگر اس مجموعے میں سعادت سعید نے حروف کی تکرار سے ایک نظام وضع کیا ہے۔ اس حرفی تکرار سے نظم کی لائنوں میں ایک صوتی تکرار نغمگی کو جنم دیتی ہے۔ اور اس کا مقصد یقیناًنظم میں غزل کی طرح کی اثر پذیری لانا ہو گا مگر وہ کس حد تک کامیاب ہوا ہے، اس کی یہ نظمیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے۔ اپنی جگہ یہ ایک مشکل کام تھا مگر سعادت سعید نے یہ چیلنج اپنے سامنے رکھا اور اسے کامیابی سے ہمکنار کیا۔وہ نظم کے عنوان کے پہلے لفظ کے پہلے حرف میں اس حرف کا اعلان کرتا ہے اور پھر اس نظم کی لائنوں کے الفاظ میں اس حرف کی تکرار کو جاری رکھتا ہے۔ اس کی نظم ”منتظر تصویر کا نوحہ“ میں حرف ”م“ کا اعلان نظم کے عنوان میں ہوتا ہے۔ اور ”م“ کے حرفی تکرار کو نظم کی ان لائنوں میں دیکھئے:
”تیرگی میری ہمزاد تھی/ خامشی ہم نشیں تھی/ ازل سے ابد تک کا نقشہ مرے سامنے کیسے آتا؟/ مری آنکھ محروم محو جلوہ رہی/ گوشِ مردار میں / گزری باتوں کے ابواب سیمیں انڈیلے گا کوئی / دگرگوں رہے گا / توانا خیالوں سے محروم ہو گا/۔۔۔۔فلک کا دھماکوں سے لبریز کالا بھنور/ اپنی آغوشِ موہوم میں جا چھپا ہے/ تروتازہ امکان کے سلسلے/ اور سمتوں میں ہیں / ایک سکتے کا قصہ ہے گرداں زمیں / یہیں پر اساطیر کی کندنی موت ہو گی۔۔۔۔۔“۔اس طرح حرف ”م“ کی تکرار اس نظم میں مسلسل جاری رہتی ہے۔ ایسا ہی اس کی دیگر نظموں میں اہتمام موجود ہے، وہ نظم کے عنوان میں اس حرف کا اہتمام کرتا ہے اور پھر پوری نظم میں اس حرف کی تکرار جاری رکھتے ہوئے ایک صوتی ردہم تخلیق کرتا ہے۔ ”صوتی شاعری‘‘ کا یہ تجربہ جاری نہ رکھا جا سکا کہ بہت مشکل کام تھا، مگر ”الحان“ کی نظموں کی حد تک سعادت سعید نے اس تجربے کو کامیابی سے نبھایا
ہے۔