صاحبو! سماجی ذرائع ابلاغ کی خوبیاں بھی خاصی ہیں۔ سب سے نمایاں خوبی تو یہی ہے کہ ان کی پیدا کردہ ساری خرابیوں، حتیٰ کہ ’خانہ خرابیوں‘ کی اطلاع بھی یہیں سے مل جاتی ہے۔ جس جس مصلح کو سماجی ذرائع ابلاغ کے استعمال کا جو جو نقصان نظر آتا ہے، وہ اسے سماجی ذرائع ابلاغ ہی پر بیان فرماتا ہے۔ یہاں تک کہ سماجی ذرائع ابلاغ سے دُور رہنے کی ہدایت بھی ہمیں اِنھیں ذرائع سے کی جاتی ہے۔ یہ ایسا بازار ہے جہاں سب کچھ ملتا ہے۔ ذرا کسی ایسی چیز کا تصور فرمانے کی کوشش کیجیے جو سماجی ذرائع ابلاغ پر موجود نہ ہو۔
خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ سماجی ذرائع ابلاغ نے قلم کار اور قاری کے مابین مکالمے کی سہولت مہیا کردی ہے۔ قبل ازیں قلم کار کا سارا کیا دھرا قاری اپنی ہی جان پر سہتا رہتا تھا۔ بے چارہ ’قہر درویش بر جانِ درویش‘ یا ’غریب کا غصہ جورُو پر اور فقیر کا غصہ جھولی پر‘ جیسے محاوروں کا مصداق بنا رہتا۔ کیفیت یہ تھی کہ فضول سے فضول تخلیق بھی جھیلنی پڑتی تھی۔ اُسی زمانے کا ذکر ہے کہ تجریدی مصوری کا ایک ’شہکار‘ ہدیتاً ملنے پر وصول کنندہ نے اپنی بے کسی کا اظہار یوں کیا: ’’مجبوراً تصویر ہی ٹانگنی پڑی، کیوں کہ مصور مجھے ملا نہیں۔‘‘
لیکن اب تو ہر فن کا مداح اور ہر تحریر کا قاری فنکار اور قلم کار کے دائیں بائیں حضرتِ داغؔ بنا دندناتا رہتا ہے سماجی ذرائع ابلاغ پر کہ
جواب اِس طرف سے بھی فی الفور ہو گا
دبے آپ سے، وہ کوئی اور ہو گا
جوابی حملوں کے ساتھ ساتھ اب مثبت مکالموں کی سہولت بھی میسر ہوگئی ہے۔ نوخیز قاری کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئے تو اس کے لیے سوال داغنا سہل ہوگیا ہے۔ ابلاغ یک طرفہ نہیں رہا، دوطرفہ ہوگیا ہے۔ مصنف بھی بخوبی سمجھ گیا ہے کہ اُسے ہی نہیں پڑھنے والوں کو بھی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ کسی تیسرے فریق، مثلاً خواجہ حیدر علی آتشؔ کو اب اپنی قبر سے اُٹھ کرقلم کار کو ڈانٹنے کی زحمت نہیں اُٹھانی پڑتی کہ کم بخت!
