اپنی نوٹ بک کھول کر اگر اس کے کاغذ پر ہاتھ پھیریں تو اس کی سطح چپٹی اور ملائم لگتی ہے لیکن یہ ایک سراب ہے۔ یہ چھوٹے باریک ریشوں کا ڈھیر ہے، ویسے جیسے بھوسے کا ڈھیر ہوتا ہے۔ ہم ہاتھ پھیرنے سے اس کے پیچیدہ سٹرکچر کو محسوس نہیں کر سکتے کیونکہ مائیکروسکوپ لیول پر اس کی انجنیرنگ ہماری چھونے کی حس کی بساط سے باہر ہے۔ جس طرح خلا سے زمین کو دیکھا جائے تو ایک گیند نظر آتی ہے اور اس کے پہاڑ، وادیاں اور دوسرے فیچر محسوس نہیں ہوتے، ویسے ہی اس صفحے کو ہم چپٹا اور ملائم گمان کرتے ہیں۔
اس صفحے نے اپنی زندگی درخت سے شروع کی تھی۔ درخت کی مضبوطی اس کے مائیکروسکوپ ریشے سیلولوز سے آتی ہے۔ یہ ریشے ایک نامیاتی گوند سے بندھا ہوتا ہے جو لگنن ہے۔ یہ بہت سخت اور مضبوط سٹرکچر ہے جو صدیوں تک رہ سکتا ہے۔ سیلولوز کے ریشوں کو لگنن سے الگ کرنا آسان نہیں۔ یہ اس طرح ہے جیسے بالوں سے چیونگ گم نکالنا۔ لکڑی سے لگنن کو نکالنے کے عمل کو ڈی لگنی فیکیشن کہا جاتا ہے۔ اس میں لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کئے جاتے ہیں۔ ان کو بہت زیادہ درجہ حرارت اور پریشر پر ایک کیمیائی کاک ٹیل کے ساتھ ابالا جاتا ہے۔ یہ لگنن کے جوڑ کو توڑ کر سیلولوز کے ریشے الگ کر دیتی ہے۔ ایک بار یہ ہو جائے تو ریشوں کا بچنے والا گچھا لکڑی کا گودا کہلاتا ہے۔ یہ مائع لکڑی ہے۔ مائیکروسکوپک سطح پر ویسے، جیسے زیادہ پانی والے نوڈل۔ ان کو ایک چپٹی سطح پر رکھ کر سکھا لیا جاتا ہے اور کاغذ تیار ہو گیا۔
کاغذ کی بنیادی قسم خام اور بھورے رنگ کی ہے۔ اس کو سفید اور چمکدار کرنے کیلئے کیمیکل بلیچ استعمال کی جاتی ہے اور باریک سفید پاوٗڈر جیسا کہ کیلشم کاربونیٹ جو کہ چاک کی دھول ہے۔ اس کے اوپر کوٹنگ کی جاتی ہے تا کہ سیاہی اس سیلولوز کے جال میں زیادہ دور تک نہ پھیلے ورنہ صفحے پر بکھر جائے گی۔ آئیڈیل کاغذ میں سیاہی سطح میں بس معمولی سی مقدار میں جانی چاہیے اور جاتے ساتھ ہی خشک ہو جانی چاہیے۔ یہ سیاہی اپنے مالیکول صفحے پر چھوڑ کر رنگ پیدا کر جائے گی جو سیلولوز پکڑ کر بٹھا لے گا اور یہ ایک مستقل نشان ڈال دیں گے۔
اس کاغذ کی اہمیت کو وقعت نہ دینا آسان ہے۔ یہ دو ہزار سال پرانی ٹیکنالوجی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی خوبصورتی ہماری آنکھوں سے اوجھل رہتی ہے۔ اس کے مائیکروسکوپک سطح پر کمال دیکھنے کے بجائے ہم ایک کورا کاغذ دیکھتے ہیں۔ جس پر اپنی مرضی سے سیاہی کے مالیکیول چھوڑ کر کچھ بھی ریکارڈ کیا جا سکتا ہے۔
کاغذ زندگی کا اس قدر عام حصہ ہے کہ ہم اکثر بھول جاتے ہیں کہ یہ تاریخ میں ایک بہت نایاب اور مہنگی چیز رہا تھا۔ چین میں جنم لینے والی یہ ٹیکنالوجی اسلامی دنیا میں پہلی مرتبہ عباسی دور میں ہونے والے معرکہ نھر الطلاس میں چینی افواج کو شکست دینے کے بعد 751 میں آئی اور ثمرقند میں کاغذ کی مل لگی۔ برِصغیر میں عرب تاجروں کے ذریعے گیارہویں صدی میں پہنچی۔ اگلی چار سے پانچ صدیوں میں آہستہ آستہ اس برِصغیر میں درخت کی چھال، ہرن کی کھال اور کھجور کے پتوں کا استعمال ختم کروا دیا۔ یورپ میں اندلس سے اس کا داخلہ بارہویں صدی میں ہوا۔ برطانیہ میں پہلی کمرشل کاغذ کی مِل 1588 میں لگی۔ امریکاز میں اس کو یورپی لے کر گئے۔ شمالی امریکہ میں لگنی والی پہلی کاغذ کی مِل 1690 میں فلاڈیلفیا میں لگی۔ انیسویں صدی کے صنعتی انقلاب میں کیلر اور فنرٹی نے 1844 میں اس کو بنانے کا سستا طریقہ ڈھونڈا اور اگلی کچھ دہائیوں میں سستے کاغذ نے اخبار، سکول کی کتابیں، فکشن اور نان فکشن کتابوں کو عوام تک پہنچایا۔ ذاتی ڈائری اور خط ممکن ہوئے۔ اس کے بعد کلرک یا کاتب اونچے سٹیٹس والے کام نہیں رہے۔
دیوار پر لگے وال پیپر، کچن میں نیپکین، دیوار پر لگے پوسٹر، دودھ کا ڈبہ، چائے کے ٹی بیگ، کافی کے فلٹر، صبح کا اخبار، میگیزین، بس کا ٹکٹ، خریداری کی رسید، لفافے، پوسٹ کارڈ، ریپنگ پیپر، فوٹوگراف، ٹشو پیپر، کرنسی نوٹ۔۔۔۔ یہ سب کاغذ کے مختلف قسم کے روپ ہیں۔