جس دیش میں گنگا بہتی ہے۔۔۔۔9
جل بن محل اور آمر کا قلعہ
مسلم ہوٹل کا قورمہ اور نان کھا کر ہم نشئہ ایمانی سے سرشار جھومتے تھے کہ ہوٹل کے ملازم نے اطلاع دی کہ راج اور کمار باہر انتظار کررہے ہیں۔
” جرا جلدی نکل لیں ۔ دور کا رستہ ہے۔ شام ہوگئی تو مجا نہیں آوے گا۔ ”
” اب کہاں جائیں گے۔ ”
” آمیر کا کلا”
” یار امیر کا قلعہ ہو یا غریب کا، تھوڑی دیر بعد ہم چائے پی کر نہ نکلیں؟” سب ہی دوپہر کے کھانے کے بعد غنودگی کے عالم میں تھے۔
” ہم آپ کو رستے میں چاء پلو آئیں گے، بڑی مجے دار” ۔
بادل نہ خواستہ ہم سب پھر رکشوں میں سوار ہورہے تھے۔ خواتین کا بالکل موڈ نہیں تھا۔ صبح سٹی پیلس اور ہوا محل دیکھ لئے تھے۔ آج کے لئے اتنی سیر کافی تھی۔ اور یہ کہ شہر سے باہر ” خریدی” کا امکان نہیں تھا۔
مجھے پھر راج کے برابر والی اعزازی نشست ملی۔ گھر والے چاہتے تھے کہ میں ان کے ساتھ بیٹھوں اور گپ شپ لڑاتا چلوں۔ مجھے دراصل راج کی باتوں میں مزا آتا تھا۔ وہ رکشہ ڈرائیور نہ ہوتا تو بطور گائیڈ بھی روزگار کما سکتا تھا۔
ہم شہر سے باہر کی طرف جارہے تھے۔ راج مجھے آس پاس کے بارے میں بتاتا جارہا تھا۔ وہ سامنے ٹیلے پر لکشمی نارائن مندر ہے، وہ ہنومان جی کا مندر ہے، وہ کالے ہنومان جی کا مندر ہے۔
” کیا ہنومان جی کا کوئی بھائی افریقہ کا تھا”
” نہیں جی۔ وہ بھی ہنومان جی کا ہی ہے۔ پتہ نہیں کیوں کالی مٹی سے بنایا ہے. ہنومان جی تو ایکئی تھے”
” اور وہ سامنے والی زمین پر برلا جی مندر بنوانے والے ہیں۔”
” برلا جی کون ؟”
” برلاجی کو نہیں جانتے۔ انڈیا میں ان سے بڑا دھنوان کوئی نہیں ”
” اوہ وہ، ٹاٹا، برلا والے”
” ہاں جی ، برلا جی یہیں کے ہیں، مارواڑ کے” ۔
” وہ ٹیکری پر لکشمی نارائن مندر ہے، وہ شیو مندر ہے وہ، وہ ”
” ہم اجمیر سریپھ بھی جاتے ہیں ” مجھے غیر متوجہ پاکر اس نے موضوع بدلا، شاید میری دلجوئی کے لئے۔
” کھاجہ بابا (خواجہ بابا، حضرت خواجہ معین الدین چشتی) کی مہربانی سے مھارے جے پور میں کبھی ہندو مسلم جھگڑا نہیں ہوتا۔” مجھے شکور صاحب کے بیٹے احمد کی بات یاد آئی۔
راج نے بھی یہاں امن و سکون کا کریڈٹ خواجہ غریب نواز کو ہی دیا تھا۔ اور بات غلط بھی نہ تھی۔ اپنے حضرت جگر ہی تو کہہ گئے ہیں
جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ
خواجہ اجمیری، نظام الدین اولیاء ، حضرت علی ہجویری اور بابا فرید جیسی ہستیوں کا ہی فیض تھا اور مخلوق خدا سے ان کی محبت تھی کہ ہند میں اسلام کا نور پھیلا، ورنہ مغل ، تغلق، خلجی وغیرہ تو صرف شادیاں کرکے ہی اسلام پھیلا سکتے تھے۔
ایک بے حد وسیع میدان نما احاطے کے درمیان ایک محل نما عمارت کے سامنے رکشہ رک گئے۔
” یہ جل محل ہے، یہاں جھیل ہوتی ہے، یہ پانی سوکھ گیا ہے، یا شاید سرکار نے روک دیا ہے، سرکار یہاں شاید ہوٹل بنائے گی۔ ‘
