(Last Updated On: )
دنیائے ادب میں افسانے کو قبولیت عام کا درجہ حاصل ہے۔انگریزی اور فرانسیسی کی طرح اُردو میں بھی افسانے کی روایت کا کھوج دیر سے لگایا گیا اور اُردوافسانے کے آغاز کے حوالے سے مختلف نظریات ہمارے سامنے آئے ہیں۔ پروفیسرسیّد وقار عظیم نے ۱۹۵۵ ء میں پریم چند کے ۱۹۷۰ء میں شائع ہونے والے ’’دنیا کاسب سے انمول رتن‘‘ کو اُردو کا پہلا افسانہ قرار دیاہے۔ پروفیسر احتشام حسین نے۱۹۶۱ ء میں سجاد حیدر یلدرم کا ۱۹۶۰ ء میں شائع ہونے والا افسانہ ’’غربت وطن‘‘کو اُردو کا پہلا افسانہ کہاہے۔بعد ازاں پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد اور پروفیسر ڈاکٹرمرزا حامد بیگ نے علامہ راشد الخیری کے۱۹۰۳ ء میں شائع ہونے والے افسانے’’نصیر اور خدیجہ‘‘ کو اُردو کا پہلا افسانہ تسلیم کیا ہے۔ اب محققین کی اکثریت اسی نظریے کو مانتی ہے۔
اُردو افسانے کی ترویج و ترقی میں پاکستان کے اہل قلم نے ناقابل فراموش کردار اداکیا ہے۔ جنوبی پنجاب میں اُردو افسانے کی ابتدا ملتان ڈویژن کے محکمہ تعلیم کی زیر نگرانی شائع کردہ مجلے ’’نخلستان‘‘ سے ہوئی۔ محمد علی کیفی کا افسانہ ’’درسِ عبرت‘‘۱۹۲۸ ء میں اس مجلے میں شائع ہوا۔اسے جنوبی پنجاب کا پہلا معلوم اُردوافسانہ کہا جا سکتا ہے جب کہ پہلا افسانوی مجموعہ اے آر سچ دیو کا ’’گیتا کی تعلیم کہانیوں میں‘‘ ۱۹۳۳ ء میں منظر عام پر آیا۔اے آر سچ دیو نے اسی نام سے چھے چھے کہانیوں پر مشتمل تین حصے شائع کیے۔پہلا اور دوسرا حصہ۱۹۳۳ ء میں شائع ہوا جب کہ تیسرا حصہ۱۹۳۴ء میں منصہ شہود پر آیا۔ انہوں نے یہ کہانیاں خالصتاً مذہبی تبلیغ کے نقطہ ٔ نظر کے تحت تحریر کی تھیں۔ مسلمان اہل قلم حضرات نے افسانے کے ذریعے تبلیغ کی اس روایت کو آگے بڑھایا۔ مولانا نور احمدفریدی نے ’’اسلامی افسانے‘‘ دو جلدوں میں شائع کئے ڈاکٹر مختار ظفر کے مرتب کردہ علامہ طالوت کے افسانے ’’اسلامی نظریاتی افسانے‘‘بھی اسی روایت کا تسلسل ہیں۔بریگیڈیرنذیر علی شاہ کا افسانوی مجموعہ’’آباد کار‘‘ کے نام سے ۱۹۳۹ ء میں شائع ہوا۔ان کے افسانوں میں حقیقت نگاری کا عنصر نمایاں ہے۔ان کا افسانہ ’’اماں پانی‘‘اس حوالے سے خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔
جنوبی پنجاب میں ابتداً اُردو افسانے کی روایت اُسی پاس داری اور تتبع میں آگے بڑھی۔ تاہم اس عہد کے افسانوں میں اصلاحی اور مذہبی رجحان کے ساتھ ساتھ رومانویت اور ترقی پسند ی کے ابتدائی نقوش بھی ملتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے افسانہ نگاروں کو ہم تین گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ پہلے گروہ میں وہ افسانہ نگار شامل ہیں جو جنوبی پنجاب میں مستقل قیام پذیر ہیں یا رہے ہیں۔ ان میں اے آر سچ دیو، مولانا نور احمد فریدی،علامہ عبدالرشید طالوت، حسن رضا گردیزی، محمد خالد اختر، ڈاکٹر عاصی کرنالی،عرش صدیقی، سہیل اختر، حفیظ احسن، ایاز سہر وردی،احمد علی مخمور، سیّد جاوید اختر، عباس خان، فاروق ندیم، منظورجاوید، خالد سعید، ڈاکٹر انوار احمد، شاہد زبیر، صلاح الدین حیدر، خورشید احمد ٹمی، حفیظ خان، جاوید،اختر بھٹی، ایم ایم ادیب، عمران اقبال، ریاض قدیر، سعید احمد سعید، گل زیب عباسی،جمشید اقبال، نجم الدین احمد، محمد احمد، لیاقت علی، مامون طاہر رانا، ساحرشفیق،عمران نقوی، نیر مصطفی اور رمضان رضی وغیرہ کے نام شامل ہیں۔دوسریگروہ میں وہ افسانہ نگار شامل ہیں جو روزگار کے سلسلہ میں جنوبی پنجاب میں آئے یایہاں کے پیدائشی ہونے کے باوجود فکر معاش میں کسی دوسری جگہ منتقل ہوگئے۔
ان افسانہ نگاروں میں شفیق الرحمن، اکرام اللہ، طارق محمود، مسعود اشعر، ڈاکٹر سلیم اختر، مشرف احمد، اقبال ندیم، علی تنہا، حیدر قریشی، ذکاء الرحمن، عباس گیلانی،قیصر امین الدین، انور زاہدی، فادر رحمت راجا، جمیل اختر، آصف عمران، جمیل احمد عدیل، مبین مرزا، ساجد نجمی، اسلم سحاب، گل نوخیز اختر، شاہد رضوان اوراحمد اعجاز کے نام بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
تیسرے گروہ میں خواتین افسانہ نگاروں کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ ان افسانہ نگاروںمیں سکینہ جلوانہ، ثمر بانو ہاشمی، جمیلہ ہاشمی، بتول رحمانی، ڈاکٹر مزمل بھٹی،مسرت واحد خان، دُردانہ نوشین خان، یاسمین گورمانی، شہناز نقوی، غزالہ خاکوانی،صباحت مشتاق، لبابہ عباس، ڈاکٹر راشدہ قاضی، نیر شفق رانی، راحت وفا، صائمہ نورین بخاری، انیلا کوثر اورشگفتہ مرشد قریشی کو شمار کیا جاتا ہے۔محمد خالد اخترکو جنوبی پنجاب کا اوّلین حق یقت نگار اور رجحان ساز افسانہ نگار کہا جا سکتا ہے۔
انہوں نے اُس وقت افسانہ لکھنا شروع کیا جب اُردو افسانے نے ابھی پاؤں پاؤں چلناشروع کیا تھا۔ ان کے افسانوں میں تحریک اور توانائی، فکروخیال کی گیرائی اورگہرائی،خیر و صداقت اور حرکت و حرارت بنیادی عناصر کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں معاشرتی زندگی، انسانی عظمت، سماجی مسائل اور فکرو آگاہی کے شعور سے بننے والی تصاویر پیش کی ہیں۔ ان کے افسانے بظاہر خاموش اور پرسکون لگتے ہیں لیکن ان کے باطن میں ایک اضطراب اور حرارت پوشیدہ ہوتی ہے۔یہ اضطراب ان کے اندر کا ہے جو سماجی ناہمواریوں پر صدائے احتجاج بلند کرتا ہے۔ اگرچہ وہ فکری طورپر کسی تحریک سے وابستہ نہیں تھے لیکن اُن کے افسانوں میں حقیقت نگاری کا عنصر انہیں ترقی پسندوں کے قریب لے جاتا ہے۔ان کے افسانے سماجی اور معاشی ناہمواریوں کا نوحہ ہیں۔ان کے بیانیہ افسانوں کا منظر نامہ بہت خوب صورت اور جان دار ہے۔ وہ دیہات کے فطری مناظر کو بڑی مہارت سے صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتے ہیں۔ان کی نظر کسی بھی واقعہ کے ظاہرو باطن تک رسائی رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جزئیات کے بیان پرخصوصی توجہ دیتے ہیں۔ ان کے ہاں چابک دستی اور بھرپور واقعہ نگاری اورکردارسازی نظر آتی ہے۔ ان کے کرداروں میں سچے اور کھرے انسانوں کی زندگی کی عکاسی ملتی ہے۔ ان کے کئی افسانے کرداری افسانے ہیں جن کے ذریعے وہ انسانی نفسیات سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ ان کے افسانوں کی ایک اہم خوبی مقامیت ہے۔ ان کے افسانوں میں جنوبی پنجاب کا ہر پہلو دکھائی دیتاہے۔ انہوں نے سرائیکی اور پنجابی الفاظ کو بڑی فن کارانہ مہارت سے استعمال کیا ہے۔ افسانے کی خوب صورتپیش کش نے ان کے افسانوں کو لافانی بنا دیا ہے۔ اگرچہ انہوں نے کم لکھا پھر بھی ان کا شمار اردو ادب کے معماروں میں ہوتا ہے ۔
