علمِ سیمیا
میرے بچپن میں میرا ایک کلاس فیلو اور دوست اشفاق نامی لڑکا تھا۔ اس کے والد حکیم تھے اور بازار میں ان کی پنساری کی دکان تھی۔ پنجابی تھے اور نام غالبا" عبدالرزاق تھا اور وہ رزاق پنساری کے نام سے مشہور تھے۔ اشفاق کی والدہ گورنمنٹ اسکول میں استانی تھیں۔ اشفاق کے ابا چھ سوا چھ فٹ کے لمبے لیکن دبلے پتلے گورے چٹے پنجابی جن کی آنکھیں عنایت حسین بھٹی جیسی غلافی اور خوابیدہ ، ڈاڑھی امیر خسرو جیسی ، عام دنوں میں سفید تہبند اور کرتا لیکن جمعے والے دن شلوار کرتا زیب تن کرتے۔ حقے کے شوقین ، سارا دن دکان میں بھی فرشی مسند پر چلم کے اوپر ٹین کی ٹوپی والا حقہ گڑگڑاتے رہتے۔ ان ہی کے حقے میں ہم نے زندگی میں پہلی بار بہت لمبی پیچوان یعنی پائپ نما نلکی دیکھی جو کہ ارد گرد بیٹھے لوگ بھی با آسانی بار بار بغیر اپنی جگہ سے اٹھنے کی زحمت کئے اپنے منہ سے لگا کر حقے سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔ اشفاق کی امی کافی دبتی رنگت اور بمشکل پونے پانچ فٹ کی باریک آواز والی خاتون تھیں جو اپی زبیدہ کے نام سے مشہور تھیں۔
اشفاق کے امی ابو کی شادی کسی خاندانی زور زبردستی یا رسم و رواج کا شاخسانہ ہی لگتی تھی۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ شاید گھریلو چپقلش یا کوئ اور مسئلہ ایسا ہوا کے اشفاق کے والد گھر چھوڑ کر چلے گئے۔۔ شاید کسی دوسرے شہر۔
یعنی اگر آجکل جیسا ماحول ہوتا تو ان کو گمشدہ افراد میں سے ایک تصور کیا جاتا۔ یعنی ان کی کوئ خیر خبر دستیاب نہ تھی۔
ان کے بعد بے چارہ اشفاق جا کر دکان پر بیٹھ جاتا لیکن یہ کام کرنا اس کے بس کی بات نہیں تھی کیونکہ ایک بارہ تیرہ برس کا لڑکا بھلا جڑی بوٹیاں کیا جانے۔
ہمیں بچپن سے ہی جڑی بوٹیاں اور عجیب و غریب اشیا دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ اس زمانے میں ہم نے اپنی سائنس کی کتاب میں پڑھا تھا کہ جابر بن حیان نے قلمی شورہ کی مدد سے تیزاب بنایا تھا۔ تو ہم کو بھی شوق ہوا کہ تجربہ کریں۔ اس سے پہلے ہم بیٹری سیل بنانے کا بھی ناکام تجربہ کرچکے تھے۔ اشفاق نے بتایا کہ اس کے والد کی دکان پر قلمی شورہ موجود ہے۔ طے یہ پایا کہ اسکول سے چھٹی کے بعد شام چار بجے کے قریب اشفاق بطور خاص ہمارے لئے دکان کھولے گا اور ہم قلمی شورہ لینے پہنچ جائیں۔ شام چار بجے جب دکان پہنچے تو اشفاق صاحب اپنے والد کی فرشی مسند پر براجمان تھے۔ بڑی دکان تھی جس میں چاروں طرف دیواروں پر لکڑی کے تختے ٹھونکے ہوئے تھے جن پر مختلف مرتبان برنیاں اور ٹین کے ڈبے رکھے تھے۔ پہلے تو اشفاق نے ایک ڈبے سے چند پستے اور دوسرے سے کچھ بادام نکال کر خود بھی ٹونگے اور مجھے بھی کھلائے۔ پھر دو عدد منقہ بھی مجھے چکھائیں۔
انجیر مجھے پسند نہیں آئ اس لئے واپس کردی۔
دیگر ڈبے بھی کھول کر دیکھے لیکن کوئ قابل ذکر کھانے کی چیز نظر نہ آئ۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں کسی عجائب گھر میں آگیا ہوں۔ ہر طرف دیواروں سے لگے ڈبے اور ان پر عجیب و غریب نام لکھے ہوئے۔
گائو زباں، تخم سروالی، بلی لوٹن، عشبہ، افسنتین ( جسے پڑھ کر مجھے اپنی کلاس فیلو افشین یاد آگئ) ، تخم کرفس، کٹھ تلخ، لاجورد، گھونگچی، گوکھرو، تخم اندرائن، اسطخدوس ، اور نہ جانے کیا کیا جناتی نام۔ میں گردن گھما گھما کر نام پڑھنے میں مصروف۔ پھر اشفاق نے مجھے ایک مرتبان سے ایک چمچی گلقند بھی کھلایا۔ کہنے لگا کہ ابا خود بناتے ہیں۔ پوچھنے پر اس نے فر فر مجھے گلقند بنانے کی ترکیب ازبر کروادی۔
پھر اس نے کہا کہ میں تم کو ایک چیز دکھاتا ہوں۔ دکان میں موجود سیڑھی کی مدد سے ایک تختے پر سے ٹین کا ایک چوکور ڈبہ اتارا۔ اس کا ڈھکن سختی سے بند تھا جو ناخنوں کی مدد سے نہیں کھلا تو چاقو کی نوک کی مدد سے کھولا۔