واقعی اگر یہاں پانی ہوتا تو شاید یہ ایک خوبصورت ترین منظر ہوتا۔ اور یقیناً یہاں پانی تھا، زمین گارے کی مانند نظر آرہی تھی جیسے چکنی مٹی کے ٹکڑے، ندی یا دریا سے پانی اتر آنے کے بعد خشک ہوکر نظر آتے ہیں۔ یہ شاید یہاں کے بہترین مناظر میں سے تھا لیکن اس وقت ویران نظر آتا تھا۔ محل پر بھی مدت سے کوئی رنگ وروغن نہیں ہوا تھا اور دیواریوں کا رنگ مٹیالا نظر آتا تھا۔
“یہاں مہاراجہ لوگ شکار کھیلا کرتے تھے۔” کمار نے بتایا۔
مہاراجہ لوگ کہاں شکار نہیں کھیلتے، میں نے سوچا۔
چند ایک تصویریں بناکر ہم آگے چل دئے۔
کچھ دیر بعد ہم ایک چھوٹی سی نرسری کے پاس رکے۔ مرکزی دروازے کے سامنے ہی ایک زرد رنگ کی مسجد کے گنبد یا مینار جیسی گول سی چیز زمین پر رکھی ہوئی تھی۔
” یہ پینتیس کلو کا ہے”
” اوہو، یہ توکدو ہے”
یہ بیس کلو کی لوکی ہے، یہ بیگن دیکھیں، اس مولی کا سائز دیکھیں۔
یہ راجھستان کے محکمہ زراعت کی کوئی نرسری یا گارڈن تھا جہاں مختلف سبزیوں پر تجربے کئے جاتے تھے۔ بڑی عجیب وغریب سبزیاں اورپھل تھے۔
” انہیں کون خریدتا ہے؟”
” یہ بکنے کے لئے نہیں ہوتیں، انہیں نمائش میں رکھا جاتا ہے’ اس باغ کے ایک اہلکار نے بتایا۔
نرسری کے برابر ہی ایک ڈھابہ نما چائے خانہ تھا۔ راج نے ہم سب کے لئے چائے کا آرڈر دیا۔
ننگے پر، نیکر اور بش شرٹ جس کے صرف دو یا تین بٹن لگے ہوئے تھے، پہنے ہوئے ایک دس بارہ سالہ لڑکا دو ہاتھوں میں آٹھ گلاس لئے نمودار ہوا، اسکی دونوں ہاتھوں کی انگلیاں گرما گرم چائے میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ اس نے چائے ہمارے سامنے دھری تپائیوں پر دھر دی۔ مجھے کراہیت سی محسوس ہوئی لیکن میرے ساتھ والوں نے بے فکری سے گلاس ہونٹوں سے لگا کر سڑکیاں لینا شروع کردیں۔ میں نے بھی اندازے سے گلاس کا وہ حصہ منہ سے لگایا جسے میرے خیال میں، انگلیوں نے نہیں چھوا تھا۔
پہلا گھونٹ لیتے ہی میں ان انگلیوں کو بھول گیا۔ چائے واقعی مزے کی تھی یا شاید اس وقت زیادہ مزا دے رہی تھی۔ لڑکا گلاس سمیٹنے آیا تو آزاد نے جیب میں ہاتھ ڈالا ہی تھا کہ راج نے لڑکے کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔
” یہ چاء مھاری اور سے ہے”
” نہیں نہیں، یہ کیسے ہوسکتا ہے، ” باجی، فوزان، سسٹر سب ایک ساتھ بول رہے تھے۔ خالو ابا نے اشارے سے سب کو منع کیا پھر کوکنی میں بولے کہ اسے منع مت کرو، بعد میں چاہے تو اسے زیادہ پیسے دے دینا، اسے برا لگے گا کہ ہم نے اس کی دعوت قبول نہیں کی۔
کچھ ہی دیر بعد ہمارے رکشے ایک پہاڑی سلسلے کے سامنے رک رہے تھے جس پر بنے قلعے کی فصیل، اپنے کوٹ دیجی یا عمر کوٹ کے قلعوں کی یاد دلاتی تھی۔ لیکن یہ صرف فصیل کی حد تک تھا۔
آمر، آمیر کا قلعہ یا Amber Fort
