فکشن کی تاریخ بہت پرانی ہے جب پہلے پہل کسی نے کوئی واقعہ گھڑا ہو گا تو وہ لازماً فکشن کی ابتدا ہوگی ۔ یہ الگ بات کہ اس کا باقاعدہ سراغ ایک باقاعدہ اور منظم تخلیق سامنے لانے والے کو اس کا بانی تصور کیا جائے گا ( جیسے ہومر ) ۔ مگر اس سے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ کوئی فرد واحد کسی بھی صنف اور ایجاد کا ذمہ دار ہونا لازم نہیں ۔ اس سے پہلے کئی گمنام کڑیاں ہماری نظروں سے اوجھل رہتی ہیں ۔ جو تاریخ کے تاریک زندان سے شاید کبھی باہر نہیں نکلتیں ۔ فکشن نے گزشتہ دو صدیوں میں ناقابل ِ یقین سرعت کے ساتھ اپنی دریافتوں اور ایجادات میں اضافہ کیا ہے ۔ کسی کی طرف سے کوئی نئی ڈیوائس متعارف ہوئی تو کہیں کافکا جیسے تخلیق کار نے فکشن کی حیرت انگیز صنف میں تخلیق کر کے اس کی وسعتوں میں موجود حیران کن جزائر اور اس میں بیان کی ناقابل ِ یقین اور پر اثر جہات کا ادراک کروایا ۔ ان میں بہت سے عظیم نام شامل ہیں ۔ جیسے ٹالسٹائی ، چیخوف ، دوستو فسکی ، جیمز جوائس ، کافکا ورجینیا وولف اور دوسرے بہت سے ۔ انسان کے ذہنی ارتقا کے ساتھ ساتھ وہ تمام علوم جن کا تعلق انسان کے ساتھ رہا ترقی پاتے گئے اور ایک غیر سائنسی حوالہ سے فکشن کی غیر سائنسی ہئیت و معیارات کو دیکھا جائے تو اس کے ارتقا کی شرح انسان کی ارتقائی شرح سے شاید کم رہی ہے ۔ اور یہ بات بیسویں صدی سے پہلے تک درست کہی جا سکتی ہے ۔
انیسویں صدی عظیم تغیرات کی صدی کہی جا سکتی ہے ۔ اور اس میں دوسرے علوم کے ساتھ ساتھ ادب میں وہ نمایاں پیش رفت ہوئی کہ جس نے دوستوفسکی ، فرانز کافکا اورجینیا وولف ، ٹالسٹائی ، جیمز جوائس جیسے عظیم نام ہمیں دیے ۔ جن میں سے کچھ کا دور انیسویں صدی تک رہا اور کچھ انیسویں صدی میں ارتقا پاتے ہوئے بیسویں صدی میں داخل ہوئے ۔ اسی بیسویں صدی نے ادب کے قاری کو ادیب سے علیحدہ کر دیا اور پھر قاری اور ادیب دونوں طبقات سے ایک نئی وحدت کو جنم دیا جسے نقاد کہا جاتا ہے صرف اور صرف نقاد ۔
نقاد وہ احساس اور اس کی جزئیات تک سے ن آشنا وہ ( بے حس ) طبقہ تھا اور ہے ( عملی تنقید کے حوالہ سے اور متن کو اپنے ذہنی رجحانات سے جدا کرتے ہوئے )جس نے ادب کے تخلیقی اجزا کو ہر ممکنہ زاویے سے دیکھتے ہوئے اس میں تغیر ( ویری ایشن ) کی ان گنت جہات تلاش کیں اور اس کا قاری اور ادیب دونوں سے ارتقائی طور پر متعلق ہونا اور دونوں کو متاثر کرنا اس کی وہ نمایاں خاصیت ہے جو ادب کی رنگا رنگی اور اس کے سفر کے لیے نئی جہات سامنے لانے اور نئے جزائر کی تلاش میں ہمیشہ اہم رہی ہے اور ہو گی ۔
