یوٹیوب پر سب سے زیادہ دیکھی ویڈیوز میں سے ایک “گنگنم سٹائل” ہے۔ جنوبی کوریا کے گلوکار کے اس گانے کو دیکھنے والوں کی تعداد تین ارب سے زائد ہے۔ یہ پوسٹ شمالی کوریا کی ترقی کے بارے میں ہے لیکن اس کا ایک تعلق اس گانے سے بھی ہے، جس کی طرف آخر میں۔
جنوبی کوریا اس وقت دنیا کی ایک بڑی اقتصادی طاقت ہے۔ آپ نے کبھی سام سنگ، ایل جی، ہنڈائی، ڈائیوو جیسی کمپنیوں کی پراڈکٹس استعمال کی ہوں گی۔ یہ امیر ملک حیران کن اس لئے ہے کہ ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ آج سے صرف ایک نسل پہلے جنوبی کوریا ایک غریب ملک تھا۔ انتہائی غریب۔ زمبابوے اور گیبون جیسے ملکوں سے بھی غریب۔ صرف ایک نسل میں یہ فاقہ زدہ ملک دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ معاشروں میں بدل گیا۔ دنیا کے ہر ملک کا ترقی کا راستہ مختلف رہا ہے۔ جنوبی کوریا کا بھی اپنا ایک منفرد راستہ تھا۔ اس کی ترقی کو دریائے ہان کا معجزہ کہا جاتا ہے
کورین جنگ میں بیس لاکھ ہلاکتیں ہوئیں۔ اس جنگ کے بعد جب کوریا 1953 میں دو ملکوں میں بدلا تو جنوبی کوریا زیادہ مشکلات کا شکار تھا۔ شمالی کوریا کے پاس تمام صنعتیں تھیں اور ادارے تھے۔ جنوبی کوریا صرف زرعی پیداوار پر انحصار کرنا والا پسماندہ حصہ تھا۔ سکولوں میں میز کرسی تک نہ تھے۔ اور بچوں کے دودھ کے لئے یہ امریکہ اور یورپ کے امداد میں دئے گئے پاوؐڈر پر انحصار کرتا تھا۔ مظاہرے عام تھے۔ 1960 میں جنرل پارک چن ہی نے حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھالا۔ اس کے بعد اگلے ستائیس برس میں ملک میں تین مزید ڈکٹیٹر آئے۔ حکومت کے تختے الٹنا پرتشدد رہا۔ اس کے بعد سے بھی یہاں پر جمہوریت تو ہے لیکن سیاسی استحکام زیادہ نہیں رہا۔ لیکن ان کا اکنامک ماڈل انہی حالات میں تشکیل پایا اور اکتالیس حکومتوں اور چھ مختلف آئین تو آئے لیکن معاشی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہا۔
جنرل پارک نے ملک کے ان اہم خاندانوں سے ملاقاتیں کیں، جن کا معیشت میں حصہ تھا۔ ان میں سام سنگ اور ایل جی جیسے کمپینیوں کے بانی بھی تھے۔ انکو کہا گیا کہ کاروبار کرنے کیلئے جو بھی چاہیے، بتا دیں۔ یہ ادارے بیرونِ ملک سے قرضہ لینا چاہیں، حکومت گارنٹی دے گی۔ ابھی ٹیکس نہیں دے سکتے، کوئی مسئلہ نہیں۔ اگلے سال سہی۔ ساتھ جو دوسرا کام کیا گیا، وہ یہ کہ فرانس جیسے ملکوں کے برعکس عالمی تجارت پہلے دن سے ہی کوئی بھی رکاوٹ نہیں لگائی۔ ہر قسم کے بزنس کے لئے کارپوریٹ ٹیکس کم رکھا۔ پیسہ بچانے اور انوسٹ کرنے پر اداروں اور افراد کو ترغیبات دی گئیں۔ چونکہ عالمی تجارت پر رکاوٹ نہیں تھی، صنعتوں کو سپورٹ تو دی گئی لیکن protection نہیں اس لئے ہنڈائی اور لوٹے جیسے بڑے کاروباروں کو امریکہ اور جاپان کے بڑے کاروباروں کے ساتھ مقابلہ کرنا تھا۔ جنوبی کوریا کے پاس کوئی قدرتی وسائل نہیں تھے لیکن ایک بڑی آبادی تھی۔ ان کاروباری اداروں نے اس کو اپنی طاقت کیلئے استعمال کیا۔ ایسی صنعتوں میں جہاں پر زیادہ ورک فورس کی ضرورت تھی۔ یہ مینوفیکچرنگ کا شعبہ تھا۔ یہ چائیوبول نیشن کا آغاز تھا۔