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
اب خلقِ خدا کو جو کچھ کہنا ہوتا ہے،آکر سارا فسانہ منہ در منہ سناکر چلی جاتی ہے۔ اب قاری کو زبان بھی مل گئی ہے اور صوتی پیغام کی سہولت بھی۔ قلم نہ سہی تختۂ کلید تومل ہی گیا ہے۔ اس طلسمی تختۂ کلید کی مدد سے قاری کسی کو چابی بھر دیتا ہے اورکسی کے تخت کا تختہ کردیتا ہے۔
اس مارا ماری میں مصنف کو بھی مفت کا مال میسر آگیا ہے۔ اسے بھی گھر بیٹھے اہلِ علم، ماہرینِ فن اوراہلِ تفقہ کی رہنمائی کی بیش بہا دولت ہاتھ آئی ہے۔ اہلِ تفقہ پر یاد آیا کہ پچھلا کالم پڑھ کر محترم مولانا مفتی منیب الرحمٰن نے اس عاجز کے نام ایک فہمائشی پیغام ارقام فرمایا:
’’لگے ہاتھوں ایک کام اور بھی کرلیجیے۔ ’’حاملِ ہٰذا‘‘ میں ’’ہٰذا‘‘ عربی کا ’اسمِ اشارہ قریب‘ ہے۔ اُردو نہیں ہے۔ لہٰذا عبارت یہ ہونی چاہیے: اس وثیقۂ نقدی کے حامل کو بنک دولت پاکستان مطالبے پر ایک ہزار روپے ادا کرے گا۔‘‘
اگر بنک دولت پاکستان ہمارا یہ کالم پڑھ رہا ہو تو اُس سے درخواست ہے کہ وفاقی محتسب کی عدالت سے دی جانے والی مہلت کے ساٹھ دن پورے ہونے (یعنی سٹھیانے) سے قبل اگر ماہرینِ لسانیات مثلاً مولانا مفتی منیب الرحمٰن حفظہٗ اللہ، ڈاکٹر رؤف احمد پاریکھ اور ڈاکٹر معین الدین عقیل وغیرہُم سے رہنمائی حاصل کرلی جائے تو ہم اپنے زرِ کاغذی پر اغلاط سے پاک معیاری عبارت پڑھ سکیں گے۔
اسمِ اشارہ ’ہٰذا‘ کے استعمال کے سلسلے میں حضرت مفتی صاحب نے اپنا انتہائی دلچسپ مشاہدہ بھی تحریر فرمایا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’میں پنجاب میں مدارس کے اشتہارات بجلی کے پول پر لٹکے ہوئے دیکھتا ہوں۔ ان پر لکھا ہوتا ہے: ’’علامہ فلاں پرنسپل جامعہ ہٰذا‘‘۔ اب پتا نہیں ’ہٰذا‘ سے پول مراد ہے یا کیا مراد ہے؟ نیز’ہٰذا‘ اسمِ اشارہ مذکر قریب ہے۔ مدرسہ اور ادارہ اُردو میں مذکر استعمال ہوتے ہیں، جب کہ عربی میں مؤنث ہیں۔ اور ’جامعہ‘ اُردو اور عربی میں مؤنث ہے۔ میں ان سے کہتا ہوں یہ لکھا کرو: علامہ فلاں پرنسپل یا مہتمم یا ناظمِ اعلیٰ جامعہ اسلامیہ وغیرہ‘‘۔
بے شک ’ہٰذا‘ عربی الاصل ہے۔ اسمِ اشارہ مذکر قریب ہے۔ مگر اُردو میں ہٰذا اور لہٰذا کا استعمال اتنا عام ہوگیا ہے کہ ہماری گنہگار آنکھوں نے کوئٹہ کے ایک چہار ستارہ ہوٹل میں ایک کتبہ آویزاں دیکھا (اس کتبے کو دیکھنے ہی سے ہماری آنکھیں گنہگار ہوئی تھیں)، لکھا تھا:
’’ہوٹل ہٰذا میں باہر سے فاحشہ عورت لانا منع ہے، لہٰذا اس سے اجتناب فرمائیں‘‘۔
ہمراہی نے کتبہ پڑھتے ہی طے شدہ فیصلہ بدل دیا۔ وہاں قیام کرنے سے صاف انکار کردیا۔ ہم نے حیران ہوکر وجہ پوچھی تو فرمایا:
’’بین السطور جو دعوتِ گناہ دی جا رہی ہے، ارے میاں! اُسے سمجھنے کی کوشش کرو‘‘۔