شفیق الرحمن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔اردو ادب کے قارئین کے لیے ان کا نام اجنبی نہیں۔ ان کا ادبی سفر نصف صدی پر محیط ہے۔ انہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز ’’کرنیں‘‘ سے کیا اور پھریہ سفر ’’دریچے‘‘ پر پہنچ کر اختتام پذیر ہوا۔ وہ ان خوش قسمت تخلیق کاروں میں شمار کیے جاتے ہیں جن کی خدمات کا اعتراف ان کی زندگی میں ہی کرلیا گیا۔وہ افسانوں میں اپنے ذاتی تجربات کو ایک خاص انداز سے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ افسانوں کے موضوعات میں تنوع پیدا ہوجاتاہے۔ ان موضوعات میں لڑکپن کی بے فکری، محبت، نفرت، رقابت، تنہائی، قدامت پسندی،افواہ، محاذ جنگ،جنگ کے مسائل، جنگ کی تباہ کاریاں، جنگ کا خوف، بڑھاپا، توہم پرستی اور انسانی زندگی کے مختلف مسائل اور رویے شامل ہیں۔ انہوں نے حالات و واقعات کا مشاہدہ ایک خاص زاویے سے کیا ہے۔ ان کے افسانوں کا ایک بڑا موضوع لڑکپن کی زندگی ہے جس میں محبت کے مختلف رنگوں کے ساتھ ساتھ لڑکپن کی شرارتیں، دوڑدھوپ اور کھیل تماشوں کا ذکرملتا ہے۔ ان کے افسانوں پر رومانوی رنگ بہت غالب ہے۔ ان کے افسانے اپنے موضوعاتی تنوع، تخیلی حسیت اور فکری گہرائی کی بدولت بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ فن افسانہ نگاری کے اسرار و رموزسے بخوبی آگاہ تھے۔ ان کی عصری ادب پر گہری نظر تھی۔ وہ اُردو افسانے کی ارتقائی جہات کے ساتھ انگریزی اور فرانسیسی ادب پرگہری نگاہ رکھتے تھے۔ ان کے افسانوں کے پلاٹ سادہ نیز آغازو انجام دلچسپ اور جان دار ہوتے ہیں۔ ان کا افسانہ آغاز سے لے کر انجام تک قاری کی دل چسپی کا مرکز بنا رہتا ہے۔کردار نگاری میں مہارت نے ان کے کرداروں کو لافانی بنا دیا ہے۔ وہ کہانی اور کردار دونوں کو یکساں ترجیح دیتے ہیں۔ ان کرداروں میں سے ایک اہم کردار ’’شیطان‘‘ کا ہے۔ روفی جسے عرفِ عام میں وہ ’’شیطان‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں، اس کے علاوہ حکومت آپا، نواب صاحب، جج صاحب، رضیہ اور مقصود گھوڑا بھی ان کے ناقابلِ فراموش کردار ہیں۔ان کے کردار شیطان نے اُردو کی مزاح نگاری کی روایت میں دوسرے کرداروں مثلاً چچا چھکن، چچا عبدالباقی وغیرہ کی طرح مقبولیت حاصل کی ہے۔ کردار نگاری کے ساتھ ساتھ ان کے مکالموں میں بھی بے ساختگی اور روانی پائی جاتی ہے۔ ان کی منظر نگاری کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس میں جزئیات نگاری سے کام لیتے ہیں۔ یوں عموما منظر طویل ہو جاتا ہے جس پر کچھ نقادوں نے حرف زنی بھی کی ہے مگر وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جزئیات نگاری نے ہی ان کی منظر نگاری کو جلا بخشی ہے۔ان کے افسانوں میں رومان اور مزاح ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اس دور میں اپنی افسانہ نگاری کا لوہا منوایا‘ جب اُردو افسانے کے معتبر نام افسانہ لکھ رہے تھے، شفیق الرحمن جنوبی پنجاب کے افسانہ نگاروں میں ہی نہیں بلکہ اُردو افسانے کے مرکزی دھارے میں بھی ایک اہم حوالے کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
عرش صدیقی جنوبی پنجاب کے ممتاز افسانہ نگاروں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے افسانہ نگاری کی بدولت اُردو ادب میں ایک منفرد پہچان حاصل کی ہے۔ ان کے دو افسانوی مجموعے ’’باہر کفن سے پاؤں‘‘ اور ’’عرش صدیقی کے سات مسترد افسانے‘‘ منظر عام پر آچکے ہیں۔ان کے دونوں افسانوی مجموعوں میں موضوعات کے تنوع اور تکنیک کے تجربات کا رنگ نمایاں ہے۔سات مسترد افسانوں میں رومانوی فضا اور حقیقت نگاری کے عناصر دونوں موجود ہیں۔ تاہم زیادہ تر افسانے بیانیہ ہیں۔ ’’باہر کفن سے پاؤں‘‘ میں شامل افسانے ان کے فن کا حاصل ہیں۔ان افسانوںمیں وسعت اور گہرائی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے معاشرتی اقدار کا زوال، تہذیبی بے سمتی، جنسی رویوں، احساس تنہائی، رشتوں کے درمیان پیدا ہونے والے غیر فطری جذبے، سماجی شکست و ریخت، وجودیت اور نامعلوم کی جانب سفر کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ انہوں نے اپنے کرداروں کے ذریعے انسانی نفسیات اور اس کی پیچیدگیوں کو اُجاگر کیا ہے۔ وہ کرداروں کی نفسیاتی اُلجھنوں اور واقعات کے معاشرتی پس منظر کو اپنی فن کارانہ گرفت میں رکھتے ہیں۔ ان کے کردار تنہائی، داخلی خلفشار اور خارجی انتشار کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں موضوعات کاتنوع اور رنگا رنگی ہے۔ وہ اپنے اسلوب میں بہت منفرد دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں ایک تہذیبی رچاؤ ہے۔ انہوں نے کرداروں کی تخلیق پر بھی خصوصی توجہ دی ہے۔ افسانے کی مجموعی فضا سے کرداروں کی فطری وابستگی کے سبب کردارر زیادہ مؤثر ہوگئے ہیں۔ان کا عالمی ادب کا مطالعہ بھی انہیں افسانہ نگاری میں نئی نئی راہیں سمجھانے میں مدد دیتارہاہے۔اگرچہ انہوں نے بہت کم افسانے لکھے ہیں لیکن ان کا تخلیقی سرمایہ اُردو کے افسانوی ادب میں خوب صورت اضافہ ہے۔ ان کا نام اُردو کے معتبر افسانہ نگاروں میں شامل رہے گا۔اکرام اللہ جنوبی پنجاب کے وہ افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اردو ادب میں اپنے فن کا لوہا منوایا ہے۔ ان کا فن حقیقت نگاری سے علامت نگاری تک محیط ہے۔ ان کے ہاں علامت نگاری اور بیانیہ اندازِ تحریر کاخوب صورت امتزاج ملتاہے۔انہوں نے اپ نے افسانوں میں خیر و شر کے پہلوؤں کو بڑی عمدگی سے بیان کیا ہے۔ ان کے افسانوں کی مجموعی فضا ترقی پسند نظریات سے تشکیل پاتی نظر آتی ہے۔انہوں نے استحصال، طبقاتی کش مکش، معاشی و معاشرتی جبر اور جنس کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں تکنیکی تجربات بھی کیے ہیں۔وہ فلیش بیک کی تکنیک کابھی مؤثراستعمال کرتے ہیں۔ ان کی کردار سازی اور مکالمہ نگاری اُن کی فنی پختگی کا عمدہ نمونہ ہیں۔ انہوں نے کہانی کو زندہ رکھا ہے۔ وہ کہانی کو ابہام کا شکار نہیں ہونے دیتے۔ اُردو افسانہ نگاری کی روایت میں کہانی پن اور بیانیہ انداز کو اُجاگر کرنے میں وہ ایک منفرد حیثیت کے حامل قرار پاتے ہیں۔جمیلہ ہاشمی نے عورت ہونے کے ناتے عورت کو اپنے افسانوں کا بنیادی موضوع بنایا ہے۔ ان کے افسانوں میں عورت کو کئی روپ میں پورٹریٹ کیا گیا ہے۔وہ کبھی وفا کا پیکر ہے تو کبھی شعلہ ٔ ا نتقام۔
ان کے افسانوں میں دھرتی، دیہات، فطرت اور عورت ہر رنگ میں موجود ہے۔ بعض افسانوں میں انہوں نے دھرتی اور عورت کے مشترکہ اوصاف سے ان کی تخلیقی اہمیت کو اُجاگر کیاہے۔ جمیلہ ہاشمی عمیق مشاہدہ کو اپنے تخلیقی وفور میں استعمال کرتی ہیں۔انہو ں نے مشرقی پنجاب کی تہذیب و معاشرت کے ساتھ ساتھ ہندی اساطیر کو بھی اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔وہ ہندو معاشرت میں عورت کے کردار کے مختلف زاویوں کو اپنی کہانیوں کا روپ دیتی ہیں۔ ان کی کہانیوں کی زمین سے چولستان کی باس بھی آتی ہے۔ ان کے بیشتر افسانے صیغہ واحد متکلم میں بیان کردہ ہیں۔وہ اپنے کرداروں کو متحرک رکھتی ہیں۔ ان کے کرداروں کے مکالمے ماحول کے پس منظر کو مدنظر رکھ کر تحریر کیے گئے ہیں۔وہ منظر کی پیش کش میں جزئیات نگاری کو اہمیت دیتی ہیں۔ وہ اُردو ادب کی بہترین خواتین افسانہ نگاروں میں سے ایک ہیں۔
مسعود اشعر نے ملتان میں ایک طویل عرصہ گزارا ہے۔ وہ یہاں کی ادبی سرگرمیوںمیں بھرپور شرکت کر رہے ہیں۔ وہ جدید افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام ہیں۔ انہوں نے علامتی افسانہ نگاری میں اپنی فنی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ان کے افسانوں میں سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کا اظہار علامتوں کے ذریعے کیا گیا ہے۔ سانحہ ڈھاکا، بحرانی دور کے حالات و واقعات کے پس منظر میں لکھے گئے ان کے افسانے ناقابل فراموش ہیں۔ ان کے افسانے علامتی ہونے کے باوجود قارئین پر بھرپور تاثر چھوڑتے ہیں۔ ان کے افسانوں پر وجودیت اور تعقل پسندی کی گہری چھاپدکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے زندگی کی حقیقتوں سے بڑی بے باکی کے ساتھ پردہ اُٹھایا ہے۔ ان کے افسانوں میں زبان وبیان کا نکھار اور تکنیک کا خوب صورت استعمال انہیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز بناتا ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر ایسے تمام داؤ پیچ بہت اچھے طریقے سے سمجھتے ہیں جن سے ایک کامیاب افسانہ لکھا جاسکتا ہے۔وہ قاری کو لفظوں کے ذریعے ایسی ایسی اَن دیکھی دنیاؤں کی سیر کراتے ہیں جن سے ایک عام ذہن اور عام تخیل آگاہ نہیں ہوتا۔ ان کے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ نیا ہے۔ انہوں نے صرف روایتی موضوعات کا چربہ نہیں اُتارا بلکہ۔ وہ ایک خالص فکر اور سوچ رکھنے والے افسانہ نگار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف انسان کے سماجی اور نفسیاتی مسائل کا ادراک رکھتے ہیں بلکہ ان مسائل کی نشان دہی کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے جنسی، نفسیاتی اور سماجی و سیاسی موضوعات پر خوب صورت افسانے تخلیق کیے ہیں۔ ان کے افسانوں میں تنوع اور کرداروں میں رنگا رنگی نظر آتی ہے۔ یہ سب افسانے ان کی جدید سوچ اور طرزِ احساس کے عکاس ہیں۔ڈاکٹر سلیم اختر کے افسانے سماجی حقیقت نگاری کی تلخی اور سفاکی لیے ہوئے ہیں۔
اُن کے سچے اور کھرے پن نے ان کہانیوں کو شاہکار بنا دیاہے۔ وہ اپنے پیش روؤں اور ہم عصروں سے الگ نظر آتے ہیں اور ایک کہانی لکھنے کے بعد دوسری کہانی لکھنے کے سفر کے لیے تیاری میں مصروف رہتے ہیں۔یوں اُردو افسانے کا یہ کولمبس ہمارے لیے نئی کہانیاں دریافت کرتاہے اور جنس اور نفسیات کی راہوں پر چل کر انسانی مسائل کا حل تلاش کرتا ہے۔ علامتی افسانوں میں بھی ان کی فکر ژولیدگی کا شکار نہیں ہوتی۔ ان کے افسانے اور کہانیاں آج کی نسل کے مسائل اور سوچ سے ہم آہنگ ہے۔ یہی بات انہیں فن افسانہ نگاری میں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔
سیّد جاوید اختر اُردو کے معروف مورّخ اورناول نگار مولانا رشید اختر ندوی کے صاحبزادے ہیں۔وہ کسی ادبی گروہ بندی اورنظریے کے پرچارک نہیں رہے ہیں۔انہوں نے سیدھے سادے بیانیہ افسانے لکھے ہیں اور واقعاتی حقیقت نگاری کی بہترین مثالیں پیش کی ہیں۔انہوں نے موضوعات کے مطابق اسلوب اورطرزِ اظہار میں معمولی رد و بدل کیا ہے تاہم ان کے بعض افسان وں میں رومانویت کی جھلک اور بعض میں سپاٹ حقیقت نگاری کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ان کے بیشتر افسانے حقیقی واقعات پر مبنی ہیں۔ انہوں نے کرداروں کے نام بدل کر ان واقعات کو افسانوں کے قالب میں ڈھالا ہے۔ان کے ہاں رمز و ایما کی بجائے داستان اور قصہ گوئی کا اندازنما یاں ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چوپال میں بیٹھا کوئی بہترین قصہ گو اپنی زندگی کے تجربات و واقعات کو کہانیوں کی صورت میں ڈھالتا چلا جا رہاہے اور لوگ متحیر ہو کر اس کی کہانیوں کو سن رہے ہیں۔وہ افسانے کے فنی لوازم میں کہانی کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں پلاٹ موجود ہے۔ ان کے افسانوں کے پلاٹ اکہرے ہیں اور ان میں کسی قسم کا اُلجھاؤ نہیں ہوتا۔ان کے ہاں مکالمہ بہت کم استعمال ہوا ہے، بیانیے میں بھی ذہنی اور سماجی پس منظرنمایاں رہتا ہے۔ان کے افسانے ملتان، رحیم یار خان اور بہاول پور کے علاقائی پس منظر میں لکھے گئے ہیں۔مقامیت کے اعتراف میں انہوں نے سرائیکی جملوں اور محاورات کو تخلیقی سطح پر استعمال کیا ہے۔ ان کے افسانوں کا یہ نمایاں پہلو ہے کہ ان میں مقامی رنگ اور تہذیب ہر سطح پر بکھری ہوئی ہے۔ وہ اپنی تخلیقی اُپج کی بدولت مقامیت کے سارے رنگوں کو انتہائی خوب صورتی کے ساتھ منعکس کرتے ہیں۔ وہ منظر کشی کرتے ہوئے ہمہ قسم کی جزئیات کا خیال رکھتے ہیں اور ہر پہلو کو اس انداز سے اُجاگر کرتے ہیں کہ ساری چیزیں روشن تر نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ حقیقت نگاری ان کے فن کا بنیادی خاصا ہے۔ وہ افسانے میں مقامی پن، کہانی پن اور واقعاتی حقیقت نگاری کو اہم گردانتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں موجود درج بالا خوبیاں انہیں اُردو ادب کی افسانہ نگاری کی روایت میں معتبر مقام عطا کرتی ہیں۔
ڈاکٹر انوار احمد نے جب افسانہ نگاری کا آغاز کیا تو اس وقت ترقی پسند افسانے کی علامت اور تجرید یت کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ نئے نئے تجربات جدید عالمی تحریکوں کے زیر اثر اُردو افسانے میں جگہ بنا رہے تھے۔ انہوں نے جدید تجربات اور روایت کے باہمی امتزاج سے خوب صورت افسانے تخلیق کیے ہیں۔ ان کے افسانوں میں علامت، شعور اور فلیش بیک جیسی تکنیکوں کے ساتھ کہانی پن کا عنصر بھی موجود ہے۔ان کے زیادہ تر افسانوں میں متحرک کردار واحد متکلم حاضر یا غائب ہے یا دوسرے معنوں میں خود انوار احمد کی سوچ کے زاویے ہیںجو واحد متکلم کی صورت میں اُجاگر ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔وہ کردار کی شمولیت اور موجودگی سے منظر نامہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔اس لیے نہ صرف کرداروں کی ذہنی صورتِ حال بلکہ اس کے پس پردہ معاشی، سیاسی، سماجی، مذہبی، اخلاقی اور نفسیاتی عوامل بھی سامنے آجاتے ہیں۔ان کے زیادہ تر کردار علامتی ہیں۔ انہوں نے کئی کردارو ں کی علامتیں بھی تخلیق کی ہیں۔ ان میں ذوالفقار علی بھٹو کے لیے روشن آنکھوں والا اور جنرل ضیاء الحق کے لیے گیدڑ یا سانپ جیسی آنکھوں والا کے استعارے استعمال کیے ہیں۔ ان کا علامتی انداز کہانی کے مفاہیم کو واضح اور مؤثر بنادیتا ہے۔ان کا اسلوب ان کے علامتی طرزِ اظہار اور طنزیہ جملے کی کاٹ کی بدولت اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے۔ انہوں نے ہماری معاشرتی بے حسی کو ختم کرنے اور ہمارے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے طنز کی تلوار کے بڑے کاری وار کیے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ان کے افسانوں میں شگفتہ مزاجی کے بھی بڑے خوب صورت نمونے موجود ہیں لیکن اس مزاح میں بھی طنز کا عنصر خفی صورت میں موجود رہتا ہے۔ان کے طنزیہ جملے، علامتی انداز اور کہانی پن کی موجودگی ایسے تکنیکی وسائل ہیں جو ان کے افسانوں کے مووعات کو بہتر طورپر اُجاگر کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔ وہ افسانے کے قاری، نقاد، محقق اور اُستاد ہونے کی وجہ سے کہانی کو بیان کرنے کاہنر جانتے ہیں۔ وہ اپنے عہد کی خارجی صداقتوں کو ایک دانش مند کے فکری زاویوں سے ایک ماہرتخلیق کار کی طرح جوڑ کر افسانے کے کینوس پر منتقل کرتے ہیں۔ یہ بات انہیں عہدِ حاضر کے دیگر افسانہ نگاروں سے منفرد کرتی ہے۔ طارق محمود کا شمار بھی جنوبی پنجاب کے ان افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جو ایک عرصہ تک اس علاقے میں قیام پذیر رہے ہیں۔ انہوں نے روایتی اندازمیں افسانے لکھے ہیں اور جدید دور کی تکنیکوں کو بھی اپنے افسانوں میں برتا ہے۔ انہوں نے سادہ اور اُلجھے ہوئے دونوں موضوعات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا ہے۔ان کے افسانوں میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی شعور کی جھلکیاں واضح طورپر دکھائی دیتی ہیں۔وہ علامت کا استعمال بھی بڑی ہنر مندی سے کرتے ہیں۔ ان کا اسلوب سادہ اور رواں ہے۔ وہ وسیع مطالعہ اور مشاہدہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی باریک بیں اور دُور بین نگاہوں سے زندگی کے مسائل کو اپنے افسانوں کا روپ دیا ہے۔ انہوں نے اپنی افسانہ نگاری کے ذریعے اُردو افسانے کو نئی توانائی دی ہے۔
عمران اقبال کے افسانے تکنیکی اعتبار سے کہانی پن کا عنصر لیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے تجریدی یا علامتی اسلوب اپنانے کی بجائے سادہ انداز میں افسانے کے کہانی پن کو زندہ رکھاہے۔ان کی مختصر کہانیوں میں فلیش بیک اور خود کلامی کی تکنیک بھی استعمال کی گئی ہیں۔انہوں نے تکنیک کے تجربات کرنے کی بجائے افسانے میں کہانی اور پلاٹ کے عنصر کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ عمران اقبال کے افسانوں میں ڈرامائیت اور تجسّس کا عنصر بہت نما یاں ہے۔ ان کی بہت سی کہانیاں پڑھتے ہوئے فلمی کہانیوں کا احساس ہوتاہے۔ایسا شاید اس لیے ممکن ہے کہ وہ فلموں میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کرچکے ہیں۔وہ کہانی تخلیق کرنے اور ڈرامائیت کی فضا پیدا کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں کے آغاز اور انجام بہت دلچسپ ہیں۔وہ افسانے کا آغاز ایسے جملے سے کرتے ہیں جس سے دلچسپی کا عنصر خود بخود پیدا ہوجاتا ہے اور افسانے کے انجام میں تحیر کا ایسا ماحول تخلیق کرتے ہیں کہ کہانی کی ساری گرہیں کھل جاتی ہیں۔ان کے افسانوں کے عنوانات بھی ڈرامائی تجسّس سے بھرپور ہوتے ہیں جیسے ’’ایک رات کی کہانی‘‘، ’’آخری اسٹیشن‘‘، ’’وہ کون تھی‘‘، ’’سیاہ بلاؤزر‘‘، ’’اندھیر نگری‘‘، ’’آخری عورت‘‘ اور ’’دوسرا آدمی‘‘وغیرہ۔