(Last Updated On: دسمبر 20, 2021)
’پینو راما‘ فن تصویر میں کسی ایسی تصویر کو کہتے ہیں جس میں وسیع تر منظر کی تصویر کشی کی گئی ہو ادبی طور پر اس کا مطلب ایسا منظر یا ایسا ماحول لیا جاتا ہے جس میں رنگا رنگی ہو، بوقلمونی، تلوین متعدد اشیاء، رنگوں، کیفیتوں کے اجتماع کے منظر ہوں، کسی موضوع پر مسئلہ کی بھر پور پیشکش یا تفصیلی جائزہ بھی ’’پینو راما‘‘ کہلاتا ہے۔
کلام فرید ؒ کو اگر با نظر غائر دیکھا جائے یہ بھی ایک بھر پور پینو راما ہے کہیں چولستانی حوالے سے، کہیں دریائی ماحول اور کہیں فلسفیانہ خیالات و افکار اور کہیں افراد و اشیاء کے حوالے سے ایک وسیع ترین تصویر بنتی ہے جس میں انسان پر ایک کے بعد ایک دروازہ کھلتا چلا جاتا ہے۔ 271 کافیوں پر مبنی دیوان فریدؒ ایک ایسا طلسم خانہ ہے جہاں ہر قدم پر مبہوت رہ جانے کا سامان موجود ہے اس تمہید کا مقصد حضرت خواجہ غلام فرید کے کلام میں اساطیری حوالوں کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لئے ذہن تیار کرنا تھا۔
’’اساطیر‘‘ کا لفظ جمع ہے‘‘ اسطور یا اسطورہ‘‘ کی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ یونانی کے لفظ ’’ہیتوریا‘‘ سے عربی میں آ کر ’’اسطورہ‘‘ ہوا ہے ’’اساطیر‘‘ کا لفظ قرآن پاک میں بھی تین مرتبہ استعمال ہوا ہے۔
اسطورہ سے کیا مراد ہے اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔سب سہے پہلے تو قرآنی مفہوم ہے جس کے مطابق ’’اسطور‘‘ کا مطلب گزرے ہوئے لوگوں کی کہانیاں یا من گھڑت قصے ہے اس کے مزید معانی میں افسانہ، حکایت، داستان، قصہ، کہانی، بات وغیرہ ہے عام طور پر اسے منفی یا بے بنیاد بات کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے لیکن اس کے گہرے مفہوم کے بارے میں اساطیری ماہرین کا خیال ہے کہ فن، مذہب، ثقافت اور فلسفہ کی ابتدائی خام صورت اسطور میں دیکھی جا سکتی ہے اسطورہ آبائواجداد کے زمانے سے چلی آ رہی ایسی افسانوی داستان کو کہا جاتا ہے جس کو ایک تاریخ کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہو اور اس کے سچ ہونے کا تاثر معاشرے میں پایا جاتا ہو۔ اس طرح کی داستانوں سے کسی ثقافت، سماج یا معاشرے کے دنیا کے بارے میں نظریات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ہر سماج، گروہ، معاشرے، قوم، مذہب اور ملت کے اپنے اپنے اساطیر ہوتے ہیں جوان کے نزدیک تو مکمل یا جزوی سچائی ہوتے ہیں لیکن دوسرے انہیں ’’خیالی، مفروضے یا افسانے قرار دے سکتے ہیں۔
کلام فریدؒ میں ایسے اساطیری حوالے جا بجا بکھرے ملتے ہیں جن میں ہندی، عربی، عجمی، یونانی اساطیر کے علاوہ مقامی غیر مقامی رومانوی اساطیر بھی شامل ہیں۔
