شمس الرحمن فاروقی کا ناول ‘‘کئی چاند تھے سر آسمان ’’ ۲۰۰۶ میں منظر عام پر آیا اس ناول کا عنوان احمد مشتاق کے شعر سے لیا گیا ہےجو کچھ اس طرح سے ہے :
‘‘کئی چاند تھے سرِ آسمان کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو میرے ہی جگر میں تھا نہ تمہاری زلف سیاہ تھی
کئی چاند تھے سرِ آسمان ’’ میں مغلیہ دور کی دم توڑتی روایات اور زوال پذیر معاشرے کو بیان کیا گیا ہے ۔ مغلیہ دور کے آخری زمانے کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ پورا ایک عہد نظروں کے سامنے موجود رہتا ہے ۔ انگریزوں کی ہندوستان میں آمد کے بعد مغلیہ تہذیب کی شکست اور مقامی آبادی پر انگریزوں کے اثرات کا تفصیل سے احاطہ کیا گیا ہے ۔ ناول میں بہادر شاہ ظفر کی نام نہاد حکومت اور انگریزوں کے اختیارات کی حقیقت ایک منادی کے ذریعے آتی ہے :
‘‘خلقت خدا کی ، ملک بادشاہ کا ،حکم کمپنی بہادر کا’(1)
مغلیہ حکومت اس قدر شکست و ریخت کا شکار تھی کہ بادشاہ ِ وقت کو انگریز حکومت سے بطور احساس ایک لاکھ کا وظیفہ دیا جاتا تھا اور بادشاہ سلامت اپنی نام نہاد سلطنت کی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے قرض لینے پر مجبور ہو جاتے تھے ۔ ناول نگار نے دلچسپ انداز میں بتایا کہ کس طرح قلعہ معلیٰ میں بادشاہ کے سامنے وفاداری کا دم بھرنے والے انگریز سرکار کی چاپلوسی کرتے تھے۔ ‘‘کئی چاند تھے سر آسمان ’’میں کئی نفسیاتی عوامل دکھائی دیتے ہیں بنیادی طور پر ناول ادب کی وہ قسم ہے جسے عملی نفسیات Applied Psychology بھی کہا جاتا ہے ۔Applied Psychology سے مراد :
“Applied psychology is the use of psychological methods and findings of scientific Psychology to solve practical problems of human ……behavior and experiences”(2)
ناول نگار نے مختلف کرداروں کے رویوں اور انداز سے نفسیاتی الجھنوں کا تجزیہ کیا ہے ناول میں بہت سے کردار نفسیاتی اتار چڑھاؤ کا شکار ہیں ۔
ناول کا مرکزی کردار وزیر بیگم ہے جو چھوٹی بیگم کے نام سے مشہور ہوتی ہیں۔ پورا ناول وزیر بیگم کے کردار کے گرد گھومتا ہے اور وزیر بیگم کی موجودگی ہی ناول کو رومانوی رنگ بخشتی ہے۔ مصنف نے ناول کاآغاز وزیر خانم کے تعارف سے کیا ہے۔ وزیر خانم کی عادات بچپن ہی سے اپنی ہم جولیوں اور بہنوں سے جدا ہوتی ہیں۔ وہ زندگی کے ہر معاملے میں اپنی مرضی کے مطابق چلنا پسند کرتی ہے ۔ حسن و ذہانت میں اپنی مثال آپ مگر ضد، ہٹ دھرمی اور احساس برتری اس قدر کہ عورت ہو کر مردوں پر راج کرنے کا سوچتی ہے۔ وزیر بیگم کا کردار نفسیاتی حوالے سے بہت اہم ہے وہ اپنے باغیانہ خیالات کی وجہ سے والدین کی اطاعت سے بھی انکاری ہوتی ہے۔ بچپن سے لڑکپن تک سامنے آنے والے واقعات وزیر خانم کے والد محمدیوسف ساد کار کے لیے باعث تشویش ہوتے ہیں۔ وہ اپنی فکر کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں :
‘‘میں منجھلی کو کیا روؤں ، چھوٹی نے اور پر پُرزے جھاڑے ۔ بچپن ہی سے اس کے مزاج میں ، سبھاؤ میں ایسا ڈومن پن نکلتا تھا کہ میں اسے دیکھ دیکھ ڈرتا تھا کہ بڑی ہو کر کیا غضب ڈھائے گی ۔ ماں کی تنبیہہ بڑی بہن کی مثال اور محبت سب ایک طرف اور نانی کی لاڈو کے لچھن ایک طرف ، دس برس کے سن پیچھے اس کا زیادہ وقت نانی کے عشرت کدے میں گزر تا۔ وہاں اس نے تھوڑا بہت گانا بجانا ضرور حاصل کیا ورنہ وہاں اس کی اصل تعلیم ان امور میں ہوئی جن کو سیکھ سمجھ کر عورت ذات مردوں پر راج کرتی ہے ۔’’(3)
