امریکہ میں ایک سیہ فام کے قتل کے بعد کی اگتجاجی صورتِ حال آپ کے سامنے ہے۔ کالے لوگوں اور غلاموں کے حوالے سے فلم ''Roots '' جن دوستوں نے نہیں دیکھی، وہ ضرور ملاحظہ کریں۔ سردست ہم اپنے مضمون'' اردو زبان، روایات اور لسانی استعماریت'' سے وہ اقتباس پیش کررہے ہیں جو نسلی امتیاز سے متعلق ہے:
'' مشرقی معاشرے میں جب کوئی کامیاب ہوتا ہے یا اُسے عزت نصیب ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ’’وہ سرخ رو ہوا‘‘ ۔ اس کے برعکس جب کوئی ناکام ہوتا ہے یا کسی سبب نے اُسے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اُسے ’’سیاہ رو‘‘ یا ’’رو سیاہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ سادہ لفظوں میں یوں بھی کہہ دیا جاتاہے کہ اُس نے منہ کالا کیا یا اُس کا منہ کالاہوا یعنی عزت دار یا کامیاب شخص سرخ چہرے والااور ناکام و رسوا کالے چہرے والا۔
رنگت کی اس تقسیم کا استعماریت کے زیر اثر نسلی امتیاز سے واضح ہے۔ تاریخ میں جن نسلوں نے فتوحات حاصل کیں اور دنیا بھر پہ حکومتیں قائم کیں وہ نسلی لحاظ سے سرخ و سفید تھیں جبکہ غلام اقوام کے لوگ کالے تھے۔ وہ نہ صرف محکوم ہوئے بلکہ ان محکوموں سے اتنی نفرت کی گئی کہ وہ ذلت و رسوائی کا نشان بن گئے۔
معاصر تہذیبی ماحول میں کالے رنگ کے لوگ اگرچہ نسلی بنیادوں پر ماضی ایسی نفرت کا ہدف تو شایدنہ ہوں لیکن اُس تحیر کا اثر کسی نہ کسی طور قائم ہے۔
فی زمانہ اگرچہ تمیز بندہ و آقا کی وہ صورت حال یا ویسی نوعیت تو نہیں رہی لیکن استعماری طاقتوں کے تشکیل کردہ تصورات کے بابت بنی نوع انسان کے لاشعور میں نسلی افتراق کی بنیاد پہ رنگوں کی بنیاد پہ قائم شدہ امتیازات راسخ ہو گئے۔
فارسی زبان میں کالے رنگ سے نفرت کے استعماری اور طبقاتی اثرات کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر وہ سماجی عنصر جس سے منفیت وابستہ کرنی ہو، اس کے ساتھ سیہ کا سابقہ یا لاحقہ لگا دیا جاتا ہے۔ مثلاً:
سیاہ باطن __ بدباطن، منافق، مکّار
سیاہ بخت __ بدنصیب
سیاہ دل __ بے مروّت، بے وفا
سیاہ رو __ رسوا، بدنام
سیاہ روزگار__ بد نصیب ، مفلس
سیاہ زبان __ جس کی بددعا جلد اثر کرے
سیاہ کار __ بدکار، فاسق، گنہ گار
سیاہ مست __ نشے میں چور
فارسی کے زیر اثر اردو میں بھی نسلی امتیاز کے مذکورہ تصورات کو لسانی سطح پر اسی طرح قبول کر لیا گیا اور برصغیر کے باشندے اگرچہ خود بھی نسلی لحاظ سے سرخ و سفید نہیں لیکن انھوں نے بیرونی آقاؤں کے لسانی تصورات کو لاشعوری طور پر تسلیم کر لیا ۔ اردو زبان میں ’’کالے رنگ‘‘ کی صفت وہی مفہوم رکھتی ہے جو فارسی زبان میں ’’سیہ‘‘ سے وابستہ ہے۔ مثلاً:
کالا دھن __ حرام کی کمائی
کالا قانون__ برایا ظالمانہ قانون
کالا منہ __ کلمۂ نفرت
کالے کرتوت__ غلط کام ؍ حرام کاری
کالا دھندا __ ناجائز اور غیر قانونی کام
کالا منہ کرنا__ غلط کاری
کالا منہ ہونا__ ذلیل و رسوا ہونا
کالی زبان __ وہ زبان جس کی بددعا جلد اثر کرے
کالا منہ ، نیلے ہاتھ پاؤں__ ذلیل و خوار
یہ ایک عجیب امر ہے کہ غلام افراد کے کالے ہونے کی وجہ سے سزا یافتہ لوگوں کو مزید ذلیل و رسوا کرنے کے لیے اُن کی شبیہ بھی اُن جیسی بنائی جاتی۔ مثلاً کہاوت ’’کالا منہ، نیلے ہاتھ پاؤں‘‘ کا معنی لکھتے ہوئے ’’نور اللغات‘‘ کے مولف نے لکھا ہے کہ:
’’ہندوستان میں دستور تھا کہ جب حاکم کسی سے ناراض ہو جاتا تھا تو اس کا منہ کالا ، ہاتھ پاؤں نیلے کر کے گدھے پر چڑھا کر تشہیر کیا کرتا اور پھر شہر سے نکلوا دیتا۔ جس سے نہایت رسوائی اور بدنامی ہوتی تھی۔ اس وجہ سے متنفر کی حالت میں یہ کلمہ بولنے لگے۔‘‘
