استادِ محترم ڈاکٹر ظہور احمد اعوان سے ایم اے کی کلاس میں ایک کہانی سُنی تھی کہ جب سند باد کا جہازی رُخ کے پنجوں بندھ کر ایسے جزیرے میں پہنچا جس کی زمین کا چپہ چپہ لعل و یاقوت، نیلم و پکھراج سے پٹا پڑا دیکھا تو لالچ کی تیز آنچ اس کے سینے میں بھڑک اُٹھی اور اس نے دوڑ کر اپنی جیبیں بھرنی شروع کی۔ سند باد جب آگے بڑھا تو اور بہتر ہیرے جواہرات دکھائی دیئے۔ اس نے فوراً اپنی جیبیں خالی کیں اور ان کو اپنی دانست میں بعد کے بہتر جواہرات سے بھر لیں۔ وہ جوں جوں آگے بڑھا اور بہتر ہیرے اور جواہرات سے بھر لیں۔ وہ آگے بڑھتا رہا اور یہی صورتِ حال پیش آتی رہی حتیٰ کہ غروبِ آفتاب کے وقت وہ فیصلہ نہ کر سکا کہ وہ کیا لے جائے اور کیا چھوڑے۔۔۔۔۔۔ حیدر قریشی کی چھے کتب کے یک جلدی مجموعے ’ ہمارا ادبی منظر نامہ ‘ جو بڑی حد تک اُن کا ’رزم نامہ ‘ ہے کو پڑھتے بلکہ اُن کے صنم کدۂ حرف و سُخن میں پھرتے پھرتے میری بھی کچھ یہی حالت ہو گئی۔ اُردو ادب کی دس گیارہ اصناف میں قلم کاری و گل کاری کرنے والے اس ادیب کے منظر نامے میں کیا نہ ہو گا، شاید اسی لیے میری جیبیں بھی بھرتی اور خالی بھی ہوتی گئیں۔ ایک صدی کا قصہ ہے، میں اُردو اصناف کے ہست و نیست اور موت و نمود کی کہانی ہو یا اُردو کا پس منظر، تہہ منظر اور پیش منظر ہو یا یورپی ممالک میں اُردو شعر و ادب کا جائزہ، اُردو نظم کی روایت سے جدیدیت کا سفر ہو یا’ دیوان ریختی‘ اوراقِ گم گشتہ، اسی طرح میرا جی کی شخصیت اور فن کے حوالے سے اظہارِ خیال ہو یا سجاد ظہیر کی ترقی پسندی کا جائزہ، ہمت رائے شرما کی تحریروں پر رائے زنی ہویا فیض کی پرورشِ لوح و قلم کی داستان سرائی اور جستہ جستہ مظہر امام کی یاد نگاری سے لے کر جمیل زبیری کے سفر ناموں تک کا احطہ بھر پور انداز میں کیا ہے۔ جو گندر پال، عذرا اصغر کی فسوں کاری کا فسانہ ہو یا نسائی شاعری کی آن پروین شاکر کی قدر پیمائی، خورشید اقبال، نذیر فتح پوری اور اکبر حمیدی کی شاعری اور ترنم ریاض کی ناول نگاری کا جائزہ، حیدر قریشی کی رائے کی تکذیب مشکل ہو جاتی ہے۔ کتاب کے اس حصے میں مابعد جدیدیت پر وزیر آغا، ناصر عباس نئیر اور حیدر قریشی کا مکالمہ بھی اُردو ادب کے قاری کے ذہن میں اُٹھنے والے سوالات کے لیے تازیانے بن جاتے ہیں۔
’تاثرات‘ میں شامل مغرب میں اُردو کے مستقبل اور صورتِ حال پر تین مضامین بھی اپنے اندر بھر پور جانکاری رکھتے ہیں۔ ہرمن ہیسے کے ’سدھارتھ‘ ایوب خاور کی شاعری اور کثیرالجہت ادیب عبداللہ کی زندہ جاوید تحریروں پر سیر حاصل گفتگو بھی کسی ادبی غذا سے کم نہیں۔ تقریباً ستر، اسّی ادیبوں اور اتنے ہی موضوعات پر اس کتاب میں حیدر قریشی کے تاثرات ملا واحدی کی ’تاثرات‘ کی یاد دلاتی ہیں