دراصل انگریزوں اور مرہٹوں کی جنگ و جدل سے جب وزیر خانم کا والد جان بچاتا ہے تو اکبری بائی اس کی مدد کرتی ہے اور اپنی بیٹی سے محمد یوسف کا نکاح کر دیتی ہے ۔ یہاں محمد یوسف کی تین بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں سب سے چھوٹی وزیر خانم زیادہ تر اپنی نانی اکبری بائی کی محبت میں وقت گزارتی ہے اور ان اسرا ر و رموز کو سمجھ جاتی ہے کہ کس طرح مرد پر راج کرنا ہے ۔ ناول نگار وزیر خانم کی شخصیت کا تجزیہ اس طرح پیش کرتے ہیں :
‘‘سات ہی آٹھ برس کی تھی جب اسے اپنے حسن اور اس سے بڑھ کر اس حسن کی قوت اور اس قوت کو برتنے کے لیے اپنی بے نظیر اہلیت کا احساس ہو گیا تھا ۔ نوکر چاکر ، بازاری پھیری والے ، بہشتی ،سقے، پھول والے گاڑی بان ، بیوپار حتیٰ کہ ماں باپ تک وہ انگلیوں پر نچاتی تھی۔ جس سے جو چاہا لے لیا جس سے جو کہا منوا لیا۔ روٹھتی تھی تو اس طرح کہ دیکھنے والوں کے کلیجے ٹکڑے ہوتے تھے کہ ہائے اس پھول سی نازک جان پر کس نے ستم کئے منتی تھی تو یوں کھلکھلاتی تھی گویا بلبل شاخسار شیراز میں برگ گل درمنقارزمزمہ کناں ہے۔ کپڑے جو پہنا دیجئے اس پر یوں پھبتے تھے گویا خیاط ازل نے ساری قبائیں اس کے لئے منقطع کی تھیں۔’’(4)
یہ وزیر خانم کی شخصیت اور آگے چل کر پیش آنے والے نفسیاتی مسائل کے حوالے سے بہترین رائے ہے۔ عورت ہونے اور خوبصورت ہونے کا احساس وزیر خانم کو بچپن ہی سے تھا مگر یہ احساس مردوں پر اجارہ داری کی عکاسی کرتا ہے جیسے:
‘‘وزیر بیگم کو اپنی خوبصورتی کا احساس تھا مگر وہ زندگی کے متعلق واضح نقطہ نظر رکھنے کی وجہ سے اپنی اس خوبی کو مناسب موقع اور شخص کے لئے محفوظ رکھتی تھی۔’’(5)
وزیر بیگم بچپن ہی سے اپنی مرضی کے مطابق زندگی گذارنے کی پابند تھی۔ دوسرے الفاظ میں بچپن ہی سے ملنے والی پذیرائی نے اسے ہٹ دھرم اور ضدی بنا دیا تھا۔ وہ کسی بھی قسم کی پابندی ماننے پر تیار نہیں تھی۔ نفسیاتی اعتبار سے وزیر بیگم صفراوی مزاج (Choleric) سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس طرح کے مزاج کے حامل لوگ تندوتیز ، ضدی ،غصے کے تیز، من موجی اور ہٹ دھرم ہوتے ہیں۔ وزیر بیگم کے مزاج کا اندازہ چند جملوں سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب اس کی بڑی بہن اسے شادی کے لئے آمادہ کرتی ہے اور وہ غصے میں جواب دیتی ہے:
‘‘سنئے میں شادی وادی نہیں کروں گی وزیر خانم نے مربیانہ لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔۔ کیوں؟ کیوں نہیں کرے گی شادی؟ اور نہ کرے گی شادی تو کیا کرے گی؟ لڑکیاں اس لئے تو ہوتی ہیں کہ شادی بیاہ ہو گھر بسے۔۔۔۔۔۔۔۔ بچے پیدا کریں ۔۔۔۔۔۔ ، چولہے چکی میں جل پس کر وقت سے پہلے بوڑھی ہو جائیں۔ وزیر خانم نے مضحکہ اڑانے کے انداز میں کہا۔۔۔۔۔۔ بس بھی کرو یہ شریف رزالوں کی باتیں۔اور نہیں تو کیا کوٹھے آباد کریں لڑکیاں، دین و دنیا دونوں خراب کریں؟ اماں باوا کے نام کلنک لگائیں۔’’(6)
