(Last Updated On: )
ساری دنیا میں لفظی اظہار وبیان کے ہمیشہ سے دو طریقے رہے ہیں۔ (۱ )نظم اور (۲) نثر۔ اس طرح ادب دو حصوں میں منقسم ہوتا ہے ۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ’’ نظم‘‘ اور’’نثر ‘‘اگر چہ ادب کی دو شاخیں ضرور ہیں لیکن ہر منظوم تحریر ادب میں شامل نہیں ہو سکتی ۔کیوں کہ قدیم زمانے میں علمی ، فنی طبی اور صرف ونحو کی کتابیں بھی نظم میں لکھی گئی ہیں۔ اسی طرح ہر نثری تحریر بھی ادب میں داخل نہیں ہو سکتی۔ موضوع اور ہیٔت کے لحاظ سے نظم ونثر کی مختلف اصناف ہیں۔نثری اصناف کو پھر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ’’افسانوی نثر‘‘ اور ’’غیر افسانوی نثر‘‘اسی کو’’ افسانوی ادب ‘‘اور ’’غیر افسانوی ادب‘‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
افسانوی نثر یا افسانوی ادب میں داستان ،ناول،ناو لٹ، افسانہ اور ڈراما شامل ہیں۔ان تمام اصناف میں قصہ یا کہانی قدرِ مشترک ہے۔یعنی ان اصناف کی بنیاد کہانی یا قصے پر ہوتی ہے۔اس کے لیے فنکار اپنی غیر معمولی قوتِ متخیّلہ ،سماجی وسیاسی بصیرت اور تجربے ومشاہدے سے کام لے کے غیر حقیقی واقعات کو حقیقت کے لباس میں پیش کرتا ہے۔
غیر افسانوی نثر یا غیر افسانوی ادب میں ہم جن اصناف کو شامل کر سکتے ہیں وہ یہ ہیں:(۱) مضمون (۲) انشائیہ (۳) مقالہ (۴) مکتوب (۵) سفر نامہ (۶) سوانح نگاری(۷)خود نوشت سوانح(۸)آپ بیتی (۹) خاکہ(۱۰) رپورتاژ(۱۱) روزنامچہ (۱۲)دیباچہ(۱۳)مقدمہ(۱۴) تقریظ(۱۵)تنقید(۱۶) تبصرہ (۱۷)تحقیق(۱۸)تذکرہ۔
اردو نظم کی طرح اردو نثر کا آغاز بھی دکن سے ہوتا ہے۔ اردو زبان پر عرصۂ دراز تک افسانوی ادب کا غلبہ رہا جس کی مثال ہماراوسیع اور وقیع داستانی ادب ہے ۔اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو میں غیر افسانوی ادب یا نثر کے ابتدائی نقوش بھی ہمیں دکنی زبان میں تحریر کیے گئے رسائل اور ملفوظات میں نظر آتے ہیں۔صوفیۂ کرام نے بندگانِ خدا کی تعلیم اور ان کی اخلاقی تربیت کے لیے اسلامی تعلیمات پر مشتمل کئی چھوٹے چھوٹے رسائل تحریر کیے۔ان رسائل میں اسلامی تعلیم ، شرعی احکامات،فقہی مسائل،عقائد اور تصوف کے رموزونکات کی تشریح وتوضیح کی جاتی تھی۔یہی نہیں بلکہ ان میں تمدنی اور مجلسی زندگی گزارنے کے طور طریقے بھی بتائے جاتے تھے۔ہندوستان میں انگریزوں کی آمد ، ان کے باضابطہ قبضے اور قیامِ حکومت کے بعدکے بعد جب مختلف علوم وفنون کو فروغ دینے کی کوششوں کا آغاز ہوا توغیر افسانوی ادب کی ترویج واشاعت کی راہیں بھی ہموار ہوئیں۔ہندوستان میںحکومتِ انگلییسہ کے قیام اورانگریزی زبان وادب کے زیرِ اثر اردو میںسب سے پہلے جس غیر افسانوی صنف کو فروغ حاصل ہوا وہ ’’مضمون‘‘ ہے۔اس لیے سب سے پہلے اسی صنف کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔
مضمون:
کسی طے شدہ عنوان پرتفصیلی اور مستند معلومات جمع کر کے ،اس کے ممکنہ ذیلی موضوعات کا احاطہ کرتے ہوے ترتیب وتسلسل اور جامعت کے ساتھ پیش کرنے کا نام مضمون نگاری ہے۔مضمون نگاری انشا پردازی کا ایک اہم حصہ ہے۔کسی بھی موضوع یا عنوان پر دوچار صفحے یوں ہی بے ترتیب لکھ دینا مضمون نہیں کہلاتا۔بلکہ اپنے خیالات و احساسات ، تجربات ومشاہدات اور معلومات اور تاثرات کومربوط اورمرتِّب شکل میں موثر اسلوب ِ نگارش کے ساتھ اس طرح پیش کرنا کہ ایک طرف لکھنے کا مقصد بھی پورا ہو جائے اور دوسری طرف پڑھنے والے کو بھی وہ تمام باتیں سمجھ میں آجا ئیں،مضمون کہلاتا ہے۔مضمون نگاری کے لیے کسی خاص موضوع کی شرط نہیں ۔ادبی، مذہبی ،علمی ،سائنسی،سماجی ،سیاسی،تعلیمی،تاریخی ،شخصی غرض حیات وکائنات سے متعلق کسی بھی موضوع پر مضمون قلمبند کیا جا سکتا ہے۔ ترتیب وتسلسل ،روانی ،اختصار میں جامعت اور دلچسپ اور موثر پیرایۂ اظہار ایک اچھے مضمون کی خصوصیات ہوتی ہیں۔
اردو میں مضمون نگاری کی ابتدا دلی کالج کے قیام(۱۸۲۵ء) کے ساتھ ہوئی۔دلی کالج کے طالبِ علم ماسٹر رام چندر کو اردو مضمون نگاری کا بانی خیال کیاجا تا ہے۔سر سید احمد خاں اور ان کے رفقا نے بعد میں اس روایت کو آگے بڑھایا۔اخبارات اور رسائل کے ذریعے مضمون نگاری کو زبردست فروغ حاصل ہوا۔آج غیر افسانوی نثری صنف میں مضمون کو جو مقبولیت اور اہمیت حاصل ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔
مضمون کی ضرورت ،اہمیت اورافادیت مسلّم ہے ۔جو لوگ کسی موضوع پر کوئی مستقل کتاب نہیں پڑھ سکتے یا انھیں ایسی کتاب پڑھنے کا وقت نہیں ہوتا وہ لوگ ایک مختصر مضمون کے ذریعے اس موضوع سے متعلق چندبنیادی اور اہم ترین باتوں سے واقف ہو جاتے ہیں۔جب قارئین کسی موضوع پر مختصر ، جامع اور دلچسپ مضامین پڑھتے ہیں تو ان کے اندرموضوع سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔یہ شوق انھیں متعلقہ موضوع کی کتب تک لے جاتا ہے اور وہ کتب بینی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔اس طرح ایک چھوٹا سا مضمون قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی آبیاری کرتا ہے۔مضمون ،کم سے کم وقت میں معلومات کی ترسیل وابلاغ اور حصول کا ایک اہم اور موثر ذریعہ ہے۔چنانچہ اس کی ضرورت ، اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
انشائیہ:
ایک ایسا ہلکا پھلکا مضمون جس میں بے ساختگی اور بے تکلفی کے ساتھ نہایت دلچسپ اور شگفتہ اسلوب میں کسی موضوع پر اظہارِ خیال کیا جائے ،انشائیہ کہلا تا ہے۔ایسے مضمون کو انگریزی میں Light Essay کہا جاتا ہے۔Essayفرانسیسی لفظ Essai سے مشتق ہے۔بعض ماہرینِ لسانیات اور علمائے ادب کا خیال ہے کہ خود Essai عربی زبان کے لفظ ’’ السعی ‘‘ سے ماخوذ یا اس کی بگڑی ہوئی صورت ہے۔ فرانسیسی زبان میں اس کے معنی ’’ کچھ کہنے کی کوشش ‘‘ کے ہیں ۔یہ معنی’’ السعی‘‘ کے معنی سے بہت قریب ہیں۔عربی میں ’’ سعی ‘‘ کے معنی بھی کوشش کے ہیں۔ انگریزی ادب کے معروف ادیب بیکنؔ نے Light Essay کو ایسی ہلکی پھلکی اور مختصر تحریر کہا ہے جس میں بغیر کسی کھوج اور تجسس کے حقیقت کا اظہار ہو۔اردو میں اس قسم کے مضامین کے لیے ’’انشائیہ ‘‘ کا لفظ وضع کر لیا گیا ہے۔