اس ڈبے کے اندر سے اس نے ایک عدد خشک چھپکلی برامد کی جو بالکل سوکھی ہوئ زرد رنگ کی تھی۔ لیکن یہ چھپکلی سوکھنے کے باوجود عام چھپکلی سے دگنے سائز کی تھی۔ اشفاق نے بتایا کہ یہ خشک شدہ گرگٹ ہے۔ ہم نے اس کو ہاتھ میں لے کر بڑی دلچسپی سے الٹ پلٹ کر دیکھا۔ یہ خشک شدہ گرگٹ کس مقصد کے لئے استعمال ہوتا ہے اس کا تسلی بخش جواب اشفاق کے پاس بھی نہیں تھا۔
آج جناب حکیم اعجاز چوھدری نے بتایا کہ اگر خشک شدہ گرگٹ کو کسی تیل میں جلا کر وہ تیل گنج پن پر لگایا جائے تو بال آگ آتے ہیں۔ ساتھ ہی گارنٹی بھی دی ہے کہ اگر بال نہ آئیں تو جو سزا دو منظور ہے۔
جانوروں سے متعلق وہ ٹونے، ٹوٹکے اور عجیب و غریب خواص جو مختلف اعمال و امراض جادو منتر تنتر میں استعمال ہوتے ہیں علم سیمیا کہلاتا ہے۔
سیمیا کا لفظ علاوہ اور چیزوں کے جس میں روح کو ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل کرنے کا عمل بھی شامل ہے جادو کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ حضرت عیسٰی کے معجزے کا تعلق بھی ایک لحاظ سے سیمیا سے تھا کیونکہ وہ مردوں میں روح پھونکتے تھے۔
السیمیاء فی عرفان الحیوان یعنی علم سیمیا جانوروں کی زبان جاننے اور ان کے خواص معلوم کرنے کا نام ہے۔
سیمیا میں خیالات پر تصرف ہوجاتا ہے اور صاحبِ رماد جیسا کہتا ہے ویسا ہی ہوتا ہے (سحر کی اعلیٰ قسم ہے)مثلاً سورج کو دن میں پوشیدہ کرلینا اور رات کو نکال لینا ۔دن کو ستارے دکھا دینا۔(ہندی میں اس کو بھان متی کا تماشہ کہتے ہیں )
مزید مطالعے پر پتہ چلا کہ افریقہ میں خشک گرگٹ کو روایتی ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے اور اس کو ووڈو میجک کے جادوگر بھی اپنے عملیات میں استعمال کرتے ہیں۔ یقینا" چینی بھی اس کو ادویات میں استعمال کرتے ہونگے۔ البتہ دیسی یا یونانی میں اس کا کیا استعمال ہے یہ تو کوئ طبیب حکیم یا سنیاسی ہی بتا سکتا ہے۔
اسی طرح ہمارے دادا جان کے ایک دوست تھے مجید پنساری جو کہ حکمت بھی کرتے تھے۔ دادا جان سے اچھی دوستی تھی۔ ایک مرتبہ ہمارے گھر میں جھائو چوہا گھس آیا۔ جھائو چوہا وہ جو سیاہ کانٹوں دار ہوتا ہے۔ وہ کسی نالی وغیرہ کے ذریعے آتا تھا۔ گو کہ وہ کچھ نقصان نہیں پہنچاتا تھا لیکن اس کی شکل و صورت کی بنا پر گھر کی خواتین اور بچے اس سے خوف کھاتے تھے۔ دادا جان نے مجید پنساری سے ذکر کیا تو انہوں نے فرمائش کی کہ وہ جھائو چوہا مجھے پکڑ کر لادیجئے۔ مجھے اس سے دوا بنانی ہے۔ دادا جان نے کسی طریقے سے وہ جھائو چوہا زندہ پکڑ کر ایک گھی کے خالی ڈبے میں بند کر کے مجید پنساری کی ھدایت کے مطابق اوپر چھت پر ڈال دیا جہاں سارا دن انتہائ تیز دھوپ پڑتی تھی۔ ایک ھفتے بعد وہ یہ جھائو چوہامجید پنساری کو ڈبے سمیت دے آئے۔ اب مجید پنساری نے اس کا کیا کیا! واللہ اعلم اس کی کیا دوا بنتی ہوگی۔
میں اس وقت بہت چھوٹا تھا۔ شاید پانچ برس کا۔
بعد میں لوگوں سے پتہ چلا کہ یہ جھائو چوہا بڑا بھاگوان ہوتا ہے اور کسی گھر میں اس کی آمد نیک شگون سمجھی جاتی ہے۔
اسی جھاؤ چوہے سے متعلق ایک انتہائ عجیب و غریب نسخہ بھی پڑھا- لیکن وہ نسخہ میں یہاں شیئر کرنا مناسب نہیں سمجھتا- مختصرا” یہ کہ جھاو چوہے سے حاصل کردہ اس نسخے کو اگر مرد عورت سے مباشرت سے پہلے زرا سا اپنے ذکر پر مل لے تو وہ اس درجہ ملذذ و طلسماتی خصوصیات کا حامل ہے کہ پھر وہ عورت اس مرد کی بے دام غلام بن جائے گی اور زندگی بھر کسی دوسرے مرد کی طرف آنکھ بھی اٹھا کر نہ دیکھے گی- کتاب میں سختی سے تاکید کی گئ ہے کہ یہ نسخہ زندگی میں صرف ایک مرتبہ ہی استعمال کیا جائے کیونکہ ایک بار کے استعمال سے ہی مطلوبہ مقاصد حاصل ہوجاتے ہیں-
واللہ اعلم!
