(Last Updated On: دسمبر 20, 2021)
انساں کا احترام تھا اتنا ہمیں عزیز
ہم اپنے دشمنوں سے بھی نفرت نہ کر سکے
اس شعرکے خالق حفیظ شاہدؔ (مرحوم) کا مختصر تعارف:
حفیظ شاہدؔ، ۱۵ جون ۱۹۴۲ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ طالب انصاری بدایونی سے ابتدائی کلام کی اصلا ح لی۔ حبیب بینک میںملازم ہو گئے۔ طفیل ہوشیار پوری، یزدانی جالندھری، شرقی بن شائق اوردیگر شعراسے ملاقاتیں رہیں۔ معروف شعراء کی صحبت میں حفیظ شاہدؔ کو مشقِ سخن کے عمدہ مواقع ہاتھ آئے ۔ لاہور قیام کے دوران دو پنجابی فلموں ’’بلبل پنجرے دی‘‘ اور ’’چھڈ بُرے دی یاری‘‘ کے لیے گیت لکھے۔ یہ گیت نور جہاں، رجب علی اور مالا کی آوازوںمیںریکارڈ ہوئے۔ ۱۹۷۷ء میں خانپورکٹورہ (ضلع رحیم یار خان) ہجرت کر آئے ۔ آپ کی آمد سے خان پور کو نیا ادبی تشخص ملا۔ آپ پر خلوص، سادہ مزاج اور محبت کرنے والے آدمی تھے۔ مہمانوں کی خاطر داری اور دوستوں سے پیار کرتے۔ اپنے مخاطب کی بات توجہ سے سُنتے۔ غیر ضروری، بے بنیاد، اور ناشائستہ گفتگو سے پرہیز کرتے۔
حفیظ شاہدؔ کے چھ شعری مجموعے شائع ہوئے۔ وہ بنیادی طور پہ غزل کے شاعر ہیں۔ انہوں نے نظمیں بھی لکھیں مگر ان کو کتابوں میں شائع کرانا مناسب نہیں سمجھا۔ البتہ ’’فاصلہ درمیاں وہی ہے ابھی‘‘میں غزلوں کے علاوہ قطعاتِ تاریخ بھی شامل ہیں۔ یہ تمام کتابیں خان پور قیام کے دوران شائع ہوئیں۔ حفیظ شاہد کے شعری سفر کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔
۱۔سفر روشنی کا۔۱۹۸۳ء ۲۔چراغِ حرف۔ ۱۹۸۹ء ۳۔مہتابِ غزل۔ ۱۹۹۴ء
۴۔یہ دریا پار کرنا ہے۔ ۱۹۹۹ء ۵۔فاصلہ درمیاں وہی ہے ابھی۔ ۲۰۰۴ء
۶۔سورج بدل رہا ہے۔ ۲۰۰۸ء ۷۔کلیات۔ ختمِ سفر سے پہلے۔۲۰۱۰ء
حفیظ شاہد کوان کے کلام کے معیار اور مقدار کا لحاظ کرتے ہوئے خانپور کٹورہ میں اردو غزل کی روایت کا سب سے بڑا شاعر کہا جا سکتا ہے۔۲۲ نومبر۲۰۱۴ء کی رات ان کا انتقال ہو گیا۔ مدرسہ مخزن العلوم(خانپور) سے ملحقہ قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔( یاورعظیم)