ا ردو میں انشائیہ نگاری کا آغاز بھی انگریزی زبان کے زیرِ اثر ہوا۔ابتدا میں مضمون اور انشائیہ میں فرق نہیں سمجھا گیا اور دونوں کو Essay کے نام ہی سے موسوم کیا گیا۔بعد میں دونوں کے حدود، فنی محاسن اور اندازِ نگارش کی روشنی میںانھیںدو الگ الگ اصناف قرار دیا گیا۔ آج مضمون اورانشائیہ دو جدا گانہ نثری اصناف کی حیثیت سے اردو کے غیر افسانوی ادب میں معروف اور مقبول ہیں ۔ سنجیدگی ،ترتیب و تسلسل اور جامعت مضمون کی جان اور حسن ہے۔جبکہ انشائیہ میں بے ترتیب اور بے تکلف گفتگو کا انداز پایا جاتا ہے اور یہ بے ترتیبی ہی اس کا حسن ہے ۔انشائیہ میں انشائیہ نگار اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کونہایت دلچسپ،ہلکے پھلکے اور بے حد شگفتہ اسلوب میں اس طرح پیش کرتا ہے کہ قاری اس سے ذہنی تلذذاور لطف وانبساط حاصل کرتا ہے۔ماہرین ِادب کے نزدیک انشائیہ کا بنیادی مقصد مسرت بہم پہنچانا ہے۔علمائے ادب نے یہ بھی کہا ہے کہ انشائیہ گہری علمیت،قوائد وضوابط اور سنجیدگی کا بوجھ برادشت نہیں کر سکتا۔وہ ایک طرف قاری کو دعوتِ غور وفکر دیتا ہے تو دوسری طرف نشاط وفرحت،اور کیف وسُرور بھی عطا کرتا ہے۔
کہا گیا ہے کہ انشائیہ کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کی کوئی شرط نہیںجو کہو اس طرح کہو کہ پڑھ کر جی خوش ہو جاے اور پڑھنے والے کے ذہن میں گدگدی سی ہونے لگے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ انشائیہ میں حکمت وحماقت اور مقصدیت اور بے مقصدیت اس طرح آپس میں گتھ جاتے ہیں کہ ان کا الگ کرنا ناممکن ہے۔’’انشائیہ کیا ہے‘‘ کے زیرِ عنوان ڈاکٹر وزیر آغالکھتے ہیں:
انشائیہ کے خالق کے پیشِ نظر کوئی ایسا مقصد نہیں ہوتا جس کی تکمیل کے لیے وہ دلائل وبراہین سے کام لے اور ناظر کے ذہن میں ردو وقبول کے میلانات کو تحریک دینے کی سعی کرے ا اس کا کام محض یہ ہے کہ چند لمحوں کے لیے زندگی کی سنجیدگی اورگہما گہمی سے قطعِ نظر کر کے ایک غیر رسمی طریقِ کار اختیار کرے اور اپنے شخصی ردِ عمل کے اظہار سے ناظر کو اپنے حلقۂ احباب میں شامل کرلے۔۔۔۔انشائیہ کا خالق اس شخص کی طرح ہے جو دفتر سے چھٹی کے بعد اپنے گھر پہنچتا ہے ،چست اور تنگ سا لباس اتار کر ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن لیتا ہے اور ایک آرام دہ مونڈھے پرنیم دراز ہو کر اور حقے کی نَے ہاتھ میں لیے انتہائی بشاشت اور مسرت سے اپنے احباب محوِ گفتگو ہو جاتا ہے۔انشائیہ کی صنف اسی شگفتہ موڈ کی پیداوارہے۔۔ بنیادی طور پر انشائیے کے خالق کاکام ناظر کو مسرت بہم پہچانا ہے۔(۱)
مولانا محمد حسین آزادؔ،مولو ی عبدالحلیم شررؔ،خواجہ حسن نظامی،مرزا فرحت اللہ بیگ،ملا رموزی،رشید احمد صدیقی،پطرس بخاری،شوکت تھانوی،کنھیا لال کپور،ابنِ انشا،مشتاق احمد یوسفی اور مجتبیٰ حسین وغیرہم نے اردو میں انشائیہ کے فن کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
مقالہ:
مقالہ بھی مضمون ہی کی ایک شکل ہے ۔ادب کی اصطلاح میں مقالے کا اطلاق ایسے طویل اور بسیط مضمون پر ہوتا ہے جس میں عالمانہ افکار وخیالات کو دلائل وبراہین کے ساتھ پیش کیا گیا ہو اور جس میں تحقیق اور تدقیق کے رنگ کے ساتھ مقالہ نگار کی تنقیدی بصیرت بھی نمایاں ہو۔ڈاکٹر سیدہ جعفرکے بقول:
مقالہ عام طور پر اس طویل اور بسیط مضمون کو کہتے ہیں جس میںکسی موضوع پر عالمانہ انداز میں مفصل روشنی ڈالی جاے ۔ مقالہ اپنی استدلالی صلاحیت اورگہرائی کی وجہہ سے ہلکے پھلکے مضامین سے خاصا مختلف ہوتاہے ۔(۲)
پروفیسر گیان چند کے مطابق:
تحقیقی مقالہ وہ تحریر ہے جس میں زیرِ تحقیق موضوع کے متعلق جملہ مواد کو پیش کیا جاتا ہے ، پرکھا جاتا ہے اور اس کے بعد مناسب نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔(۳)
دراصل مقالہ اعلیٰ درجے کے تحقیقی مضمون کو کہا جاتا ہے جس میں مقالہ نگار کسی موضوع پر تحقیق کر کے اس موضوع سے متعلق کچھ نئے انکشافات کرتا ہے یا پرانے انکشافات کی توثیق یا تردید کرتا ہے۔ مقالہ نگار کسی بات کی توثیق کرے یا تردید ،ہر دو صورتوں میں اسے مضبوط دلائل اور حوالوں سے کام لینا پڑتا ہے۔ایسے مقالوں میں تنقیدی اور تجزیاتی پہلو بھی ہوتا ہے ۔مقالہ نگار اپنی تنقیدی بصیرت اور تجزیاتی صلاحیت سے کام لے کرحقائق کو پیش کرتا ہے۔عام طور پر ایسے مقالے طویل اور بسیط ہوتے ہیںجن کی تحریر اور تکمیل کے لیے بڑی کدو کاوش، چھان بین، عرق ریزی اور تحقیق وتدقیق کی ضرورت ہوتی ہے۔مقالہ بے حد سنجیدہ، علمیت سے معمور اور معروضی ہوتا ہے۔
مقالے کی زبان بے حد سنجیدہ اور علمی ہوتی ہے ۔تخلیقی زبان مقالے کے لیے نامناسب ہے۔ایسی زبان تخلیقی ادب کے لیے مناسب بلکہ احسن سمجھی جاتی ہے۔ابہام اور رنگین بیانی مقالے کے عیوب میں شمار ہوتے ہیں۔
مکتوب :
مکتوب(خط) بھی غیر افسانوی ادب کی اہم صنف ہے۔مکتوب یا خط دو اشخاص کے درمیان رابطے اور ترسیلِ خیال کا ایک اہم ذریعہ ہے۔آج سے چند برس پہلے تک بھی دور دراز رہنے والے دو افراد کے مابین رابطے اور تبادلۂ خیال کا سب سے اہم ذریعہ مکتوب ہی تھا۔آج ٹیلی فون اور موبائل فون کی وجہ سے راست بات چیت کرنے کی سہولت میسر ہے لیکن پہلے ایسا نہیں تھا۔لوگ اپنے دوست واحباب اور عزیز واقارب سے مکتوب کے ذریعے ہی رابطہ قائم کرتے تھے۔عربی زبان میں ایک کہاوت ہے’’ المکتوب نصف الملاقات‘‘۔ یعنی خط آدھی ملاقات ہے۔ مکتوب غیر افسانوی نثر کی ایسی صنف ہے جس میں مکتوب نگار اپنے ذاتی حالات اور کوائف،ضروریات اور خواہشات کا بے ساختہ اظہار کرتا ہے۔یہی نہیں بلکہ دوسروں کے حالات وکوائف کو جاننے کا متمنی بھی ہوتا ہے۔