حیدر قریشی کی تاثرات میں ایک مضمون جامعات میں اُن پر ہونے والے تحقیقی کام کے حوالے سے ہے جس میں انڈیا اور پاکستان کی یونیورسٹیوں سے اُن پر براہِ راست ایم۔اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر ہونے والے کام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ کئی صفحات پر مشتمل اس پُر مغز مضمون کے حاصلِ بحث میں لکھتے ہیں:
’’میرے نزدیک ہر ایک کی اپنی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے تاہم جب سارے اچھے کام میں سے زیادہ اچھے کام کا انتخاب کرنا ہو تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ عامر سہیل کا مقالہ اپنی علمی، ادبی، تحقیقی اور وسعت کی بنیاد پر دوسرے مقالات سے آگے دکھائی دے رہا ہے۔ جیسے پہلے منزہ یاسمین کا مقالہ بعد میں آنے والوں کے لیے حوالے کی کتاب ثابت ہوا، ویسے ہی عامر سہیل کا مقالہ ایک بنیاد اور نیا حوالہ بن کر سامنے آیا ہے۔ اگر کسی اور ریسرچ سکالر کو میرے کام پر مزید کام کرنے کا خیال آیا تو منزہ یاسمین، ڈاکٹر عبدالرب استاد، انجم آراء، رضینہ خان اور ہردے بھانوپرتاب کے مقالات سے استفادہ کرنے کے ساتھ، اس کے لیے عامر سہیل کا مقالہ نئی تحقیقی راہوں کی نشاندہی کرتا دکھائی دے گا۔ اتنی توجہ اور محنت و محبت کے ساتھ مقالہ لکھنے پر عامر سہیل کا شکر گزار ہوں، ان کے نگران ڈاکٹر الطاف یوسف زئی کا ممنون ہوں اور مانسہرہ یونیورسٹی کے ارباب ِ اختیار کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں‘‘(۱)
منزہ یاسمین کی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، ڈاکٹر عبدالرب اُستاد کی گلبرگہ یونیورسٹی کرناٹک، انجم آراء کی کلکتہ یونیورسٹی اور رضینہ خان اور ہردنے بھانوپرتاب کی جواہرلال نہرو یونیورسٹی میں قائم شعبہ جات کی عمر و منزلت میں کسی کو کلام نہیں مگر عامر سہیل کی ہزارہ یونیورسٹی شعہ اُردو کی عمر ابھی صرف چار سال ہے عامر سہیل یہاں سے فارغ ہونے والے سولہویں ریسرچ سکالر۔ اس کونپل شعبے سے ہونے والے کام پر حیدر قریشی کی ’شاباش تھپکی‘ اس شعبے کے لیے بہتر مستقبل کی نوید ہے۔’ہمارا ادبی منظر نامہ‘ کا اگلا پڑاؤ ’ ڈاکٹر گوپی چندر نارنگ اور مابعد جدیدیت‘ ہے۔ یہاں حیدر قریشی ایک بے باک محقّیق و ناقد کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ڈاکٹر گوپی چند سے حیدر قریشی کی ادبی مبازرت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آتش و ناسخ کے ادبی رزم گاہوں میں تو خلقِ خدا غائبانہ کہنے پر ہی اکتفا کرتی تھی مگر یہاں تو انٹرنیٹ اوپن مکالمے ہیں، ڈاکٹر نارنگ کے ادبی سرقوں کے دفاعی مہم کے خلاف حیدر قریشی کے تابڑ توڑ حملے ہیں، نصرت ظہیر اور پرویزی حیلوں کی روداد ہے۔ مار دھاڑ سے ادبی حقیقتِ حال کی بحثیں ہیں، جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲ کی کہانی ہے۔ ڈاکٹر گوپی چند کے دوستوں کے ای میلز پر حیدر قریشی کے تاثرات ہیں کہ حملہ بےجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور۔
نارنگ صاحب کے سرقات کے حوالے سے کیا ثابت ہوا؟ اس پر کوئی رائے دینے کی بجائے یہ معاملہ ادب کے قارئین پر چھوڑتا ہوں۔ قارئین خود سارے قضیہ کا مطالعہ کریں اور خود ایمان داری کے ساتھ فیصلہ کریں۔ ایمانداری کی بات یہ ہے کے حیدر قریشی جیسا نڈر ادیب ہی ایسے معملے میں ہاتھ ڈال سکتا تھا۔ وہ اپنی سچائی اور ڈنائی سے مڑتا نہیں، چاہے انتظار حسین اور جوگندر پال کا موازنہ ہو یا ظفر اقبال کی تعریف پر یشیمان ہونے والے شمس الرحمٰن فاروقی کے لیے’ہورچوپو‘ کاطعنہ یا مراعات دیکھ کر ترقی پسندی کی چادر اُتار پھینکنے والی کشور ناہید کی حق گوئی سے’پرسونا‘ ہٹانا۔ اور تو اور ظفر اقبال کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا کی رائے بھی من و عن بیان کر دی کہ ظفر اقبال ۱۹۸۵ء تک آتے آتے ادبی خودکشی کر چکے تھے۔
پڑاؤ کے اگلے حصے میں’ستیہ پال آنندکی۔۔ بودنی نا بودنی‘ کے نام سے ہومر کی ٹرائے کی طرح کا ایک محاربہ قائم کیا ہے۔ یہاں حیدر قریشی کا دو ٹوک انداز ملاحظہ ہو:
’’ ستیہ پال آنند کی شاعری جیسی بھی ہے، وہی ان کی شعری پہچان بنے گی اور اسی کی بنیاد پر ان کے اہم یا غیر اہم شاعر ہونے کا فیصلہ ہو گا۔ ابھی تک جو منظر دکھائی دے رہا ہے اس کے مطابق ستیہ پال اپنے تخلیقی جوہر پر بھروسہ کرتے ہوئے نظمیں کہنے سے زیادہ پنلک ریلیٹنگ سے کام لے کر شہرت کمانے کے شارٹ کٹ اختیار کرتے پائے جاتے ہیں۔ وہ اچھی نظمیں لکھنے کی کاوش کرنے سے زیادہ غزل کی مخالفت کر کے مشہور ہوتے ہیں‘‘(۲)
معروف شاعر احمد فراز کے بارے میں ستیہ پال نے ایک رائی قائم کی ہے کہ وہ ادب سے بے بہرہ خواتین کے جمگھٹے میں بیٹھ کر اسے اپنی ادبی مقبولیت سمجھتے ہیں۔ جس پر حیدر قریشی ستیہ پال کو کتاب کے اس حصے میں آڑے ہاتھوں لیتے ہیں:
’’فراز کے مقابلہ میں ایک دو منٹ خواتین کا قرب نصیب ہوا تو غزل کے بے وزن مطبوعہ مجموعے کی شاعرہ کے سر پرست بن گئے۔ دوسری طرف ہیمبرگ میں ایک ایسی خاتون کے شعری مجموعہ کی تقریب رونمائی کے لیے دوڑے چلے گئے جو سراسر روایتی غزل کے انداز میں بے وزن شاعری کرتی ہیں۔ رات بھر اُن کے مسؤدہ پر اصلاح دیتے رہے اور اگلے دن ہیمبرگ جا کر کتاب کی اشاعت کے بغیر رونمائی کر دی۔ اسے غائبانہ نماز جنازہ کے انداز کی غائبانہ تقریب رونمائی کہہ سکتے ہیں‘‘(۳)
