(Last Updated On: )
کُرہ عرض میں بسنے والے اربوں انسان جس میں ہزاروں مذاہب موجود ہیں جو مافوق الفطرت مخلوق جنہیں جنات کہہ سکتے ہیں کی مذہبی کتابوں اور تاریخی روایات میں کسی طور بہرکیف موجود ہے یہ جنات نوری ہوتے ہی لہٰذا کسی انسانی چشم سے دیکھنا بھی قصّہ کہانیوں تک محدود ہیں تاہم اس بات میں اتفاق موجود ہے کہ ان جنات میں بھی نیک و بد صفات موجود ہوتی ہیں گمان کیا جاتا ہے کہ شیطانی صفات کے حامل جنات انسانوں کو تنگ کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں جو مختلف طریقے اپنا کر اپنا وجود ظاہر کرنے کی کوشش کر کے خاک کے بنے انسان کو ڈرانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں جن کی کہانیاں اور کارنامے ہم نے ضرور پڑھیں اور مختلف ڈراموں اور فلموں میں دیکھی بھی ہوں گی۔ جیسا کہ گوشوار کیا جاچکا ہے کہ جنات یا آسیب کو انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا مگر یہ جنات اکیسویں صدی جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہو کر اس کے مخصوص قبائل براعظم ایشیاء میں بنے ملک کے ایک ساحل سمندر کے قریب بنے شہر میں آباد ہوگئے چونکہ یہ جنات کے قبائل ماڈرن ہو کر بے خوف بھی ہو چکے ہیں لہٰذا ان کے لئے دن و رات کی تاریکی بھی کوئی معنی نہیں رکھتی یہ جنات کے قبائل شہر کے کونے کونے میں آباد ہوگئے بہت سے جنات کے قبائل نے آپ میں شادیاں بھی کر لیں جس سے ان کے خاندانی تعلقات مذید مربوط و مستحکم ہوگئے ان جنات کے قبائل اگرچہ مختلف شعبوں میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور اپنے اپنے قبیلے جن میں مشہور قبیلے۔ ٹارگیٹ کلرز قبیلہ، ڈکیت قبیلہ، اسٹریٹ کرائم قبیلہ ، کار ، موٹر سائیکل چھیننے اور چوری کرنے والا قبیلہ۔ موبائل فون لوٹنے والا قبیلہ کے نام سے مشہور ہیں جیسا کہ اکثر اوقات سننے میں بھی آتا کہ کسی ہے کہ فلاں پر جنّ حاوی ہوگیا یا کسی خوبصورت لڑکی یا لڑکے عاشق ہوگیا جس کے باعث اس کی حرکات و سکنات غیر معمولی طور غیر فطری ہوچکی ہے تاہم جدید دور کے جناتوں کے اندر اس قسم کے چھچورے پن سے خود کو دور رکھ کر اپنے خاندان یا قبیلہ کو کسی مولوی کی سوٹی یا گندے جرابوں کو سونگھنے سے دور رکھا یہ ماڈرن دُور کے جنات صرف اِسی کے پیچھے لگتے ہیں جو کسی بینک یا اے ٹی ایم سے کیش نکلوا کر آرہا ہو یا کوئی لڑکی یونیورسٹی یا کالج سے اکیلی آرہی ہو ان کا آسان ہدف ہوتا ہے وہ بس ان ہی کے پیچھے لگتے ہیں اور جب تک لگے رہتے ہیں جب تک کوئی سنسان و محفوظ مقام نا مل جائے بس صرف کیش اور موبائل لوٹ کر جان چھوڑ دیتے ہیں۔ اسی جنات کے ایک قبیلہ سے جب سوال کیا گیا کہ تم کو شرم نہیں آتی کے خواتین اور لڑکیوں سے موبائل چھین لیتے ہو تو انتہائی ڈھٹائی سے جواب دیا کہ خواتین اور لڑکیوں سے موبائل فون چھینے کے دو مقاصد ہوتے ہیں اؤل یہ کہ وہ انتہائی سلیقے سے فون کو رکھتی ہیں نازک سا پنک کور چڑھا ہوتا ہے ذرا سی بھی خراش نہیں ہوتی دوم ان کے پاس لیٹس اور اچھے فون ہوتے ہیں کون سا انہوں نے اپنے پیسے کا خریدا ہوتا ہے ان سے موبائل چھینے میں ذرا بھی دقت نہیں ہوتی اس تحفہ کو ہم بھی اپنا حق سمجھ کر رکھ لیتے ہیں اور ذرا بھی تکلیف نہیں پہنچاتے
بہرحال جناتوں کے یہ قبائل اتنے ایڈوانس ہوچکے ہیں کہ سی سی ٹی وی کیمرے کی آنکھ میں بھی نظر آجاتے ہیں۔ چونکہ ابتداء میں ہی وضاحت کر دی گئی تھی کہ جناتوں کے ایڈوانس قبائل ہیں جو صرف کیمرے کی آنکھ میں صرف نظر آتے ہیں اسی لئے پلک جھپکتے ہی غائب بھی ہو جاتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں زمین نگل جاتی ہے یا آسمان کھا لیتی ہے۔ کیمرے کی بے نور آنکھوں میں قید ہونے چہرے واضع ہونے کے باجود ان کی تلاش قانون کرنے والے اداروں کے لئے ایسا ہے جیسا بھوسے کے ڈھیر سے سوئی تلاش میں لگا دیا جائے اسی باعث جنات کے مختلف قبائل اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے میں غافل نہیں رہتے