(Last Updated On: )
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
انسان اپنی زندگی میں ہزاروں شخصیات سے ملتا ہے جن میں چندایک کو وہ اپنا آئیڈیل بنا لیتا ہے‘ پروفیسر سراج احمد قریشی کی شخصیت بھی انہی میں سے ایک ہے۔ پروفیسر سراج احمد قریشی سے میرا تعلق دس سال پرانا ہے جب میں نے ڈگری کالج خان پور میںداخلہ لیا تو تدریس عربی کے لئے ان کے آگے زانوئے تلمذ کیا‘ ان کا طریقہ تدریس‘ اخلاق اور مشفقانہ رویہ کی وجہ سے ہر طالب علم ان کا گرویدہ تھا۔وہ اتنے بہترین طریقے سے پڑھاتے تھے کہ ان کے دیے ہوئے اسباق ہم آج تک نہیں بھلاپائے‘ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ طلبہ کی اخلاقی تربیت بھی کرتے تھے۔کچھ عرصے بعد انہیں جامع مسجد سعیدیہ درانی چوک میں منبر رسول پربراجمان دیکھا اور ان کا وعظ سنا توحیران رہ گیا کہ انسانی زندگی میں پیش آنے والے مختلف مسائل کو اتنے سادہ انداز میں بیان کررہے تھے کہ ایک عام آدمی بھی انہیں سمجھ کر ان سے کماحقہ‘ استفادہ کرسکے۔وہ علمی مسائل کو بھی بیان کرتے اور حاضرین کے سوالوں کے جواب بھی دے رہے تھے۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے اپنی کتاب ’’انوارِہدایت‘‘ کمپوزنگ کے لئے دی تو ان کی تیسری خوبی سامنے آئی کہ وہ بہترین مصنف بھی ہیں‘ اردو کا ماہر ہونے کے باوجود میں اس میں کوئی لفظی‘ املا یا گرامر کی غلطی نہ نکال سکاجس سے ان کی اردو‘ عربی اور انگریزی میں مہارت ثابت ہوئی۔ان کے مقالہ جات کالج میگزین ’’بانگِ سحر‘‘ میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے ہیں اور ’’اسلام اور غلامی‘‘ کے عنوان پر لکھے گئے مقالہ کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے سابق چیئرمین شعبہ اسلامیات‘ حال وائس چانسلر یونیورسٹی سرگودھا‘ نے سراہا اور انہیں خصوصی مبارکباد دی ۔جس کے راوی ڈاکٹر نذر خلیق اور پروفیسر غلام محمد قریشی ہیں۔ ان کے مضامین مختلف رسائل اورسرائیکی اخبار’’کوک‘‘کراچی اور ’’جھوک‘‘ ملتان میں بھی چھپتے رہے ہیں۔ انہوں نے بچوں کے رسالوں ’’چندرتارے‘‘ اور ’’قصہ قصولی‘‘ کے لئے بھی آسان فہم مضامین لکھے۔
پروفیسرسراج قریشی سچے عاشق رسول ہیںاور اکثر محافل میں اس کا قولی ‘ فعلی وعملی اظہار کرتے ہیں۔ انہوں نے جب نبی کریم ؐ کی اس حدیث پاک کو پڑھا کہ جو شخص دینی معاملات سے متعلق میری چالیس حدیثیں میری امت تک پہنچائے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ’’فقیہ‘‘ بنا کر اٹھائے گا اور میں اس کی
شفاعت کروں گااور اس (کے ایمان ومحبت) کی گواہی دوں گا‘ تو ان کے دل میں چالیس احادیث کو جمع کرکے عوام الناس تک پہنچانے کے شوق نے انگڑائی لی اور انہوں نے اس کو عملی جامہ پہنایا جو ’’انوارِ ہدایت‘‘ کی شکل میں سامنے آیا جس میں دینی مسائل سے متعلق پچاس احادیث کو بیان کیا گیا ہے اور آسان الفاظ میں ان کی تشریح دی گئی ہے جس سے ہر خاص وعام استفادہ کرسکتا ہے۔