آج – ١٥؍ اگست ٢٠٠٧
ترقی پسند مصنفین کی تحریک میں شامل، صحافی، روزنامہ " حریّت اور مساوات" کے مدیر اور معروف شاعر” خالد علیگؔ صاحب “ کا یومِ وفات…
خالد علیگ 1925ء میں بھارتی ریاست اتر پردیش کے علاقے قائم گنج میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی اور تقسیم ہند کے بعد 1947ء میں اپنے اہل خانہ سمیت پاکستان آگئے لیکن یہاں بھی جیسے ہجرت ان کا نصیب بنی رہی۔ وہ پہلے صوبہ پنجاب کے شہروں اوکاڑہ اور لاہور اور اس کے بعد صوبہ سندھ کے شہروں میرپورخاص، خیرپور اور سکھر میں رہائش پذیر رہے اور پھر 1960ء میں کراچی آگئے اور یہاں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
خالد علیگؔ نے صحافت کا آغاز کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے مجلے منشور سے کیا اور اس کے بعد روزنامہ حریت سے وابستہ ہوگئے۔ 1972ء میں جب روزنامہ مساوات شائع ہوا تو اس کے نیوز ایڈیٹر مقرر ہوئے اس وقت ابراہیم جلیس اس کے ایڈیٹر تھے تاہم ان کے انتقال کے بعد خالد علیگ ایڈیٹر مقرر ہوئے اور پھر 1978ء میں اخبار بند ہونے تک وہ اسی عہدے پر فائز رہے
ملک کی صحافت میں روزنامہ مساوات نے پہلی بار عام خبروں سے ہٹ کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار ہونے والے لوگوں اور محنت کشوں کے مسائل کو نمایاں طور پر شائع کرنے کا رجحان متعارف کرایا اور اسی حوالے سے مقبولیت پائی۔
خالد علیگؔ ہمیشہ ترقی پسند مصنفین کی تحریک میں رہے۔ ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کی آمریتوں کے خلاف صحافیوں کی تحریک میں بھی سرکردہ کردار ادا کیا۔ انہوں نے کبھی سرکاری امداد قبول نہیں کی۔
بے نظیر بھٹو نے 1988ء میں اپنے دور حکومت میں انہیں امداد کا چیک بھجوایا جو انہوں نے قبول نہیں کیا۔ اسی طرح انتقال سے کچھ برس قبل جب وہ شدید علالت کے باعث مقامی ہسپتال میں داخل تھے تو موجودہ صوبائی حکومت نے ان کا علاج سرکاری خرچ پر کرانے کا اعلان کیا جس پر وہ ہسپتال سے فوری گھر واپس چلے گئے۔
ان کی شاعری کا ایک مجموعہ ’غزال دشتِ سگاں‘ کے عنوان سے شائع ہوا جو ان کے دوستوں اور شاگردوں نے شائع کروایا تھا۔
خالد علیگؔ طویل علالت کے بعد ٨٣ سال کی عمر میں ١٥؍ اگست ٢٠٠٧ کو کراچی میں انتقال کرگئے ۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر خالد علیگؔ کے یومِ وفات پر خوبصورت کلام بطورِ خراجِ عقیدت…
میں ڈرا نہیں میں دبا نہیں میں جھکا نہیں میں بکا نہیں
مگر اہلِ بزم میں کوئی بھی تو ادا شناسِ وفا نہیں
مرے جسم و جاں پہ اسی کے سارے عذاب سارے ثواب ہیں
وہی ایک حرفِ خود آگہی کہ ابھی جو میں نے کہا نہیں
نہ وہ حرف و لفظ کی داوری نہ وہ ذکر و فکرِ قلندری
جو مرے لہو سے لکھی تھی یہ وہ قراردادِ وفا نہیں
ابھی حسن و عشق میں فاصلے عدم اعتماد کے ہیں وہی
انہیں اعتبارِ وفا نہیں مجھے اعتبارِ جفا نہیں
وہ جو ایک بات تھی گفتنی وہی ایک بات شنیدنی
جسے میں نے تم سے کہا نہیں جسے تم نے مجھ سے سنا نہیں
میں صلیبِ وقت پہ کب سے ہوں مجھے اب تو اس سے اتار لو
کہ سزا بھی کاٹ چکا ہوں میں مرا فیصلہ بھی ہوا نہیں
مرا شہر مجھ پہ گواہ ہے کہ ہر ایک عہدِ سیاہ میں
وہ چراغ راہِ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں
خالد علیگؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