نئی جہات میں سے ہم جس جہت کی بات کر رہے ہیں لازماً وہ اس کے تخلیقی حوالہ سے ہے ۔ جس کے ساتھ ساتھ اس کے اسباب اور وجوہات کو سامنے لانا اہم ہے ۔ کیونکہ ادب یا علم کا کوئی بھی سفر اس کی معماری سے نسبت رکھتا ہے نہ کہ آوارگی میں گھومنے اور اس سے لطف اندوز ہونے سے ۔ تخلیق ِ ادب نئی صورتیں سامنے لانے سے متعلق ہے ، جس میں شطرنج کے ہر کھیل کی طرح کوئی تخلیق اپنے عناصر میں پہلے سے لکھی گئی تخلیقات کا بعینہِ عکس نہیں ہوتی ۔ یعینہِ عکس سے مراد اس کا اپنے تخلیقی اجزا یا عناصر کا (پیٹرن ) اور اس کی تخلیقی ساخت کے ساتھ ساتھ بیان و تشکیلات ہیں ۔
بیسویں صدی میں تنقید و تخلیق کی کئی جہات کے ساتھ ایک مختصر تخلیقی صنف سامنے آئی جسے فلیش فکشن کہا جاتا ہے ۔ اور جس کو باقاعدہ اسی اصطلاح کے ساتھ (شاید ) 1990 میں ایک الگ اور منفرد پہچان ملی ۔ جبکہ اس کی باقاعدہ عملی شکل 1930 کی دہائی کے قریب نظر آنا شروع ہوئی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قسم پہلے سے موجود ایک قسم افسانہ ( شارٹ سٹوری ) کے بطن سے ظہور میں آئی ۔
" یہاں ایک فکری مغالطہ دور کرنے کی ضرورت سمجھتا ہوں ، کہ کسی بھی نئی قسم کے ساتھ ایک لفظ یا اس جیسے الفاظ اس کی وجہ یا سبب سے متعلق استعمال کیے جاتے ہیں ، جیسے انحراف ، بغاوت ، یا مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے ۔ اس ضمن میں ایک بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ کوئی بھی نئی ادبی قسم پہلے سے موجود کسی قسم نے نہ تو انحراف کرتی ہے، نہ بغاوت اور نہ ہی کس قسم کی مشکلات کے حل کے لیے وجود میں آتی ہے ۔ ایسی تمام اقسام وہ تغیر اور ارتقا ہیں جو ارتقائی تنوع کی صورتیں کہی جا سکتی ہیں ، کیونکہ پہلے سے موجود اقسام اپنی جگہ قائم رہتی ہیں اور اپنی تخلیقی حدود میں قائم یا انہیں میں تغیر و تنوع اپنے طور پر لاتی رہتی ہیں ۔ مزید یہ کہ ایسی تمام اقسام اپنی اختراع اور وجود میں آنے کے لیے انہی پہلے سے موجود اقسام کی ممنون و احسان مند ہوتی ہیں ۔ جیسے کہ فلیش فکشن افسانہ ( شارٹ سٹوری ) کا ۔
فلیش فکشن در اصل وہ تجربہ تھا ، جو افسانہ کی ایک خاص ساخت یا بنت میں کچھ تبدیلی ( اختصار کو ذہن میں رکھتے ہوئے ) کرنے کو کیا گیا ۔ جس میں ایک مرکزی کردار ( پروٹاگونسٹ ) ایک کشمکش ( کونفلکٹ ) مخالف عناصر یا عنصر ( اینٹی گونسٹ ) اور نقطہ عروج ( کلائمیکس ) وغیرہ پر مشتمل ایک تخلیقی کاوش کی جاتی تھی ۔ اس تجربہ کو رفتہ رفتہ پذیرائی حاصل ہوئی اور کئی عشروں کے بعد اسے ایک الگ قسم کے طور پر قبول کر لیا گیا ۔ اس صنف میں درج بالا عناصر تمام کے تمام موجود ہو سکتے ہیں یا ان میں سے کچھ یا صرف ایک ۔ یعنی ان حدود کو ختم کر دیا گیا ۔
