اس کا نام ابولحسن تھا۔ بنگالی۔اسے وہاں یار لوگ ابُول کے نام سے پکارتے تھے۔عمر اس کی کچھ 70 سال سے اوپر کی ہی لگتی تھی۔پکے گندمی رنگ کے ابُول کی سفید داڑھی میں ابھی کافی بال کالے نظر آتے تھے۔یو اے ای کی ریاست عجمان میں الراشدیہ (جہاں میں رہائش پذیرتھا ) کچھ پوش علاقہ تھا جس سے کچھ پرے پرانے علاقے میں بنے ہوئے لیبرز کے وِلے تھے۔ ان میں قائم ایک مالواری چائے کے ڈھابے پرمیری اس سے ملاقات شروع ہوئی۔ میں اکثر رات کھانے کے بعد واک کرتا ادھر جانکلتا تھا جہاں موبائل پر سستی کال کرانے والے اپنےایک پُرانےبنگالی دوست بِتُو سے ملنے جاتا تھا۔کبھی جمعہ کی شام کو موڈ ہوتا تو وہاں ڈھابے سے مالواری لچھے دار پراٹھے اور چائے کا دور چلتا ۔ابُول بِتُو کی کمپنی میں ہی لیبر بھرتی تھا اس لیے باقی لیبر کی طرح یہیں قریبی ڈھابے پر رات کو کچھ وقت گزارتا تھا۔ وہ غیر مانوس طریقے سے مجھ سے بے تکلف ہوگیا تھا۔ وہ اکثر مجھ سے پاکستان کی باتیں سُناکرتا تھا۔میں نے نوٹ کیا کہ دوسرے بنگالیوں کی نسبت ابُول کی اُردو بہت شستہ تھی۔دو دسمبر کو امارات کےقومی دن کی چھٹی تھی ،یہ ہفتے کا دن تھا اس طرح جمعہ ہفتہ دو چھٹیاں ایک ساتھ ہوگئی تھیں۔ جمعہ کی رات ابُول کے کہنے پرپروگرام بنا کہ کل ظہر کی نماز کے بعد قریب واکنگ ڈسٹینس پر واقع عجمان بیچ کی لمبی روڈ پر جایا جائے جہاں مقامی اماراتی اور مختلف ممالک کے لوگ خوب جشن مناتے ہیں۔ اگلے روز ہم دونوںالراشدیہ کی شیخ مسجد میں ظہر کے بعد بیچ کی طرف چل دئیے۔ سمندر کے ساتھ ساتھ بنی ہوئی کافی لمبی روڈ (جو شارجہ کی جانب چلی جاتی ہے ) پرآج لوگوں کے رش کی وجہ سے میلے کی طرح رونق تھی۔ہم دونوں کافی دیر ادھر اُدھر رونق دیکھتے ہوئے بیچ کے قریب واقع مسجد میں عصر پڑھنے چلے گئے تھے۔ نماز کے بعد ہم نےبیچ پر واقع کے ایف سی ریسٹورنٹ سے چکن ٹوئسٹر بنوا کر پیک کرالیے اور کولڈ ڈرنکس کے ٹِن لیکر بیچ کی ریت پر جابیٹھے۔ یہاں لوگ بھی کم تھے اور شور بھی دُور رہ گیا تھا۔امارات کی ریاستوں اور ان کے انتظامات کی باتیں ہوتی رہیں۔’’طارق بھائی تم میوزک سُنتے ہو؟ اچانک ابُول نے سوال کیا۔ میرے ہاں کہنے پر اگلاسوال کیا،’’ بنگالی گلوکارہ رونا لیلیٰ کو تو جانتے ہوگے؟‘‘۔ میں نے بتایا کہ اسے تو ہر پاکستانی جانتا اور بہت شوق سے سُنتا ہے۔ اس نے پاکستانی فلموں میں اردو اور پنجابی گیت بہت گائے ہیں۔مجھے بھی اس کے فلمی گیت بہت اچھے لگتے ہیں۔‘‘
مثلاََ؟، ابُول نے پوچھا۔’’مثلاََمیرا بابو چھیل چھبیلا، انجمن فلم کے سبھی گیت اور کئی دوسرے پنجابی گانے‘‘۔میں نے فوراََ جواب دیا
اور وہ، ’ہمیں کھو کر بہت پچھتاو گے؟‘‘ابُول نے پوچھا۔
’’ہاں وہ تو زبردست گیت ہے ،بہت سنتا ہوں ابھی تک۔ اب تو یوٹیوب کی وجہ سےاس کی ویڈیو بھی بہت دفعہ دیکھی ہے۔‘‘ میں نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’ اچھا ، اس کے سین میں کیا ہے بھلا؟‘‘، اس نے شاید میرا امتحان لینا چاہا۔