مکتوب ، مکتوب نگار کی شخصیت اور اس کی فکر ونظر کا عکاس ہوتا ہے۔مکتوب میں مکتوب نگار کی شخصیت پورے حسن وقبح کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔کسی شخصیت کی زندگی کے بعض ایسے پہلو جو کسی اور جگہ نمایاں نہیں ہوتے وہ اس کے مکاتیب میں نمایاں ہو جاتے ہیں۔یہ وہ صنفِ ادب ہے جس کے ذریعے مکتوب نگار کی تہدار اور پیچدہ شخصیت ، اس کے عادات واطواراورسیرت وکردار کی تصویر ہمارے سامنے آجاتی ہے۔یہی نہیں بلکہ دوسری شخصیات سے متعلق مکتوب نگار کی کچھ ایسی رائیں بھی سامنے آتی ہیں جنھیں وہ کسی مصلحت کے پیشِ نظرکسی مضمون یاکتاب میںظاہر نہ کر سکا ہو۔علاوہ ازیں مکاتیب میں اس عہد کی معاشی ،معاشرتی ،سیاسی ،سماجی ،مذہبی اور تمدنی حالات کی عکاسی بھی ہوتی ہے جس عہد میںوہ مکاتیب لکھے گئے ہیں۔اس طرح مکاتیب ہم عصر تہذیب وتاریخ کے ترجمان بھی بن جاتے ہیں۔
ادیبوں ،شاعروں ،سائنس دانوں ، فلسفیوں ،علما اور دانشوروں کے خطوط کی اہمیت وافادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔کیوں کہ ان کے خطوط میں کئی علمی ،ادبی اور فکری نکات پوشیدہ ہوتے ہیں۔ان علمی ادبی اور فکری نکات کی وجہ سے وہ خطوط علم وادب کا بیش قیمت سرمایہ ہوتے ہیں۔زبان وبیان کے لطف اور ادبی چاشنی کی وجہ سے مکتوب غیرافسانو ی نثر کی ایک صنف کا درجہ پا چکا ہے۔ اردو میں غالبؔ، حالیؔ، شبلی ؔ،اقبالؔ اورمولانا ابوالکلام آزا دؔ کے مکاتیب علمی اور ادبی لحاظ سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔غالبؔ ا ور مولانا آزادؔ کے مکاتیب اپنے اپنے انفرادی اسلوب کے اعتبار سے اردو ادب میںامتیازی شان کے حامل ہیں۔
سفر نامہ:
سفر نامہ، غیر افسانوی ادب کی ایک اہم صنف ہے۔نقلِ مکانی اور مختلف دِیار واَمصار کا سفر کرنا انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ یہ نقلِ مکانی اور سفر کبھی تجارت کی غرض سے ہوتا ہے تو کبھی حصولِ علم کے لیے ہوتا ہے۔ایک کہاوت ہے’’ سفر وسیلۂ ظفر‘‘ یعنی سفر کامیابی کا وسیلہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے بھی ’’سیر وفی الارض ‘‘ کہہ کرسیر وسیاحت کے ذریعے اللہ کی نشانیوں پر غور وتدبر کرنے کا حکم دیا ہے۔کسی کا مشہور شعر ہے:
سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں
زندگانی ہو بھی تو پھر نوجوانی پھر کہاں
کبھی کبھی زندگی کی یکسانیت سے اکتا کر محض سیر وتفریح کی خاطر رختِ سفر باندھا جاتا ہے۔بعض لوگ مہم جُو واقع ہوتے ہیں ۔ایسے لوگ نئے مقامات کی کھوج ، نئی دنیائوں کی تلاش اور نئی نئی چیزوں کی دریافت کی غرض سے دریاؤ ں ،سمندروں، پہاڑوں اور جنگلات کے خطرناک سفر پر نکل پڑتے ہیں۔نئے مقامات کی سیروتفریح اور نئے نئے خوشنما مناظر کو دیکھنے سے انسان کے جمالیاتی ذوق کی تسکین ہوتی ہے۔
سفرتو تقریباً ہر انسان کرتا ہے لیکن جو قلم کار ہوتے ہیں ان میں سے بعض حضرات اپنے سفر کی رودادپُرلطف اور دلچسپ انداز میں قلمبند کرتے ہیں۔کسی سفر کی روداد نہایت دلچسپ اور ادبی زبان اور دلکش اسلوب میں تحریر کی جاتی ہے تو وہ سفر نامہ کہلاتا ہے۔انور سدید کے مطابق:
فنی طور پر سفر نامہ وہ بیانیہ ہے جو ایک سیاح دورانِ سفر یا اختتامِ سفر اپنے مشاہدات،کیفیات اور اکثر اوقات قلبی واردات کو مرتب کرتا ہے۔اس صنفِ ادب کا تمام مواد منظر کے گر دو پیش کی صورت میں خارج میں بکھرا ہوتاہے۔لیکن سفر نامہ نگار صرف خارجی ماحول کا ہی مشاہدہ نہیں کرتا بلکہ اپنے بیانیہ کوہمہ جہت، بامعنی ،مدلل اور دستاویزی بنانے کے لیے بہت سی دوسری جزئیات کو بھی سمیٹتا چلا جاتا ہے۔چنانچہ سفر نامہ نگار کی نظر جتنی باریک بین ہوگی جزئیات اتنی ہی تفصیل سے اس کے مشاہدے میں آئیں گی۔(۴)
سفرنامہ ایسی غیر افسانوی صنفِ ادب ہے جس کے مطالعے سے ہمیںمختلف مقامات ،ملکوں، شہروں ،قوموں اور قبیلوں کی تہذیب وثقافت، سماجی وسیاسی صورتِ حال ،مذاہب اور عقائد، ادبی اور علمی زندگی،معاشی اور تعلیمی ترقی یا پس ماندگی کا علم ہوتا ہے۔یہی نہیں بلکہ ان مقامات کے جغرافیائی حالات، موسم اور آب وہوا کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ان گوناگوں فوائد کے پیشِ نظر سفر ناموں کی اہمیت سے شاید ہی کسی کو انکار کر ہو۔یہی وجہہ ہے کہ سفر نامہ مختلف زبانوں کے ادب میں خاص مقام کا حامل ہے۔
دنیا میںسفر نامہ نگاری کی شروعات کس نے کی یہ بتا نا مشکل ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ یونانی سیاح ہیروڈوٹسؔ دنیا کا پہلا سفر نامہ نگار ہے۔اردو کا پہلا سفر نامہ’’ تاریخِ یوسفی‘‘ ہے جس کے مصنف یوسف خاں کمبل پوش ہیں۔یہ سفر انامہ ’’عجائباتِ فرنگ ‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔
سوانح :
’سوانح‘ سانحہ کی جمع ہے۔سانحہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں: پیش ہونے والا،یا ظاہر ہونے والا وقوعہ ،ماجرا ۔ کسی فرد کی زندگی کے تمام حالات ،کوائف ،واقعات اور نشیب وفراز کو زمانی ترتیب کے ساتھ قلبند کرنے کو سوانح نگاری کہتے ہیں۔ انگریزی میں اسے Biography کہا جاتا ہے ۔Bio کے معنی ہیں حیات اور Graphy کے معنی ہیں لکھنا۔ اس طرح اس کے معنی ہوے حیات نگاری۔بادی النظر میں سوانح نگاری کا سیدھاتعلق اس مخصوص فردسے ہوتا ہے جس کی سوانح لکھی جارہی ہوتی ہے۔لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو کسی فرد کی سوانح اس دور کی تاریخ بھی ہوتی ہے جس دور میں وہ فرد مصروفِ کار تھا۔اس طرح سوانح نگاری کے ڈانڈے تاریخ نگاری سے بھی ملتے ہیں۔
