مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ میں ایک کند ذہن شخص ہوں۔ اللہ کو جان دینی ہے۔ سچ بولنا چاہیے۔ اول تو معاملات سمجھ ہی میں نہیں آتے اور آئیں بھی تو بہت دیر سے آتے ہیں۔ میری مثال سچ پوچھیے تو اُس شخص کی ہے جو لطیفہ سنتا تھا تو دو بار ہنستا تھا۔ پہلی بار اس لیے کہ سب ہنستے تھے۔ دوسری بار تب جب اُسے لطیفہ سمجھ میں آ جاتا تھا۔
بتانا یہ چاہتا ہوں کہ ایم کیو ایم کی قبولیتِ عامہ کا سبب ایک عرصہ تک سمجھ میں نہ آیا۔ حیران ہوتا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اس نے پنجاب‘ خیبرپختونخوا‘ بلوچستان اور دیہی سندھ میں بڑے بڑے بُرج اُلٹ دیے۔ شہروں میں تو زبردست مقبولیت تھی ہی‘ چھوٹے چھوٹے قصبوں اور قریوں میں بھی ہر چوپال پر‘ ہر دکان پر‘ ہر دیوار پر قائدِ تحریک کی تصویر لگی نظر آتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ حق پرست تحریک برادری ازم کو کھا گئی۔ گجرات سے چودھری ایم کیو ایم کے امیدواروں کے ہاتھوں ہار گئے۔ رائے ونڈاور ماڈل ٹائون کی نشستیں بھی اس نے جیت لیں۔ چار سدہ سے ولی خان خاندان کی آبائی نشست بھی اس کے ہاتھ آئی۔ راولپنڈی سے شیخ رشید‘ مری سے خاقان عباسی‘ ڈی آئی خان سے مولانا فضل الرحمن‘ ملتان سے قریشی‘ ہاشمی اور گیلانی خانوادے… غرض سب پِٹ گئے۔ ہر طرف ایم کیو ایم ہے۔ جو لوگ اسے صرف کراچی اور حیدرآباد کی جماعت کا طعنہ دیتے تھے‘ انہوں نے منہ کی کھائی‘ رُسوا ہوئے اور جیتے جی گوشۂ گمنامی میں چلے گئے۔
یہ تو اب سالہا سال کے مشاہدے اور مطالعے کے بعد مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس جماعت کی پالیسیاں گہرے غوروفکر کے بعد بنائی جاتی ہیں۔ حکمت اور دانائی کے رموز ان پالیسیوں میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جماعت ہر صوبے‘ ہر خطے‘ ہر علاقے میں فتح کے پھریرے اڑاتے آ جاتی ہے۔ مخالفین انگاروں پر لوٹنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ جو ایم کیو ایم نے تازہ بیان دیا ہے‘ یہ ان کی حکمت اور دانائی سے لبا لب بھری پالیسیوں کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ ایم کیو ایم نے ملک کے بے خبر عوام کو اطلاع بہم پہنچائی ہے کہ جنرل پرویز مشرف پر اس لیے مقدمہ چلایا جا رہا ہے کہ وہ مہاجر ہیں‘ اس زبردست ناقابلِ تردید حقیقت کے انکشاف کے بعد ایم کیو ایم کے مخالفین میں صفِ ماتم بچھ گئی ہے۔ ان مخالفین کی رہی سہی چند نشستیں بھی ایم کیو ایم والے جیت جائیں گے۔
ایم کیو ایم نے بالکل سچ کہا ہے کہ پرویز مشرف بیچارے اس لیے تختۂ مشق بنائے جا رہے ہیں کہ وہ مہاجر ہیں اور ستم بالائے ستم دیکھیے کہ سارے مہاجروں کو ایک طرف کردیا گیا ہے تاکہ ان پر ظلم و ستم کرنے میں آسانی ہو۔ ان مہاجروں میں احمد رضا قصوری سے لے کر چودھری شجاعت حسین تک سب شامل ہیں۔ یہ مہاجر اگر پرویز مشرف کا ساتھ نہ دیتے تو خدا جانے بیچارے پرویز مشرف کا کیا حشر ہوتا۔ احمد رضا قصوری ہی کو لیجیے‘ پکے مہاجر ہیں۔ لکھنؤ میں پیدا ہوئے‘ دلی میں پلے بڑھے۔ قصوری نام کے ساتھ ضرور لکھتے ہیں لیکن اس کی نسبت اُس قصور سے نہیں جو پنجاب میں لاہور کے قریب واقع ہے۔ انہیں قصوری اس لیے کہتے ہیں کہ ان سے قصور بہت سرزد ہوتے ہیں۔ جنرل صاحب کے دوسرے وکیل جناب ابراہیم ستی بھی مہاجر ہیں۔ ستی قبیلہ مری کے قرب و جوار میں آباد ہے لیکن ابراہیم ستی رام پور کے ہیں۔ ہو سکتا ہے انہیں ستی اس لیے کہا جاتا ہو کہ ان کے بزرگوں نے ہندوئوں کی قبیح رسم ستی کی مخالفت کی تھی!
