1884 میں شکاگو میں مزدورں کا آٹھ گھنٹے کام کے اوقات کار کا مطالبہ تو پورا ہو گیا اور پھر یکم مئی یوم مزدور کے طور پر منایا جانے لگا۔ لیکن سرمایہ دار طبقہ کی بالادستی اور مزدور کے استحصال کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مزدور اور کسان کا استحصال کرنے، سرمایہ دار اور بورژوا طبقے کو تخفظ فراہم کرنے کے پیچھے ریاست ہوتی ہے۔ ماں جیسی ریاست قبضہ گیروں اور مافیہ کو تخفظ فراہم کرتی ہے اور حق مانگنے والوں کی آوازوں کو کچل دیتی ہے۔ پاکستان میں ریاست خود قبضہ گروپ کی شکل اختیار کیے ہوۓ ہے اور غریب عوام پہ ہونے والے ظلم کو اسکی پشت پناہی حاصل ہے۔ ریاست کا چوتھا ستون بھی مظلوم طبقات کا ترجمان بننے کی بجاۓ سرمایہ داروں اور امراء کیلئے کام کرتا ہے کیونکہ میڈیا کا کاروبار انہی سرمایہ داروں کی بدولت چل رہا ہے۔ میڈیا 24 گھنٹے رجعت پسند نظریات، پروپیگنڈا اور سرمایہ دارانہ اقدار کے فروغ میں لگا رہتا ہے اور اپنے حقیقی صحافتی فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہے۔ مظلوم، پسے ہوۓ طبقات اور محنت کشوں کی آواز بننے کی بجاۓ سرمایہ داروں کے لیے کام کرنے کو کاروبار تو کہا جا سکتا ہے لیکن صحافت نہیں۔
ملک ریاض جیسے سرمایہ داروں کے حکم پر غریبوں کی زمینوں پر قبضہ کیا جاۓ تو میڈیا ایک خبر تک چلانے کی جرآت نہیں کرتا۔ سرمایہ داروں کے ناجائز قبضے اور غریب کے استحصال پر دائیں بازو کی مرکزی سیاسی جماعتیں (اپوزیشن+ حکومت) ، عدلیہ، فوج سمیت ہر حکومتی ادارہ خاموش رہتا ہے۔ سابق فاٹا سے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور بعض ترقی پسند و بائیں بازو کی سماجی تنظیموں کے ارکان کے علاوہ کوئی ان قبضہ گروپوں کے خلاف نہیں بولتا۔ سیاسی جماعتوں، عدلیہ، فوج اور میں سٹریم میڈیا کی مجرمانہ خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ظلم اور استحصال کو کندھا دیے ہوۓ ہیں۔ ٹی وی سکرینوں سے ترقی پسند سوچ یا انسانی حقوق کی آواز نہیں بلکہ مذہبی منافرت اور نفرت کا پرچار کیا جاتا ہے۔
ہمارا میڈیا بھارت میں کسانوں کے اختجاج پر تو خبریں چلاتا ہے لیکن پاکستان میں ہونے والے اختجاج اور محنت کشوں کی ہڑتالوں کو جتنی میڈیا کوریج ملتی ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ فیکٹریوں میں مزدور مر جائیں لیکن ریاست پھر بھی سرمایہ داروں کے مفادات کی مخافظ ہے۔ آگ لگنے سے سینکڑوں مزدور جھلسں جائیں، بلوچستان کی کانوں میں کان کن مارے جائیں لیکن کوئی جواب دہ نہیں. کارخانوں میں لیبر قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ سرمایہ دار "کام زیادہ اور اجرت کم" کی پالیسی کے تحت غریبوں کا استحصال کر رہے ہیں. چائلڈ لیبر میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ پرولتاریہ کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھانے والے بورژوا مسلسل انکا استحصال کر رہے ہیں۔ سوشل سیکیورٹی کے قوانین ، اجرت کا تعین، کام کے اوقات کار میں بے ضابطگیاں، حادثات یا تشدد کی صورت میں آۓ روز محنت کشوں اور مظلوموں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کیلئے کوئی جواب دہ نہیں۔ ان مظلوموں کی آواز بننے والوں پر دہشت گردی کے مقدمات چلاۓ جائیں گے جب کہ ظالموں کو تخفظ دیا جاتا ہے۔ ہڑتالوں یا اختجاج کی صورت میں ضیاء دور کی طرح گولیاں برسائی جائیں گی لیکن ریاست انصاف نہیں دے گی۔
ایڈم سمتھ نے کہا تھا کہ ریاست " حقیقت میں غریبوں کے خلاف امیروں کے دفاع کے لیے قائم کی گئ" ۔ اور ہم نے اس کی تازہ مثال سندھ میں بحریہ ٹاؤن کے غیر قانونی قبضوں کی صورت میں دیکھی ہے اور ایسی کئ مثالیں ہمیں روز دیکھنے کو ملتی ہیں۔
ہر سال یوم مزدور پر دو چار رسمی باتیں کر دی جاتی ہیں مگر آجر، مزارع، بھٹہ مزدور اور کسانوں کو اپنے حقوق نہیں مل سکے۔ سو اس ظلم کی بستی میں ایک انسان دوست اور اشتراکی سماج کا قیام فقط خواب ہے۔