سوانح میں کسی مشہور ومعروف شخصیت کی زندگی کے تمام حالات اورواقعات، کارناموںاور خدمات کو تاریخی ترتیب کے ساتھ تفصیل سے پیش کیا جاتا ہے۔ایسی سوانح اچھی سمجھی جاتی ہے جس میںصاحبِ سوانح کی شخصیت کے تمام پہلو بہ حسن وخوبی اجاگر کیے گئے ہوں اور جس میں اس کی شخصی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کی خامیوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہو۔اچھی سوانح کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ صاحبِ سوانح کے کارناموں کو نہ صرف تفصیل سے پیش کیا جاے بلکہ مناسب اور احسن طریقے سے ان پر نقد وتبصرہ بھی کیا جاے۔ غیر مستند یافرضی واقعات کی شمولیت اور مبالغہ آرائی کو سوانح نگاری کا سب سے بڑ اعیب سمجھا جاتا ہے۔
سوانح نگاری کی اہمیت وافادیت مسلّم ہے۔مشہور ومعتبر سیاسی، سماجی ،ادبی، مذہبی اور علمی شخصیات کی سوانح قلمبند کرنے سے قوم ان کے عظیم الشان کارناموں سے واقف ہوتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان کی خدماتِ جلیلہ اور عظیم الشان کارنامے قوم کے نوجوانوں میں غیر معمولی جوش وجذبہ پیدا کرتے ہیں اورانھیں اس طرح کی خدمات انجام دینے کی ترغیب دیتے ہیں۔ نئی نسل کوعملی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے منجملہ اور چیزوں کے اپنے اکابرین کی سوانح کا مطالعہ بے حد سود مند ثابت ہوتا ہے۔
اردو میں سوانح نگاری کی بنیاد حالیؔ نے رکھی۔’’یادگارِ غالب ‘‘ ’’حیاتِ جاوید‘‘ ’’حیاتِ سعدی‘‘ ان کی مشہور سوانحی تصانیف ہیں۔حالیؔ کے بعد شبلیؔ نے اس روایت کو آگے بڑھایا اور ’’ سیرت النبیؐ ‘‘ ’المامون‘‘ الغزالی‘‘ ’’الفاروق‘‘’’سوانح مولانا روم‘‘شبلیؔ کی سوانحی کتابیں ہیں۔دیگر ادیبوں نے اس روایت کومزید آگے بڑھایا۔آج سوانح اردو کے غیر افسانوی ادب کا ایک اہم حصہ ہے۔
خود نوشت سوانح:
خود نوشت سوانح کسی فرد کی وہ داستا نِ حیات ہے جسے خود اس نے پورے ہوش وحواس کے ساتھ اور حقائق کی روشنی میں تحریر کیا ہو۔سادے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے حالاتِ زندگی خود قلمبند کرے تو اسے خود نوشت سوانح کہا جاتا ہے۔انگریزی میں اسےAutobiographyکہتے ہیں۔خود نوشت سوانح کا مرکز ومحور خود مصنف کی ذات ہوتی ہے۔دیگر افراد کا ذکر ضمنی طور پر درمیان میں آتا ہے۔خود نوشت سوانح کے لیے بھی ضروری ہے کے جو بھی واقعات قلمبند کیے جارہے ہوں وہ حقائق پر مبنی ہوں۔جھوٹ اور غلط بیانی قارئین کو گمراہ کر دیتی ہے۔خود نوشت سوانح نگار کو اپنے بچپن کے واقعات اگر پوری طرح یاد نہ ہوں تو کسی معتبر وسیلے کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔خود نوشت سوانح میں مصنف اپنی زندگی کے واقعات ،حادثات،اور تجربات ومشاہدات کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ اس کی تمام جذباتی اور نفسیاتی کیفیت قاری پر اجاگر ہوتی ہے۔ خود نوشت سوانح سے صاحبِ تصنیف کے افکارو نظریات، عقائد ،کسی مخصوص چیز کے متعلق اس کی رائے ،اس کی ترجیحات اور خواہشات ،پسند ناپسند غرض تمام باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
اب تک کی تحقیق کے مطابق محمد جعفر تھانیسری کی ’’تواریخِ عجیب ‘‘المعروف بہ’ ’کالا پانی‘‘ اردو کی پہلی خود نوشت سوانح سمجھی جاتی ہے۔سر رضا کی ’’اعمال نامہ‘‘ یوسف حسین خاں کی ’’ یادوں کی دنیا‘‘جوشؔ ملیح آبادی کی ’’ یادوں کی برات‘‘مشتاق احمد یوسفی کی ’’ زرگزشت‘‘ وغیرہ اردو کی چند اہم ترین اور مشہور خود نوشت سوانح عمریاں ہیں۔
آپ بیتی:
خود پر بیتے ہوے حالات کے تحریر ی بیان کو ادب کی اصطلاح میں ’’آپ بیتی‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ غیر افسانوی ادب کی نسبتاً کم معروف صنف ہے ۔’’خود نوشت‘‘ اور’’ آپ بیتی ‘‘ کی سرحدیں بہت حد تک ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔دونوں میں بہت مماثلت ہونے کے باوجود یہ دونوں الگ الگ اصناف ہیں۔آپ بیتی اور خود نوشت میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ آپ بیتی میں کسی خاص واقعے یا مخصوص حالات کو پیش کیاجاتا ہے۔اس کے بر خلاف خود نوشت میں ولادت سے لے کر سوانح تحریر کرنے تک کے واقعات کاتفصیلی احاطہ کیا جاتا ہے۔عام طور پرآپ بیتی میں صدمات وسانحات،آلام ومصائب،زندگی کی مشکلات اورپریشانیوں کا تذکرہ نہایت پُر درد، غم انگیز اور موثر اسلوب میں ہوتا ہے ۔جذبا ت کی شدت اور تاثر کی فراوانی سے کام لے کر مصنف قارئین کو اپنا ہمدرد اور غم گسار بنا لیتا ہے۔بعض آپ بیتیاں ایسی ہوتی ہیں کہ مطالعے کے دوران قارئین اپنے آنسو ؤں کو روک نہیں پاتے اور بے ساختہ رودیتے ہیں۔ گویا زندگی کے پُر درد حالات اور غم انگیز واقعات آپ بیتی کے لیے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔
خاکہ:
’’خاکہ‘‘ کے معنی ہیں: کسی عمارت کا کچا نقشہ، کسی چیزکے خد وخال کی نقل جو اصل کے مشابہ ہو،کسی صورتِ حال یا کسی حقیقت کی مختصر کیفیت کا نقشہ۔خاکے کی اصطلاح مصوری میں بھی مروّج ہے۔جب مصور کسی فرد کی مکمل تصویر بناتا ہے تو اسے پورٹریٹ کہا جاتا ہے اور اگر وہ آڑھی ترچھی لکیروں کی مدد سے کسی شخص کے خدو خال نمایاں کرتا ہے تو اسے ’’اسکیچ‘‘ کہتے ہیں۔ادب کی اصطلاح میں خاکہ اس نثری صنف کو کہا جاتا ہے جس میں کسی فرد کا ناک نقشہ، خد وخال ،عادات واطوار،سیرت وکردار کی لفظوں کے ذریعے تصور کشی کی جاتی ہے۔خاکہ کے لیے اردو میں قلمی تصو یر ، مرقع،شخصی مرقع اور چہرہ بشرہ جیسی اصطلاحات بھی استعمال کی جاتی ہیں۔آج کل’’ خاکہ‘‘ کا لفظ پوری طرح سے رائج ہو گیا ہے۔
