(Last Updated On: دسمبر 20, 2021)
وے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں
شاعر اور ادیب معاشرہ کا وہ حساس طبقہ ہوتا ہے جن کے ذمہ معاشرہ کے افراد کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ معاشرہ کی تطہیر و تعمیر کا منصب بھی ہوا کرتا ہے۔ بدقسمتی سے آج کل ہمارے معاشرہ میں منفی عمل کو تو ڈھونڈ لیا جاتا ہے مگر علم و ادب کے بڑے بڑے ناموں اور ان کے کاموں کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
ڈویژن بہاولپور اور جنوبی پنجاب کا آخری اور اہم ضلع رحیم یار خان کی اہم اور صوبہ پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل خان پور جس کی آبادی کم و بیش گیارہ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔اس تحصیل کی ایک اہم اور مشہور تاریخی بستی ’’دین پور شریف‘‘ ہے جو کہ شہر خان پور کے مشہور لاری اڈے دین پور شریف سے تقریباً تین کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جہاں پر اس قدیمی و تاریخی بستی کے بانی خلیفہ غلام محمد دین پوری ؒ ، مولانا عبیداللہ سندھیؒ، مولاناعبدالقادر دین پوریؒ، مولانا عبدالہادی دین پوریؒ اور تحریک ریشمی رومال کے سرگرم اکابرین کے اہم ترین مزارات مرجع خلائق ہیں۔
دین پور شریف میں سلسلہ عالیہ قادریہ کی ایک مشہور و معروف قدیمی گدی بھی ہے۔ درگاہ دین پور کے خلیفہ غلام محمد دین پوریؒ کے پوتے انیس احمد دین پوریؒ 1940ء میں بمقام بستی دین پور شریف میں سجادہ نشیں میاں عبدالہادی ؒ کے ہاں مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حافظ میاں جی خیر محمدؒ سے قرآن مجید اور عربی و فارسی کی تعلیم و تربیت مولوی عبیدا للہ درخواستیؒ سے حاصل کی۔ میٹر کا امتحان اعلیٰ نمبروں میں لاہور بورڈ سے پاس کرنے کے بعد فاضل عربی کا کورس (ڈپلومہ) بھی لاہور بورڈ سے امتیازی نمبروں میں پاس کرنے کے بعد ایف اے بھی لاہور بورڈ سے پاس کیا۔ بعدازاں بی اے کی ڈگری اسلامیہ یونیورسٹی بہ تخصیص صحافت پاس کرنے کے بعد آپ نے پریس ٹرسٹ آف پاکستان کے تحت شائع ونے والے جنوبی پنجاب کے کثیر الاشاعت واحد اخبار روزنامہ کوہستان ملتان سے بحیثیت صحافی اپنی زندگی کا آغاز کیا۔ جو کہ قیام پاکستان کے بعد سرزمین خان پور کے لیے ایک اعلیٰ ترین اعزا ہے۔ اسی دوران ہفت روزہ ’’راستہ‘‘ خان پور جو کہ میاں ظہیر الحق دین پوری کی زیر ادارت شائع ہوا کرتا تھا، بطور کالم نویس اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کر کے اپنا لوہا منوایا۔ ہفت روزہ ’’راستہ‘‘ خان پور میں آپ کا مشہور علمی و ادبی کالم کافی عرصہ چھپتا رہا۔ اس مشہور کالم کا نام…’’مقطع میں آپڑی ہے سخن ‘‘۔
