میرے کل کے بلاگ پر کچھ لوگوں نے یہ پوچھا کے اگر اخوت والا ماڈل بھی درست نہیں تو پھر ٹھیک کیا ہے ؟ میرا ہمیشہ کی طرح جواب “اسلام کا نظریہ اجتماعی خود کفالت “ جو کسی بھی معاشرے میں کسی بھی وقت ممکن ہے ۔ مسئلہ will کا ہے ، آڑے مادہ پرستی آتی ہے ، نیوکلیر فیملی سسٹم اور nation states کا فلسفہ ۔
یہ صرف اور صرف حضرت محمد ص کے مدینہ کی ریاست والے ماڈل سے ممکن ہے ۔ بلکل وہی بات جو Amy Chau نے اپنے tribal world کے بیانیہ میں کی ۔ آپ قبیلہ مزہب اور مسلک کی بنیاد پر اجتماعی طور پر تو باآسانی grow کر سکتے ہیں ، لیکن مادہ پرستی کے ہدف کہ ساتھ ڈنڈے سے ناممکن ۔
رائج الوقت نظام بلکل اس کہ یکسر مختلف ہے ۔ یہاں آپ نیوکلیر فیملی سے شروع ہو رہے ہیں اور پھر قومیت کی بنا پر ریاستوں میں تقسیم ہوئے اور پیسہ اور طاقت کو ہدف بنا پر ایک دوسرے پر مسلط، یہ سرے سے ہی غلط نظام ہے ۔ قدرت کہ صریحاً خلاف ، ۱۸۰ ڈگری اُلٹ ۔ قدرت کہ نزدیک ہر انسان اشرف المخلوقات ہے اور ہر ایک میں خدا بستا ہے اور قدرت کی تمام ریسورسز سب کے لیے ہیں اور بہت وافر ہیں ۔ دونوں راستے بہت مختلف ہیں ۔ ایک یقین رکھتا ہے انسانی اور اخلاقی قدروں اور قدرتی نشونما پر اور دوسرا مادہ پرستی اور شخصیت پرستی جو خدا کی وحدنیت کے بلکل خلاف ہے ۔ آدھی دنیا تو باقاعدہ اس نظام کی پرستش کرتی ہے جن میں agnostics اور atheists شامل ہیں اور باقی آدھی بالواسطہ طور پر ۔ مجھے امجد ثاقب جیسوں سے زیادہ اختلاف اس کی طرح کے بیکار ماڈ ل پر ہے ۔ جس کی بنیاد ہی بھکاری پن فروغ دینا ہے نہ کہ ختم ۔ نظام بدلنے کی ضرورت ہے جس میں بھوک ننگ رہے ہی نہ اور یہ ریاست کا کام ہے ہمارا ریاست سے معاہدہ ہی اس بات کا ہے ، این جی اوز سے تو ہمارا معاہدہ ہی نہیں وہ تو فراڈ کی بغیر رہ ہی نہیں سکتی ۔ پاکستان میں حال ہی میں Oxfam دھندے کرتی پکڑی گئ ۔
چین اور سعودیہ میں عوام کیوں آمریت کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے ؟ کیونکہ ان کی بنیادی ضروریات پوری ہو رہی ہیں اور وہ ان کو پوری کرنے کے لیے معمولی بات پر بھی مافیا کو پھانسی لگا دیتے ہیں ۔ رشوت اور ڈر گز پر پھانسیاں مافیا کو توڑنے کے طریقے ہیں جو ڈٹرٹے بھی کر رہا ہے ، فوج نے اتنے معصوم لوگوں کو تو ماروائے قانون غدار گردان کر قتل کر دیا راؤ انوار کو کیوں نہیں ؟ کیا راؤ انوار جیسے ریاست کے وفادار ہیں ؟ ۔
پاکستانی فوج ریاست کو بچانے میں تو کامیاب یقینا ہوئ لیکن ماروائے قانون ہلاکتوں کے بعد ۔ آزادی رائے پر قدغن لگا کر سوچ پر پہرے بٹھا کر ۔