خاکہ ایک طرح کا سوانحی مضمون ہوتا ہے لیکن اس میں تفصیل کی گنجائش نہیں ہوتی ۔یہاں کسی شخص کی زندگی ، عادات واطوار،سیرت وکردار کی صرف جھلکیاں دکھائی جاتی ہیں ۔بلکہ بعض وقت ان کی طرف صرف اشارے کر دیے جاتے ہیں۔گویا خاکہ نگاری کا فن غزل اورافسانے کے فن سے مماثلت رکھتا ہے۔کیوں کہ ان دونوں اصناف میں بھی تفصیل اور وضاحت کی گنجائش نہیں ہوتی۔خاکے میں کسی شخصیت کے چند اہم ترین اور نمایاں نقوش اس طرح پیش کیے جاتے ہیں کہ اس کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہماری نظروں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ اگرچہ خاکہ سوانحی مضمون ضرور ہے لیکن یہ سوانح سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔سوانح میں واقعات کی تفصیل ہوتی ہے جب کہ خاکے میں تاثرات غالب رہتے ہیں۔ماہرین کے مطابق سوانح میں تو خاکے کی گنجائش نکل سکتی ہے لیکن خاکے میں سوانح کی شمولیت غیر واجبی اور نا مناسب ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ خاکے میں بذلہ سنجی ،ظرافت ،پُر لطف انداز اور شگفتہ اسلوب غالب رہتا ہے۔ خاکے کے بارے میں ڈاکٹر صابرہ سعید رقم طراز ہیں:
خاکے کی کوئی ایسی جامع تعریف ممکن نہیں ہے ،جو اس کے تمام فنی اور ادبی پہلوؤںپرحاوی ہو۔البتہ اس کے بنیادی اصول اور اہم خد وخال کی یوں نشاندہی کی جاسکتی ہے کہ خاکہ ایک صنفِ ادب ہے۔اس کا سانچہ انشائیہ کا ہوتا ہے اور اس میںکسی شخصیت(حقیقی یا خیالی) کی زندگی کی سیرت وصورت اور کارناموں کی کچھ جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں اور وہ شخصیت کے ایک ایسے مطالعے کو پیش کرتا ہے، جس سے پڑھنے والے کو جمالیاتی حظ حاصل ہو۔(۵)
اردو میںخاکہ نگاری کی ابتدائی جھلکیاں شعرائے اردو کے تذکروں میں نظر آتی ہیں، لیکن خاکہ نگاری کا باضابطہ آغاز مرزا فرحت اللہ بیگ سے ہوتا ہے جب انھوں نے ’’مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ لکھی۔مولوی عبد الحق،رشید احمد صدیقی،شوکت تھانوی،سعادت حسن منٹو،عصمت چغتائی اور مجتبیٰ حسین اردو کے چند اہم اور مشہور خاکہ نگار ہیں۔
رپورتاژ:
’’رپورتاژ‘‘ انگریزی لفظ ’’ رپورٹ ایج‘‘ کا فرانسیسی تلفظ ہے۔ انگریزی اور فرانسیسی زبان میں یہ لفظ اطالوی زبان کے ذریعے داخل ہوا ہے۔رپورتاژ کے معنی ہیں کسی جلسے، کانفرنس یا واقعے کی ایسی تفصیلی رپورٹ جس میں مصنف خود شریک رہا ہو۔یعنی اس میں کسی آنکھوں دیکھے حال کی تفصیلات بیان ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر طلعت گل نے رپورتاژ کے بارے میں انگریزی مصنف جا ن کیریؔ کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
عینی شاہد کے ذریعے ضبطِ تحریر میں لائے گئے ایسے ٹھوس حقائق ہیں جو حادثے یا واقعے کے وقوع پذیر ہونے کے بعد قلمبند کیے گئے ہوں۔وقت اور تاریخ کا تعین اور خود مصنف کا عینی شاہد ہونا رپورتاژ کو زیادہ معتبر بنا دیتا ہے۔(۶)
رپورتاژ ایک طرح کی رپورٹ ہی ہوتی ہے لیکن اخباری رپورٹ سے یہ رپورٹ یکسر مختلف ہوتی ہے ۔ رپورتاژطویل ہوتی ہے اور اس کا لکھنے والا جلسوں ،کانفرنسوں اورمشاعروں کی رپورٹ تمام جزئی تفصیلات کے ساتھ ادبی پیرائے میں اس طرح پیش کرتا ہے کہ قاری کے سامنے وہ سارا منظر آجاتا ہے۔رپورتاژ پڑھنے کے دوران قاری خود کو اس جلسے میں شریک سمجھتا ہے۔پروفیسر احتشام حسین نے اسے کسی واقعے کی ادبی اور محاکاتی رپورٹ کہا ہے۔رپورتاژ کا تعلق بہ یک وقت صحافت اور ادب دونوں سے ہے۔صحافتی رپورٹ بالکل روکھی پھیکی اور سادہ ہوتی ہے ۔اس کے برخلاف رپورتاژ میں ادب کی چاشنی ہوتی ہے اور اس کا اسلوب افسانوی ہوتا ہے ۔ اس میں مصنف کے تاثرات اور جذبات بھی شامل ہوتے ہیں۔رپوتاژ میں اسلوب تو افسانوی ہوتا ہے لیکن تمام واقعات اور کردار حقیقی ہوتے ہیں۔یہی وجہہ ہے کہ علی سردار جعفری نے رپورتاژ کوصحافت اور افسانے کی درمیانی کڑی کہاہے۔ٍ
اردو میں رپورتاژ نگاری کا آغاز ترقی پسند تحریک کے زمانے میںاور خودترقی پسند مصنفین کے ذریعے ہوا۔ ترقی پسند مصنفین کے ادبی جلسوں کی روداد حمید اختر نے ادبی رنگ میں لکھ کر اردو میں رپورتاژ نگاری کی بنیاد رکھی۔ یادیں(سجاد ظہیر)پودے( کرشن چندر) دلی کی بپتا (شاہد احمد دہلوی) چھٹا دریا( فکر تونسوی)پو پھٹے( خدیجہ مستور) اردو کے چند اہم اور مشہور رپورتاژ ہیں۔
روزنامچہ:
’’روزنامچہ‘‘ کے لغوی معنی ہیں:سیاہا۔ہر روز کا حساب لکھنے کی بیاض۔وہ بہی کھاتہ جس میں روز روز کا حساب کتاب یاحال احوال لکھا جاے۔روزانہ رپورٹ ۔روزانہ اطلاع۔وہ کتابچہ جس میں روزانہ کے تاریخ وار حالات یا حسابات لکھے جائیں۔انگریزی میں اسے Day-book,Diary,Juornal,Daily account book کہا جاتاہے۔
ادب کی اصطلاح میں روزنامچہ سے مراد ایسی کتاب ہوتی ہے جس میں ایک مصنف روزانہ وقوع پذیر ہونے والے واقعات اور حالات کو تاریخ وار قلمبند کرتا ہے۔روزنامچے میں تاریخی ترتیب ہی نہیں بلکہ وقت کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے۔ یعنی جس دن جو واقعات جس ترتیب سے وقوع پذیر ہوتے ہیں اسی ترتیب سے تحریر کیے جاتے ہیں۔روزنامچہ ایک ایسی غیر افسانوی ادبی صنف ہے جو آپ بیتی سے قربت رکھتی ہے۔کچھ ماہرین اسے آپ بیتی کی ذیلی چیز سمجھتے ہیں ۔یہ ضرور ہے کہ روزنامچہ کی سرحدیں آپ بیتی سے بڑی حد تک ملتی ہیں لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو روزنامچہ اور آپ بیتی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ آپ بیتی کا مرکز ومحور خود مصنف کی ذات ہوتی ہے۔اس کے بر خلاف روزنامچے میں دوسرے افراد بھی مرکزی حیثیت سے ہمارے سامنے آتے ہیں۔سادے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ روزنامچہ ایسی کتاب ہوتی ہے جس میں آپ بیتی کے ساتھ جگ بیتی کا بیان بھی ہوتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ آپ بیتی میں تاریخی تسلسل کا ہوناضروری نہیں ۔مصنف اس بات میں آزاد ہوتا ہے کہ وہ حال کے واقعات بیان کرتے ہوے ماضی میںچلا جائے۔
روزنامچہ نگاری کو یاداشت نگاری بھی کہا جاتا ہے۔لیکن روزنامچہ نگاری کو یاد داشت نگاری سے وسیع اور بسیط چیز سمجھنا چاہیے۔کیوں کہ اس میںتسلسل ہوتا ہے اورجزئیات نگاری کی بھی گنجائش ہوتی ہے۔