آپ روزنامہ ’’امروز‘‘ ملتان سے تاحیات بحیثیت نامہ نگار وابستہ رہے۔ کسی بھی اخبار سے طویل عرصہ تک وابستہ رہنا اور اس کے لیے نامہ نگاری کا فریضہ سر انجام دینا بھی آپ کی علمی و ادبی شخصیت کے ساتھ ساتھ آپ کے سچے اور کھرے صحافیانہ کردار و عمل کا منہ بولتا ثبوت اور اعزاز ہے جو کہ جنوبی پنجاب کے بہت کم صحافتی امور کے ماہر افراد میں دیکھنے میں آیا ہے۔ اسی طرح روزنامہ امروز کا ’’خان پور نمبر‘‘ شائع کروانے میں اہم ترین کردار ادا کیا جو کہ سر زمین خان پور کے باسیوں کے لیے ایک اعزاز ہے۔
روزنامہ جھوک ملتان سرائیکی اخبار میں ’’بٖٹ کڑاک‘‘ کے نام سے طویل عرصہ تک چھپنے والا علمی، ادبی، تہذیبی روایات کا امین کالم اپنے دامن میں بے پناہ ذخیرہ معلومات کے ساتھ ساتھ سرائیکی زبان و ادب کا ایک بہترین خزانہ کے طور پر اہل علم و دانش سے داد و تحسین پا چکا ہے۔
انیس احمد دین پوریؒ ایک ہفت زبان شخصیت کے حامل صحافی تھے۔ آپ کو عربی، فارسی، اردو، سندھی، سرائیکی، انگریزی، بلوچی زبان و ادب پر نہ صرف دسترس حاصل تھی بلکہ آپ نے ان زبانوں کے علم و ادب کے ذخیرہ الفاظ کو سرائیکی زبان کی ترویج و اشاعت کے لیے استعمال کر کے تہذیب و تمدن اور زبان و بیان کا معلوماتی اور انوکھا انداز بیان صحافتی زندگی میں متعارف کروا کے علم و دانش کے دریا بہائے۔
آپ نے عربی زبان اور فارسی زبان کی تعلیم اپنے وقت کے جید عالم دین پروفیسر علامہ اللہ بخشؒ قادری الاظہری سے حاصل کی جو کہ گورنمنٹ خواجہ فرید پوسٹ گریجوایٹ کالج رحیم یار خان کے بانی تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے عربی زبان و ادب کا ڈپلومہ کورس بذریعہ خط و خطابت جامعہ قاہرہ (مصر) سے حاصل کیا۔
انیس احمد دین پوریؒ اُردو کے ساتھ انگریزی صحافت کا بھی ایک نمایاں نام ہیں۔ آپ انگریزی اخبار ’’ڈیلی ڈان‘‘ اور ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے شہر خان پور میں اولین قاری تھے۔ آپ شہر خان پور کے ان اولین قارئین میں سے ہیں جو کہ بلاناغہ انگریزی اخبار کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔اسی بناء پر آپ کو ریذیڈنٹ ایڈیٹر کوئٹہ کی پیش کش ہوئی مگر جس طرح خواجہ حسن نظامیؒ سے ساری عمر دہلی نہ چھوٹی بالکل اسی طرح آپ سے سرزمین خان پور کی عظیم علمی و ادبی درس گاہ و خانقاہ دین پور شریف نہ چھٹی۔
آپ انگریزی روزنامہ فرنٹیئر پوسٹ (Frointer Post) پشاور میں کافی عرصہ صحافیانہ خدمات سر انجام دیتے رہے ۔ آپ کو انگریزی زبان میں صحافیانہ امور میں کافی دسترس حاصل تھی۔ آپ انگریزی زبان کے ایک Self Made صحافی تھے۔
انیس احمد دین پوریؒ نے ماہنامہ ’’سرائیکی ادب‘‘ ملتان جس کے ایڈیٹر عمر علی خان تھے۔ کئی سرائیکی افسانے لکھ کر سرائیکی افسانہ نگاری کے میدان میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔
انیس احمد دین پوری نے ایوب خان دور میں تحریک صوبہ بہاولپور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آپ لبرل خیالات کے حامی اور نظریاتی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی شہرخان پور کے اولین بانی رکن تھے اور مرتے دم تک پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے۔ آپ کے بڑے بھائی میاں سراج احمد دین پوری ؒ مشیر مذہی امور (بے نظیردور)رہے۔ آپ ایوب خان دور میں ڈسٹرکٹ کونسل رحیم یار خان کے ممبر منتخب ہوئے۔ اسی طرح آپ نے یونین کونسل دین پور شریف کی سیاست میں عملی طور پر حصہ لے کر اہلیان علاقہ کی تعمیر و ترقی کے لیے دن رات کام کیا اور عوام الناس کی فلاح و بہبود کے بے شمار پراجیکٹس پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
آپ نے ’’احباب والی بال کلب‘‘ کے تحت اپنے دیرینہ دوست اور ساتھی کھلاڑی ڈاکٹر حافظ عبدالواحد مرحوم کے ساتھ مل کر کئی ٹورنامنٹس کروائے اور ان ٹورنامنٹس میں آپ نے والی بات کے کھیل کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کیا ۔کیوں کہ آپ والی بال کے ایک نمایاں کھلاڑی تھے۔
آپ ایک وسیع المطالعہ شخصیت کے حامل صحافی تھے۔ آپ کے زیر مطالعہ ماہنامہ لیل و نہار، ماہنامہ نقوش، شاہکار، سیب، افکار، خنون اور دیگر کئی زبانوں کے اخبارات و جرائد مسلسل کرتے تھے۔ آپ کی ذاتی لائبریری میں سیکڑوں کے حساب سے کتب موجود ہیں۔ لائبریری سے گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج خان پور کے شعبہ اردو کے لیے بذریعہ میاں محمد یوسف دین پوری نے ڈاکٹر محمد اجمل بھٹی و پرنسپل رفیق احمد صدیقی صاحب کو گراں قدر کتب عطیہ کیں۔
آپ کے دیرینہ صحافتی دوستوں میں چوہدری محمد اسماعیل مرحوم روزنامہ مشرق، معروف صحافی محمد سلیم قریشی، بشیر حمد ٹیلر ماسٹر، ماسٹر منیر احمد، ظفر اقبال (ریٹائرڈ بنک منیجر حبیب بنک)، چوہدری فقیر حسین، انیک بک ڈپو والے، چوہدری بشیر امانت علی، ظہور دھریجہ، مجاہد جتوئی۔ میاں رب نواز قریشی (بانی پاکستان پیپلز پارٹی PPP)، معروف صحافی مسعود اشعر وغیرہ شامل ہیں۔
آپ کے بھائی میاں خلیق احمد دین پوری کتاب ’’یدِ بیضا‘‘ دین پور کی تاریخ کے مصنف اور یونین کونسل دین پور شریف کے مستقل چیئرمین رہے۔ ا نیس احمد دین پوری کے تین صاحبزادے اور ایک بیٹی بستی دین پور میں رہائش پذیر ہیں۔ جن میں میاں اویس احمد تجارت، میاں محمد یوسف دین پوری محکمہ تعلیم میں درس و تدریس کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں جبکہ میاں سعادت حسن محکمہ صحت سے وابستہ ہیں۔ میاں محمد یوسف دین پوری اپنے والد کی عظیم علمی و ادبی روایات کوآگے بڑھا رہے ہیں۔
