چلو یار کہیں گھومنے چلتے ہیں کافی دن گزر گئے ہیں کوئی سیر و تفریح نہیں کی۔
“سچ نے ایک بار اپنے دور کے چچا زاد بھائی جھوٹ سے کہا: جس کے ہاں وہ کچھ دن کیلئے رکنے آیا تھا۔
“ہاں یار کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو میں بھی بور ہو چکا گھر میں رہتے رہتے اب کہیں جاتا چاہیے ! لیکن آج نہیں کل چلیں ؟ جھوٹ نے سچ کی بات کی حمایت کی اور ساتھ ہی ایک بہانہ داغ دیا.” چلو ٹھیک ہے تمہارا موڈ نہیں ہے تو ہم کل چلیں گے لیکن یاد رہے کل میں کچھ نہیں سنوں گا ٹھیک ہے؟ سچ نے سختی اور محبت کے ملے جلے تاثرات بیان کئے۔
اور گھر چلا گیا۔ سچ بڑا بااصول تھا وہ اگلے روز پھر آگیا۔ چلو چلیں ؟ سچ نے کہا: ضرور چلیں گے یار لیکن ابھی نہیں شام کو” جھوٹ نے پھر بہانہ داغا! ہممممممم ! ٹھیک لیکن شام کو پکا ہے ناں؟ سچ نے کچھ سوچ کر سوالیہ انداز اختیار کیا۔ ہاں ہاں پکا جھوٹ نے کہا:
سچ کو ایک ترکیب سوجھی اور وہ چلا گیا!
شام کو سچ اپنے دس دوستوں کے ساتھ آیا تاکہ جھوٹ منع نہ کر سکے!
سچ یار یہ سب کون ہیں ؟ جھوٹ نے پوچھا
بتاتا ہوں صبر رکھو۔ اس سے ملو یہ پیار ہے وہ ساتھ میں کھڑا سفید لباس پہنے امن ہے اور جو اس کی بغل میں ہے وہ دوستی ہے اس کے ساتھ جو ہے وہ سادگی ہے اور یہ لمبے قد والا سلوک ہے یہ جو سبز سا نظر آ رہا ہے یہ اتفاق ہے اور وہ جو کھڑی ہے اتفاق کے بالکل پاس وہ میری خاص سہیلی پاکیزگی ہے اور اس کے ساتھ جو کھڑی ہے وہ سنجیدگی ہے وہ جو ہے ہلکا سا کالا رنگ اوڑھے وہ خاموشی ہے اور یہ میرا نیا دوست ہے ” شعور ” سچ نے باری باری اپنے تمام دوستوں کا تعارف کروایا۔
مارے گئے کہاں پھنس گیا اب تو جانا ہی پڑے گا ۔ جھوٹ نے دل ہی دل میں کہا: او کہاں کھو گئے سچ نے اسے سوچتے دیکھ کر خیالوں سے باہر نکالا ک ک کچھ نہیں جھوٹ ہلکایا۔ تو۔ سچ کو کچھ عجیب لگا۔ اب ایسے کیا دیکھ رہے ہو جاؤ کمرے سے باہر مجھے تیار ہونا جھوٹ نے کہا: سچ اپنے دوستوں کے ساتھ باہر گیا تو جھوٹ نے فون کرکے جلدی سے اپنے دوستوں کو اپنا مسئلہ بتایا۔ تم اسے منع کردو جھگڑے نے کہا: ہاں اسے سختی سے کہہ دو کہ مجھے نہیں جانا۔ غصے نے بھی اس کی حمایت کی۔ نہیں بلکہ اسے صاف بتاؤ کہ مجھ سے چلا نہیں جاتا میں نہیں جا سکتا چالاکی نے کچھ عقلمندانہ بات کہی۔ تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے اپنے کمزوری کسی کو نہیں بتانی چاہیے تم بس اس سے کہو کہ اب تم نے جانے کی بات کی تو میں بات نہیں کروں گا ۔ خفگی نے مشورہ دیا یار چالاکی کی بات کچھ حد تک صحیح ہے۔ شور نے کہا: ارے نہیں بلکہ تم خاموشی کے پاؤں اتار کر لے جاؤ آخر میں دغا کا مشورہ جھوٹ کو مناسب لگا۔ سو اس نے ایسا ہی کیا لیکن جب وہ سیر کو گئے۔ تو جھوٹ لڑکھڑانے لگا۔ تب آدھ رستہ یہ پار کر گئے تھے۔ ارے کیا ہوا سچ نے پوچھا اور خاموشی کہاں ہے؟ سچ نے نظر دھوڑا کر ایک اور سوال کیا۔ کچھ ہی دیر میں بارش ہوگئی جھوٹ سنبھل نہ سکا اور اس کے پاؤں اتر گئے۔ یہ کیا ہے؟ اب جھوٹ رونے لگا اور ساری بات بیان کردی۔
اگر تم پہلے ہمیں صحیح بات بتا دیتے کہ تمہارے پیر نہیں ہیں تو ہم تمہیں نہ لاتے “تم سچائی سے واقف رہو اور سچائی تمہیں آزاد کرے گی” سچ نے نصیحت کی اور اسے اپنا اصول بتایا۔ لیکن نے یہ جو خاموشی کے پاؤں چرائے ہیں بہت غلط کیا ۔ اب میں تمہارے پاس نہیں رہوں گا سچ اور اس کے ساتھیوں نے واپسی کی راہ لی اور جھوٹ کو وہیں چھوڑ دیا۔ اب سچ نے خاموشی کو اس کے پاؤں واپس کئے اور واپس اپنے گاؤں چلے گئے۔ کچھ ہی دیر میں جھوٹ بمشکل واپس آیا اور خود کو تنہا پاکر رونے لگ گیا۔
مجید امجد کی شعری کائنات
مجید امجد کی شاعری کے متعلق کچھ آرا اکثر سننے کو ملتی ہیں جیسا کہ مجید امجد کے ہاں سائنسی...