اردو میں روزنامچہ نگاری کی صنف زیادہ پھلی پھولی نہیں ۔معدودے چنداہلِ قلم نے اس کی طرف توجہ دی ہے۔اس صنف کے ایک اہم قلم کار خواجہ حسن نظامی ہیں۔جنھوں نے روزنامچہ نگاری کو مستقل طور پر اپنایا۔’’فرہنگِ ادبیاتِ اردو ‘‘ کے مولف ع۔ج۔واجد کے مطابق:
اب تک دریافت روزنامچوں میں سب سے زیادہ بسیط روزنامچہ سید مظہر علی سندیلوی کا ہے۔یہ سن ۱۸۶۷ء سے ۱۹۱۱ء تک کا احاطہ کرتا ہے اور ۷۷۹۹ بڑی تقطیع کے قلمی صفحات پر مشتمل ہے۔(۷)
دیباچہ:
’’دیباچہ‘‘ کے لغوی معنی ہیں:کسی چیز کا پہلا اور لازمی جزو۔کسی چیز کے لیے پہلی شرط۔ کسی چیز کا ابتدائی حصہ ۔ابتدائی دور۔پہلا زینہ۔تمہیدِ کتاب،سرنامۂ کتاب یا خطبۂ کتاب کوبھی دیباچہ کہتے ہیں۔ اس کے لیے آغازِ کلام،پیش گفتار ،پیش لفظ ،پیش نامہ جیسے الفاظ بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ انگریزی میں اسے Preface,Preamble, Forewordکہا جاتا ہے۔
کسی کتاب کی ابتدا میں کتاب اور صاحبِ کتاب کے تعارف پر مشتمل جو مضمون ہوتا ہے اسے ادب کی اصطلاح میںدیباچہ کہتے ہیں ۔ یہ ایسا مضمون ہوتا ہے جس میں کتاب کے مشمولات،کتاب تحریر کرنے کی غرض وغایت ،کتاب کے موضوع اور اس کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔مصنف یا تو اپنی کتاب کا دیباچہ خود لکھتا ہے یا کسی مشہور اہلِ قلم سے لکھواتا ہے۔عام طور پر مصنفین کسی مشہور ومعروف اہلِ قلم سے اپنی کتابوں کے دیباچے لکھوانا پسند کرتے ہیں۔ دیباچوں میں کتاب اور صاحبِ کتاب کے تعارف کے ساتھ ساتھ کتاب پر تنقید وتبصرے کی بھی گنجائش ہوتی ہے ۔ ایسے دیباچے کتاب کے مشمولات کی اہمیت وافادیت اور اس میں موجود خوبیوں اور خامیوں کو سمجھنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں جن میں کتاب کے تعارف کے باوصف تنقید وتبصرے سے بھی کام لیا گیا ہے۔
دیباچے کی افادیت یہ ہے کہ اس کے مطالعے سے کتاب کے موضوع،مشمولات،اس کے حسن وقبح،موجودہ تناظر میں کتاب کی اہمیت وافادیت کا بھر پور اندازہ ہوتا ہے۔دیباچہ پڑھنے کے بعد قاری کا ذہن پوری کتاب پڑھنے کی طرف مائل ہوتا ہے ۔
مقدمہ:
مقدمہ بھی ایک طرح کا دیباچہ ہے ۔یہ بھی کتاب کے شروع میں شامل ہوتا ہے۔دیباچے اور مقدمے میں فرق یہ ہے کہ دیباچہ سرسری اور ہلکا پھلکا ہوتا ہے۔ جب کہ مقدمہ طویل ،عالمانہ اور مدلل ہوتا ہے۔علمی اعتبار سے مقدمہ دیباچے سے اعلیٰ درجے کی چیز ہوتی ہے۔عموماً تحقیقی اور تدوینی کتابوں پر مقدمات لکھے جاتے ہیں۔مدون اور محقق اپنی کتاب پر خودمقدمہ لکھتا ہے ۔کبھی کبھی اپنے سے بڑے نہایت معتبر اور اس موضوع کے ماہر سے بھی لکھوایا جاتا ہے۔
تدوینِ متن سے متعلق کتاب ہے تو مقدمے میں تدوینِ متن کے مقصد ، اہمیت و افادیت اوردورِ حاضر میں اس کی ضرورت پر تفصیلی روشنی ڈالی جاتی ہے۔ساتھ ہی متن اور اس کے مصنف کے بارے میں تقریباً تمام ضروری معلومات پیش کی جاتی ہیں۔مقدمے میں متن کا مفصل تنقیدی جائزہ بھی لیا جاتا ہے ۔مقدمہ نگاری بھی ایک فن ہے۔ اچھے مقدمے وہ سمجھے جاتے ہیں جو غیر ضروری تفصیلات سے پاک ہوںاور جن میں اختصار کے باوصف جامعت بھی پائی جائے۔مقدمے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔مقدمے سے کتاب کی تصنیف وتالیف یا تدوین وترتیب کا مقصد سمجھ میں آتا ہے۔مقدمہ ‘کتاب اور صاحبِ کتاب ‘متن اور صاحبِ متن کی تفہیم میں بھی سود مند ثابت ہوتا ہے۔
تقریظ:
تقریظ کے لغوی معنی ہیں : کسی زندہ شخص کی تعریف وتوصیف بیان کرنا۔فرہنگِ آصفیہ ،لغاتِ کشوری اورلغاتِ فارسی( مولفہ: لالہ رام نرائن لال) میںاس کا املا’’ تقریض ‘‘بھی دیا گیا ہے۔ممکن ہے پہلے اس املے کا بھی چلن رہا ہولیکن اب یہ املا رائج نہیں ۔ بقولِ عبادت بریلوی ایامِ جاہلیت میں یہ لفظ عرب میںایک عرصے تک تنقید کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔(۸)
ادب کی اصطلاح میں تقریظ اس مضمون کو کہتے ہیں جو کسی کتاب کی تعریف و توصیف میںکسی دوسرے شخص نے لکھا ہو۔ تقریظ عام طور پرکتاب کے آخر میں شامل کی جاتی ہے۔پہلے تقاریظ لکھنے کا عام رواج تھا۔اس دور کی تقریباً ہر کتاب کے آخرمیں تقریظ نظر آتی ہے۔ آج تقریظ نگاری کی صنف تقریباً متروک ہوچکی ہے۔دراصل تقریظ ایک ایسی عبارت ہوتی تھی جس میں کتاب اور صاحبِ کتاب کی تعریف وتوصیف مبالغہ آرائی کے ساتھ بیان کی جاتی تھی۔ تقریظ نگار کتاب میں موجود خامیوں کو نظرانداز کرتے ہوے صرف اور صرف کتاب اور صاحبِ کتاب کی خوبیاں بیان کرتا تھا۔تقریظ کو تنقید کی ایک قسم کہا جاسکتا ہے لیکن ناقص اور نا مکمل۔اسی لیے اس کی تنقیدی اہمیت بہت کم ہے۔اتنا ضرور ہے کہ اردو میں تنقید کی روایت کو سمجھنے کے لیے اردو میں لکھی گئی تقاریظ کا مطالعہ سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔بہر حال اردوکی غیر افسانوی نثری اصناف میں تقریظ بھی شامل ہے۔آج کل مدارسِ اسلامیہ سے فارغ‘ مذہبی موضوعات پر لکھنے والے اہلِ قلم حضرات کی کسی کسی کتاب میں تقریظ کے عنوان سے ایسی عبارت نظر آتی ہے۔
تنقید:
غیر افسانوی اصناف ِ ادب میں تنقید بھی ایک اہم صنف ہے۔لفظ ’’تنقید‘‘ عربی لفظ ’’ نقد‘‘سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں: ’’ جانچنا اور پرکھنا‘‘ ۔تنقید کا مفہوم ہے : جانچنے اور پرکھنے کا عمل۔اصطلاح میں کسی چیز کی خوبیوں اور خامیوں کا صحیح اندازہ لگا کر اس پر کوئی رائے قائم کرنا تنقید کہلاتا ہے۔تنقید کو انتقاد بھی کہتے ہیں لیکن یہ لفظ اردو میں مستعمل نہیں۔انگریزی میں تنقید کے لیے Criticism کا لفظ استعمال ہوتاہے جس کے حقیقی معنی عدل و انصاف یا فیصلہ کرنے کے ہیں۔ گویا تنقید ایسی تحریر ہوتی ہے جس میں کسی چیز کے تمام پہلوؤں کا باریک بینی اور غیر جانبداری کے ساتھ جائزہ لے کر اس کے بارے میں نپی تلی اور حقیقت پر مبنی رائے دی جائے۔