’’ ہاں بالکل، اس میں شاید اداکارہ شبنم کا اداکار ندیم سے بریک اپ ہوا ہے ، دونوں رو رہے ہیں،ایک گھر کے ڈرائنگ کا منظر ہے، شبنم پیانو پر روتے ہوئے یہ گیت گارہی ہے، جبکہ اداکار ندیم کچھ پرے آنسو بہا رہا ہے۔ارد گرد پارٹی میں شامل لوگ بیٹھے ہیں اور ایک رقاصہ ممتاز درمیان میں تھرکتی ہوئی رقص کررہی ہے‘‘۔میں نے بات مکمل کی۔
’’اچھا۔ اور کیا محسوس کیا اس گانے کو دیکھ سُن کر؟ ابُول نے پھر پوچھ ڈالا۔’’ بس ایساہی کچھ خاص نہیں،آپ ایسا کیوں پوچھ رہے ہو؟ کہیں ان لوگوں میں آپ بھی تو شامل نہیں ہو جو بیٹھے گیت سُن رہے اور رقص دیکھ رہے ہیں؟‘‘، میں کچھ ہنستے ہوئے جوابی سوال کرلیا۔
’’اچھا اب میری بات دھیان سے سُنو۔‘‘ ابُول کچھ سنجیدہ ہوگیا اور اس کی آنکھوں میں پانی سے تیر گیا تھا۔’ ’میری پیدائش پاکستانی شہر کراچی کی ہے‘‘۔
یہ انکشاف مجھے ایک جھٹکا دے گیا تھا۔ابُول نے اپنی بات جاری رکھی،’’۔ہندوستان کی تقسیم سے قبل میرے دادا اپنی فیملی کے ساتھ ڈھاکہ سے کراچی شفٹ ہوئے تھے۔میرے بابا بھی پاکستانی فوج میں تھے۔میرے بابا کی شادی ادھر کراچی میں ہی ہوئی۔ میری پیدائش کے کچھ عرصہ بعد میرے بابا ایک حادثے کا شکار ہوکر معذور ہوگئے پھر گھر کا نظام ان کی قلیل پنشن پر چلنے لگا۔بابا کی طرح مجھے بھی پاکستان سے بہت پیار تھا۔ جوان ہونے پر میں بھی پاکستان آرمی میں بھرتی ہوگیا۔آرمی میں میری طرح اور کئی بنگالی بھی تھے ۔وہ سبھی رنگروٹس تھے اور کافی تعداد میں بڑے افسروں کے گھروں میں خاکروب،خانسامے اور بٹلر بھی تھے۔ مجھے کوئی بھی بنگالی یہاں بڑے رینک پر دکھائی نہیں دیا۔ ہمارے افسران کا رویہ ہم بنگالیوں کے ساتھ کافی تمسخرانہ ہوتا تھا۔حالانکہ ہم بہت محنت کرتے ۔ جب سن ستر کے بعد حالات کافی خراب تھے تو میری تعیناتی ڈھاکہ کے مضافات میں تھی۔یہاں مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوجی افسروں کا رویہ مقامی بنگالیوں کے ساتھ کچھ تحقیر آمیز ساتھا۔یہ سب دیکھ کر ہمیںاچھا نہیں لگتا تھا۔خیر بالآخر16دسمبر کومشرقی پاکستان بنگلہ دیش کی صورت میں الگ ہوہی گیا۔ ہم اس وقت بہت روئے تھے۔ مجھے ابھی گھر والوں سے بچھڑے کئی ماہ ہوچکے تھےجو کہ کئی ماہ بعد ڈھاکہ آگئے تھے۔ ہم بنگالی رنگروٹس نے انڈیا کی فوج کے سامنے سرینڈر کرکے بتادیا تھا کہ ہم بنگالی ہیں۔ اس واسطے انھوں نے ہمیں جنگی قیدی نہیں بنایا بلکہ کوئی مناسب فیصلہ ہونے تک چندبڑے گھروں میںنظربند کردیا گیا تھا۔
