تین چار روز سے چھائی دھند کا غلبہ کم ہوا اور سورج نے منہ دکھایا تو ہم نے ایک ایسے سکوٹری سفر کا سوچا جس میں دورانِ سفر فطرت، ثقافت، تاریخ و ورثہ سبھی مناظر سے لطف اندوز ہو سکیں۔ ملتان سے مختلف قومی و صوبائی شاہرات پر مختلف سمتوں میں، مختلف شہروں اور مختلف دیہاتوں کی جانب سفر کر چکے ہیں۔ اس بار ایسے سفر کا انتخاب کیا جو مقامی مسافر تو شاید روز مرہ بنیادوں پر کرتے ہوں لیکن سیاحتی نقطہ نظر سے شاید اس روٹ کو نہ اپنایا گیا ہو۔ سدھنائی کینال تعمیر شدہ 1886ء کی ملتان برانچ المعروف نوبہار کینال ہمارے گھر سے بمشکل ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ گوگل میپ سے نو بہار کینال اور سدھنائی کینال کا روٹ دیکھا اور کینال کے ساتھ ساتھ ہیڈ نو بہار سے ہیڈ سدھنائی تک نہر کنارے سفر کا آغاز کیا۔ جس میں انجینیئر سیف اللہ ملتان سے ہمارے ساتھ شامل ہوۓ جبکہ پروفیسر محمد کاشف رانگو ہیڈ ریگولیٹر سے شامل ہوۓ۔
نوبہار نہر کنارے سفر کرتے ہوۓ قادر پور راں کے مشرق میں واقع بستی الور سے گزرے تو نہر کنارے نصب الور کے بورڈ نے ہمیں متوجہ کیا۔ بورڈ کی ڈائریکشن کی جانب نظر گھمائی تو ایک قلعہ نما پر شکوہ بنگلہ دکھائی دیا۔ اگرچہ ہم کچھ آگے نکل چکے تھے لیکن اس دیدہ زیب عمارت کا منظر ہمیں واپس کھینچ لایا۔ اتفاقاً اسی وقت ایک جیپ صدر دروازہ پر آکر رکی، دروازہ کھلا اور گارڈ سے تعارف کے بعد جیپ اندر داخل ہو گئی۔ سیف بھائ سے کہا کہ ہم بھی یہ عمارت دیکھتے ہیں۔ سیف بھائی نے کہا چھوڑیں مزمل بھائی یہ کسی کی ذاتی رہائش معلوم ہوتی ہے، کوئی کسی انجان کو اپنے گھر میں کیوں داخل ہونے دے گا۔ سیف بھائی ہمارے نۓ سیاح دوستوں میں سے ہیں اور ورلڈماؤنٹین ڈے فورٹ منرو بائیک ٹور کے بعد یہ نہر گردی والی ہمارے ہمراہ انکی دوسری رائیڈ تھی لہذا وہ ہمارے تاریخ و ورثہ کی کھوج کے اس جنون سے اتنے واقف نہ تھے۔ ہم نے سیف بھائی سے عرض کی کہ جن صاحب نے جنگل میں منگل کا ساماں کیا ہوا ہے وہ یقیناً کوئی باذوق شخصیت ہو گی۔ ہم کوشش کرتے ہیں اگر اجازت مل گئ تو ٹھیک ورنہ آگے اپنی منزل کیجانب بڑھتے ہیں۔
ملاقاتی کی جیپ اندر داخل ہوئی اور گارڈ دروازہ بند کرنے لگا تو ہم نے آگے بڑھ کر گارڈ سے بات کی اور اس خوبصورت عمارت کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ گارڈ نے بنگلہ کے سیکرٹری کو بلایا۔ انہیں تعارف کرایا گیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ بنگلہ ایک ریٹائرڈ کرنل صاحب کی رہائش گاہ ہے، صاحب بھی موجود ہیں، ان سے پوچھ کر عمارت دیکھ سکتے ہیں۔ کچھ دیر میں ہم عمارت کے اندر موجود تھے۔ خوبصورت مہمان خانہ کے سامنے واقع لان میں اس بنگلہ کے مالک جیپ میں آنیوالے ایک بزرگ سے ملاقات میں مصروف تھے۔ سلام و مختصر تعارف کے بعد کرنل صاحب نے سیکرٹری کے ہمراہ ہمیں بنگلہ دیکھنے کو کہا تاکہ وہ اتنی دیر پہلے آنے والے ملاقاتی کو وقت دے سکیں۔
الور بنگلہ نو بہار نہر کے کنارے کنوں، آم اور دیگر لہلہاتی فصلوں کے درمیان ایک کچی چاردیواری کی حدودو میں واقع ہے۔ صدر دروازہ سے داخل ہوتے ہی بائیں جانب مہمان خانہ ہے جبکہ دائیں جانب فارم ہاؤس ہے۔ بنگلہ کی دیواروں کو قلعہ کی فصیل کی شکل دی گئی ہے جبکہ برامدے کی دیواروں میں محرابیں تعمیر کی گئی ہیں۔ دیوار کی چنائی کرتے ہوۓ درمیان میں کچی اینٹ اور بیرونی جانب پختہ اینٹیں استعمال کی گئ ہیں۔ اس وجہ سے گرمیوں میں بھی یہ عمارت ٹھنڈی رہتی ہے۔ بنگلہ کے سامنے خوبصورت باغیچہ ہے۔ بنگلہ کی طرز تعمیر میں خوبصورتی، سادگی اور قدیم تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے۔ بنگلہ کی چھت سے گرد و نواح کا نظارہ کرنے کے لیے اندر داخل ہوۓ تو اندر بھی سادگی اور نفاست دیکھنے کو ملی۔