کالے رنگ سے نفرت کا احساس محض مشرقی سماج میں نہیں بلکہ دنیا کے وہ تمام خطے جہاں سرخ و سفید نسلیں آباد ہیں اور انھوں نے سیہ فام لوگوں پر حکومت کی ہے یہ طرزِ احساس نہ صرف موجود ہے بلکہ پختہ تر ہے۔ اور ان خِطّوں کی زبانوں میں بھی یہ اثرات دیکھے جا سکتے ہیں جیسا کہ انگلش میں Black کی صفت کم و بیش انھی معنوں میں استعمال ہوتی ہے جو فارسی اور اردو میں رائج ہے۔ اس سلسلے میں انگریزی زبان کے ذخیرۂ الفاظ میں Black List، Black Mail، Black Market، Black Money اورBlack Sheep ایسے الفاظ قابلِ توجہ ہیں۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نے ’’قومی انگریزی لغت‘‘ میں لفظ Black کے جو معنی دیے ہیں،وہ انھی تصورات پر مبنی ہیں جو اردو میں مستعمل ہیں۔ اس ذیل میں انھوں نے جو معنی رقم کیے ہیں، وہ یہ ہیں:
’’بدشگون، کنجوس یا مجرمانہ، نہایت برا، قابلِ نفرت ، غضب ناک، قہر آلود،یا غصے والا، ذلت کا، رسوائی کا یا مستوجب سزا (الزام و قصور کی علامت)۔‘‘
جس طرح لفظ "Black" یا ’’کالا‘‘ برائی اور نفرت کی علامت ہے۔ فاتح اقوام اور سرخ نسلوں نے رنگ سرخ کو عزت اور وقار کے نشان کے طور پر استعمال کیا ہے۔ برطانیہ، امریکہ اور ترکی کے جھنڈوں میں سرخ رنگ غالب ہے۔ حکومتی ایوانوں اور اعلیٰ اداروں کے قیام کے احاطے کو Red Zone قرار دیا جاتا ہے ۔ کسی مہمان کا باوقار استقبال کرنا ہو تو اُس کے رستے میں سرخ قالین بچھایا جاتا ہے۔
صنعتی اور فوجی لحاظ سے طاقتور سرخ و سفید نسلیں قدرتی دولت سے مالا مال علاقوں میں رہنے والی کالی اقوام پرانی تہذیب اور طرزِ حیات کو مسلط کرنا کس طرح اپنا فرض سمجھتی ہیں، اس کا جواب روڈیارڈ کپلنگ کی نظم "White Man's Burden" سے بخوبی ملتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ یورپ اور امریکہ میں فی زمانہ نسلی امتیاز کے تصورات ختم ہو گئے ہیں بلکہ ان معاشروں میں آج بھی موجود ہیں۔ BBC نے اپنی ایک رپورٹ (۱۸ اگست ۲۰۱۶ء) میں "The Equality and Human Rights" نامی تنظیم کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’سفید فام نوجوانوں کے مقابلے میں سیاہ فام گریجویٹس کو اوسطاً ۲۳ فیصد کم اجرت ملتی ہے جبکہ نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھتے والے افراد بڑی تعداد میں بے روزگار ہیں۔ کمیشن کے چیئرمین ڈیوڈ آئزک کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ برطانیہ کے پوری یونین سے الگ ہونے کے فیصلے کے بعد نفرت پر مبنی جرائم، منظم طریقے سے ہونے والی دور رس بے انصافیوں اور نسلی امتیاز سے متعلق کئی باعث فکر پہلوؤں کا انکشاف کرتی ہے۔۔۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر جدید برطانیہ میں آپ سیاہ فام ہیں یا نسلی اقلیت، تو آپ اکثر محسوس کر سکتے ہیں کہ آپ کسی اور دنیامیں رہتے ہیں، کبھی آپ کو قومی معاشرے کا حصہ ہونے کا احساس نہیں ہو گا۔‘‘
اسی طرح امریکی پولیس نے ۲۰۰۵ء میں "The colour of Crime" کے عنوان سے ایک رپورٹ پیش کی جس میں امریکی معاشرے میں پائے جانے والے اس غالب طرزِ احساس کو بیان کیا گیا کہ سیاہ فام باشندے، سفید فاموں کی نسبت زیادہ جرائم پیشہ ہوتے ہیں۔تفصیلی رپورٹ کی ابتدا میں لکھا گیا ہے:
"Most Americans at least suspect that blacks and Hispanics are more likely to commit crimes than whites or Asians."
ان سرخ و سفید اقوام نے نوآبادیاتی حکمران بن کر نہ صر ف وسائل پر قبضہ کیا بلکہ اپنے محکوموں کے ذہنوں پر اپنے تصورات بھی مسلط کیے اور اپنی عیاری و مکاری سے جس طرح محکوم اقوام کو اپنے وسائل کے لوٹے جانے کا احساس نہیں ہونے دیا، اسی طرح اُن کے ذہنی میلانات اور تصورات پر بھی اپنے استعماری سائے بڑی ہوشیاری سے پھیلائے اور ان محکوم اقوام کے لسانی ڈھانچے میں اس نوع کے الفاظ کی ایک بڑی تعداد داخل ہو گئی جو خود ان کی تضحیک کے لیے استعمال کیے گئے لیکن نو آبادیاتی اشرافیے نے انھیں اس کثرت سے استعمال کیا کہ یہ محکوموں کی لسانی ثقافت کا حصہ بن گئے۔''