کل یہاں بفلو میں سارا دن بارش ہوتی رہی اور میں صرف ہوٹل سے کتابوں کی دوکان تک جا پایا ، اور آج صبح سے برفباری ۔ نیاگرا جہاں میں نے جانا ہے ایک خواب سا بن کر فضا میں تحلیل ہوتا دکھائ دے رہا ہے ۔ لیکن شاید ایک طرح سے میں وہیں ہوں کیونکہ وہ تو ایک کیفیت ہے اور میری consciousness تو رات بھی وہیں آبشار کے چرنوں میں رقص کرتی رہی ۔ بہت سال پہلے مجھے برٹش میوزیم میں ایک خاتون نے اپنی تصویر کھنچواتے ہوئے کہا تھا کے یہ تصویر ہی ہے جو اس بات کی تصدیق کرے گی کے اس نے یہ تاریخی میوزیم بھی دیکھا ۔ وگرنہ اسے تو نہ کوئ دلچسپی اور نہ ہمت ، کون ان نوادرات اور فن پاروں کی نانی جاننے کی کوشش میں سر کھپائے ۔ لاہور میوزیم کی مایہ ناز curator، میری دوست نوشابہ بھی یہی بتاتی ہیں کے سوائے سفارت کاروں کے کسی کو کوئ دلچسپی نہیں ، شاید سفارتکاروں کی بھی مجبوری ہے کے اس ملک کی ثقافت کے بارے جانکاری ، ان کی نوکری کا اہم جزو ہے ۔ نوشابہ کے مطابق ، لاہور میوزیم کا ڈائریکٹر ، اُس کی بجائے ہر دفعہ ، کسی بابو ، تماشبین یا ویاگرا میں دلچسپی والے فنکار کو لگا دیا جاتا ہے جو اس کی برسوں کی محنت پر پانی پھیر دیتا ہے ۔ پاکستان ویسے بھی “ڈنگ ٹپاؤ تے مال بناؤ “ فلسفہ پر چل رہا ہے کون بتائے بہن نوشابہ کو ۔
وہی کل والا ٹی روم کا ٹی وی بتا رہا تھا کے کوئ جوڑا اپنا بچہ نیویارک کے لانگ آئلینڈ والے JCPenny میں بھول گیا ۔ جب اسٹور بند ہوا تو اسٹور مینیجمنٹ نے بچہ پولیس کے حوالے کیا ۔ بچہ بہت مزے سے اسٹرولر میں سویا ہوا تھا ۔ ٹی وی نے مزید بھی بتایا کے وہ بچی جس کا ٹویٹر پر اشتہار چلا تھا ، جو سالوں پہلے Hawaii میں دوستوں سے جدا ہوئ ، وہ ۸۱ ہزار ریٹؤیٹ کے بعد ان احباب کو مل گئ ۔ سوشل میڈیا نے معاملات بہت آسان کر دیے ہیں ۔ آپ اپنی سوچیں بھی ٹیلی پیتھی کے زریعے اب با آسانی شئیر کر سکتے ہیں ۔
یہ سارا معاملہ ہی دراصل اس حقیقت کے گرد گھومتا ہے کے سب چیزیں ایک flow یا motion میں ہیں ۔ آپ سفر نہیں کر رہے ہوتے اصل میں وہ خیال سفر کر رہا ہوتا ہے جو وقت اور رفتار کی قید سے آزاد ہے ۔ آپ کی حاضری اب فزیکل حیثیت نہیں رکھتی بلکہ consciousness کا حصہ ہے اور اسی ہی کے تابع ۔
میں نے جس کتاب کا سرورق اپنے فیس بک پیج پر لگایا وہ کہانی بھی اسی بیانیہ کے گرد گھومتی ہے ۔ ایک لڑکا اینڈریو خواب دیکھتا ہے کے وہ ایک نیلے رنگ کی کار بلکہ ٹائم مشین پر بہت دور سفر کرتا ہے اور اسے ایک خاتون ملتی ہے جو ایک لیب میں مصروف ہوتی ہے اور اسے کہتی ہے کے “میں تم ہوں ، اور تم میں ۔ میں بھی پہلے لڑکا تھا “ وہی ٹائم مشین اسے جب واپس لے جاتی ہے تو اینڈریو اپنے باپ کو خواب سناتا ہے ، جو سن کر شدید برہم ہو جاتا ہے ۔ اینڈریو آخر آمانڈہ بن ہی جاتی ہے لیکن معاشرہ اور اس کی اپنی سوچ تسلیم کرنے سے انکاری ۔ ہماری فزیکل موجودگی نجانے کیوں ہماری روحانی موجودگی پر ہاوی ہونے کی کوشش کرتی ہے ؟وہ فزیکل جسم ، جس کو جب روح چھوڑتی ہے تو جلا دیا جاتا ہے ، یا مٹی میں دفن یا ٹاور پر چیلوں کے کھانے کے لیے ؟
یہاں امریکہ میں ہی ایک افریقی امریکی مولانا کورینگا ہیں ۔ وہ پیدا تو امریکہ میں ہوئے لیکن سیاہ فام لوگوں کے لیے خاص طور پر افریقہ میں موجود بہت جدوجہد کی ۔ متعدد بار جیل میں رہے اور جیل سے ہی پی ایچ ڈی کی ۔ اپنا ایک انہوں نے فلسفہ متعارف کروایا ہے جسے سنہالی زبان میں یہاں امریکہ میں وہ پروموٹ کرتے ہیں ۔ اس کی بنیاد مولانا ڈاکٹر کرینگا joy of Kwanzaa میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں ۔
“Cosmic consciousness is not only attainable by anybody , it is every ones natural state , with which they may have temporarily lost touch . Our spiritual journeys are in fact about circling back in to it , like a prodigal child returning home .. “
صدقے جاؤں مولانا صاحب کی سوچ اور بیانیہ پر ۔ مولانا صاحب نیو جرسی کی neighbouring state میریلینڈ میں رہتے ہیں ، میری بڑی خواہش ہے کے کسی دن مولانا سے ملاقات کروں اور فیض یاب ہوں ۔ حقیقت یہی ہے جو مولانا صاحب بیان فرما رہے ہیں ۔ یہی حقیقت شاہ شمس تبریز نے رومی کو بتائ تھی اور وہ روشنی بن گئے ۔ یہی سچ ہے ۔ یہی مسلم صوفیوں کا طریق تھا ۔ اسی کو لے کر یہاں امریکہ میں کوئ سو سے زیادہ روحانی تحریروں کے لکھنے والے آگے بڑھے ۔ یہی بنیادی نقطہ ہے ۔ ہم تو وہاں پہلے ہی ہیں ، جہاں ہم جانے کے لیے رسے تڑوا رہے ہیں ۔ غور تو کیجئے ؟ سوچئے تو صیحیح ؟ اللہ تعالی آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔ دعاگو ۔
ماضی، شماریات اور خربوزے
پرانے زمانے میں لوگ عمر کا حساب کیسے رکھتے تھے؟ مشہور لوک گلوکارہ ریشماں سے کسی نے پوچھا کہ آپ...