داخل ہوتے ہی کرنل صاحب کا پورٹریٹ اور انکی یونٹ کا فلیگ سجایا گیا ہے۔ دیواروں پر مختلف پینٹنگز، لینڈ سکیپ وغیرہ نصب ہیں۔ یہاں چولستان کے تاریخی ورثہ کہ تصاویر بھی نظر آئیں جو کہ صاحبِ خانہ کے ذوق کا مظہر ہیں۔ چھت پر خوبصورت پالتو بلیوں نے استقبال کیا۔ بالائی منزل سے خوبصورت مناظر عکس بند کرنے کے بعد نیچے لان میں کچھ عکاسی کی اور پھر کرنل صاحب سے ملاقات کے لیے پہنچے۔ باغیچہ میں چمکتے دمکتے نارنجی کنوؤں کو دیکھ کر سیف بھائی کا دل للچایا، انکے اندر کا بچپن جاگ اٹھا اور کنوں توڑ کر کھانے کی خواہش ظاہر کی۔ ہم نے عرض کی بھیا پہلی ملاقات کا بھرم رکھ لو لہذا وہ اس طفلانہ حرکت سے باز رہے۔ اب تک ہم صرف کرنل صاحب کا نام ہی جان سکے تھے۔ تفصیلی ملاقات میں آپکی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو جاننے کا موقع میسر آیا۔
کرنل نیئر سجاد صاحب پاکستان آرمی سے ریٹائر ہوئے۔ قادر پور راں کی نواحی بستی الور سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپکا تعلق راں فیملی سے ہے۔ بنیادی طور پر زمیندار خاندان ہے۔ پاک آرمی سے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے اربن لائف کی بجاۓ اپنی مٹی کی محبت میں اپنے آبائی علاقہ میں ہی رہنا پسند کیا۔ آپ ملتان پبلک سکول کے پرنسپل رہ چکے ہیں جبکہ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں بھی درس و تدریس کے فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔ کچھ عرصہ ڈی ایچ اے میں انتظامی امور سنبھالنے کے بعد آجکل ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد مطالعہ اور فوٹوگرافی کے ذوق پر توجہ دے رہے ہیں۔ الور نام کی وجہِ تسمیہ پوچھنے پر بتایا کہ اس بنگلہ کو اس بستی کے نام پر ہی الور کا نام دیا گیا ہے۔ کرنل صاحب کی تحقیق کے مطابق الور جین مت کی کسی دیوی کا نام ہے۔ کسی دور میں الور میں شمشان گھاٹ ہوا کرتا تھا۔ غالب گمان ہے کہ اس دیوی کے نام سے متاثر ہو کر اس بستی کا نام الور رکھا گیا ہو۔ کرنل صاحب نے ہمیں گرد و نواح کے کچھ اور تاریخی مقامات کا بھی بتایا۔ ہمارے موٹر بائیک ٹوارزم اور فوٹوگرافی کے ذوق کا سن کر بہت خوش ہوئے اور حوصلہ افزائی کی۔
سیف بھائ نے پوچھا کہ آپ نے اسلام آباد، لاہور یا ملتان میں ہی کسی پوش کالونی کی بجاۓ یہاں دیہات میں رہنا کیوں پسند کیا۔ اس پر آپ نے رب تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوۓ کہا کہ اس سے اچھی رہائش کیا ہو سکتی ہے کہ میں تازہ ہوا میں سانس لیتا ہوں، چرند و پرند کی آوازیں سنتا ہوں، سردیوں میں دھوپ کے مزے لیتا ہوں، گرمیوں میں تاروں بھرے آسماں کا نظارہ کرتا ہوں، چاندنی رات سے محظوظ ہوتا ہوں۔ نہر کنارے چہل قدمی کرتا ہوں اور دائیں بائیں فطرتی و ثقافتی مناظر سے آنکھوں کو سیراب کرتا ہوں۔ شام کو ڈیرہ آباد ہو جاتا ہے اور دوست یار اکھٹے ہو کر گپ شپ لگا لیتے ہیں۔ واقعی ہمیں یہ سب جان کر بے حد خوشی ہوئی۔
چاۓ کے بعد کرنل صاحب کے ساتھ کچھ تصاویر بنائیں اور ہیڈ سدھنائی کا سفر جاری رکھنے کی اجازت طلب کی۔ آپ نے ظہرانہ کے لیے بہت اصرار کیا چونکہ ہمیں ابھی کافی سفر طے کرنا تھا اور پروفیسر کاشف صاحب رانگو ہیڈ پر ہمارا انتظار فرما رہے تھے لہذا شکریہ ادا کر کے روانگی کی تیاری شروع کی۔ کرنل صاحب نے شام اور رات کے وقت میں بنگلہ کی فوٹوگرافی، دیسی مرغ اور الور کی مشہور دال سے ضیافت کے لیے کسی روز دوبارہ مدعو کیا ہے۔ ان شاءاللہ ضرور حاضر ہوں گے۔ اس شفقت بھری ملاقات پر ہم کرنل نیئر سجاد صاحب کے شکر گزار ہیں،آپ کے لیے ڈھیروں دعائیں، اللہ تعالیٰ آپکا ڈیرہ آباد رکھے۔ آمین۔