وہ تنقید جو ادب کو جانچنے اور پرکھنے کا کام کرتی ہے اسے ادبی تنقید کہتے ہیں۔اس فن کا ماہر نقاد کہلاتا ہے۔ نقاد کسی ادبی فن پارے کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کر کے نہ صرف اس کی خوبیوں اور خامیوں کا پتا لگاتا ہے بلکہ اس فن پارے کی قدر وقیمت کا تعین بھی کرتا ہے۔تنقید میں تجزیہ اور تشریح بھی ہوتی ہے اور وضاحت اور صراحت بھی ۔تنقید ادب کی تفہیم اور اس کے فروغ میں اہم رول ادا کرتی ہے۔تنقید قاری اور ادب کے درمیان رابطے کا کام بھی کرتی ہے۔ڈاکٹر عبادت بریلوی نے ہڈسنؔ کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
جب ہم تنقیدی ادب کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ عدل ،انصاف،رائے دینا یا کسی قسم کا حکم لگانا ہی تنقید نہیں ہے بلکہ وہ تمام ادب تنقید کے تحت شمار کیا جا سکتا ہے جوادب کی دوسری اصناف کے متعلق لکھا گیا ہو۔چاہے وہ ان اصنافِ ادب کی تشریح کرے ،تجزیہ کرے یا ان کی قدر وقیمت کا پتہ لگائے یا اس کی تحریر میں بیک وقت یہ تمام خصوصیات نمایاں ہوں۔تنقید ادب کی تمام اصناف یعنی شاعری ،افسانہ نگاری ،ڈرامہ نویسی اور خود تنقید نگاری سے سروکار رکھتی ہے۔اگر ادب کی ان اصناف کو زندگی کا ترجمانکہا جائے توان اصناف نے زندگی کی جو ترجمانی کی ہے اس کی ترجمان تنقید ہے۔(۹)
تنقید کا مقصد اور اس کی اہمیت وافادیت سے بحث کرتے ہوے پروفیسر آل احمد سرور لکھتے ہیں:
تنقید کا کام فیصلہ ہے۔تنقید دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کردیتی ہے۔تنقید وضاحت ہے ،تجزیہ ہے۔تنقید قدریں متعین کرتی ہے،ادنیٰ اور اعلیٰ ،جھوٹ اور سچ،پست وبلندکے معیار قائم کرتی ہے۔تنقید ادب میں ایجاد کرنے اور محفوظ رکھنے دونوں کا کام انجام دیتی ہے۔وہ بت شکنی بھی کرتی ہے اور بت گری بھی۔تنقید کے بغیرادب ایک ایسا جنگل ہے جس میں پیداوار کی کثرت ہے،موزونیت اور قرینے کا پتہ نہیں۔(۱۰)
اچھی تنقیدنہ صرف ادب کی تفہیم اور اس کے ارتقا میں اہم کردار ادا کرتی ہے بلکہ بقول آل احمد سرور ایسی تنقیداچھی تخلیق سے کم نہیں ۔وہ لکھتے ہیں:
اچھی تنقید محض معلومات ہی فراہم نہیں کرتی بلکہ وہ سب کام کرتی ہے جو ایک مورّخ،ماہرِ نفسیات،ایک شاعر اور ایک پیغمبر کرتا ہے۔تنقید ذہن میںروشنی کرتی ہے۔اور یہ روشنی اتنی ضروری ہے کہ بعض اوقات اس کی عدم موجودگی میں تخلیقی جوہر میں کسی شے کی کمی محسوس ہوتی ہے۔(۱۱)
مختصر یہ کہ تنقید غیر افسانوی ادب کی ایک اہم صنف ہے جس کی ضرورت ،اہمیت اور افادیت مسلّمہ ہے۔اردو تنقید کے ارتقا اور فروغ میں محمد حسین آزاد ،حالی ،شبلی،مولوی عبد الحق ،عبد الرحمان بجنوری، نیاز فتح پوری،ڈاکٹرزور ،مجنوں گورکھپوری ،ڈاکٹر سید عبداللہ ،کلیم الدین احمد ،احتشام حسین ، عبادت بریلوی ،آل احمد سرور،وقار عظیم،محمد حسن عسکری،خورشید الاسلام،محمد حسن ،ریاض احمد، محمد احسن فاروقی،سیدشبیہ الحسن ،ڈاکٹرعبدالعلیم،اسلوب احمد انصاری ،گوپی چند نارنگ،شمس الرحمان فاروقی،سلیم احمد،وارث علوی،شمیم حنفی،عبد المغنی،وہاب اشرفی،مغنی تبسم،انور سدید، سید محمدعقیل ،قمر رئیس، فضیل جعفری،باقر مہدی،ابولکلام قاسمی ( فہرست نا مکمل ہے )جیسے کئی نقادوں نے اردو تنقید کو وقار واعتبار عطا کرنے میں اہم کردارا دا کیا ہے۔
تبصرہ:
’’تبصرہ ‘‘کے لفظی معنی ہیں : کسی کو کوئی چیز دکھانا۔اس کے مجازی معنی ہیں کسی بات کے متعلق اظہارِ رائے، بصیرت کا اظہار،کسی امر یا واقعے کے بیان میں خوبیوں اور خامیوں کا ذکر،کسی چیز کے معائب اور محاسن پر روشنی ڈالنا ۔ادب کی اصطلاح میںتبصرہ اس مضمون کو کہتے ہیں جس میں کسی کتاب یا رسالے کو پڑھ کر اس کی خوبیوں اور خامیوں پر اظہارِ خیال کیا گیا ہو۔تبصرہ تنقید ہی کی ایک شاخ ہے ۔تبصرے میں زیرِنظر کتاب کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کر کے اس کے مضامین، موضوع اوراسلوب ِ نگارش کا غیر جانبداری کے ساتھ جائزہ لیا جاتا ہے ۔تبصرہ نگاری کا یہ مقصد ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے قارئین کو کتاب کے مشمولات ومضامین سے واقف کروایا جائے۔یہی نہیں بلکہ کتاب کی اہمیت وافادیت کو اجاگر کرتے ہوے کتاب پڑھنے کی ترغیب دینا بھی اس کا مقصد ہو تاہے۔اچھا تبصرہ وہ ہوتا ہے جس میں کتاب کی خوبیوںکے ساتھ ساتھ اس کی خامیوں پربھی گفتگو کی جائے۔پروفیسر کلیم الدین لکھتے ہیں:
تبصرے کا مقصد ہے کسی کتاب کے جوہر کا پتہ لگانا اور اسیاجمال یا تفصیل کے ساتھ پیش کرنا اور جو کچھ کہا جائے اس سے کتاب کی اہم ترین خصوصیتیں(خوبیاں اور برائیاں دونوں) واضح ہو جائیں۔(۱۲)
تبصرہ مختصر ،جامع اور پُر مغز ہونا چاہیے ۔اچھے تبصرے زیرِ تبصرہ کتاب کی شہرت اورفروخت کا بھی اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔
تحقیق:
تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے۔اس کے معنی ہیں:تلاش وجستجو،چھان بین، کھوج ،دریافت وغیرہ۔پروفیسر کلبِ عابد کے مطابق:
تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے۔یہ بابِ تفعیل سے مصدر ہے۔اس کے اصلی حروف ح ق ق ہیں۔اس کا مطلب ہے حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا۔(۱۳)
ڈاکٹر سیدمحمد عبداللہ اپنے ایک مضمون بعنوان’’ تحقیق وتنقید‘‘ میں تحقیق کا معنیٰ اور مفہوم بیان کرتے ہوے لکھتے ہیں:
تحقیق کے معنی کسی شے کی حقیقت کا اثبات ہے۔اصطلاحاً یہ ایک ایسے طرزِ مطالعہ کا نام ہے جس میں’’ موجود مواد ‘‘صحیح یا غلط کو بعض مسلمات کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے۔(۱۴)
گویا حق کو ثابت کرنا یاحق کی دریافت کا عمل تحقیق کہلاتا ہے۔ڈاکٹر عبدالرزاق قریشی نے تحقیق کی مختلف تعریفات کی روشنی میں تحقیق کا مقصد یوں بیان کیا ہے:
۔۔۔تحقیق کا مقصد (۱)نا معلوم حقائق کی تلاش اور(۲)معلوم حقائق کی توسیع یا ان کی خامیوں کی تصحیح ہے۔ان دونوں کا نتیجہ حدودِ علم کی توسیع ہے اور حدودِ علم کی توسیع انسانی ترقی کا باعث ہوتی ہے۔(۱۵)
