آزادی ، ایک ایسی چیز ہے جسے خریدا نہیں جاسکتا بلکہ اپنے زورِ بازو پر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔۔۔ دنیا میں اکثریت ریاستوں اور ممالک نے طویل جدوجہد ، سخت حالات اور لاکھوں قربانیوں کے بعد آزادی کی نعمت کو اپنے نام کیا۔۔۔۔۔ انہی میں سے ایک ہے "شیشان” . جسے 1994 سے لے کر 2009 تک 2 خونریز جنگوں اور بےشمار قربانیوں کے بعد آزادی کی دولت نصیب ہوئی۔
اس سیریز میں ہم تحریکِ آزادی ِ شیشان پر روشنی ڈالیں گے۔
۔
تعارف :
شیشان Chechnya، قفقاز میں واقع ریاست ہے جس کی سرحدیں تین اطراف سے روس اور چوتھی سمت سے جارجیا سے ملتی ہیں۔۔۔ اس کا رقبہ 17,300 مربع کلومیٹر اور آبادی 1,395,678 ہے۔
شیشان کا دارالحکومت ‘گروزنی’ ہے۔ یہاں شیشانی اور روسی کو قومی زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔
شیشان کی کرنسی نزار Naxar. موجودہ صدرِ مملکت "رمضان قادروف” ہیں۔
قومیت کے اعتبار سے شیشان کی 67٪ آبادی شیشانی ، 23٪ روسی جبکہ 10٪ یوکرینی ، آرمینی اور دیگر اقوام پر مشتمل ہے۔
مذہب کے اعتبار سے 95٪ مسلمان جبکہ 5٪ میسیحی و دیگر مزاہب پر مشتمل ہیں۔
۔۔۔
پسِ منظر :
ہزاروں سال سے قفقاز ایک آزاد خطہ رہا ہے جو وقتاً فوقتاً مختلف طاقتوں کی طرف سے دراندازی اور عارضی قبضوں سے گزرتا رہا ہے جن میں سلطنتِ روم، سلطنتِ فارس اور سلطنتِ عثمانیہ سرفہرست ہیں۔
17ویں صدی میں "شمالی قفقاز” ایک آزاد ریاست تھی اور شیشان اسی کا حصہ تھا۔
1922 میں سوویت اتحاد نے قفقاز پر قبضہ کرلیا اور اسے سوویت اتحاد کا حصہ بنا لیا۔
1941 میں جب جرمنی نے روس پر حملہ کیا تو اس مہم کے دوران جولائی 1942 میں قفقاز پر بھی حملہ کیا لیکن اس مہم میں جرمنوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔۔لیکن قفقازی عوام جو برسوں سے روسی کمیونسٹ بربریت تلے دبی تھی انہوں نے کسی حد تک اس مہم کے دوران جرمنوں کا ساتھ دیا۔
چنانچہ جرمن افواج کی شکست کے بعد روس نے قفقاز بالخصوص شیشان میں شیشانیوں کو دشمن اور غدار قرار دیتے ہوئے ان پر وہ بھیانک مظالم اور منظم نسل کشی جیسے جرائم مسلط کیے جوکہ وہ پہلے یوکرین اور بالٹک ریاستوں میں کرچکے تھے۔۔۔۔اب یہاں سے شیشان-روس تنازعہ کا آغاز ہو جاتا ہے۔
1990 کی دہائی کے آغاز میں سوویت اتحاد انتہائی مخدوش حالات کا شکار تھا ۔ افغان-سوویت جنگ میں تاریخی شکست کے بعد سوویت معیشت اور سالمیت ہر گزرتے دن کے ساتھ زوال کا شکار تھیں ۔۔۔
1991 میں سوویت اتحاد کا سقوط ہوگیا اور ایک کے بعد ایک سوویت ریاستوں نے آزادی کا اعلان شروع کردیا۔
اس موقع پر قفقاز کا علاقہ خاص طور پر تناؤ اور کشیدگی کا مرکز تھا۔۔۔دیگر ریاستوں کے ساتھ ساتھ شیشان نے بھی روس سے آزادی کا اعلان کردیا۔
۔