ہاں تو میں نے بات شروع کی تھی رونا لیلیٰ کے اس گیت کی، ’’ ہمیں کھو کر بہت پچھتاو گے‘‘، ابھی میری سنتے جاو اور یاد کرتے جاو‘‘ وہ ڈھلتی ہوئی شام میں اوپر کی طرف دیکھتے آنسو چھلکا گیا۔’’گیت لکھنے والا سرُوربارہ بنکوی اصل نام سعید الرحمٰن ،ایک بنگالی تھا، اس کا میوزک دینے والا روبن گھوش بنگالی اور گلوکارہ رونا لیلیٰ بنگالی۔ سکرین پر پیانو پر روتی ہوئی یہ المیہ گیت گاتی ہیروئن شبنم بنگالی اور اداکار ندیم بیگ بھی بنگالی تھا ، وہ ڈھاکہ سے کراچی گیا تھا، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد وہ ادھر پاکستان میں ہی رہ گیا اور پاکستان کی شہریت اختیار کرلی تھی۔سارے لوگ جو وہاںجو پارٹی میں آئے ہوئے ہیں پاکستانی ہیں، اکثر کے ہاتھ میں شراب کے پیگ ہیں، اور وہ اشتہا انگیز اداؤں سے لہراتی رقص کرتی اداکارہ ممتاز پاکستانی ہے‘‘۔
’’ابُول آپ کیا کہنا چاہ رہے ہو ؟ میں کچھ سمجھ نہیںرہا‘‘، میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ جان بوجھ کر کچھ ناسمجھتے ہوئے پوچھا۔
’’وہی بتا رہا ہوں بھائی، تم گیت سنتے ہو، اس کی گائیکی اور آواز کو سن کر اس کا میوزک سُن کر واہ واہ کرتے ہو۔ سمجھتے نہیں ہو کیا کہہ رہے ہیں یہ بنگالی۔
ہمیں کھو کر بہت پچھتاو گے جب ہم نہیں ہوں گے
بھری دُنیا کو ویراں پاؤ گے جب ہم نہیں ہوں گے۔
(اس کی یہ بات سُن کر ایک دم میری رگوں میں جیسے کرنٹ سا دوڑ گیا تھا)۔
’’یہ بنگالیوں کی آواز ہے جو اُردو میں ہوتے ہوئے بھی تم لوگ سمجھتے نہیں ہو۔آج اگر ہم دونوں ایک ہوتے تو معاشی طور پربڑی طاقت ہوتے اور حالات بہت مختلف ہوتے۔کچھ سمجھے؟ نہیں سمجھے ، ابھی تک نہیں سمجھے اور اپنی اُسی مستی میں گُم ہو۔ پھر آگے کیا کہتی ہے:
بہت آساں سہی راہ وفا کی منزلیں لیکن
اکیلے تُم کہاں تک جاو گے جب ہم نہیں ہوں گے۔
اب یاد کرو کُچھ، ہم لوگ الگ ہوگئے یا کردیا گیا اور تم نے ہمیں نہیں اپنے بازو کو کھو دیا ہے۔آگے کیا بولا اس نے؟
ہمیں اپنا نہیں جانِ تمنا غم تمہارا ہے
کہ تُم کس پر ستم فرماو گے جب ہم نہیں ہوں گے۔
ہم نے تمہارے ساتھ رہ کر بہت دُکھ اور ستم سہے اور تمہیں احساس تک نہیں ہوا۔تمہارا دیش کا دو ٹکڑے ہوگیا اور تمہارا حکمران شراب کے نشے میں ڈوبا ہوا فلمی عورتوں کی صحبت میں ان کے ہاتھ تھامے ہوئے بالکل بے حس تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔طارق بھائی یہ گیت نہیں ہے ، یہ لفظ بہ لفظ طعنے ہیں بنگالیوں کی طرف سے تم لوگوں کو۔ مگر تم اسے بس ایک فلمی گیت سمجھ کر سُنتے ہو اور اس کا ویڈیو دیکھتے ہو کہ واہ کیا خوبصورت ڈانس کررہی ہے وہ رقاصہ‘‘۔وہ بولتا جارہا تھا اور اب اس کی آواز مجھے سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ابُول کے بہتے آنسوؤں کو دیکھتے ہوئے میں ایک سُناٹے دار چُپ کے ساتھ اس کے منہ کی جانب دیکھتے ہوئے آنسو بہارہا تھا۔ سمندر کی لہریں ہماری طرف شور کرتی آتی اور واپس جاتی رہیں۔لگ رہا تھا کہ شاید اب سمندر بھی روتے ہوئے بے چین ہوگیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید محمود گیلانی کی شاعری میں دعائیہ عناصر اور کھوار تراجم
سید محمود محمود گیلانی کا تعلق دبستان لاہور پاکستان سے ہے، پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں۔ وکالت کے ساتھ...