واقعہ یہ ہے کہ تحقیق کے وسیلے ہی سے ہم کسی شے کی حقیقت اور ماہیت کو سمجھ سکتے ہیں۔حقائق کا ادراک تحقیق ہی کے ذریعے ہوتا ہے۔ تحقیق کی بدولت ہی ہم پر اس عالم ِرنگ وبو کے اسرار منکشف ہوتے ہیں۔تمام قسم کے علوم وفنون کی توسیع کے لیے تحقیق بے حد ضروری ہے۔ادب سے تعلق رکھنے والی تحقیق کو ادبی تحقیق کہا جاتا ہے۔تحقیق بھی غیر افسانوی ادب کی ایک اہم شاخ ہے۔
تحقیق کی اہمیت وافادیت سے کسی کو انکار نہیں ۔تحقیق ایک مسلسل اور غیر مختتم عمل ہے ۔اس سے نئی نئی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔یہ تحقیق ہی ہے جس کے ذریعے غیر موجود حقائق کو دریافت کیا جاتا ہے اور موجود حقائق کا دوبارہ جائزہ لے کران کی تصحیح کی جاتی ہے۔نتیجے کے طور پر حدودِ علم میں توسیع ہوتی رہتی ہے۔ ادب کے فروغ اور ارتقا میںجتنی اہمیت تنقید کی ہے اتنی ہی اہمیت تحقیق کی بھی ہے۔تحقیق اور تنقید ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ایک اچھا نقاد وہی ہوسکتا ہے جس میں محققانہ اوصاف بھی ہوں۔اسی طرح بہترین محقق وہ ہے جس میںتحقیقی صلاحیتوں کے باوصف زبردست تنقیدی بصیرت بھی موجود ہو۔
شبلی نعمانی ،عبد الحق،محمود شیرانی،قاضی عبد الودود،امتیاز علی خان عرشی،مالک رام،نورالحسن ہاشمی،مسعود حسین خان،محی الدین قادری زور ،نذیر احمد،مختارالدین احمد،مشفق خواجہ ،خلیق انجم،جمیل جالبی،رشید حسن خان،خواجہ احمد فاروقی،تنویر احمد علوی، عبد الرزاق قریشی،گیان چند جین،کالی داس گپتا رضا،،سیدہ جعفر،محمد علی اثر،اسلم مرزا ،شمیم طارق،(فہرست نا مکمل ہے) جیسے بیسیوں محققین نے اردو میں تحقیق کی بنیادیں استوار کرنے کا فریضہ انجام دیا ہے۔
تذکرہ:
تذکرہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی : ذکر ،یاداشت، بیان،یاد گار،سر گزشت ،سوانح عمری کے ہیں۔ اصطلاحی معنوں میں تذکرہ ایسی کتاب کو کہا جاتا ہے جس میں کسی خاص علم وفن کے مشاہیر کے حالاتِ زندگی جمع کیے گئے ہوں۔مثلاً: علما کے تذکرے ،محدثین کے تذکرے ،صوفیہ کے تذکرے ،مورخین کے تذکرے ،شعرا کے تذکرے وغیرہ۔ادب کی اصطلاح میں تذکرہ سے مراد ایسی کتاب ہوتی ہے جس میں شعرا کے حالاتِ زندگی اور ان کا نمونۂ کلام دیا جاتا ہے۔اردو زبان میںبہت سارے تذکرے لکھے گئے ہیں ۔مثلاً: نکات الشعرا( میر تقی میرؔ) ،تذکرہ ٔ شعرائے اردو( میر حسنؔ)،تذکرۂ ہندی اور ریاض الفصحا( مصحفیؔ)،مخزنِ نکات ( قائمؔ چاند پوری)،گلشنِ ہند( مرزا لطف علی)،چمنستانِ شعرا( لچھمی نرائن شفیقؔ)،گلشنِ بے خار( مصطفیٰ خان شیفتہ ؔ)،آبِ حیات( محمد حسین آزاد)۔یہ تذکرے اردو زبان وادب کی تاریخ بھی ہیں،اردو تنقید کے ابتدائی نمونے بھی ہیں ،شعرائے اردو کے حالاتِ زندگی کی دستاویز بھی ہیں اور ان کی سیرت وکردار کے مرقعے بھی ہیں۔اس طرح تذکرے کے حدود بہ یک وقت،سوانح ، تنقید،تاریخ اور سیرت نگاری سے ملتے ہیں۔
غیر افسانوی ادب کی اہمیت وافادیت:
غیر افسانوی ادب کو ہم ترسیل وابلاغ کا بہترین ذریعہ کہہ سکتے ہیں۔کیوں کہ اس کے ذریعے خیالات واحساسات اور نظریات کی ترسیل بغیر کسی الجھاوے کے آسانی کے ساتھ ہو جاتی ہے۔جبکہ افسانوی ادب میں یہ ممکن نہیں۔ کیوں کہ افسانوی ادب کی تخلیق میں تخیل، رومانیت، استعارات ،تشبیہات ،علامات،رمز وکنایہ جیسے مختلف وسائل کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اگر چہ غیر افسانوی ادب میںبھی کہیں کہیں ان وسائل کا استعمال ہوتا ہے لیکن بہت کم اور سادے طریقے سے ہوتا ہے۔افسانوی ادب میںابہام ہوتا ہے جب کہ غیر افسانوی ادب میں وضاحت وصراحت ہوتی ہے۔غیر افسانوی ادب میں دنیا کے حقائق، تجربات و مشاہدات اورمسائلِ حیات کو قصہ پن کے بغیر راست اور سلیس انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ افسانوی ادب چوں کہ تخیل کا زائدہ ہوتا ہے اور اس میں قصہ ،پلاٹ ،مکالمے ہوتے ہیں ۔قصہ کبھی کبھی پیچیدہ بھی ہوجاتا ہے۔ اس لیے افسانوی ادب کی تفہیم میں بسا اوقات دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔جب کہ غیر افسانوی ادب میں یہ مشکلات نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر قسم کی علمی ،سائنسی ،تیکنیکی ،سماجی ،مذہبی ،قانونی،تاریخی اور سیاسی تحریروں کے لیے غیر افسانوی نثر کا استعمال کیا جاتا ہے۔
حوالے:
(۱)وزیر آغا،انشائیہ کے خدو خال(مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی،۱۹۹۱ء) ص۹ تا ۱۰
(۲)ڈاکٹر سیدہ جعفر،اردو میں مضمون کا ارتقا(نیشنل فائن پرنٹنگ پریس حیدرآباد،۱۹۷۳)ص۱۲
(۳)پرفیسر گیان چند،تحقیق کافن(اترپردیش اردو اکادمی لکھنئو،۱۹۹۰) ص۵۶
(۴)بحوالۂ عطیہ رئیس ،غیر افسانوی اردو نثر(ایم۔آر ۔پبلی کیشنزدہلی ،۲۰۰۸ء) ص۱۹۱
(۵)ڈاکٹر صابرہ سعید،اردو ادب میں خاکہ نگاری( ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ ،۲۰۰۹ء)ص۶۱
(۶) ڈاکٹر طلعت گل،اردو رپورتاژ( کتابی دنیا دہلی،۲۰۰۴ء)ص۵
(۷)ج۔ع۔واجد،فرہنگِ ادبیاتِ اردو(کتابی دنیا دہلی،۲۰۱۱ء) ص۳۲۷
(۸)ڈاکٹر عبادت بریلوی،اردو تنقید کا ارتقا(ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ،۱۹۹۶ء) ص۱۳۲
(۹)ایضاً ص۲۹
(۱۰)آل احمد سرور،تنقید کیا ہے(مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ،دہلی۱۹۸۰ء) ص۱۹۹
(۱۱)ایضاً ص۱۹۶
(۱۲)کلیم الدین احمد،اردو تنقید پر ایک نظر(ادارہ ٔفروغِ اردو لکھنئو،۱۹۵۷ء) ص۳۰۵
(۱۳)بحوالۂ گیان چند ،تحقیق کا فن( اترپردیش اردو اکادمی لکھنئو،۱۹۹۰ء) ص۲
(۱۴)تنقیدی نظریات حصۂ اول ،مرتب سید احتشام حسین(اترپردیش اردو اکادمی لکھنئو،۲۰۰۹ء) ص۱۱۸
(۱۵)عبدالرزاق قریشی،مبادیاتِ تحقیق(انجمنِ اسلام اردو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ممبئی،۲۰۱۴)ص۱۷