ستمبر 1991 میں شیشانی لیڈر اور روسی فوج کے سابق جنرل "زوخار دوداف” Dzhokhar Dudayev نے ایک مسلح بغاوت کے زریعے شیشان کی کمیونسٹ حکومت کا تختہ پلٹ دیا اور نئے آزاد ملک Chechen Republic of Itskeria کا اعلان کردیا۔
لیکن۔۔۔سویت اتحاد کے سقوط کے بعد نئے روس نے شیشان کی آزادی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور شیشان کو اپنا ہی حصہ قرار دے دیا۔
لیکن روس اس وقت سخت معاشی اور سیاسی بحران کا شکار تھا اس لیے انہوں نے فوری طور پر اس مسئلے کے حل کے لیے کچھ نہ کیا بلکہ اپنی نئی حکومت کو مستحکم کرنے میں مگن رہے۔
۔۔
لیکن۔۔۔شیشان پر سے روسی حکومت کے خاتمے کے بعد شیشان میں آباد وہ لاکھوں روسی جوکہ سوویت دور میں وہاں آباد کیے گئے تھے اور شیشان میں صنعت سمیت کئی ایک شعبہ جات سے منسلک تھے انہوں نے نئی ریاست کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے بھاری تعداد میں شیشان سے انخلاء اور روس کی طرف ہجرت کا سلسلہ شروع کردیا ۔ نتیجتاً شیشان کی سرزمین لاکھوں تعلیم یافتہ اور ہنر یافتہ افراد سے محروم ہوگئی جس کا اثر صنعت ، تعلیم سمیت سبھی شعبہ جات پے پڑنے لگا۔
گویا اب آزاد ریاست شیشان بھی روس کی طرح معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہونے لگی۔
نئی بننے والی زوخار حکومت کو اب اپنے ہی ملک میں نئی اپوزیشن کا سامنا تھا اور حکومت و اپوزیشن کے درمیان تناؤ کافی سنجیدہ تھا۔
۔۔
شیشان میں ابل رہے سیادسی تناؤ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 1992 میں روسی حکومت نے شیشان میں مداخلت کا فیصلہ کیا کیونکہ شیشان کی سرزمین تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔
روس نے اپوزیشن کو بھاری فنڈنگ اور اسلحہ کی فراہمی کا آغاز کردیا تو دوسری طرف شیشان کے لیے اپنی سرحدیں سختی سے بند کرتے ہوئے شیشانی حکومت کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا۔۔۔۔ساتھ ہی۔۔۔۔روس نے اب سادہ لباس میں اپنی افواج کو بھی شیشان میں داخل کرنا شروع کردیا ۔
۔۔
1993 بغاوت :
دسمبر 1993 میں اپوزیشن کی صفوں میں موجود ہزاروں روسی فوجیوں ، باغیوں اور اپوزیشن عناصر نے شیشانی حکومت کا تختہ پلٹنے کے لیے ایک خونریز مسلح بغاوت چھیڑ دی۔۔۔۔ لیکن شیشانی فوج نے زبردست مزاحمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بغاوت کا منہ موڑ دیا ۔
سینکڑوں روسی فوجیوں کو گرفتار کرلیا گیا اور پھر گروزنی میں عوام کے سامنے ان کی پریڈ کروائی گئی تاکہ روس کو باور کرایا جا سکے کہ ان کی سازش ناکام ہوچکی ہے۔
غصے میں جل رہے روس نے زوخار کو "آخری وارننگ” دی کہ وہ اپنی نئی ریاست اور حکومت سے منحرف ہو جائے بصورت دیگر اب کی بار روس شیشان پر حملہ کردے گا۔
زوخار نے روسی صدر یلٹسن کی فون کال کو اطمینان سے سنا اور آخر میں "ایک لفظ” کہہ کر فون رکھ دیا۔۔۔اور وہ لفظ تھا нет (نہیں).