انیس احمد دین پوری کی صحافتی خدمات کم وبیش نصف صدی پر محیط ہے۔ آپ کی صحافتی اسلوب میں وسیب کا تہذیب و تمدن اپنے پورے شد و مد سے نظر آتا ہے۔ آپ نے اپنی گہری فکر و تخلیقی توانائی کے سبب عصری شعور کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریروں میں ندرت ِخیال کے ساتھ ساتھ فطری سادگی و دلکشی کا عنصر نمایاں طور پر پایا جاتا ہے۔ آپ ایک سچے،کھرے، راسخ العقیدہ اور اپنی تہذیب و تمدن سے پیار کرنے والے صحافی تھے۔ آپ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک راست باز، سچے، مخلص اور ایک شفیق باپ بھی تھے اور یہی تعلیم و تربیت انہوں نے اپنی اولاد کو دی۔
راقم کو آخری ایام میں ان کی رہنمائی اور صحبت میسر رہی۔ اگرچہ وہ ایک مصروف اور سینئر صحافی اور لکھاری تھے مگر وہ اپنے جونیئرز کا بے حد خیال رکھتے تھے اور ان کی حوصلہ افزائی اور دل جوئی فرماتے تھے۔
ان کا انتقال 11-02-2014کو ہوا اور ان کو دین پور شریف کے قدیمی اور تاریخی قبرستان میں دفن کیا گیا۔
حق مغفرت کرئے عجب آزاد مرد تھا
٭٭٭
خا ن پور کی صحافت کا روشن ستارہ ۔۔۔میاں انیس دین پوری
سرائیکی ادب کا روشن آفتاب،میاں انیس دین پوری ۔۔۔۔ 60 کی دہائی سے ’’لیل و نہار اور کوہستان‘‘ سے صحافت کا آغاز کیا ، روزنامہ امروز کے ضلعی بیورو چیف رہے،فرنٹئیر پوسٹ میں بھی کالم نگار رہے،خان پور پریس کلب اور انجمن صحافیاں کے بانیان میں آپ شامل رہے۔روزنامہ جھوک میں آپ کے فکاہیہ کالم بٹ کڑاک کو سرائیکی زبان و ادب میں کلاسک کا مقام حاصل ہے جو ایم اے سرائیکی کے نصاب کا حصہ ہیں۔بٹ کڑاک زبان کی چاشنی ،سرائیکی محاورں کا استعمال، منظر نگاری ، مکالمہ نگاری،کا بہترین امتراج ہیں۔ اردو انگریزی اور سرائیکی لٹریچر کا مطالعہ بہت وسیع تھا ۔سندھی کتب، رسائل اور سندھی اخبارات ان کے زیر مطالعہ رہتے۔ان کے کتب خانے میں نایاب اورقیمتی کتابیں موجود تھیں۔ان کا کالم حالات ِحاضرہ سے متعلق طنزومزاح پر مبنی ہوتا۔ا نہوں نے اپنے سر ائیکی کالموں کے ذریعے ایک زمانے کو متاثرکیا۔ان کے کالم سرائیکی کالم نویسی کا شاہکار نمونہ ہیں اور یہ کہ سرائیکی زبان کو اتنا بڑا کالم نویس شاید صدیوں بعد میسر ہو۔کسی بھی لکھاری کی تحریر کا معیار جانچنے کے لیے یہ دیکھا جاتا ہے کہ لکھاری کا مطالعہ کتنا وسیع ہے اور حوالے کتنے مصدقہ ہیں۔ زبان کتنی سلیس اور شستہ ہے اور زبان کا رشتہ مقامی محاورے،ضرب الامثال اور تہذیب اور ثقافت سے کتنا ہے ۔لکھاری کی تحریر کوعام اور کم پڑھا لکھا قاری بھی سمجھ لے اور مطالعے کے وقت خود کو ایک لمحے کے لیے الگ نہ سمجھے۔صحافت میں سینئر بتاتے ہیںکہ الیکٹرانک میڈیا ہویا پرنٹ میڈیا جس تحریر کی زبان سادہ جملے مختلف اور الفاظ زبان کے فطری قاعدہ اور گرائمر کے مطابق نہ ہوں گے وہ کبھی اوّل درجے کی تحریر نہ بن سگے گی۔میاں انیس دین پوری کی تحریر کا مطالعہ کریں تو اس میں یہ تمام خوبیاں نظر آتی ہے۔میاں انیس دین پوری تاریخ ساز شخصیت ہونے کے ساتھ ایک تاریخ بھی تھے۔ (تحریر: محمد الیاس نوناری )
****
****
ڈاکٹر رانا ندیم شمیم ( خان پور)