دراصل عمران اقبال افسانوں کے عنوانات کی اہمیت کے ساتھ ساتھ قاری کی نفسیات سے بھی اچھی طرح آگاہ ہیں۔وہ لفظوں کے رمز شناس ہیں۔ وہ پیچیدہ لفظوں کے گورکھ دھندوں میں اُلجھنے کی بجائے کہانی کو سادہ انداز میں بیان کرتے ہیں تاکہ ہر قاری ان کے تجربے اور تحریر سے لطف اندوز ہوسکے۔ان کے افسانوں کی ایک بڑی خوبی ان کی منظر نگاری ہے۔ وہ ہمہ قسم کی جذباتی، نفسی اور بیرونی ماحول کی تصویر کشی کرنے پر قادر ہیں۔ افسانے کے کینوس پر انہوں نے خوب صورت امیجز تخلیق کیے ہیں۔ ان کے کردار ہمارے اِرد گرد پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کی تخلیقی حسیت نے ان کرداروں کو منفرد رنگ عطا کردیاہے۔ تمام افسانوں میں ان کی اپنی شخصیت بھی ایک کردارکی صورت میں موجود رہتی ہے ۔وہ مناسب موقع پر اپنی ذات کو بھی سامنے لے آتے ہیں لیکن ان کی ذات کہانی پر مسلط نہیں ہوتی۔ وہ اپنی کہانی اور کرداروں کو فطری ماحول میں ڈھال کر پیش کرتے ہیں۔ عمران اقبال جنوبی پنجاب کے عصری منظر نامے میں ایک منفرد افسانہ نگار کی حیثیت سے اپنا مقام بنا چکے ہیں۔
جنوبی پنجاب میں اُردو افسانے کے عصری منظر نامے پرجو تخلیق کار اپنی افتادِ طبع اور تخلیقی اُپچ سے انفرادی شناخت قائم کرنے میں کام یاب ہوئے ہیں۔ ان نوجوان افسانہ نگاروں میں لیاقت علی ایک اہم نام ہیں۔ افسانے سے ان کی وابستگی کی جہت صرف تخلیقی نہیں ہے۔ وہ اُردو افسانے کے ایک باذوق قاری، اُستاد اور محقق بھی ہیں۔وہ اُردو افسانے کی ساری تخلیقی جہتوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔یہ تنقیدی شعور موضوع کے انتخاب سے لے کر کہانی میں ڈھل جانے تک کے عمل میں ان کی رہنمائی کرتا رہتا ہے لیکن وہ اس تنقیدی صلاحیت کو مستقل طورپر تخلیقی وفور پر حائل نہیں ہونے دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں تصنع کا احساس نہیں ہوتا۔انہوں نے افسانے کی روایت، جدید علمی و فلسفیانہ نظریات سے اکتسابِ فیض ضرور کیا ہے لیکن انہیں سامنے رکھ کر کہانیاں نہیں لکھیں۔ان کے افسانوں میں عصر حاضر کے انسان کی داخلی اور خارجی زندگی کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔انہوں نے سڑکوں پر، گلیوں میں، ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر اور یونی ورسٹی کے ہاسٹلز میں بکھری ہوئی کہانیوں کو افسانوں کا روپ دیاہے۔ان کے افسانوں میں مشاہداتی عنصر کا دخل بہت زیادہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے ساری کہانیاں کھوج کر تحریر کی ہیں اور کوشش کی ہے کہ ان کے تخلیقی حسن میں تخیل کی آمیزش کم سے کم ہو۔اس لیے ہمیں ان افسانوں کے کردار اور کہانیوں سے عجیب سی مانوسیت ہوتی ہے۔
لیاقت علی نے خود کو غیر ضروری فنی پیچیدگیوں میں نہیں گھسیٹا۔ ان کے افسانوں میں وہ ایک کردار کی صورت میں کہیں جلی اور کہیں خفی طورپر موجود ہیں یا کم ازکم اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہر افسانے میں موجود صیغہ واحد متکلم اور متکلم مصنف ہے۔ وہ کسی ایک جملے اور کسی ایک سوال کے ذریعے لیاقت علی کو ایک کردار بنا دیتے ہیں۔ ان کے افسانے اسلوبیاتی سطح پر افسانے کی کلاسیکی روایات کا احیاء ہیں اور فکری سطح پر ان کی کہانیاں عصری حسیت کی نمائندگی کا فریضہ انجام دیتی نظر آتی ہیں۔
علی تنہا نے پنجاب کی افسانوی روایت کو نیا رخ دیا ہے۔ ان کے ہاں روایت اور جدت کا خوب صورت امتزاج پایا جا تا ہے۔ان کے افسانے علامت نگاری کی خوب صورت مثالیں ہیں۔ ان کی علامتیں زندگی کے مثبت اور منفی رویوں کی عکاس ہیں۔ انہوں نے اسلوب میں انفرادیت قائم کی ہے۔ وہ اساطیر کے حوالے سے بھی خوب صورت افسانے تخلیق کرتے ہیں۔
انور زاہدی جنوبی پنجاب میں افسانہ نگاری کے حوالے سے ایک اہم نام ہے۔ ان کے افسانے فنی و فکری پختگی کی بہترین مثالیں ہیں۔ وہ زندگی، فطرت، انسانی رویو ں اور استحصال کو اپ نے افسانوں میں پیش کرتے ہیں۔ وہ ظلم اورجبر کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کا لہجہ بلند آہنگ ہوجاتاہے ۔ وہ افسانے کی تکنیک سے بھی خوب آشنا ہیں۔
حفیظ احسن جنوبی پنجاب کے نمائندہ افسانہ نگار ہیں۔ وہ ادب برائے زندگی کے قائل ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں زندگی، فطرت، وقت، محبت، انسان اور جنس کے مختلف پہلوؤں کو موضوع بنایا ہے۔ ان کے افسانوں میں زندگی کے سارے رنگ دکھائی دیتے ہیں۔انہوں نے تجربات و مشاہدات کو کہانیوں کی صورت میں پیش کیا ہے۔ ان کے افسانوں میں کردار فعال اور متحرک ہیں۔ ان کا اسلوب سادہ اورر نجیدہ ہے۔ انہوں نے افسانوں کے پلاٹ پر خصوصی توجہ دی ہے۔ اگرچہ کہیں کہیں وہ فن اور تکنیک کا مؤثر استعمال نہیں کر پائے لیکن پیش کش کے اعتبار سے ان کے افسانے قاری کو محظوظ کرتے ہیں۔
جاوید اختر بھٹی جنوبی پنجاب میں افسانے کی روایت کا ایک اہم نام ہیں۔ انہوں نے ظلم،جبر اور استحصال کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ وہ طبقاتی تقسیم کو اپنے افسانوں کا موضوع بناتے ہیں۔ ان کے ہاں تکنیک کے تجربات بھی پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے علامتی افسانے بھی لکھے ہیں اور بیانیہ افسانے بھی تحریر کیے ہیں۔ ان کے ہاں افسانچے کا تجربہ بھی ملتاہے۔
مشرف احمد جنوبی پنجاب کے ان افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے فن افسانہ نگاری پر اپنی دسترس کا لوہا منوایا ہے۔ انہوں نے علامتی، تجریدی اور بیانیہ افسانے لکھے ہیں اور انہوں نے کہیں کہانی کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ وہ افسانے میں کہانی کو اہم سمجھتے ہیں۔ وہ جنوبی پنجاب سے دور کراچی چلے گئے مگر ان کے افسانے میں یہاں کی مٹی کی باس رچی ہوئی ہے۔
