اپنی اولاد پر نظر رکھیں، ایک اچھے باپ کے بیٹے کی کہانی جس نے اپنے قتل کا سامان خود ہی کردیا تھا۔دیکھیں کس طرح بچوں کی غلطیوں کا خمیازہ بڑوں کو بُری طرح سے بُہگتنا پڑتا ہے۔
میرے پاس کبھی کبھی ہمارے ایک سابقہ ڈی۔ آئی-جی- کا بیٹا چھوٹے موٹے کاموں کی غرض سے آتا رہتا تھا، لڑکے کی عمر سترہ اٹھارہ سال تھی۔ لڑکے میں عام آفسران کی اولاد کی طرح اکڑ فوں نہیں تھی وہ بظاہر ایک اچھا بچہ نظر آتا تھا اور میں بھی کُلے دل سے اُس کام وغیرہ کرتا رہتا تھا، بچے کا والد کبھی میرا ڈی۔آئی۔جی- رہا تھا اور وہ نہایت ہی اچھا اور شریف آدمی تھا ۔ ہماری قربت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ڈی-آئی۔-جی صاحب کے چھوٹا بھائی میرے ساتھ کالج میں پڑھا بھی تھا۔
اس مصروفیت کے دور آدمی کبھی کبھار ہی کسی سے مل سکتا ہے۔ کافی سالوں بعد مجھے ڈی-آئی-جی- صاحب کے بھائی کا فون آیا اور انھوں نے بتایا کہ ڈی- آئی- جی- صاحب کے بیٹے کا ڈفینس کے علائقے میں قتل ہو گیا ہے اور اُس کیس کی تفتیش ہم آپ سے کروانا چاہتے ہیں تاکہ مُلزمان گرفتار ہوں۔
پہلے تو مجھے اُس لڑکے کے قتل کا بُہت افسوس ہوا اور جب تک کیس میرے پاس ٹرانسفر ہو میں نے کیس کے متعلق معلومات لیں تو میں دنگ رہ گیا۔ کیا اسطرح بھی ہوتا ہے ؟
واقعات کچھ اس طرح تھے کہ لڑکے نے اپنے اُٹھنے بیٹھنے والوں میں یہ مشہور کر رکھا تھا کہ میرے والد کے ایک دوست کراچی بورڈ میں ہیں اور میں کسی کو بھی میٹرک یا انٹر میں اچھے نمبروں سے پاس کروا سکتا ہوں، اسی طرح لڑکا کافی بچوں سے پیسے لیتا رہتا تھا،
جیسا کہ وہ ڈی- آئی۔ جی- کا بیٹا تھا اُسی طرح اُس حلقہ احباب، جان پہچھان، دوستی اور تعلقات بھی اپنے برابر کے فیملیز سے تھا اسی دوران ایک کراچی کے بہت بڑے بلڈر کی بیٹی نے لڑکے سے کہا کہ مجھے میٹرک میں اچھے نمبروں پاس کروادے، لڑکے نے اسی جھانسے میں لڑکی سے دوستی کرلی اور اُس کے ساتھ جنسی تعلقات استوار کر لیئے، لڑکے نے اپنے کمرے میں خفیہ کیمرے کا بندوبست کر رکھا تھا اور لڑکی کی ہر ملاقات کی الگ الگ وڈیو بنتی رہی۔
کچھ عرصے بعد لڑکا لڑکی کے باپ سے جا ملا اور اُس کو ایک CD دیتے ہوئے کہا کہ اس میں ایک ضروری وڈیو ہے آگر اُس کو ایک کروڑ روپیہ دے دیں وہ اس وڈیو کو وائرل نہیں کرے گا- میرے خیال میں یہ ایک والد کے ساتھ بُہت بڑی زیادتی ہے کہ اُس کو اُس کی بیٹی کی وڈیو دکھائی جائے۔
لڑکی کے والد نے لڑکے کو ایک کروڑ روپیہ ادا کر دیا اور خون کے گھونٹ پی کر خاموش ہوگیا۔ لڑکے نے کچھ ہی ماہ میں ایک کروڑ روپیہ اُڑا دیا اور دوسری وڈیو لیکر لڑکی کے والد کے پاس پہنچ گیا اور دوسرا کروڑ روپیہ لے لیا اور اسی طرح تیسرا کروڑ روپیہ بھی لی لیا۔
یہ ایک نہ رکنے والا سلسلہ تھا لڑکی کے والد نے تنگ آکر کسے ٹارگٹ کلر سے بات کی، اور لڑکے کو کو فون کرکے اپنے گھر بُلایا بات چیت کی اور واپسی پر بلڈر کے گھر کے باہر ہی ٹارگٹ کلر نے کار پر فائرنگ کرکے لڑکے کو ہلاک کردیا-
یہ ایک عام کیس تھا، دوستی، تعلقات، رشتے داریاں ایک طرف مگر میں پہلے انسان ہوں اور بعد میں پولیس والا، بلڈر نے مجبور ہوکر لڑکے کو قتل کروایا، مجھے میرا ضمیر اجازت نہیں دے رہا تھا کہ میں یہ کیس اپنے پاس لوں کیونکہ میں بلڈر کو لڑکے کے قتل میں حق بجانب سمجھ رہا تھا اور سمجھ رہا ہوں۔ اور میرا خیال ہے بلڈر نے جو کچھ کیا صحیح کیا۔ یہ کیس میرے علائقے کا نہیں تھا اگر اتفاق سے میرے علائقے کا ہوتا تو میں بلڈر کو اس کیس میں چھوڑ دیتا۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلر تھوک کے حساب سے ملتے ہیں، ایک کیس میں ٹارگٹ کلر پانچ ہزار روپیہ پر کلنگ کرتا تھا۔
میں نے حقیقت جاننے کے بعد ایڈیشنل آجی کراچی سے ملا اور اُن کو کہا کہ آگر کوئی آپ کو اس کیس کو میرے پاس ٹرانسفر کرنے کیلئے کہے تو مہربانی کرکے اس کیس کو مجھے نہ دیں کیونکہ کہ مدعی پارٹی کے ساتھ میرے دیرینہ تعلقات ہیں اور اس کیس میں انصاف نہیں کر سکتا۔
کیس میں بلڈر سے پولیس نے اور پتا نہیں کس کس نے رج کے پیسئے لیئے اور قتل کیس خاموشی سے دفتر داخل ہوگیا۔
باٹا پور کا پل، بیل گاڑی کی آڑ اور نائیک شریف کی لاش
بمبانوالہ راوی بیدیاں لنک کینال المعروف بی آر بی نہر جہاں جی ٹی روڈ کو کاٹتی ہے وہیں باٹا پور...