وزیر خانم اور اس کی بہن کی گفتگو سے دونوں کے مزاج اور نفسیات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دونوں بہنیں الگ الگ نفسیات کی عکاسی کرتی ہیں۔ بڑی بہن مذہب اور روایات کی پابندی کے ساتھ معاشرے کا خوف بھی رکھتی ہے۔ زندگی کے معاملات میں حلال، حرام، نیک ،بد کا شعور رکھتی ہے۔ مگر دوسری طرف وزیر خانم بے باک، ہٹ دھرم اور ضدی کردار ہے ۔وزیر خانم کی نظر میں سب سے اعلیٰ ذات اس کی اپنی ہے۔وزیر بیگم کے باغیانہ خیالات ہندوستانی ماحول میں عورت کی حیثیت کو بھی واضح کرتے ہیں۔ وزیر بیگم خود کلامی کے عارضے میں بھی مبتلا ہیں۔ وہ اکثر مرد کی اجارہ داری کے متعلق مکالمے یا خود کلامی کے انداز میں اپنے غم و غصے کا اظہار کرتی ہیں۔ ان کے مطابق مرد جو کچھ بھی کریں معاشرے کو کچھ فرق نہیں پڑتاوہ اللہ سے اس ناانصافی کا شکوہ اس طرح کرتی ہے:
‘‘مردوں کو کوئی کچھ نہیں کہتا ۔۔۔۔۔چاہے وہ جوبھی کام کریں، ہم عورتیں ذرا سا اونچی آواز میں بات بھی کرلیں تو۔۔۔۔۔۔ یہ کیسا رواج ہے۔’’(7)
وزیر خانم کے لئے سماجی اقدار اور قانون قابل قبول اور قابل عمل نہیں تھے وہ اس نظریے کا پرچار کرتی تھیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے مرد عورت کو برابر پیدا کیا ہے اور دونوں ایک ہی فطرت کے تابع ہیں تو پھر مرد کیوں مظلوم عورت کو پاؤں تلے روندتا ہے اور مردوں کی طرح عورتوں کو پسند کی شادی کرنے اور مرضی سے محبت کرنے کا اختیار کیوں نہیں دیا جاتا۔ وزیر بیگم یہاں ایسے کردار کے روپ میں دکھائی دیتی ہیں۔ جوعورتوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کی جرأت رکھتا ہو ۔ فیروز عالم لکھتے ہیں:
‘‘وزیر بیگم کو تانیثی یا Feminist تیوروں کا حامل اور اردو فکشن کا۔۔۔ تانیثی کردار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔’’(8)
ناول میں وزیر بیگم عورتوں کے حقوق کے لئے مختلف تو جیہات پیش کرتی ہیں اور عورت کو مرد کے برابر حقوق دلانے کے لئے بضد ہیں۔ وہ عورت کو مرد کے سامنے فرمانبردار برداشت نہیں کر سکتیں۔
وزیر بیگم کی شخصیت ناول میں دورخی سطح پر دکھائی دیتی ہے کیوں وہ ایک طرف ایسی زندگی کی خواہش مند ہے۔ جہاں عیش و عشرت کا سامان اور ان کی مرضی کا عمل دخل ہو۔ مگر دوسری طرف یہ سوچ کر شادی ایک فضول بندھن ہے اور شادی کے بعد ساس سسر شوہر کی تابعداری کرنی پڑتی ہے ان کے متضاد رویے کو سامنے لاتی ہے۔ سید مظہر جمیل لکھتے ہیں:
‘‘وزیر بیگم کے کردار میں یک گونہ تضاد بھی ابھارا گیا ہے۔ ایک طرف عیش و طرب ، آسائش و راحت کوشی کی خواہش اس کے خمیر میں شامل ہے، جو اسے خوب سے خوب تر کے لئے کوشاں رکھتی ہے۔ دوسری طرف وہ شادی بیاہ کے بندھن کو ایک فضول رسم سمجھتی ہیںاور مرد سے تعلقات استوار کرنے میں اپنی پسند و ناپسند کو آخری معیار ٹھہراتی ہیں۔’’(9)
اس طرح وزیر بیگم مذہب اور اقدار کی نفی کر کے معاشرتی تحفظات کی طرفداری کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس طرح کے افراد میں وفاداری ، قربانی اور توکل کے جذبات بہت کم پائے جاتے ہیں۔
