خیر پور کی عالمی اردو کانفرنس
(ادب اور ماحولیاتی مسائل۔۔۔۔۔پاکستانی اور عالمی تناظر)
شاہ عبداللطیف یونیورسٹی کا شعبہ اردو مبارک باد کا حق دار ہے کہ اپنی سابقہ علمی ادبی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اس سال(13 تا 14 نومبر 2017)بھی ایک بھرپور اور کامیاب عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں پاکستان کے علاوہ جرمنی،سویڈن، مصر،امریکا،ایران،ترکی اور برطانیہ سے علم دوست شخصیات نے شرکت کی۔کانفرنس کے نو اجلاس ہوئے جس میں اہم فکری مقالات پیش کیے گئے۔اس کانفرنس کے افتتاحی اور اختتامی اجلاس بھی بہت شادار تھے۔اس کانفرنس کے تمام پروگرام جس طرح تشکیل دیئے گئے تھے ان کی عملی صورت بھی حسنِ ترتیب کا روشن ثبوت تھی۔کلیہ فنون و السنہ کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک صاحب نے جس کمال مہارت سے ان تمام امور کو خوش اسلوبی سے ہمکنار کیا اس کی تعریف داد سے بالا تر ہے۔ڈاکٹر صاحب کو اللہ نے انتظامی صلاحیتوں سے خوب خوب نوازا ہے اور سچ پوچھیئے تو مینجمنٹ سائنسسز کی اصطلاح six sigma approach کا بہترین اظہار ڈاکٹر یوسف خشک کی شخصیت کا جامع عکاس ہے۔ہماری بھابی ڈاکٹرصوفیہ خشک(چیر پرسن شعبہء اردو) صاحبہ نے بھی اپنی ٹیم کے ساتھ اس دو روزہ کانفرنس میں جس انتھک کوشش سے انتظامی معاملات کو آگے بڑھایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔نجم الحسن نے بھی خود کو ہر لمحہ فعال رکھ کر مہمانوں کی خاطر تواضع میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر پروین شاہ صاحبہ کو دیکھ کر اور ان کے وژن کا جان کر یہی خواہش پیدا ہوتی ہے کہ پاکستان کی باقی جامعات میں بھی ان جیسی روشن خیال اور روشن ضمیر شخصیت یہ منصب سنبھال لے۔اس کانفرنس میں میرے عمومی تاثرات کچھ اس قسم کے ہیں:
1-یہ کانفرنس پاکستان کی جامعات میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے
2- تمام مہمانوں کو جس انداز سے خوش آمدید کہا جاتا ہے اس سے ہر مہمان یہی تاثر لیتا ہے کہ میزبانوں کی توجہ صرف اسی پر مرکوز ہے۔
3-مہمانوں کے آرام کا پورا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔
4-سیر و تفریح کے پروگرام بہت شاندار اور یاد گار ہوتے ہیں۔
5-کانفرنس کا علمی ماحول شروع سے لے کر آخر تک قائم رہتا ہے۔
6-سندھی ثقافت کا ایک سوفٹ امیج سامنے آتا ہے۔
7-کانفرنس کا تھیم بہت منفرد ہوتا ہے جس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہو جاتا ہے کہ ہماری اردو کو نئے نئے موضوعات چکھنے کو ملتے ہیں۔حالیہ کانفرنس کا موضوع بھی اردو کو عالمی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ایک بہترین کوشش ہے۔
8-اس یونیورسٹی کی کانفرنس میں وی سی سے لے کر ایک عام ملازم تک برابر کے شریک ہوتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا کہ یہ کانفرنس شعبہ اردو کی نہیں بلکہ یونیورسٹی کے تمام شعبوں کا کوئی جائنٹ ونچر ہے۔کسی یونیورسٹی میں اتنی باہمی مطابقت محض کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ اس کے پس منظر میں وہ علمی روایت موجود ہے جس نے یونیورسٹی کے تمام اراکین کو ایک مقصد میں باندھ رکھا ہے۔
9-اس کانفرنس میں اپنے خطے کے اہم سیاسی اکابرین،عمائدین اور بیوروکریسی کی شمولیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ غیر ادبی لوگ اپنے علاقوں میں ہونے والی علمی ادبی سرگرمیوں کو اپنے اپنے منصب کا بھی حصہ سمجھتے ہیں اور ان میں شریک ہو کر اس کی افادیت کو دگنا کر دیتے ہیں۔
10-ڈاکٹر یوسف خشک صاحب اور ڈاکٹر صوفیہ خشک صاحبہ کو یہ تجویز بھی دینی تھی کہ اجلاس کی کارروائی میں رابطہ کار کی فہرست میں مہمانوں کے نام بھی شامل کیئے جائیں۔۔یہ کتنا اچھا لگے گا کہ کسی سیشن کے رابطہ کار عابدی صاحب ہوں اور کسی کے ڈاکٹر انوار احمد صاحب،میری خدمات بھی حاضر ہیں۔
11-عالمی مشاعرے میں سندھی زبان کے شعرا کو بھی شامل کیا جائے۔
12-اگر ممکن ہو تو مہمانوں کو یونیورسٹی کا ایک جامع وزٹ بھی کرایا جائے تا کہ اس کے باقی شعبوں سے بھی آگاہی حاصل ہو سکے۔
13-مہمانوں کی خاطر داری میں پر تکلف کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے یہ کھانے اگر سادہ بھی ہوں تو کوئی مزائقہ نہیں۔
14-مقالے پڑھنے کے حوالے سے ایک سکیم یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مقالہ خوانی کو دس منٹ کے بجائے 5 صفحات تک محدود کر دیا جائے۔۔۔وقت کی پابندی بعض اوقات نہیں ہو سکتی ممکن ہے کہ صفحات کی پابندی اپنا کام دکھا جائے۔
15-انڈیا سے جو احباب نہیں آ سکے اس کی وجہ معلوم کی جا سکتی کہ کیوں نہیں آئے اگر کچھ وزے یا سیکیوریٹی کا مسلہ ہے تو اس کا پیشگی حل نکالا جا سکتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