سام سنگ کے ایک لاکھ ملازمین میں سے ایک کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں۔ وہ صبح اپنے گھر میں اٹھا ہے۔ یہ گھر سی وائے ٹی نے بنایا ہو گا جو سام سنگ کی تعمیراتی کمپنی ہے۔ وہ اپنے سام سنگ کے فون پر بات کرتا ہے، اس کا ٹی وی دیکھتا ہے۔ سام سنگ کی بنی گاڑی میں دفتر جاتا ہے جس کی انشورنس سام سنگ انشورنس نے کی ہے۔ دوپہر میں سام سنگ کے مشروبات پیتا ہے۔ ویک اینڈ پر سام سنگ کے تھیم پارک میں تفریح کیلئے جاتا ہے۔ جنوبی کوریا کے بڑے ادارے اسی طرح کے ہیں۔ ان کو چائیبول کہا جاتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کسی فیملی نے شروع کئے اور بعد میں یہ پبلک کمپنیاں بن گئیں۔ ان میں سے ہر ایک بہت سے بزنس کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایل جی اپنے ٹی وی اور فون کی وجہ سے دنیا میں مشہور ہے لیکن کوریا میں یہ کوکا کولا کا ڈسٹری بیوٹر بھی ہے۔ جنوبی کوریا میں اس طرح کے 100 چائیبول ہیں۔ حکومت ان کے لئے سرخ قالین تو بچھاتی ہے لیکن ان کو بالکل کھلی آزادی نہیں۔ جب ڈائیوو دیوالیہ ہوا تو حکومت اس کو بچانے نہیں آئی۔
یہاں پر ایک دوسرا اور بہت اہم ستون جنوبی کوریا کا تعلیمی نظام ہے۔ مقابلہ سخت ہے۔ جب یونیورسٹی کے داخلے کے امتحان کا دن ہوتا ہے تو پورا ملک رک جاتا ہے۔ اپنے طلبا اور طالبات کو بہترین تعلیم گارنٹی کرنے پر پورے ملک کا فوکس ہے۔ اس کی منفی سائیڈ یہ ہے کہ نوجوان طلباء میں خودکشی کے رجحان میں دنیا میں اول نمبر پر ہے۔ حکومت کو پہلے روز سے پتہ تھا کہ یہ چائیوبول اس وقت تک نہیں چل سکتے جب تک کہ اعلیٰ ہنرمند لوگ پیدا نہیں کئے جاتے۔ تعلیمی نظام ان اداروں کے ساتھ مدِ نظر رکھ کر ڈیزائن کیا گیا۔ دنیا میں ریاضی میں اس وقت سب سے آگے یہاں کے لوگ ہیں۔ اتھارٹی کی عزت اور ہائیرارکی یہاں کے کلچر کا حصہ ہے۔ اس لئے یہاں پر نئے بزنس شروع کرنے اور پرانوں کا مقابلہ کرنے کا رجحان نہیں۔ ہر کسی کا خواب ان بڑے اداروں میں کام کرنا ہے اور اگر یہ ان میں ترقی کر کے اعلیٰ عہدے پر ہنچ سکیں تو سئیول کے اس مشہور حصے میں گھر لے سکتے ہیں جس کا نام شاید آپ نے سنا ہو گا۔ یہ علاقہ “گنگنم” کا علاقہ ہے۔ جس کے سٹائل پر، یہاں کی زندگی کے رنگوں پر اور گرم کافی کے مگ پر بنایا جانے والا گانا 2012 میں دنیا بھر میں مقبول ہوا اور یہاں پر متنازعہ۔ یہ تنازعہ جنوبی کوریا کی اکانومی کے لئے اچھی خبر ہے، کیونکہ ترقی میں جہاں آرڈر ضروری ہے، وہاں کچھ بغاوت بھی۔
ہائیرارکی رکھنے والی اکانومی نازک ہوتی ہے اور مشکلات کا جلد شکار ہو سکتی ہے۔ اگر پوری اکانومی کا انحصار چند بڑے اداروں پر ہو تو ملک کی اپنی صحت کا انحصار ان اداروں پر ہو جاتا ہے اور بڑے ادارے زیادہ efficient نہیں۔ بیورو کریسی زیادہ ہے۔ کوریا جہاں پر مینوفیکچرنگ میں آگے ہے، وہاں خدمات اور فائننس میں دنیا سے پیچھے ہے۔ نئے کاروبار شروع کرنے والے اور نئے تجربے کرنے والے موجود نہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہاں کا ڈسپلن کا کلچر ہے جس کی وجہ سے رِسک نہیں لیا جاتا۔ سام سنگ جیسا کامیاب پراڈکٹس والا ادارہ بھی اس وقت کوئی منافع نہیں کما رہا۔ BTS یا دنیا میں مقبول ہونے والے بینڈ روایات سے بغاوت کرنے والی صرف ایک کلچرل علامات ہیں۔ متنازعہ ہونے کے بعد قبولت ایک بدلتے کوریا کی علامت۔ جنوبی کوریا روابط کے لحاظ سے دوسرے ممالک سے الگ تھلک نہیں۔ یہاں پر امریکہ اور یورپ سے تعلیم لے کر لوگ نئے مائیڈسیٹ کے ساتھ واپس آ رہے ہیں۔ نئے آئیڈیاز اور بزنس کھولنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن اس حوالے سے ابھی جنوبی کوریا میں بڑا کام باقی ہے۔ مستقبل کے بڑے سوال یہ ہیں کہ اگر سام سنگ جیسی کمپنی بند ہو جائے تو ملک کا کیا ہو گا؟ سیاست اور بزنس کی شادی کا ایک نقصان بڑے پیمانے پر کرپشن کی صورت میں نکلا ہے، اس کو کیا علاج کیا جائے کہ نئے کاروبار بھی بن سکیں؟ لیکن اپنے شمالی ہمسائے کی نسبت جنوبی کوریا کے مشکل سوال بھی اتنے مشکل نہیں۔