مبین مرزا کا تعلق بھی جنوبی پنجاب سے ہے۔ اُردو افسانے میں ان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ انہوں نے مختلف موضوعات کو افسانے کے قالب میں ڈھالا ہے۔ان کے افسانوں میں طبقاتی استحصال اور شہر آشوب کا خوب صورت اظہار ملتاہے۔وہ بھی روشنیوں کے شہر کراچی میں رہنے کے باوجود جنوبی پنجاب کو بھلا نہیں پائے۔ ان کے افسانوں میں جیتا جاگتا جنوبی پنجاب موجود ہے۔ خالد سعید جنو بی پنجاب میں افسانہ نگاری کے حوالے سے ایک اہم نام ہے۔ ان کے افسانوں میں نفسیاتی و سیاسی شعور نظر آتا ہے۔ان کے ہاں علامت نگاری کے خوبصورت نمونے ملتے ہیں۔انہوں نے افسانے کے بیان میں انفرادیت پیدا کی ہے۔ ان کے افسانوں کے پلاٹ مربوط اور کہانی کی بنت خوب ہے۔ انسانی نفسیات کے حوالے سے ان کے افسانے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ جنوبی پنجاب میں اُردو افسانے میں رجحانات کے حوالے سے اگر جائزہ لیاجائے تو ہمیں اس خوشگوار حیرت کا احساس ہوتا ہے۔یہاں کے افسانہ نگاروں نے اُردو افسانہ نگاری میں مستعمل تمام رجحانات کو مدنظر رکھ کر افسانے تحریر کیے ہیں۔ یہ افسانے صرف ایک تجربہ نہیں ہیں بلکہ اُردو کے شاہکار افسانوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ علامت نگاری میں عرش صدیقی، مسعود اشعر، ڈاکٹر انوار احمد، مشرف احمد، اکرام االلہ، خالد سعید، ایم ایم ادیب، جاوید اختر بھٹی، آصف عمران، علی تنہا، ڈاکٹر صلاح الدین حیدر کے نام خاص طورپر ہمارے سامنے آتے ہیں۔
حقیقت نگاری میں محمد خالد اختر، حفیظ احسن، عباس خان، ڈاکٹر انوار احمد، عاصی کرنالی، حسن رضا گردیزی، طارق محمود، اکرام اللہ، سیّد جاوید اختر، جمیل اختر، اقبال ندیم، خورشید احمد ٹمی، ڈاکٹر ریاض قدیر وغیرہ کے افسانے بہترین نمونہ ہیں۔نفسیاتی افسانہ نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر سلیم اختر،جمیل احمدعدیل، ڈاکٹر انوار احمد، خالد سعیداور حیدر قریشی کے افسانے ہمارے سامنے ہیں۔تجریدیت اور جدید ادبی رجحانات کے نمائندہ افسانہ نگاروں میں لیاقت علی، مشرف احمد، مبین مرزا، ساحر شفیق، رمضان رضی اور نیر مصطفی کے نام نمایاں ہیں۔ ان کے ہاں وجودیت کے حوالے سے خاص طور پر خوب صورت افسانے لکھے گئے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں خواتین کی افسانہ نگاری کا آغاز۱۹۳۷ ء میں ’’نخلستان‘‘ میں شیو رانی دیوی کے افسانے ’’چندا کا بیاہ‘‘ سے ہوا۔ تب سے اب تک خواتین افسانہ نگاروں کی ایک معقول تعداد نے اس میدان م یں اپنی تخلیقات پیش کی ہیں۔ ان خواتین نے عورت کے مسائل کو بالخصوص اپنے افسانوں کا بنیادی موضوع بنایا ہے۔انہوں نے عورت کی نفسیاتی، سماجی اور معاشرتی مسائل کو بڑی خوب صورتی سے اپنے افسانوں میں پورٹریٹ کیا ہے۔ ان میں جمیلہ ہاشمی، بشریٰ رحمن، ثمر بانو ہاشمی، صائمہ نورین بخاری، دُردانہ نوشین خان، غزالہ خاکوانی،شہناز نقوی، نجمہ افتخار راجا، رفیعہ سرفراز، یاسمین گورمانی، صباحت مشتاق،نیلم احمد بشیر، راشدہ قاضی اور لبابہ عباس کے نام اہم ہیں۔ مذکورہ افسانہ نگاروں کے زیادہ تر افسانے ادب برائے زندگی کے عکاس اور ترجمان ہیں۔
جنوبی پنجاب میں اُردو افسانے کے متنوع رجحانات کے تتبع میں جہاں کامیاب امثال ہمارے سامنے آئی ہیں وہاں یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ لیاقت علی، ساحر شفیق، رمضان رضی، عمران اقبال، شاہد رضوان،احمد اعجاز، نیرمصطفی، گل نوخیز اختر، اسلم سحاب، گل زیب عباسی، ڈاکٹر ریاض قدیراور مبین مرزا جیسے نوجوان دستیاب ہیں جو نئے ادبی رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے جان دار اور خوب صورت افسانے تخلیق کر رہے ہیں۔
جنوبی پنجاب میں افسانے کی روایت میں تحقیق کرنے کے بعد راقم اس نتیجے پرپہنچا ہے کہ قومی اور حکومتی سطح پر نہ صرف اس علاقے کو نظر انداز کیا گیا بلکہ اس علاقے کے ادب، تہذیب اور ثقافت کو بھی وہ مقام نہیں ملا جو فی الواقع اس علاقہ کا حق تھا۔ ہر چند کہ پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی اُردو بطور مادری زبان نہیں بولی جاتی لیکن قومی زبان ہونے کے ناتے جنوبی پنجاب میں اسے وطنِ عزیز کے دیگر علاقوں سے کم پذیرائی اور محبت نہیں ملی لیکن یہاں کی تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی قدامت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اگر صرف اس علاقے کی قدامت اور تہذیبی تقدم کو بنیاد بناکر مقامی تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تو یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ بڑے شہروں میں بیٹھے ادیبوں اور شاعروں سے اس علاقے کا ادب اور شاعر بہتر تخلیقی مظاہرہ کرتا اور ادبی اور تخلیقی طورپر پس ماندہ نہ سمجھا جاتا۔یہاں کے ادیبوں کے لیے کبھی کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں رہا جس سے نئے لکھنے والوں کی تربیت ہوتی۔ یہاں محض انفرادی طور پر ادب کی خدمت ہوتی رہی۔ اجتماعی اور قومی سطح پر یہاں کوئی ایسا ادارہ نہیں تھا جو انفرادی طورپر لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتا۔
مشرف احمد جنوبی پنجاب کے ان افسانہ نگاروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے فن افسانہ نگاری پر اپنی دسترس کا لوہا منوایا ہے۔ انہوں نے علامتی، تجریدی اور بیانیہ افسانے لکھے ہیں اور انہوں نے کہیں کہانی کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ وہ افسانے میں کہانی کو اہم سمجھتے ہیں۔ وہ جنوبی پنجاب سے دور کراچی چلے گئے مگر ان کے افسانے میں یہاں کی مٹی کی باس رچی ہوئی ہے۔
مبین مرزا کا تعلق بھی جنوبی پنجاب سے ہے۔ اُردو افسانے میں ان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ انہوں نے مختلف موضوعات کو افسانے کے قالب میں ڈھالا ہے۔ان کے افسانوں میں طبقاتی استحصال اور شہر آشوب کا خوب صورت اظہار ملتاہے۔وہ بھی روشنیوں کے شہر کراچی میں رہنے کے باوجود جنوبی پنجاب کو بھلا نہیں پائے۔ ان کے افسانوں میں جیتا جاگتا جنوبی پنجاب موجود ہے۔