یعنی کسی عورت کو بے دام غلام بنانے کے لئے یہ نسخہ ہے- یا بے راہ رو بیوی کو راہ راست پر لانے اور وفا کی دیوی بنانے والی ترکیب ہے- کہتے ہیں کہ لاہور کے ایک حکیم صاحب یہ نسخہ ایک لاکھ روپے میں شرط لگا کر دیتے ہیں-
اب میری تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ عورت کو غلام بنانے کا اتنا شوق کس لئے؟ شاید ہر مرد یہ چاہتا ہے کہ وہ جس عورت سے محبت کرے وہ تو ہمیشہ اس کی بےدام غلام بن کر رہے یعنی جس پر اپنی مہر لگادی وہ ہمیشہ اس کی رہے جبکہ مرد خود جہاں چاہے منہ مارتا پھرے۔ ویسے عورتوں کے لئے بھی کچھ ایسے نسخے ٹوٹکے ہیں کہ جن پر عمل کرکے مرد کو اپنا بے دام غلام بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن خیر ہم کو کیا!
مغربی ممالک میں تو جھائو چوہا لوگ بطور پیٹ پالتے ہیں اور اس کی خوراک باقاعدہ کتے بلی کی خوراک کی طرح پیکٹوں میں تیار ملتی ہے۔
بہرحال جو بھی ہے لیکن شعور آنے کے بعد مجھے آج تک شدید افسوس اور پچھتاوا ہوتا ہے کہ کاش دادا جان نے اس چوہے کو اتنے ظالمانہ طریقے سے نہ مارا ہوتا۔
شاید آپ کو یقین نہ آئے کہ چھپکلیوں سے بڑا زبردست تیل بنتا ہے۔ ایک مرض ہوتا ہے خنازیر۔ جس میں گلے کے غدود پھول کر پوری گردن پر گول گول گانٹھیں جیسی ہوجاتی ہیں جو پک کر پھوٹ جاتی ہیں جن سے مواد بہتا رہتا ہے۔ بڑا غلیظ اور ڈھیٹ مرض ہے جس کے علاج سے اطبا عاجز ہیں۔ یہ چھپکلیوں کا تیل یا مرہم اس کا شافی علاج ہے۔ اسی طرح وہ گلے سڑے زخم جو کسی دوا سے ٹھیک نہ ہوتے ہوں اور ڈاکٹر عضو کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوں وہاں یہ مرہم معجزے کا کام دیتا ہے۔
ترکیب بڑی آسان ہے۔ چار پانچ چھپکلیاں ماریں اور ان کو فورا" ہی پائو بھر سرسوں کے تیل میں جلا کر کوئلہ کرلیں۔ اب ان جلی ہوئ چھپکلیوں کو تیل میں گھوٹ کر مرہم بنا لیجئے۔ زخم پر لگا کر اوپر روئ کا پھاھا رکھ کر پٹی باندھ دیجئے۔ گارنٹڈ علاج ہے۔
اللہ کی شان!
کچھ حکیم لوگ ان چھپکلیوں سے جزام اور آتشک کی خوردنی دوا بھی بناتے ہیں۔
گرگٹ کا تیل:
1920 میں انڈیا میں چھپنے والی ایک ویدک مرکبات کی کتاب ھاتھ لگی- اس میں گنج پن کا ایک نسخہ یہ لکھا گیا تھا کہ ایک عدد گرگٹ مار کر اس کو پاؤ بھر تل کے تیل میں جلا کر کوئلہ کرلیں- اب یہ تیل روزانہ گنج پن پر مساج کیجئے- کتاب میں بھرپور دعوے کے ساتھ لکھا تھا کہ یہ تیل سر تو کیا ہتھیلی اور ناک تک پر بال اگادیتا ہے-
کہنے کا مقصد
یہ ہے کہ اللہ تعالی نے کوئ بھی چیز بیکار پیدا نہیں کی ہے۔ اب یہ حضرت انسان کا کام ہے کہ تجربات اور کھوج کرے اور انہیں اپنے فائدے کے لئے استعمال میں لائے۔