فلیش فکشن ہمارے ہاں ایک نئی ادبی تخلیقی قسم ہونے کے وجہ سے اس کے بارے بہت سی الجھنیں سامنے آتی ہیں ۔ خاص طور پر اس کو سمجھنے کے حوالے سے اور بہت سے تخلیق کاروں نے اس صنف میں کچھ تخلیق کرنے کی کوشش کی مگر شاید اس کے بارے مکمل طور پر ادراک نہ ہونے کے سبب الجھن آمیز رویہ اور تخلیقات میں کچھ مسائل سامنے آتے رہے ۔ جیسے ایک خیال ہمیشہ گردش کرتا سنائی دیتا ہے ۔
" فلیش فکشن میں فلیش گرانا ضروری ہے " ۔
فلیش گرانا سے مراد شاید کہانی کو اچانک ایک ایسا اختتامی موڑ دینا لیا جاتا ہے جس سے قاری چونک جائے اور متن کا (خیالوی ) رخ اچانک بدل جائے یا بدلتا ہوا محسوس ہو ۔
فلیش فکشن کی تخلیق میں اسے ضروری یا اہم سمجھنا ایک مغالطہ کہا جا سکتا ہے ۔ ایسا اختتام یا اختتامی موڑ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں اور شاید یہ تخلیق کو زیادہ متاثر کن بھی بنا سکتا ہو ، مگر یہ اہم اور لازم ہے ، تو فلیش فکشن میں ایسا لازم نہیں ۔
فلیش فکشن کی سب سے اہم بات اختصار ہے ۔ اپنی ابتدا میں فلیش فکشن کے الفاظ کی آخری حد ہی متعین کرنے کی کوشش کی گئی ، جو ایک ہزار الفاظ تک محدود تھی مگر انتہائی اختصار میں لکھنا احسن قرار پایا ۔ تمام مختصر ترین کہانیاں مختلف ناموں سے پہچانی جاتی رہیں ، جن میں مختصر مختصر کہانی ( شارٹ شارٹ سٹوری ) مائکرو فکشن وغیرہ جیسے نام استعمال ہوتے رہے ۔ مگر ان کی حدود کا تعین کافی حد تک ہو چکا ہے گو ان میں سے کسی کی بھی تعریف یا حد ابھی تک حتمی نہیں سمجھی جا سکتی ۔
فلیش کی حد جیسا کہ طے ہے طوالت میں ایک ہزار الفاظ تک ہے مگر ایسی بھی حتمی نہیں کہ کچھ الفاظ کے بڑھنے سے اس پر کوئی حتمی قدغن لگائی جا سکے ، تاہم اسے اس کی ایک کمزوری ضرور سمجھا جا سکتا ہے ۔ ( سات سو سے کم شارٹ شارٹ ، سات سو یا پانچ سو سے کم فکشن کی تخلیقات کو اب عمومی طور پر مائکرو فکشن میں شمار کیا جاتا ہے ۔ یعنی ان کی حدود ایک طرح سے خود کو تسلیم کروا چکی ہیں ) ۔
اس مختصر صنف کی سب سے اہم بات اس کا موضوع اور بناوٹ کے ساتھ برتاؤ اور ربط ہے ( ٹریٹمنٹ اینڈ ریلیشن ) ۔ یہ بات سمجھنے کے لیے ایک مناسب سی ساخت کے مجسمہ کو ایک مختصر ساخت کے مجسمہ میں بدلنے کی مثال لی جا سکتی ہے ۔ جس کے کچھ زاویے اور ساخت قاری کی نگاہوں سے اوجھل ہو جائیں یا ایک عام انسانی نظر ان کے بارے کوئی واضح ادراک نہ کر سکے ۔ اسی طرح کسی قسم کی طوالت کو کم کرتے ہوئے اور بیانیہ میں کسی بھی بیان سے متعلق بیان یا جملوں (ریلیٹو سٹیٹمنٹس ) کو نکال کر صرف ایک جزوی اشارہ تک محدود کر دیا جاتا ہے ۔ اور ساخت میں ایسی تبدیلی یا بنت کو مد نظر رکھا جاتا ہے کہ اس سے فکشن کی اس تخلیق میں سپیسز ( خلا ) پیدا ہو سکیں ۔ جن کے متعلق قاری اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق غور کرے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے ان کو مکمل کرنے کی ذہنی کاوش کر سکے ۔ بعینہِ ایک مختصر قامت کے اس مجسمہ کے جس کے نقوش کے درست ادراک اور ان کی خاصیتوں کو سمجھنے کے لیے بصارت کو زیادہ صلاحیت کے ساتھ استعمال میں لانے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔
" یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی یقیناً اہم ہوگا کہ ان سپیسز کو قائم کرنے یا تخلیق کو ایسی صورت فراہم کردینے سے کہیں بھی ربط کا ٹوٹنا مراد نہیں ۔ یعنی موضوع کے ساتھ اس کا ربط اور اس کی اپنی ساخت کے ساتھ ربط اور برتاؤ (ٹریٹمنٹ ) ایک تجسس پیدا کرتا ہوا محسوس ہو ناں کہ اس کی کڑیاں توڑ دیں جائیں اور ایک منتشر تخلیق قاری کے سامنے لائی جائے ۔ سو! سپیسز کا یہاں انتشار کے ساتھ ربط معکوس ہے " ۔
ایسی ساخت سے یہ مراد بھی قطعاً نہیں کہ اس تخلیق میں کوئی تجریدیت ( ایبسٹریکشن ) کی سی صورت پیدا ہونا لازم ہو ، تجریدیت کے مفاہیم میں الگ سے معانی فراہم کرنا بھی شامل ہے جن سے قاری آشنا نہ ہو ۔ مگر فلیش کی تخلیقی فارم میں یہ بات لازمی عنصر کے طور پر شامل نہیں ۔ مگر اس مختصر صنف میں تجریدی ، علامتی یا کسی بھی قسم کا فکشن لکھا جا سکتا ہے ۔ جس کی بحث اس کی صنفی یا ساختی بحث سے کوئی تعلق نہیں رکھتی ۔ عام روایتی بیانیہ میں لکھی گئی کوئی بھی مختصر تخلیق اپنی لفظی حدود کے باعث فلیش فکشن میں شامل ہو سکتی ہے ، مگر اس کے معیار اور جزئیات کے تکنیکی اعتبار سے کمزور ہونے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ ویسے بھی ادب میں نئے تجربات اور تنوع ہی اس کا ارتقائی سبب اور اس کا حسن ہے ۔ جس پر کسی قسم کی حد یا روک نہیں لگائی جا سکتی ۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم بات عمومی طور پر اس صنف میں زبان اور الفاظ کا استعمال ہے ۔ جس میں افسانویت و شعریت کے ساتھ ساتھ کڑی سے کڑی جوڑنے کی کیفیت کا ہونا ایک اہم خاصیت تصور کیا جاتا ہے ۔
المختصر تمام تغیرو تنوع ( ویری ایشنز ) کو سامنے رکھتے ہوئے ۔ اور مزید بدلاؤ اور ارتقا کو تسلیم کرتے ہوئے ۔ فلیش فکشن کی تعریف و تشریح اور تخلیقی ساخت میں یہ کچھ باتیں اہم خیال کرتے ہوئے ان کو ایک مضمون کی شکل دے کر پیش کیا گیا ہے ۔ جن میں کمی ، تشنگی یا کجی بہر طور رہ سکتی ہے ۔ جو مزید مضامین سے امید ہے کہ پوری ہو جائے گی جو میرے یا دیگر احباب کے ذہن سے صفحات پر منتقل ہو کر پیش ہوتے رہیں گے ۔
https://www.facebook.com/groups/170278676342673?view=permalink&id=1158867634150434
“