کتاب خالص اصلاحی جذبہ کے ساتھ لکھی گئی ہے اور اس کے اہم موضوعات میں نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوۃ‘قربانی‘ عقیقہ‘ درود پاک کے فضائل‘ نبی کریمؐ کا لباس‘ داڑھی ‘ مونچھ‘ فضیلت قرآن‘ رشتہ داروں سے حسن سلوک‘ سلام اور کھانے پینے کے آداب‘ رسوم ورواج کی حقیقت‘ تکبر ظلم اور چغلی غیبت کی مذمت شامل ہیں جبکہ اس کے ساتھ نماز کے مسائل کے بارے میں ایک ضمیمہ معراج المومن کے نام سے بھی شامل ہے۔ان کی یہ کتاب ہرگھر کے ہرفرد کو اسلام کے بنیادی مسائل کے بارے میں نہ صرف رہنمائی فراہم کرتی ہے بلکہ اسوہ رسولؐ کو سیکھنے کے لئے بھی یہ مختصر کتاب اہمیت کی حامل ہے۔’’انوار ِہدایت‘‘ میں قرآن کی تلاوت اور اس پر عمل کے حوالے سے لکھتے ہیں’’تعلیم قرآن کا ایک پہلو اسے زبانی یادکرنا ہے‘ گوہرمسلمان پر قرآن کا حافظ ہونا فرض نہیں تاہم اسے زیادہ سے زیادہ زبانی یادکرنا بڑی سعادت ہے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ دنیوی اغراض کے لئے ہم انگریزی جیسی مشکل زبان کی بڑی بڑی عبارات زبانی یادکرلیتے ہیں مگر قرآن کی چند سورتیں یاد نہیں ہوتیں۔ سورۃ یٰسین‘ سورہ ملک اور سورۃ مزمل وغیرہ تو کجا ایسے مسلمان بھی ہیں جنہیں چاروں قل یاد نہیں تو پھر روح کو سکون کیسے ملے اور دل کیسے آباد ہو۔حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضور ؐ نے فرمایا کہ جس شخص کے دل میںقرآن شریف کا کوئی حصہ بھی محفوظ نہیں وہ (دل) ویران گھر کی طرح ہے۔(ترمذی) اللہ تعالیٰ نے بدن کے ہرحصے کو ایک خاص مقصد کے لئے تخلیق فرمایا ہے جیسے آنکھ کا کام دیکھنا ۔ کان کا سننا ۔ زبان کا بولنا اور چکھنا اسی طرح ’’لطیفہ قلب‘‘ کا اصل مقصد اللہ کی معرفت اور اس کی یاد ہے۔ حدیث قدسی کا مفہوم ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’زمین کی مجال نہیں کہ مجھے گھیرسکے آسمان کی طاقت نہیں کہ میرا احاطہ کرسکے۔ ہاں مردمومن کا دل میرے سمانے کی جگہ ہے۔
سبحان اللہ
ارض وسما کہاں تیری وسعت کو پاسکے میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاںتوسماسکے
بلاشبہ قلب انسانی انوارات الٰہیہ کا مہبط ومرکز ہے مگر اس کے لئے بندے کی طرف سے طلب اور تڑپ کا ہونا ضروری ہے۔ اللہ بے نیاز ہے اسے کیا ضرورت ہے کہ ہرکس وناکس کے دل کو عرش بنائے۔ اگر ایسا ہوتا تو جزا وسزا کا تصور اور جنت وجہنم کا وجود بے معنی ہوجاتا۔ قرآن مجید یادالٰہی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ دلوں کی کائنات کو آباد کرنے اور باطنی دنیا کو روشن کرنے کے لئے کلام الہٰی کا سینے میں اتارنا بہت ضروری ہے۔ جس کے دل میں قرآن نہ ہو وہاں شیطان ضرور ہوتا ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ جو قرآن حفظ
کرے گا نہ صرف اسے بخش دیا جائے گا بلکہ اس کی سفارش پر اس کے دس ایسے رشتہ داروں کو بھی بخش دے گا جن پر جہنم واجب ہوچکی تھی‘‘۔ (ترمذی شریف)
