(Last Updated On: )
گجروں میں مقید پھولوں نے جو عرض گزاری کون سنے
پھر رات کو روتی شبنم کی یہ آہ و زاری کون سنے
تم کس در پہ دستک دو گے، یہ دیس ہے بس دیواروں کا
خود اپنے دل کی گونج سنو، اب اور تمہاری کون سنے
ہم سوچوں کے ٹھیلے والے، ہم لفظ سجا کر لائے ہیں
اس شہر کے شور شرابے میں یہ ہانک ہماری کون سنے
یہ ہنس کنول سب نے دیکھے پر نہر کے بیچ کناروں میں
جو ہجر کی گہری سسکی تھی، سو بار پکاری کون سنے
او راجہ نگری نگری کے، ہم ہوک ہیں اک تنہائی کی
جو گونجی ہو ویرانے میں وہ چیخ بچاری کون سنے
کیا تم کو بتائوں اکبر جی! کیوں جوگ لیا بستی چھوڑی
یہ دھن کی کھنک پہ رقص و سماع، یہ دنیا داری کون سنے
ہاں سیج پہ سجتی دولت ہے، کانٹوں پہ رگیدی غربت ہے
ہاں بات تمہاری سچی ہے، پر بات تمہاری کون سنے