ناول میں انگریزوں کی نفسیات کا احاطہ کیا گیا ہے کہ انہوں نے کس طرح عیاری اور مکاری سے کام لے کر مسلمانوں کے اختیار محدود کئے ۔ دوسری طرف ہندوستانی انگریزوں کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ان سے کس قدر نفرت کرتے تھے۔ وزیر خانم مارسٹن بلیک کے ساتھ چار سال گذار کر بھی انگریزوں سے کراہت محسوس کرتی ہے۔ کیوں کہ وہ اس حقیقت کو جان لیتی ہے کہ انگریز مسلمانوں کو حقیر اور کمتر سمجھتے ہیں اور خاص طور پر مسلمانوں کی زبان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس لئے جب کوئی ہندوستانی انگریزوں کے خلاف آواز اٹھاتا تھا یا ان کو نقصان پہنچاتا تھا تو وزیر خانم کو خوشی ملتی تھی ۔ اس حوالے سے وزیر خانم کی حب الوطنی قابل تعریف ہے ۔ ان کی زندگی کے اس مثبت پہلو اور انگریزوں سے نفرت کی مثال ملاحظہ ہو:
‘‘ہم اہل ہند تم فرنگیوں کو غاصب اور خائن اور غیر تصور کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے لوگوں کو تمہارے یہاں چوری کرنے میں عار نہیں آتی۔ دوسری بات یہ کہ تم لوگ ہمارے لوگوں کا احترام نہیں کرتے۔ تم لوگ یہاں بیوپار کرنے آئے تھے، پر تم تو اڑھائی دن کے سقے سے بھی بڑھے جاتے ہو۔تم نے ہر طرف بادشاہی کے چونچلے اور حکومت کے بکھیڑے پھیلا دئیے ہیں۔ہمارے بادشاہ کے اکبر آبادی قلعے کے دیوان خاص کو باورچی خانہ بنا ڈالا۔ سارے قلعے کو افغانوں جاٹوں اور مراٹھوں نے غارت کرہی ڈالا تھا۔ اب تم جو آئے تو اس کی بچی کھچی یادگاروں ہی کو بیچ کھانے پر تلے ہو۔’’(10)
اس اقتباس سے وزیر خانم کے سیاسی شعور کا اندازہ ہوتا ہے اور دوم وہ اپنے دیس میں انگریزوں کی لوٹ مار پر آواز بھی اٹھاتی ہے۔
ناول کے اختتام پر مرزا فخرو کی موت کے بعد وزیر خانم ایک بار پھر بے سہارا ہو جاتی ہے اور اسے قلعہ سے نکال دیا جاتا ہے۔وزیر خانم کو بے چارگی کے عالم میں قلعے سے نکلتا ہوا دیکھ کر مصنف نے مغلیہ سلطنت کی بےچارگی اور شکست کا ذکر کیا ہے۔ کیوں کہ مصنف وزیر خانم کے ذریعے ہندوستان کی مٹتی تہذیب اور نام نہاد حکومت کی بے بسی دکھانا چاہتے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی خود اس طرح اظہار خیال کرتے ہیں:
‘‘میرے خیال میں وزیر خانم کا کردار اس شکست خوردہ تہذیب اور دہلی کی مسلمان بادشاہت کا استعارہ ہےجس کے پاس سب کچھ تھا دماغ تھا ، علم تھا، حسن تھا، زندگی گزارنے کے اور سیاست چلانے کے طریقوں سے واقفیت تھی لیکن پھر بھی وزیر خانم کو اور اسی طرح دہلی کی سلطنت کو شکست پر شکست نصیب ہوتی ہے ’’(11)
شمس الرحمان فاروقی نے وزیر بیگم کے ذریعے ہندوستان کے زوال پذیر معاشرے کی عکاسی کی ہے وہ صرف کرداروں کا تعارف ہی پیش نہیں کرتے ۔بلکہ کرداروں کی ذہنی اور نفسی الجھنوں کو بھی سامنے لاتے ہیں ناول کا بنیادی کردار وزیر خانم ہے۔ جو بچپن ہی سے من پسند زندگی گزارنے کی قائل ہے ۔ پے در پے حادثات کا سامنا کرنے کے باوجود وزیر خانم کے مزاج میں کوئی نمایاں تبدیلی رونما نہیں ہوتی ۔ مصنف نے جہاں انگریزوں کے لباس اور چال ڈھال کا ذکر کیا ہے وہیں ان کی اجتماعی نفسیات کی عکاسی بھی کی گئی ہے ۔ ناول کا مرکزی کردار اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ انسانی زندگی غم ، خوشی ، عروج زوال سے تعبیر ہے۔