خواتین سے مراسم کے بارے میں ستیہ پاجبلت سے یوں پردہ اُٹھاتے ہیں:
’’ستیہ پال نے خود بتایا کہ میں فلاں رسالہ کے مدیر کی اہلیہ کو ہر سال عیدی کے طور پر ایک معقول رقم بھیجتا ہوں‘‘(۴)
اللہ اللہ یہاں حیدری وار دیکھیے:
’’بھائی! رسالے کو سپورٹ کرنا کوئی بُری بات نہیں ہے۔ سیدھے سیدھے تعاون کرو ۔ کوئی عیدی کا بہانہ کرنا ہے تو مدیر کے بچوں کے لیے عیدی بھیجو ۔ یہ بہنیں، بھانجیاں، بھتیجیاں، بہوئیں اور بیٹیاں بنانے کا ڈرامہ بنے‘‘(۵)
’ہمارا ادبی منظر نامہ‘ کا آخری پڑاؤ’ڈاکٹر وزیر آغا عہد ساز شخصییت‘ کا ہے۔ جس میں وزیر آغا کی شخصیت، غزلوں، نظموں، انشائیوں اور تنقید نگاری کے ساتھ ساتھ ادبی پرچے ’’اوراق‘‘ کے بارے میں اپنے تاثرات قائم کیے ہیں۔ اوراق، میں ماہیے کے بارے میں جو ادبی معرکے لڑے ہیں کو بھی زیبِ داستان بنایا ہے۔ آخر میں ڈاکٹر وزیر آغا کے انتقال پر اپنے احساسات کا اظہار یوں کیا ہے:
’’ڈاکٹر وزیر آغا کے پائے کا مفکر دانشور اب دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ اُردو انشائیہ کے بانی کی حیثیت سے انھوں نے ایک بڑا ادبی کام کیا۔ اُردو انشائیہ کے خدوخال کو نمایاں کرنے میں بہت زیادہ محنت سے کام لیا اور اس نئی صنف کی شدید ترین بلکہ اخلاقی لحاظ سے بد ترین مخالفت کے باوجود اسے اُردو میں رائج کر دکھایا۔ شاعری میں غزل اور نظم دونوں اصناف میں ان کا انتہائی گراں قدر حصہ ہے جدید نظم کے سلسلے میں تو ان کا نام اتنا اہم ہے کہ ان کے مقام کا تعین کرنے کے لیے جدید نظم کے پورے سلسلے کو از سرِنو مطالعہ کرنا پڑے گا‘‘(۶)
اُردو ادب کے دو روشن ستاروں ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر انور سدیدکے نام انتساب ۹۹۶ صحفات پر مشتمل اس ادبی منظر نامے میں اُردو ادب کے قاری کے لیے وہ جواہر موجود ہیں جن سے سندباد کی طرح جیبیں بھرتا اور اگلے بہتر حصول کے لیے خالی کرتا رہے گا۔
اللہ کرے زورِقلم اور زیادہ!
حوالہ جات
- حیدر قریشی، ہمارا ادبی منظر نامہ، عکاس انٹرنیشنل پبلی کیشن، اسلام آباد، ۲۰۱۴ء، ص۵۶۵
- حیدر قریشی، ہمارا ادبی منظر نامہ، عکاس انٹرنیشنل پبلی کیشن، اسلام آباد، ۲۰۱۴ء، ص۷۹۲
- حیدر قریشی، ہمارا ادبی منظر نامہ، عکاس انٹرنیشنل پبلی کیشن، اسلام آباد،۲۰۱۴ء، ص۷۹۳
- حیدر قریشی، ہمارا ادبی منظر نامہ، عکاس انٹرنیشنل پبلی کیشن، اسلام آباد، ۲۰۱۴، ص ۷۹۳
- حیدر قریشی، ہمارا ادبی منظر نامہ، عکاس انٹرنیشنل پبلی کیشن، اسلام آباد، ۲۰۱۴، ص ۷۹۳
- حیدر قریشی، ہمارا ادبی منظر نامہ، عکاس انٹرنیشنل پبلی کیشن، اسلام آباد، ۲۰۱۴، ص ۹۶۴
“