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلیِ جنگِ شیشان First Chechen War :
11 دسمبر 1994 کو روسی طیاروں نے گروزنی پر انتہائی خوفناک بمباری کا آغاز کردیا۔۔۔۔ساتھ ہی تین اطراف سے روسی افواج شیشان میں داخل ہوگئیں۔
نظر ڈالتے ہیں طرفین کی عسکری طاقت پر :
1- روس۔
فوجی ۔۔۔۔۔ 70000
باغی اور اپوزیشن عناصر۔۔۔۔ ہزاروں۔
ٹینک۔۔۔500
جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹر۔۔۔100
جنگی گاڑیاں۔۔۔2000
۔
2- شیشان۔
فوجی۔۔۔۔ 7000
عرب، افغان ،پاکستانی مجا••ہدین۔۔۔500 سے 1000.
ٹینک۔۔۔50
جنگی گاڑیاں۔۔۔30
طیارے اور ہیلی کاپٹر۔۔۔۔0
۔
شیشان پر براہِ راست حملہ کرکے روس ٹھیک وہی غلطی دہرانے جارہا تھا جس کا ارتکاب وہ افغا••نستان پے حملہ کرکے کر چکا تھا۔
قفقاز بھی افغا••نستان کی طرح ، سنگلاخ پہاڑوں سے گھرا ہوا ایک دشوار گزار نیم جنگلی خطہ ہے جو کہ دفاعی جنگ کے لیے موزوں ترین اور اقدامی جنگ کے لیے بدترین مقام ہے۔
شیشان کے پاس محض 7 ہزار فوجی تھے ۔ زوخار نے اس فوج کو چند سو کے خودمختار گروپس میں تقسیم کرتے ہوئے شیشان کے مختلف اہم خطوں کی حفاظت پر مامور کردیا ۔۔۔ ہر گروپ ، سینٹرل کمانڈ کے بجائے آزادانہ طور پر لڑتے ہوئے اپنے مختص علاقے کا دفاع کرسکتا تھا ۔
دوسری طرف گروزنی کی حفاظت پر 1 ہزار شیشانی فوجی تعینات تھے ۔۔۔ لیکن۔۔۔ طیارہ شکن اسلحے کی کمی کی وجہ سے وہ چوبیس گھنٹے گروزنی پر حملہ آور روسی بمبار طیاروں کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے ۔
اس بمباری میں ہزاروں شہری جاں بحق ہوئے۔۔۔
روسی زمینی دستے جب شیشان میں داخل ہوکر گروزنی کی طرف پیش قدم ہوئے تو انہیں جگہ جگہ شیشانی فوج کی طرف سے زبردست اور جان لیوا مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔
۔۔۔
معرکہِ گروزنی :
1 جنوری 1995 کو روسی افواج نے پوری طاقت کے ساتھ گروزنی پر حملہ کردیا جس کاچپہ چپہ پہلے ہی روسی فضائی حملوں اور توپخانے کی بمباری سے تباہ حال تھا۔
اس معرکہ میں 60 ہزار روسی فوجیوں کا سامنا 1 ہزار شیشانی فوجی ، اور چند سو والنٹیئرز کررہے تھے۔
گروزنی کے دفاع کے لیے زخار نے ان ایک ہزار سپاہیوں کو 50 سے 100 کے گروپس میں شہر کے مختلف زونز میں تعینات کردیا تھا۔۔۔۔ وہ بھاری مقدار میں ٹینک شکن اسلحے ، مارٹرز ، مشین گنز کے علاؤہ چند عدد ملٹی راکٹ لانچرز سسٹمز اور کچھ توپخانے سے بھی لیس تھے۔
روسی ٹینک اور جنگی گاڑیاں جب فتح کے نشے میں گروزنی میں داخل ہوئیں تو گروزنی کی ایک ایک گلی ، چوک، چوراہے سے ان پر آتش و آہن کی بارش برس پڑی۔
شہر کی تنگ گلیاں اور راستے روسی ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کا قبرستان بن گئے۔۔۔