ہم خاک کوشش کرتے؟ ہم تو اس کتبے کے ہٰذا اور لہٰذا میں اُلجھ کر رہ گئے تھے۔ یہ الجھن بھی اُلجھائے دے رہی تھی کہ ’فاحشہ‘ کے بعد ’عورت‘ لکھنا ضروری ہے یا غیر ضروری؟ ابھی ہم اسی حیص بیص میں تھے کہ وہ ہمارا بازو پکڑ کر ہمیں گھسیٹتے ہوئے وہاں سے نکل لیے۔
مفتی صاحب مدظلہٗ العالی نے جب مدارس کا ذکر کیا اورجب اس ڈھول کا پول کھولا کہ ’علامہ فلاں پرنسپل جامعہ ہٰذا‘ نے مجبوراً اشتہارات ہی ’بجلی کے پولِ ہٰذا‘ پرٹانگ دیے(غالباً خود کہیں مصروف تھے) تو یہ پڑھ کر ہمیں یاد آیا کہ خاصے دنوں سے عزیزم محمد عثمان یونس، نارووال کا ایک سوال زیر التوا ہے۔ فی الحال یہ عزیز ’ادارۂ تعلیم و تحقیق‘ گلشنِ تعلیم، ایچ۔ 15، اسلام آباد میں زیرِ تعلیم ہیں۔ محمد عثماں یونس یہ جاننا چاہتے ہیں کہ
’’علما/مولویوں نے اُردو کے ارتقا میں کیا کردار ادا کیا؟‘‘
اگرچہ یہ سوال ہمارے کالم کے موضوعات سے مناسبت نہیں رکھتا کہ ان کالموں میں ہم بھی مفتی صاحب محترم کی پیروی میں علما اور ’علّاماؤں‘ کی ’’غلطی ہائے مضامین‘‘ پکڑتے پھرتے ہیں، جب کہ ان کا سوال تحقیقی نوعیت کا ہے۔ اس موضوع پر ’اِدارۂ تعلیم و تحقیق‘ والوں ہی کو تحقیق کرنی چاہیے۔ تاہم اگر خدا لگتی بات کہی جائے تو سچی بات یہی ہے کہ ’تعلیمی زبان‘ کی حیثیت سے اُردو کوآج کل صرف ’’علما اور مولوی‘‘ہی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔گئے زمانے میں جدید عصری علوم، بالخصوص سائنس کے اساتذہ اور ماہرینِ مضمون اپنی علمی تحقیقات اور اپنے سائنسی اکتشافات اُردو میں پیش کیا کرتے تھے۔ آہا! کیسی کیسی نادر کتب ہمارے کتب خانے میں دھری ہوئی ہیں، جن میں سائنس کی تعلیم اُردو اصطلاحات کی مدد سے دی گئی ہے۔ ہر اصطلاح کو پڑھتے ہی مفہوم سمجھ میں آجاتا ہے۔ سمجھ کی باقی کمی اُس اصطلاح کی ’تعریف‘ پڑھ کر پوری ہوجاتی ہے۔ آج کل جدید عصری علوم کی تعلیم دینے والے اداروں میں جو کچھ پڑھا جارہا ہے، جو کچھ پڑھایا جارہا ہے، جو کچھ لکھا جا رہا ہے یا جوکچھ لکھوایا جا رہا ہے، وہ پڑھنے والے کی سمجھ میں آتا ہے نہ پڑھانے والے کی۔ ’نقل وچسپاں‘ کرنے کے شغل کو تعلیم و تحقیق کا نام دے دیا گیا ہے۔ ان تعلیمی اداروں کے کسی طالب علم ہی سے نہیں، کسی اُستاد سے بھی پوچھ لیجے کہ اُن کے پاس علم کا جو ذخیرہ ہے کیا اُس میں سے کوئی ایک بات بھی وہ قوم کے کسی عام فرد کو، کسی مزدورکو، کسی کسان کو یا کم ازکم اپنے خاندان ہی کے کسی کم تعلیم یافتہ فرد کو سمجھا سکتے ہیں؟ تو اُن کے چہرے پر بھی ویسی ہی بے بسی پھیل جائے گی جیسی اس وقت ہمارے چہرے پر پھیلی ہوئی ہے۔ جب کہ ہمارے ’’علما/مولوی‘‘ آج بھی اپنا حاصل کردہ علم، عام آدمی تک اُس کی زبان میں پہنچا رہے ہیں۔ اُس کی اپنی زبان میں، اُس کی قومی زبان میں… خواہ وہ جمعے کا وعظ ہو یا دُور نما کے نشریاتی واسطے سے بلا ناغہ ہر روز موصول ہونے والا، برادرِ عزیز انیق احمد کا ’’پیامِ صبح‘‘۔
اردو زبان میں اسم کی تعریف
۱۔ اسم اسم وہ لفظ ہے جو کسی کا نام ہو۔ اس کی دو قسمین ہین ۱۔ خاص ۲۔ عام...