کیا انسان اس لیے دنیا میں پیدا ہوا ؟ چند لوگوں کی آمریت کی بقا کے لیے ؟ کون زمہ دار ہے اس ۸۰ فیصد آبادی کا جو پانچ ڈالر سے کم یومیہ پر سانس لے رہی ہے ؟ آپ ریسورسز کی اگر درست تقسیم نہیں کر سکتے تو لوگوں نے ریاست کو چاٹنا ہے ۔ انہوں نے تو آپ سے عمرانی معاہدہ ہی اپنی بہتری اور ارتقا کے لیے کیا تھا ۔ شہرت ، دولت اور طاقت قومیت والی ریاست کے ستون ہیں جو قدرت کے خلاف ہے ۔ اسی پر تمام ۲۲ کروڑ کا استحصال ہو رہا ہے ستر سال سے ، اسلام کی فلاحی ریاست لانے میں کیا مسئلہ ہے ؟ ۔ جیسا کے ہراری نے کہا کے ہر انسان end in itself ہے ، ریاست یا حکمران اسے means کیسے بنا سکتے ہیں ؟ اور وہ پوچھتا ہے ، پھر غلامی کیا تھی ؟ یہ تو بدترین غلامی ہے جو منافقت کے زمرے میں آتی ہے ۔ کل کچھ لوگ امجد ثاقب کے دفاع میں اس طرح کُود پڑے جیسے نعوز باللہ وہ کوئ پیغمبر ہے ۔ میں نے صرف یہ کہا تھا کے اگر ریاست کا پیسہ وہ استمعال کرتا ہے تو پرفارمنس آڈٹ بھی ہونا چاہیے اور اعدادوشمار کا آڈٹ بھی ۔ آپ مریض کو گلوکوز پر کیوں زندہ رکھنا چاہتے ہیں جسے رب تعالی نے اشرف المخلوقات کہا ؟ آپ اللہ اکبر کا نعرہ بھی لگاتے ہیں ، پاکستان کا مطلب کیا کا نعرہ
لا إِلٰهَ إِلَّا الله مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله
بھی ۔ آپ کہاں کھڑے ہیں ، میری سمجھ سے باہر ہے ۔ اخوت نے شہباز شریف کے ساتھ مل کر جو اشتہاروں پر پیسہ لگایا ، فائیو سٹار ہوٹل میں کانفرنس اور ڈنر کیے وہ امجد ثاقب یا شہباز نے اپنی جیب سے دیا ؟ ثاقب نثار نے کیسے صرف دس ارب کے اشتہاروں پر شہباز سے ۵۵ لاکھ لے کر بخش دیا ؟۔
میرا صرف ایک ہی اعتراض اور سوال ہے کے یہ پبلک کا پیسہ ہے آپ اس کی ایک ایک پائ کے جوابدہ ہیں ۔ آج غربت ، مایوسی ، بے روز گاری کی زندگی میں پاکستانیوں کو جن لوگوں نے دھکیلا ان کو حساب دینا ہو گا یہاں نہیں تو اللہ کے حضور ۔
۔ جو لوگ خودکشیاں کرتے ہیں ان کے لیے کیا حیثیت رکھتا ہے پاکستان رہے نہ رہے ۔ اگر فوج نے ایک لاکھ بندہ قتل کر کے پاکستان بچا لیا ، قومیت خدا تو نہیں ، خدا نے جس مقصد کے لیے اپنے بندے کو اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا وہ دراصل پورا ہونا چاہیے ریاست کو اس کے یکسر مواقع فراہم کرنے ہوں گے ۔ اسے انصاف اور پیار کے ماحول میں نشونما کا موقع ملنا چاہیے ۔ ہاں فوج کو تو چاہیے جنرل چنوچا کی طرح ان تمام سیاسی گماشتوں ، بدمعاشوں اور مافیا کو جنہوں نے اربوں روپیہ کھایا ماروائے قانون پھانسیاں دے ۔
ریاست کو اپنے بنیادی فرائض پورے کرنے ہوں گے اگر وہ امن اور ترقی کی خواہاں ہے ۔ منشا بم یا ملک ریاض اس ترقی کے ضامن نہیں ہو سکتے ، وہ قید ہونے یا پھانسی سے بچنے کے لیے ڈیم تو بنا دیں گے لیکن ۲۲ کروڑ زندہ لاشوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکیں گے ۔ یہ تو بہر کیف ریاست کا فرض ہے ۔
اپنا بہت خیال رکھیں ۔ خیر کی امید رکھیں ۔ پاکستان پائیندہ باد