جنگ کے پہلے چند روز میں ہی 62 روسی ٹینکوں اور 163 جنگی گاڑیوں کو مدافعین نے تباہ کرتے ہوئے 2000 روسی فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور 100 سے زائد روسی فوجیوں کو گرفتار کرلیا گیا ۔
نتیجتاً شکست خوردہ روسیوں نے وہی تکنیک اپنائی جوکہ وہ اس سے قبل جرمنی اور افغانستان میں اپنا چکے تھے ۔۔۔۔۔ یعنی تباہ کن فضائی بمباری اور متواتر آرٹلری شیلنگ سے شہر کے ایک ایک انچ کو تباہ کردیا جائے۔
چنانچہ گروزنی میں بھی یہی ہوا ۔۔۔
مدافعین کو یہ بات سمجھ آ چکی تھی کہ اب اگر وہ گروزنی میں ڈٹے رہے تو روسیوں کا تو کوئی نقصان نہ ہوگا کیونکہ روسی فوج گروزنی سے پسپا ہوچکی تھی ۔۔۔۔ البتہ اس متواتر بمباری اور شیلنگ سے گروزنی کے عوام کا نقصان ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتا چلا جائے گا ۔
چنانچہ۔۔۔۔18 جنوری 1995 کو شیشانی فوج کے کماندار "اسلان مسخدوف” نے گروزنی سے پسپائی کا فیصلہ کیا۔
اور ہوں روسی فوج "فاتح” بن کر گروزنی کے "کھنڈرات” پر قابض ہوگئی۔
اب شیشانی فوج قفقاز کے پہاڑوں سے روس کے خلاف گوریلہ جنگ کا آغاز کررہی تھی۔۔
اگلے کئی ماہ تک شیشانی فوج گوریلہ طرز پر روسی فوج کے دستوں ، قافلوں ، چیک پوسٹوں اور دیگر مراکز پر خونریز حملے کرتی رہی جس میں روسی فوج کو یومیہ بنیاد پر بھاری جانی نقصان جھیلنا پڑرہا تھا۔
جس کے جواب میں روسی فوج "روسی روایات” کے عین مطابق شیشان کے عوام پر اپنا غصہ نکالنے میں مگن تھی۔
اسی دوران شیشان کے مفتیِ اعظم "احمد قدیروف” نے فتویٰ دیا کہ روس کے خلاف مزاحمت "جہا••د” ہے جس میں پوری دنیا کے مسلمانوں کو حصہ لینا چاہیے۔
گروزنی پر برپا کی گئی قیامت اور ہزاروں شہریوں کے قتلِ عام سے پوری مسلم دنیا میں پہلے ہی روس کے خلاف سخت غم و غصے کا سماں تھا۔
جس کے بعد ایک طرف جہاں عرب ممالک ، افغانستان، پاکستان اور یورپ سے سینکڑوں افراد نے شیشان میں بطورِ مجا••ہد والنٹیر کیا وہیں عرب ممالک کی طرف سے شیشانی مزاحمت کو انتہائی بھاری فنڈنگ فراہم کیے جانے کا بھی آغاز ہوگیا۔
اس نئے ابھرنے والے محاذ کی کمان مشہورِ زمانہ شیشانی کماندار "شامل بساف” المعروف "امام شامل” کے ہاتھ تھی ۔ جوکہ ایک انتہائی تجربہ کار اور گوریلہ جنگ کا ماہر کمانڈر تھا۔
۔
روس میں جھڑپیں:
محاذ سنبھالتے ہی شامل نے اس جنگ کی حدود روس کے اندر تک وسیع کردینے اور روس پر دباؤ بڑھانے کی خاطر اندرونِ روس حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
14 جون کو شامل اور اس کے ساتھی روسی فوج سے چھینی جنگی گاڑیوں میں، روسی فوج کی وردیوں میں روسی فوج سے چھینے اسلحے سمیت خود کو روسی ظاہر کرتے ہوئے شیشان سے اندرونِ روس کے علاقے سٹاروپول میں داخل ہوئے اور وہاں کے مرکزی پولیس سٹیشن پر حملہ کردیا ۔۔۔ وہاں موجود سب پولیس اہلکاروں کو قتل کرنے کے بعد انہوں نے عمارت پر شیشان کا پرچم لہرا دیا۔