چودھری شجاعت صاحب ڈنکے کی چوٹ جنرل صاحب کی حمایت میں باہر نکلتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ آئین شکنی اور غداری میں فرق ہونا چاہیے۔ چودھری صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر غداری کا مقدمہ پرویز مشرف صاحب پر چلانا ہے تو مجھ پر بھی چلایئے۔ آخر کوئی غیر مہاجر اتنی شدومد کے ساتھ ایک مہاجر کی ہم نوائی کیوں کر کر سکتا ہے؟ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ چودھری صاحب سکہ بند مہاجر ہیں۔ اصلاً پٹنہ سے ہیں‘ نستعلیق اردو بولتے ہیں۔ سالہا سال پنجاب میں رہنے کے باوجود پنجابی روانی سے نہیں بول پاتے۔
کچھ عقل کے اندھے اعتراض کر رہے ہیں کہ دس سال جب جنرل پرویز مشرف اس ملک میں سیاہ و سفید کے مالک رہے اور جو چاہا‘ کرتے رہے‘ تو اس وقت ایم کیو ایم نے ان کے مہاجر ہونے کا نعرہ کیوں نہیں لگایا۔ ان کم فہم حضرات سے کوئی پوچھے کہ بے وقوفو! اگر اس وقت ایم کیو ایم پرویز مشرف کے مہاجر ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتی تو عوام کو معلوم ہو جاتا کہ وہ مہاجر ہیں‘ اور یوں عوام اور سیاسی جماعتیں اُن کا اقتدار ختم کر دیتیں‘ ایک پورا عشرہ حکومت وہ اسی لیے کر گئے کہ ان کے مہاجر ہونے کا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو علم ہی نہ تھا۔ صرف انہی کا کیا‘ ان کے تمام دوستوں کے مہاجر ہونے کا کسی کو علم نہ ہو سکا۔ یہ امیر مقام‘ یہ سمیرا ملک‘ یہ زاہد حامد‘ یہ فیصل صالح حیات‘ یہ ڈاکٹر شیرافگن نیازی‘ یہ چودھری پرویزالٰہی‘ یہ اعجاز الحق‘ یہ عمر ایوب خان۔ یہ سب جو اُن کے ساتھ تھے‘ مہاجر ہی تو تھے۔ پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں ایم کیو ایم
نے اس لیے چُپ سادھے رکھی کہ کہیں حقیقت کا علم ہونے پر ایک مہاجر کا اقتدار رخصت نہ ہو جائے۔
یہاں ایک راز کی بات یہ بھی بتا دوں کہ یہ جو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ایم کیو ایم کی حمایت کی جاتی ہے تو یہ بھی مہاجر ہونے ہی کا شاخسانہ ہے۔ حسن نثار ایم کیو ایم کے حق میں لکھتے ہیں‘ اس لیے کہ پکے مہاجر ہیں۔ علی گڑھ میں پیدا ہوئے‘ جونپور میں تعلیم پائی۔ نذیر ناجی میرٹھ سے ہیں۔ ہارون الرشید آگرہ کے ہیں۔ گورکھپور میں پڑھتے رہے۔ اگر یہ لوگ پنجابی ہوتے تو ایم کیو ایم کے حق میں کبھی نہ لکھتے!
آج جنرل مرزا اسلم بیگ اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے بزرگ جنرل پرویز مشرف کی قسمت پر رشک کر رہے ہیں کہ ایم کیو ایم ان کی حمایت پر کمربستہ ہے۔ رشک بجا‘ لیکن اگر جنرل بیگ اورڈاکٹر اے کیو خان یہ کہیں کہ وہ بھی تو مہاجر تھے۔ ایم کیو ایم نے ان کی حمایت کیوں نہ کی؟ آخر جنرل بیگ کئی بار عدالتوں میں حاضر ہوئے۔ میڈیا نے بھی انہیں بہت پریشان کیا۔ ڈاکٹر خان سے بھی زیادتی ہوئی‘ انہیں نظر بند رکھا گیا اور قریبی اعزہ سے بھی ملنے نہ دیا گیا۔ تو ان بزرگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ قطعاً مہاجر نہیں۔ مہاجر ہوتے تو ایم کیو ایم ان کے حوالے سے بھی مہاجر کارڈ نکال لیتی۔ جنرل مرزا اسلم بیگ صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ وہ تو چکوال کے ہیں۔ رہے ڈاکٹر خان تو اہلِ خبر کو معلوم ہے کہ ان کا تعلق ساہی وال سے ہے!