خالد سعید جنو بی پنجاب میں افسانہ نگاری کے حوالے سے ایک اہم نام ہے۔ ان کے افسانوں میں نفسیاتی و سیاسی شعور نظر آتا ہے۔ان کے ہاں علامت نگاری کے خوب صورت نمونے ملتے ہیں۔انہوں نے افسانے کے بیان میں انفرادیت پیدا کی ہے۔ ان کے افسانوں کے پلاٹ مربوط اور کہانی کی بنت خوب ہے۔ انسانی نفسیات کے حوالے سے ان کے افسانے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ جنوبی پنجاب میں اُردو افسانے میں رجحانات کے حوالے سے اگر جائزہ لیاجائے تو ہمیں اس خوشگوار حیرت کا احساس ہوتا ہے۔یہاں کے افسانہ نگاروں نے اُردو افسانہ
نگاری میں مستعمل تمام رجحانات کو مدنظر رکھ کر افسانے تحریر کیے ہیں۔ یہ افسانے صرف ایک تجربہ نہیں ہیں بلکہ اُردو کے شاہکار افسانوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ علامت نگاری میں عرش صدیقی، مسعود اشعر، ڈاکٹر انوار احمد، مشرف احمد، اکرام االلہ، خالد سعید، ایم ایم ادیب، جاوید اختر بھٹی، آصف عمران، علی تنہا، ڈاکٹر صلاح الدین حیدر کے نام خاص طورپر ہمارے سامنے آتے ہیں۔
حقیقت نگاری میں محمد خالد اختر، حفیظ احسن، عباس خان، ڈاکٹر انوار احمد، عاصی کرنالی، حسن رضا گردیزی، طارق محمود، اکرام اللہ، سیّد جاوید اختر، جمیل اختر، اقبال ندیم، خورشید احمد ٹمی، ڈاکٹر ریاض قدیر وغیرہ کے افسانے بہترین نمونہ ہیں۔نفسیاتی افسانہ نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر سلیم اختر،جمیل احمدعدیل، ڈاکٹر انوار احمد، خالد سعیداور حیدر قریشی کے افسانے ہمارے سامنے ہیں۔تجریدیت اور جدید ادبی رجحانات کے نمائندہ افسانہ نگاروں میں لیاقت علی، مشرف احمد، مبین مرزا، ساحر شفیق، رمضان رضی اور نیر مصطفی کے نام نمایاں ہیں۔ ان کے ہاںوجودیت کے حوالے سے خاص طور پر خوب صورت افسانے لکھے گئے ہیں۔
جنوبی پنجاب میں خواتین کی افسانہ نگاری کا آغاز۱۹۳۷ ء میں ’’نخلستان‘‘ میں شیو رانی دیوی کے افسانے ’’چندا کا بیاہ‘‘ سے ہوا۔ تب سے اب تک خواتین افسانہ نگاروں کی ایک معقول تعداد نے اس میدان میں اپنی تخلیقات پیش کی ہیں۔ ان خواتین نے عورت کے مسائل کو بالخصوص اپنے افسانوں کا بنیادی موضوع بنایا ہے۔انہوں نے عورت کی نفسیاتی، سماجی اور معاشرتی مسائل کو بڑی خوب صورتی سے اپنے افسانوں میں پورٹریٹ کیا ہے۔ ان میں جمیلہ ہاشمی، بشریٰ رحمن، ثمر بانو ہاشمی، صائمہ نورین بخاری، دُردانہ نوشین خان، غزالہ خاکوانی،شہناز نقوی، نجمہ افتخار
راجا، رفیعہ سرفراز، یاسمین گورمانی، صباحت مشتاق،نیلم احمد بشیر، راشدہ قاضی اور لبابہ عباس کے نام اہم ہیں۔ مذکورہ افسانہ نگاروں کے زیادہ تر افسانے ادب برائے زندگی کے عکاس اور ترجمان ہیں۔
جنوبی پنجاب میں اُردو افسانے کے متنوع رجحانات کے تتبع میں جہاں کامیاب امثال ہمارے سامنے آئی ہیں وہاں یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ لیاقت علی، ساحر شفیق، رمضان رضی، عمران اقبال، شاہد رضوان،احمد اعجاز، نیرمصطفی، گل نوخیز اختر، اسلم سحاب، گل زیب عباسی، ڈاکٹر ریاض قدیراور مبین مرزا جیسے نوجوان دستیاب ہیں جو نئے ادبی رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے جان دار اور خوب صورت افسانے تخلیق کر رہے ہیں۔
جنوبی پنجاب میں افسانے کی روایت میں تحقیق کرنے کے بعد راقم اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ قومی اور حکومتی سطح پر نہ صرف اس علاقے کو نظر انداز کیا گیا بلکہ اس علاقے کے ادب، تہذیب اور ثقافت کو بھی وہ مقام نہیں ملا جو فی الواقع اس علاقہ کا حق تھا۔ ہر چند کہ پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی اُردو بطور مادری زبان نہیں بولی جاتی لیکن قومی زبان ہونے کے ناتے جنوبی پنجاب میں اسے وطنِ عزیز کے دیگر علاقوں سے کم پذیرائی اور محبت نہیں ملی لیکن یہاں کی تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی قدامت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اگر صرف اس علاقے کی قدامت اور تہذیبی تقدم کو بنیاد بناکر مقامی تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تو یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ بڑے شہروں میں بیٹھے ادیبوں اور شاعروں سے اس علاقے کا ادب اور شاعر بہتر تخلیقی مظاہرہ کرتا اور ادبی اور تخلیقی طورپر پس ماندہ نہ سمجھا جاتا۔یہاں کے ادیبوں کے لیے کبھی کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں رہا جس سے نئے لکھنے والوں کی تربیت ہوتی۔ یہاں محض انفرادی طور پر ادب کی خدمت ہوتی رہی۔ اجتماعی اور قومی سطح پر یہاں کوئی ایسا ادارہ نہیں تھا جو انفرادی طورپر لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتا۔
٭٭٭
(مقالہ ایم فل اُردو ۔ بشکریہ افتخار علی ( لیکچرر : ڈگری کالج یزمان )
حوالہ جات :
۱۔ حامد بیگ، مرزا، ڈاکٹر، ’’اُردو سفر نامے کی مختصر تاریخ‘‘،کلاسک، لاہور،۱۹۹۹ ء
۲۔ حامد بیگ، مرزا، ڈاکٹر، ’’افسانے کا منظر نامہ‘‘،مکتبہ عالیہ، لاہور، س۔ن
۳۔ حامد بیگ، مرزا، ڈاکٹر، ’’تیسری دنیا کا افسانہ‘‘،مطبوعہ خالد بن، لاہور،۱۹۸۲ ء
۴۔ حفیظ الرحمن حفیظ،’’تاریخ اوچ‘‘،محبوب المطابع، دہلی،۱۹۴۱ء
۵۔ حیات میرٹھی، ’’بہاول پور کا شعری ادب‘‘،اُردو اکیڈمی، بہاول پور،۱۹۵۱ء
۶۔ درثمین نقوی،’’چولستان تاریخ کے آئینے میں‘‘،دھرتی پبلشرز، ملتان، ۲۰۰۳ ء
۷۔ رائے بہادر لالہ ہتو رام، ’’تاریخ بلوچستان‘‘،سیلز اینڈ سروسز، کوئٹہ، ۱۹۹۷ ء
۸۔ رمضان جوئیہ، محمد،، ’’تاریخ خلفاء بنو عباس‘‘، ادارہ روحانیت رحیمیہ، بہاول پور،۱۹۹۸ ء
۹۔ رفیعہ سلطانہ، ڈاکٹر، ’’اُردو نثرکا آغاز و ارتقاء‘‘،کریم سنز پبلی کیشنز، کراچی،۱۹۸۷ ء
۱۰۔ روبی نہ ترین، ڈاکٹر، ’’تاریخ ادبیاتِ ملتان‘‘،مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد،۲۰۱۲ ء