جس کے بعد انہوں نے Budyonnovsk شہر کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں داخل ہوکر اس پر قبضہ کرتے ہوئے وہاں موجود 1800 افراد کو یرغمال بنا لیا اور روسی حکومت کے ساتھ 2 شرائط رکھیں:
اول- کہ روس فوری طور پر شیشان کے ساتھ جنگ بندی کر لے۔
دوم- مذاکرات کی میز پر آئے۔
لیکن روسی حکومت نے ہر دو شرائط ماننے سے انکار کرتے ہوئے ہسپتال کو بازیاب کروانے کے لیے ایک کمانڈو آپریشن لانچ کردیا۔۔۔۔ اس آپریشن میں 140 افراد مارے گئے اور 415 زخمی ہوگئے ۔۔۔ لیکن ہسپتال کو بازیاب نہ کروایا جاسکا ۔ شامل اور اس کے ساتھی ابھی بھی وہاں ڈٹے تھے۔
18 جون 1995 کو روسی حکومت نے ہار مان لی اور شامل کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کرنے پر آمادہ ہوگئے۔۔۔۔شامل نے ہسپتال پر قبضہ ختم کردیا اور واپس شیشان لوٹ گیا۔
لیکن۔۔۔۔
یہ سیزفائر ایسے غیر فطری حالات میں ہوا تھا کہ اس کا پوری طرح سے موثر ہونا ناممکنات میں شامل تھا۔
کیونکہ ۔۔۔ روس نے فوری جنگ بندی پر تو آمادگی ظاہر کردی تھی لیکن شیشان سے روسی افواج کے انخلاء پر معاملات فائنل نہیں ہوسکے تھے۔
چنانچہ روسی فوج گروزنی میں موجود رہی ، زوخار حکومت روپوشی کی حالت میں رہی اور شیشان کے پہاڑوں میں مجاہدین بھی متحرک رہے۔۔۔۔اور ایسے حالات میں جھڑپیں ہونے سے کون روک سکتا ہے۔۔۔اور اس طرح روزانہ کی بنیاد پر چھوٹی موٹی جھڑپیں چلتی رہیں۔
ادھر روس میں عام انتخابات کا وقت قریب آرہا تھا اور صدر یلٹسن کو اپنی انتخابی مہم کے لیے شیشان میں "فتح” کی ضرورت تھی۔
۔
صدر زوخار کا قتل:
21 اپریل 1996 کو روس نے شیشان کے روپوش صدر "زوخار دوداف” کے خفیہ ٹھکانے کا پتا چلا لینے کے بعد وہاں ایک میزائل حملہ کردیا جس میں زوخار جاں بحق ہوگئے ۔۔۔۔ اور یلٹسن نے شیشان میں "فتح” کا اعلان کردیا۔
زوخار کی موت کا بدلہ لینے کی خاطر شیشانی افواج اور مجاہدین نے پوری قوت سے گروزنی پر حملہ کردیا ۔۔۔ جہاں روسی فوج کی تعداد میں کافی کمی کی جاچکی تھی ۔
گروزنی میں اب بھی موجود ہزاروں روسی فوجیوں کو شیشانی فوج نے موت کے گھاٹ اتار دیا اور کئی روسی فوجیوں کو گرفتار کرلیا گیا ۔
گروزنی پھرسے شیشانی افواج کے کنٹرول میں آچکا تھا۔
اگست 1996 میں شیشان میں باقی بچی روسی افواج نے بھی شیشان سے ۔۔۔ اور اس طرح اس جنگ کا اختتام ہوگیا۔
۔
نقصانات :
1- روس ۔
14 ہزار سے زائد فوجی ہلاک اور گرفتار۔
17 ہزار فوجی زخمی۔
150 سویلینز قتل۔
۔
2- شیشان:
5622 فوجی اور مجا••ہدین جاں بحق۔
40 ہزار سویلینز جاں بحق۔
5 لاکھ سویلینز بےگھر ۔
لیکن یہ جنگ شیشان کی واحد جنگ نہ تھی 1999 میں روس نے پھر سے شیشان پر حملہ کردیا ۔۔۔
بھارت کو بھی ہندو ریاست ہونا چاہئے تھا
اروند سہارن کے ساتھ ایک ویڈیو بلاگ میں، میں نے یہ بات کہی تھی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اس...