کے عظیم الشان مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوئے تو وسیع وعریض صحن کے دوسری طرف ایک اور محلسرا نظر آتی تھی۔ طویل راہداریاں، دروازے، محرابیں ، روشیں، یہ بڑے بڑے کمرے، صحن ، دالان ، برآمدے، جھروکے، کھڑکیاں۔، سائبان، بارہ دریاں، سیڑھیاں، تہہ خانے، سرخ اور سفید پتھر سا بنا یہ محل اور قلعہ ایک بھول بھلیاں تھے۔ خالو ابا کا حکم تھا کہ بچوں کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑے جائیں اور کوئی ادھر ادھر نہ ہو۔ یہاں کوئی بچھڑ گیا تو اس لق ودق قلعے میں ڈھونڈنا مصیبت ہوگا۔
ایک سیڑھی چڑھ کر میں اوپر ایک کمرہ میں پہنچا جہاں باہر کی جانب کھڑکیا ں کھلتی تھیں۔ واہ کیا منظر تھا، سامنے چاروں طرف سبزے سے گھری ایک جھیل تھی۔ میں نے جھروکوں سے لٹک کر دائیں بائیں مناظر کی تصویریں لیں، مجھے ہوش ہی نہیں تھا کہ میں اکیلا رہ گیا ہوں دوسرے نہ جانے کہاں تھے۔
یہ دیوان عام ہے، جہاں مہاراجے عام لوگوں سے ملتے تھے، یہ دیوان خانہ ہے، جہاں راج پریوار کی ہی رسائی تھی، یہ جے مندر ہے، یہ شیش محل ہے، سر اٹھا کر دیکھو تو چھت پر بھی آپ کی شکل نظر آئے گی کہ دائیں بائیں اوپر نیچے ہر طرف شیشے کی پچی کاری کی گئی ہے۔
یہ ” سکھ نواس” ہے، یہاں روشندانوں سے چھن چھن کر ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں،
مجھے کمار مل گیا تھا اور اب وہ راج کے فرائض انجام دے رہا تھا۔
” مھارے راجہ مان سنگھ رہتے تھے یہاں۔ بنگال کے راجہ کو شکست دی تھی۔ “کمار نے بتایا اور میں سوچتا رہا کہ کہ مان سنگھ راجھستان سے اتنی دور بنگال کیا کرنے گئے تھے۔
بتایا جاتا ہے کہ اوسطا” پانچ ہزار سیاح روزانہ یہاں آتے ہیں۔
اور یہاں کے مستقل باسیوں کا ذکر تو رہ ہی گیا۔
ہم باہر جانے والوں روشوں پر ٹہلتے آتے تھے، سسٹر کی بیٹی فرناز ہاتھ میں ” دال سیو” کی پڑیا لئے، مزے سے منہ چلاتی چلی جارہی تھی کہ ایک بندر اس کے ہاتھ سے بجلی کی طرح پڑیا چھین کر دیکھتے ہے دیکھتے درخت کی پھننگ پر پہنچ گیا،
خواتین کی چال اب تیز ہوگئی تھی۔ وہ جلد از جلد ہنومان جی کے پریوار سے دور ہونا چاہتی تھیں۔
میں کمار سے بات کرتا آرہا تھا۔ ایک روش کے کنارے دیوار پر ایک بڑا صحتمند اور جسیم بندر بڑی سنجیدگی سے بیٹھا، آتے جاتے لوگو ان کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے اپنا ” پاکٹ کیمرہ” کمار کے حوالے کیا، اسے سمجھایا کہ تصویر کیسے لینی ہی اور دیوار کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا۔
کمار کیمرے کو سیدھا کر ہی رہا تھا کہ میرے سرپر گویا زلزلہ سا آگیا۔ ہنومان جی نے مجھ پر چھلانگ لگائی تھی۔ بے اختیاری طور پر میں نے اپنی عینک پر ہاتھ ڈالا، شکر ہے کہ وہ بندر کے ہاتھ سے محفوظ رہی۔
اور یہ بھی غنیمت تھا کہ اس نے کمار پر چھلانگ نہیں لگائی ورنہ کیمرے کے بغیر میری ہند یاترا پھیکی پڑجاتی۔
(باقی باقی )
https://www.facebook.com/shakoor.pathan.94/posts/644691019051762