۱۱۔ روبینہ ترین، ڈاکٹر،’ملتان کی ادبی و تہذیبی زندگی میں صوفیاء کرام کا حصہ‘،بیکن بکس، ملتان،۱۹۹۸
۱۲۔ریحانہ پروین، ڈاکٹر، ’’ڈاکٹر شفیق الرحمن۔۔۔ ایک مطالعہ‘‘، وجے پبلشرز، نئی دہلی، ۱۹۹۷ء
۱۳۔ زاہد علی واسطی، سیّد، ڈاکٹر، ’’بہاول پور کی سرزمین‘‘،بیکن بکس، ملتان، ۲۰۰۹ ء
۱۴۔ زاہد علی واسطی، سیّد، ڈاکٹر، ’’تاریخ سرزمین ملتان‘‘،بیکن بکس، ملتان،۲۰۰۹ء
۱۵۔ سلطانہ بخش، ڈاکٹر، ’’پاکستانی اہلِ قلم خواتین‘‘، اکادمی ادبیات، اسلام آباد،۲۰۰۳ء
۱۶۔ سلیم آغا قزلباش، ڈاکٹر، ’’جدید اُردو افسانے کے رجحانات‘‘، انجمن ترقء اُردو،کراچی، ۲۰۰۰ ء
۱۷۔ سلیم اختر، ڈاکٹر، ’’افسانہ اور افسانہ نگار‘‘، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۱ ء
۱۸۔ سلیم اختر، ڈاکٹر، ’’نشانِ جگر سوختہ‘‘،سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور،۲۰۰۵ ء
۱۹۔شازیہ، ڈاکٹر،’ملتان میں جدید اُردو نظم روایت‘، بہاء الدین زکریا یونی ورسٹی، ملتان،۲۰۰۳ ء
۲۰۔شاہد حسن رضوی، ڈاکٹر، ’’طنز ومزاح کے تنقیدی اُفق‘‘، اُردو اکیڈمی، بہاول پور،۲۰۰۱ء
۲۱۔ شبیہ الحسن، سیّد، ڈاکٹر، ’’ترغیبات‘‘، اظہار سنز، لاہور، ۲۰۰۸ء
۲۲۔شبیہ الحسن، سیّد، ڈاکٹر، ’’مضافاتی شعر و ادب‘‘،اظہار سنز، لاہور، ۲۰۰۹ ء
۲۳۔شکیل پتافی،ڈاکٹر، ’’جنوبی پنجاب میں اُردو شاعری‘‘،جھوک پبلشرز، ملتان، ۲۰۰۸ ء
۲۴۔شمیم حیدر ترمذی، ڈاکٹر، ’’ادب اور اثر‘‘، بیکن بکس،ملتان،۲۰۱۰ء
۲۵۔طاہر تونسوی، ڈاکٹر، ’’جہت ساز قلم کارڈاکٹر سلیم اختر‘‘،الفیصل ناشران، لاہور،جنوری ۲۰۰۳ ء
۲۶۔طاہر تونسوی،ڈاکٹر، ’’ڈاکٹر سلیم اختر شخصیت و تخلیقی شخصیت‘‘، گوراپبلشرز،لاہور، ۱۹۹۵ ء
۲۷۔طاہر تونسوی، ڈاکٹر، ’’ملتان میں اُردو شاعری‘‘، س نگِ میل پبلی کیشنز، لاہور،۱۹۸۶ ء
۲۸۔عارف حسین ملک، ’’تاریخ علی پور‘‘، جھوک پبلشرز، ملتان،۲۰۱۰ ء
۲۹۔عاشق محمد خان درّانی،ڈاکٹر، ’’تاریخ افغانستان‘‘،بزمِ ثقافت، ملتان، ۲۰۰۷ ء
۳۰۔ عبدالحق،ڈاکٹر،اُردو زبان نشوونما میں صوفیائے کرام کا حصہ انجمن ترقی ٔ اُردو کراچی، ۱۹۹۵ء
۳۱۔ عبدالحق، مہر، پروفیسرڈاکٹر، ’’ملتان کے بادشاہ، نامور گورنر اور حملہ آور‘‘،بیکن بکس، ملتان، ۱۹۹۴
۳۲۔عبدالغنی بزدار، ’’کوہِ سلیمان کے شعلے‘‘،تونسہ کتاب گھر، تونسہ شریف، ۱۹۸۹ ء
۳۳۔عبدالقادر لغاری، ’تاریخ ڈیرہ غازی خان‘حصہ دوم، حسن آرٹ پریس،ڈیرہ غازی خان، ۱۹۹۰
۳۴۔عتیق فکری، ’’نقشِ ملتانی‘‘جلد اوّل،فکری اکیڈمی، ملتان، ۱۹۸۲ ء
۳۵۔عمران اقبال، ’’بہاول پور میں اُردوشاعری‘‘،چولستان علمی و ادبی فورم، بہاول پور،۲۰۱۰ ء
۳۶۔عمران خالد،مترجم’’تاریخ سندھ‘‘،آزاد، لاہور، س۔ن
۳۷۔غلام علی نتکانی، ’’مرقع ڈیرہ غازی خان‘‘، جمہوری کتاب گھر، تونسہ شریف،۱۹۸۶ ء
۳۸۔فرمان فتح پوری، ڈاکٹر، ’’اُردو افسانہ اور افسانہ نگار‘‘، الوقار پبلی کیشنز، لاہور،۲۰۱۳ ء
۳۹۔ قاضی جاوید،’’ہندی مسلم تہذیب‘‘وین گارڈ بکس لمیٹڈ، لاہور، ۱۹۸۳ ء
۴۰۔ قمر الزمان عباسی، صاحبزادہ، ’’بغداد سے بہاول پور‘‘،رضا سنزپرنٹرز، لاہور،۲۰۰۳ ء
۴۱۔ قمر الزمان عباسی، صاحبزادہ، ’بہاول پور کا صادق دوست، قمر عباسی پبلشرز، بہاول پور، ۱۹۹۲ء
۴۲۔ کشور ناہید، ’’خواتین افسانہ نگار‘‘، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۶ ء
۴۳۔کیفی جام پوری، ’’سرائیکی شاعری‘‘، بزمِ ثقافت، ملتان، ۱۹۶۹ ء
۴۴۔ محمد اسلم بروہی، ڈاکٹر، ’’جمیلہ ہاشمی کا افسانوی ادب‘‘، الوقار پبلی کیشنز، لاہور،۲۰۰۷ ء
۴۵۔محمد اکرم، شیخ،’’آبِ کوثر‘‘، فیروز سنز، لاہور، ۱۹۶۶ ء
۴۶۔ محمد خالد اختر، ’’ریت پر لکیریں‘‘،آج کی کتابیں، کراچی، س۔ن
۴۷۔ محمد سردار خان بلوچ، ’’بلوچ قوم کی تاریخ‘‘،انساء ٹریڈرز، کوئٹہ،۱۹۸۰ ء
۴۸۔ محمد لطیف، سیّد، ’’ملتان کی قدیم تاریخ‘‘، بیکن بکس، ملتان، ۲۰۰۶ ء
۴۹۔ محمد وسیم انجم، ’’حیدر قریشی فکر وفن‘‘،انجم پبلی کیشنز، راول پنڈی، ۹۹۹۱ ء
۵۰۔ مزمل بھٹی، ڈاکٹر، ’’صحرا مہک رہاہے‘‘، ماورا پبلشرز، لاہور،۲۰۰۵ ء
۵۱۔ مسعود حسن شہاب دہلوی، ’’بہاول پور میں اُردو‘‘،اُردو اکیڈمی، بہاول پور،۱۹۸۳ ء
۵۲۔ مسعود حسن شہاب دہلوی، ’’مشاہیر بہاول پور‘‘،اُردو اکیڈمی، بہاول پور، ۱۹۸۷ ء
۵۳۔ معراج نیر، سیّد، ڈاکٹر، ’’بیسویں صدی کے منتخب افسانے‘‘،الاعجاز پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۳ ء
۵۴۔ منزہ یاسمین، ’’حیدر قریشی۔ شخصیت اور فن‘‘،میاں طفیل بخش پبلشرز، خان پور،۲۰۰۳ ء
۵۵۔ نجم الدین سلیمانی،حاجی، ’’مناقب المحبوبین‘‘،اسلامی بک فاؤنڈیشن، لاہور، ۱۹۷۹ ء
۵۶۔ نذیر علی شاہ، بریگیڈیئر، ’’آباد کار‘‘، تعلیمی پرنٹنگ پریس، لاہور، ۱۹۳۹ء
۵۷۔ نذیر فتح پوری،سنجے گوڑ بوئے،مرتبین’حیدر قریشی۔ فن اور شخصیت،اسباق پبلی کیشنز، پونا، ۲۰۰۲ ء
۵۸۔ نصیر حسین خان، خیال، ’’داستانِ اُردو‘‘(ادارہ اشاعت، دکن، س۔ن)
۵۹۔ نور احمد فریدی، مولانا، ’’تاریخ ملتان‘‘جلد اوّل(قصر الادب، ملتان، س۔ن)
۶۰۔ نور احمد فریدی، مولانا، ’’ملتان اور مؤرخین‘‘(قصر الادب، ملتان، س۔ن)
۶۱۔ نور الدین حسین بخش ودیگر،’’گنان شریف‘‘،جلد دوم ،( شیعہ امامی، اسماعیلی اینڈ)
ریلیجین ایجوکیشن بورڈ، کراچی، ۲۰۰۲ ء
اخبارات و رسائل:
۱۔’’اُردو پنچ‘‘،شفیق الرحمن ایڈیشن (راول پنڈی)
۲۔’’اُردو نامہ‘‘،ماہ نامہ (لاہور)
۳۔’’ارمغان‘‘،سہ ماہی (کراچی)
۴۔’’الزبیر‘‘،سہ ماہی (بہاول پور)
۵۔’’الشمس‘‘،ہفت روزہ (ملتان)
۶۔’’جنگ‘‘،روزنامہ (ملتان)
۷۔’’ستلج‘‘،ہفت روزہ (بہاول پور)
۸۔’’صادق الاخبار‘‘،روزنامہ ( بہاول پور)
۹’’فنون‘‘،ششماہی (لاہور)
۱۰۔’’لالہ ٔ صحرا‘‘،سہ ماہی (،صادق آباد، بہاول پور)
۱۱۔’’میگزین‘‘،سالانہ ( صادق ایجرٹن کالج،بہاول پور)
۱۲۔ ’’نخلستان‘‘،سہ ماہی (محکمہ ٔ تعلیم،ملتان )
۱۳۔ ’’نخلستان‘‘،سالانہ (ایمرسن کالج،ملتان)
۱۴۔ ’’نخلستان‘‘،سالانہ ( صادق ایجرٹن کالج، بہاول پور)
۱۵۔ ’’نوادر‘‘،سہ ماہی (لاہور)
۱۶۔ ’’نوائے وقت‘‘،روزنامہ ( ملتان)
٭٭٭
افتخار علی ( یزمان )
افتخار علی ( یزمان )