ارتقاء کے بارے میں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ جاندار وقت کے ساتھ ساتھ ہمیشہ پیچیدہ ہوتے جاتے ہیں۔ اور پیچیدہ جاندار سادہ جانداروں سے اعلیٰ ہوتے ہیں۔ جینرلی یہ بات درست ہے کہ زندگی کی ابتدائی حالتیں سادہ تھیں اور زندگی کی پیچیدہ اشکال بعد میں ارتقاء پزیر ہوئیں۔ لیکن ہر وقت زندگی پیچیدگی کی طرف چلتی رہے، ایسا کوئی اصول نہیں ہے ارتقاء میں۔ آج جانداروں کے فوسلز کا مطالعہ کرنے پر اگر ہمیں جانداروں کےکچھ اعضاء سادہ سے پیچیدہ بنتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کچھ اعضاء پیچیدہ سے سادہ بنتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ اور ایک خاص مقام پر جاندار کےجسم کا ایک مخصوص عضو ختم بھی ہو جاتاہے۔ مثال کے طور پر سانپ اور وہیل کا ارتقاء جن جانوروں سے ہوا ہے ان میں ٹانگیں موجود تھیں۔ لیکن آج نا تو سانپ میں اپنے آباؤ اجداد کی طرح ٹانگیں موجود ہیں اور ناہی وہیل میں۔ اسی طرح پرندوں کا ارتقاء جن جانوروں سے ہوا ان میں دانت موجود تھے۔لیکن آج کے پرندوں میں دانت نہیں ہیں۔ یہ تو جسم کے حصے کی بات تھی۔ کچھ جانداروں میں تو پورے کا پورا سسٹم ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے ہم انسان کی انٹیسٹائن میں موجود ٹیپ ورم نام کے پیراسائٹ کی مثال لیتے ہیں۔ یہ جاندار ایسے ماحول میں رہتے ہیں جہاں ہضم شدہ خوراک آسانی سے دستیاب ہوتی ہے۔ اس لیے ان کو ڈائجیسٹیوسسٹم کی ضرورت نہیں۔ ان میں منہ بھی نہیں ہوتا، یہ خوراک کو اپنی جلد کے ذریعے ہی جذب کر لیتے ہیں۔ یعنی پیراسائٹس کا سفر پیچیدگی سے سادگی کی طرف ہوا۔ انسان کی طرح ٹیپ ورم بھی ارتقاء کا ہی نتیجہ ہے۔ اور نا ہی انسان زندگی کی سب سے ترقی یافتہ شکل ہے۔
ایک سیل والا بیکٹیریا بھی زمین پر زندگی گزارنے کے لیے اتنا ہی ترقی یافتہ ہے جتنا انسان۔ یہ بیکٹیریا انسان کے جسم میں آتے ہیں، اس کے امیون سسٹم کی خامیوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور انسان کو بیمار کر دیتے ہیں۔ اور اگر بیماری شدت اختیار کر جائے تو انسان کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔ بیکٹیریا تو دور کی بات ہے، وائرس سیل سے بھی چھوٹی چیز ہے اور یہ بھی انسان اور دوسرے جانداروں کے امیون سسٹم کی دھجیاں اڑا دیتی ہیں۔ وائرسیز بھی اتنی ہی ترقی یافتہ ہیں اپنی زندگی کو جاری رکھنے کے لیے جتنے باقی جاندار۔ اگر انسان ارتقائی مراحل طے کرتا ہوا زندگی کی سب سے ترقی یافتہ شکل بن گیا ہوتا اور بیکٹیریا، وائرس اور دوسرے پیراسائٹس زندگی کی ادنیٰ اور کم ترقی یافتہ شکل ہوتے تو یہ چھوٹے چھوٹے جرمز انسان میں بیماری پیدا کرنے کے قابل نا ہوتے۔
زندگی کی تمام حالتیں درخت کی شاخوں کی طرح ہیں جو اپنے اپنے لحاظ سے ارتقائی منازل طے کر کے اپنی موجودہ حالت میں آئی ہیں۔ ہر حالت اپنی زندگی گزارنے کے انداز کے ساتھ مطابقت اختیار کیے ہوئے ہے۔ ارتقاء کا کوئی مقصد نہیں کہ فلاں جاندار بنانا یا ڈھمکاں۔ ارتقائی علم سے گزرتی ہوئی کئی زندگی کی کئی شکلیں بنیں اور ختم ہو گئیں۔ ارتقاء نا تو رکا ہے اور نا رکے گا۔ جب تک کرہ ارض میں زندگی کو سپورٹ کرنے کی صلاحیت موجود ہے زندگی کی نئی اشکال بنتی بھی رہیں گی اور مٹتی بھی رہیں گی۔
آداب عزیز انجم
ڈاکٹر یونس احقر۔۔۔۔ اُڈیا بھور، تھیا پردیسی، اگے راہ اگم دا
پنجابی زبان کے معروف شاعر اور ایم اے او کالج لاہور کے شعبہ پنجابی کے ریٹائرڈ استاد پروفیسر یونس احقر...