ضرورت تو اس امر کی ہے کہ کلام فریدؒ میں جو اساطیر بیان ہوئے ہیں ان کے بارے میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ آگاہی ہوتا کہ وہ ان تلمیحات کا مطلب سمجھ کر کلام فرید ؒ سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہو سکیں اس مختصرمضمون میں تو ان اساطیر کے صرف عنوان ہی آ سکتے ہیں ہندو اساطیر کے حوالے سے کلام فرید ؒ میں رام، کرشن، آنند، اوم، برہما، بشن، بلایو، جسودا، دسرتھ، رام چندرجی، ستیا کالکی، کنہیا، شام، گر، ست گر، بیاس جی، گنیشن، لچھن، مہادیو، مہیش، نارائن، ہرہری، کونج گلی، ہوری، من سہادھ، درمت وغیرہ‘ ہندو اساطیری مقامات میں سے اجودھیا،برج، بندراہن، پراگ، خمیا، ڈئیر، سنبھل، متھرا، کاشی، گنگ، گومنی، گور دھن، متھرا وغیرہ کا ذکر متعدد مقامات پر آیا ہے۔
یہ تمام کردار مقامات کسی دوسرے مذہب والوں کے لئے اور ممکن ہے کہ کچھ ہندو?ں کے لئے بھی فرضی تصوراتی یا علامتی ہوں یا عام تصورات سے ہٹ کر ہوں۔ ایسے ہی کئی واقعات اور مقامات بھی اسطورہ ہو سکتے ہیں مثلاً دیوتائوں کی جنگیں، بن باس، روانگی واپسی، بلیدان، شکتی، مکتی انسان کی پیدائش، جوگ، بھوگ، نرگ، شورگ، نرگن، سرگن وغیرہ یہاں ایک سوال ابھرتا ہے کہ خواجہ فریدؒ جو اول و آخر مسلمان صوفی عالم با عمل تھے انہوں نے ان اساطیر کو اپنے کلام کا حصہ کیوں بنایا؟ تو اس سلسلے میں ہمارا خیال ہے کہ اس کا جواز‘‘ مقامی تصوف‘‘ کا بیانیہ ہو سکتا ہے‘‘ مقامی تصوف‘‘ کی اصطلاح ہماری اپنی وضع کردہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ’’غیر مقامی تصوف‘‘ بھی ہو سکتا ہے تو اس بارے میں ہمارا تصور کچھ یوں ہے کہ ایک تصوف تو وہ ہے جو عربی، عجمی حوالوں سے ہم تک پہنچا جس کا ماخذ آسمانی کتابیں، پیغمبر، اولیائکرام اور صوفیائہیں جن میں سے کچھ کا تذکرہ کلام فرید ؒ میں بھی آیا ہے ان میں شیخ اکبر ابنِ عربی ؒ، بایزید بسطامیؒ، حسین بن منصور حلاجؒ، حضرت جنید بغدادیؒ، حضرت شفیق بلخیؒ، حضرت فرید الدین مسعود شکر گنجؒ، ابن قیم ؒ، سرمد شہید، حضرت شمس تبریزی ؒ، حضرت بختیار کاکی ؒ، حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ، حضرت نظام الدین اولیاء، حضرت نور محمد مہارویؒ، حضرت مولانا فخر جہاں وغیرہ شامل ہیں۔
ان میں اکثر کا تعلق عرب دنیا یا عجم سے ہے جو مقامی شخصیات مذکور ہیں وہ بھی اسی ’’عربی یا عجمی تصوف، کی روایت کا تسلسل ہیں ماسوائے سرمد شہید ؒ کے اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ ان کے افکار میں کہیں بھی ہندی اساطیر کا حوالہ نہیں ملتا۔
’’مقامی تصوف‘‘ کی ہماری وضع کردہ اصطلاح کا پس منظر جو ہمارے ذہن میں ہے وہ یہ ہے کہ خطہ ٔ ہند میں عربوں کی آمد سے قبل بھی تو تصوف موجود تھا جو ویدانت کہلاتا تھا جو آج بھی اسی نام سے موجود ہے۔
ہندؤں کے پاس بھی کائنات، مالک کائنات، تشکیل کائنات، تخلیق انسان، سزا، جزا، نرگ، سور گ، کشٹ، بھوگ، جوگ، بلیدان، تپسیا اور اواگون کے بارے میں قدیم ترین نظریات موجود ہیں، خواجہ فرید ؒ نے ان نظریات کو من گھڑت کہہ کر رد نہیں کیا بلکہ ان کی مثبت اقدار کو قبول کر کے اپنی شاعری میں جگہ دی ہے اس سے جہاں ان کے بیانیہ کو وسعت ملی ہے وہاں دیگر اساطیری حوالے رکھنے والے طبقات اور اقوام میں قربت پیدا ہونے کے امکامات بڑھے ہیں۔