سراج احمد قریشی کی دوسری کتاب ’’قرآن کتابِ بے مثال‘‘قرآن مجید کی صداقت وحقانیت پر دس مختلف مقالوں کا مجموعہ ہے جو تقریباً ڈھائی سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اردوزبان میںقرآن پاک کے موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں میں اعلیٰ درجے کی حامل ہے جس کی تصدیق معروف سکالر سید فاروق احمد شاہ نے کتاب کے دیباچے میں کی ہے۔سید فاروق القادریؒ ’’آئینہ جمال‘‘ کے عنوان سے مقدمہ میں مصنف کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’میرے مخلص ومکرم صاحبِ علم وفضل پروفیسر ابوالحسن سراج احمد صاحب قریشی نے ایک نئے انداز میں اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے وہ عربی زبان وادب کے شناور ہیں ‘ انگریزی کے ماہر استاد ہیں اور اردو ان کے گھرکی زبان ہے۔ایسے صاحبِ علم وبصیرت سے زیادہ اور کون مستحق ہوسکتا ہے کہ وہ اس سمندر ایسے موضوع کو آسان ‘ عام فہم اور سلیس زبان میں پیش کرے۔میں نے کتاب کو پڑھا ہے ‘ الحمدللہ یہ کتاب اس موضوع پر اردوزبان میں بڑی حد تک اس کمی کو پورا کررہی ہے۔ جو موضوع کے اعتبار سے اردو لٹریچر میں محسوس کی جارہی تھی۔میں اپنے مخلص دوست پروفیسر ابوالحسن سراج احمد قریشی صاحب کو اس گرانقدر تصنیف پر ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ وہ مستقبل میں بھی اپنا یہ علمی فیضان جاری رکھیں گے۔‘‘انہوں نے اس کتاب کی تصنیف کے دوران عربی‘ اردو‘ فارسی اور انگریزی زبانوں کی مختلف کتابوں سے مدد لی ہے اورایک وسیع موضوع کو یکجا کرکے دریاکوکوزے میں بند کردیا ہے ۔ کتاب کے پہلے باب میں قرآن پاک کو بے مثل کلام قراردیا ہے اور عربی‘ اردو‘ انگلش اور فارسی ادباء و شعراء کے حوالوں سے قرآن کو بے مثل کلام ثابت کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں قرآن پاک کی فصاحت وبلاغت مختلف واقعات اور مثالوں سے واضح کیا گیا ہے۔ باب سوم میں قرآن پاک کو محفوظ کلام ثابت کیا گیا ہے اور حفاظت کلام پر معترضین کے جوابات دینے کے ساتھ ساتھ قرآن مجید اور بائبل کا موازنہ بھی دیا گیا ہے۔ کتاب کا چوتھا باب قرآن پاک کو بے عیب کلام ثابت کرتا ہے اور چودہ سوسال گزرنے کے باوجود یہ تضادات سے پاک ہے۔ پانچواں باب میں نبی کریمؐ اُمی ہونے کے بارے میں مختلف واقعات کے ذریعے وضاحت کی گئی ہے۔ کتاب کا چھٹا باب عربی زبان کے ثبات کے بارے میں جس عربی کا دوسری زبانوں سے موازنہ کرکے اسے زندہ وجاوید زبان ثابت کیا گیا ہے۔ ساتواں باب قرآن کی اثر انگیزی کے بارے میں ہے جس میں حضرت عمر ‘ عتبہ بن ربیعہ‘ طفیل بن عمردوسی‘ پروفیسرہربرٹ وائل‘ مہاتما گاندھی‘ ڈاکٹر گسٹاولی‘ ڈاکٹرسیل‘ جان جارک ‘ پروفیسر فلپ ہیٹی اور ڈاکٹر موریس کا قرآن پاک کی ادبی واصلاحی تاثیر اور ان کے عظمت قرآن کو تسلیم کرنے کا بیان ہے۔باب ہشتم میں قرآن پاک کے متعلق وہ نادرونایاب معلومات دی گئی ہیں جن کو پڑھ کرعقل دنگ رہ جاتی ہے کہ قرآن کتنا متنوع وپرنظم کلام ہے۔ نواں باب ماضی کی غیب کی خبروں کے بارے میں ہے جس میں قرآن پاک اور بائبل کے واقعات کا موازنہ کیا گیا ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ عیسائیوں اور یہودیوں نے اپنے پیغمبروں کے ساتھ کتنے مظالم روارکھے اور ان پر الزامات لگائے جبکہ قرآن پاک نے ان انبیاء حضرت آدم‘ حضرت نوح‘ حضرت لوط‘ حضرت یعقوب‘ حضرت یوسف‘ حضرت دائود اور حضرت سلیمان کے واقعات کو صحیح صحیح بیان کیا ہے اور انہیں پاک صاف قراردیا ہے جبکہ ہندومت کے خدائوں کے بارے میں بھی قرآنی نظریہ واضح ہے۔ کتاب کا دسواں اور آخری باب مستقل کی غیب کی خبروں کے متعلق ہے جس میں پچیس کے قریب ایسی قرآنی پیشنگوئیوں کا بیان ہے جو بعد میں حرف بحرف سچ ثابت ہوئیں۔ اس باب میں قرآن بائبل اور ویدوں کی پیشنگوئیوں پر تبصرہ بھی دیا گیا ہے اور عصرحاضر کے پچاسی دانشوروں کا صداقت قرآن پر ایمان لانے کا بھی بیان ہے۔ انہوں نے غیرمسلم مفکرین ومشاہیر کے مستند اقوال سے قرآن کی صداقت کو ثابت کیا گیا ہے ۔ کتاب کے صفحہ نمبر109پر فرانسیسی مستشرق ارنسٹ رینان کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’ارنسٹ رینان انیسویں صدی کا فرانسیسی مستشرق ہے ۔اس نے ’’اللغات السامیہ ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں سامی زبانوں (مثلاً عربی ،عبرانی،آرامی،کلانی وغیرہ)کی تاریخ اور انکے اثرات قلمبندکیے گئے ہیں ۔ مصنف عربی زبان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے ۔’’انسانی تاریخ کا سب سے حیرت انگیز واقعہ عربی زبان ہے یہ زبان قدیم تاریخ میں ایک غیر معروف زبان تھی ۔پھر اچانک یہ ایک کامل زبان بن کر ابھری بعد ازاں اس میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہ آئی حتی ٰ کہ نہ اس کا کوئی بچپن ہے اور نہ بڑھاپا ۔یہ اپنے ظہور کے اوّل دن جیسی تھی ویسی ہی آج ہے ‘‘۔ اسی طرح صفحہ نمبر117پر مشاہیر کا عظمت قرآن کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ر قمطراز ہیں ’’ فرانسیسی ڈاکٹر ماریس کہتے ہے: ’’قرآن نے دنیا پر وہ اثر ڈالا کہ جس سے بہتر ممکن نہیں‘‘۔جرمنی کے مشہور فلسفی گوئٹے لکھتے ہیں: ’’قرآن کی یہ حالت ہے کہ اس کی دلفریبی بتدریج بڑھتی ہے پھر متعجب کرتی ہے اور آخر میں ایک تحیر آمیز رقت میں ڈال دیتی ہے‘‘ (بحوالہ قرآن انسائیکلو پیڈیا) ۔
’’جب منکر‘قرآن کو پیغمبرؐ کی زبان سے سنتے تھے تو بیتاب ہوکر سجدے میں گرجاتے اور مسلمان ہوجاتے تھے۔‘‘ (جرمن فلسفی جان جاک رلپک) ۔’’قرآن انتہائی لطیف اور سادہ زبان میں ہے اس کتاب سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی انسان اس کی مثل نہیں بنا سکتا۔ یہ لازوال معجزہ مردوں کو زندہ کرنے سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘ (ڈاکٹر سیل)
’’توریت زبور انجیل ترے سن ڈٹھے وید رہے قرآن کتاب کل جگ میں پروار‘‘
(جنم ساکھی بھائی بالا)
جس طرح قرآن بے مثال کتاب ہے اسی طرح اگر یہ کہا جائے تو شاید بے جانہ ہو کہ قرآن کی صداقت کو عقلی بنیادوں پر ثابت کرنے میں (اُردو میں لکھی جانے والی کتابوں میں) مصنف کی کتاب بھی بے مثال ہے۔پروفیسر سراج احمد قریشی کی شخصیت تشنگانِ علم کی پیاس کو بجھارہی ہے اور دُعا ہے کہ یہ چشمہئِ فیض جاری وساری رہے۔
٭٭٭
نذیراحمد بزمی (خان پور)
٭٭٭
نذیراحمد بزمی (خان پور)