رومانوی اساطیر، شخصیات میں سے لیلی، مجنوں، ہیر، رانجھا، سسی، پنوں، عمر،ماروی، مارو، ڈھولا، سوہنی، مہینوال، سیفل ملوک، شریں، فرہاد، مومل، میندھرا، بہ عشقیہ کردار وقت کے ساتھ ساتھ اساطیری شکل اختیار کر گئے ہیں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ کہاں اور کس زمانے میں تھے‘ لیکن یہ تمام کے تمام کسی حد تک حقیقت بھی تسلیم کئے جاتے ہیں کلام فریدؒ میں ان کا ذکر تلمیح کے طور پر آیا ہے۔
تلمیح کا مطلب ہے کسی کہانی یا کہانی کے کسی کردار، مقام، واقعہ کی طرف اشارہ باقی کہانی کا یا تو قاری کو علم ہوتا ہے یا علم ہونا چاہئے۔ جو قاری ان اساطیری تلمیحات کو جتنا زیادہ جانتا ہو گا وہ کلامِ فریدؒ سے اتنا ہی زیادہ لطف اندوز ہو گا بلکہ اس پر کلام فریدؒ کے طلسماتی دروازے اتنے ہی کھلتے چلے جائیں گے۔
٭٭٭
فرتاش سیّد بھی چلے بسے ۔۔۔
سید فضل حسین فرتاش کا تعلق بنیادی طور پر لڈن (وہاڑی) سے تھا۔ آپ ۱۵ اپریل ۱۹۶۷ء کو پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر سے حاصل کی۔ فرتاش سید نے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان اُردو میں ایم فل کی ڈگری لی ۔ ان کے تحقیقی مقالے کا موضوع ’’مجلسِ فروغِ اردو ادب (دوحہ قطر)‘‘تھا۔فرتاش سید نے ایک طویل عرصہ شہر مجید امجد ساہیوال میں گزارا ۔ وہ ’’دی ایشیا فائونڈیشن‘‘کے TB Dotsپروگرام کے ضلعی رابطہ کار رہے۔ ضلع ساہیوال میں تپ دق کے خاتمے کے سلسلے میں ان کی خدمات سے انکار ممکن نہیں۔ فرتاش سید مشاعروں کے شاعر تھے۔اپنے خوبصورت اُسلوب ،شاعری اور دبنگ لہجے سے وہ سامعین کو مسحور کر دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک اور ملک سے باہر ہونے والے عالمی اُردو مشاعروں میں ان کی شمولیت کو ضروری سمجھا جاتا۔ فرتاش سید ایک خوب صورت شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بالغ نظر نقاد اور محقق بھی تھے۔ ان کی مندرجہ ذیل کتب شائع ہو چکی ہیں۔
۱۔ ہر ورق پر اسی کا نام ۔(ہائیکو)۔۱۹۹۲ء۔۔۔۲۔فضائے ادب (نصابی کتب) ۔۲۰۰۰ء
۳۔حاشیہ (غزلیات)۔ ۲۰۰۹ء۔۔۔۔۔۴۔مجلس فروغِ اُردو ادب کی ادبی خدمات (تحقیق)۔۲۰۰۹ء
فرتاش سید کی شاعری کے بارے میں ڈاکٹر محمد علی صدیقی کا کہنا ہے کہ ’’فرتاش سید بجا طور پر شاعری اور نثر کے فرق سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کے اشعار میں الفاظ کا درو بست ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک دیرپا اثر اورEffect پیدا کریں گے اور دیکھا جائے تو شاعری اور نثر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اچھا شعرہمیں شاعر کے تخلیق کردہ تاثر،جسے آپ جادو بھی کہہ سکتے ہیں کہ باعث ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے‘‘۔
٭٭٭
مجاہد جتوئی (خان پور)
مجاہد جتوئی (خان پور)