سائنسی نظریات قابل امتحان ہیں۔ نئے ثبوت ایک نظریہ کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہئے. اگر ایسا نہیں ہے تو نظریہ کو بہتر یا مسترد کر دیا جاتا ہے۔ کسی نظریہ کے مرکزی عناصر جتنے زیادہ طویل ہوتے ہیں ، یہ جتنے زیادہ مشاہدات کی پیشین گوئی کرتا ہے اور جتنے زیادہ امتحانات میں گزرتا ہے، اتنے ہی زیادہ حقائق کی وضاحت کرتا ہے اور اسطرح کوئی نظریہ اتنا ہی مضبوط ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں سائنسی نظریے کا تصور کچھ اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ سب سے پہلے کوئی سائنسدان اٹھ کر یونہی کوئی بات کہہ دیتا ہے اور اسے مفروضہ بنا دیتا ہے پھر وہ اس مفروضے کے حق میں دلائل دیتا ہے تو یہ تھیوری بن جاتی ہے اور اس کے بعد وہ اسے ثابت کرتا ہے تو یہ حقیقت کہلاتی ہے۔ لیکن سائنسی تھیوری کی نویں جماعت کی یہ کتابی تعریف اور اصل سائنس کی دنیا میں استعمال کی جانے ولی سائنسی تھیوری میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ سائنسی طرز استدلال (یعنی تھیوری) میں لفظ مفروضہ کسی سائنسدان کی چھٹی حس کا نام نہیں ہے۔ مفروضہ، معلق ہوا میں نہیں ہوتا کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ سائنس کی دنیا کچھ معلوم حقائق یا اصولوں پر کھڑی ہے۔ ان اصولوں، تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر کسی بھی نامعلوم سے متعلق ایک مفروضہ قائم کیا جاتا ہے۔ یہ مفروضہ معلوم حقائق اور اصولوں کی روشنی میں ہوتا ہے۔ اس نامعلوم سے متعلق پھر دلائل او رثبوتوں کی تلاش ہوتی ہے۔ یہ دلائل اورثبوت پھر آگے بڑھ کر اس مفروضے کو تقویت بخشتے ہیں اور اس اثبات اور نفی کے ایک پراسس کو ہم تھیوری کی شکل میں دیکھتے ہیں۔
نئے نظریات سائنسدانوں کو نئی پیشین گوئیاں کرنے کی اجازت دیتے ہیں (یعنی اگرکرکے کوئی نئی بات اور پھر مشروط تجویزیں ) ، کچھ مفروضوں کو ظاہر کرنے اور جانچنے اور اضافی ڈیٹا کی تصدیق یا تردید جمع کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔ اس کے بعد نظریات بیک وقت انڈکٹیو (استقرائی) سائنس کا ایک اختتامی نقطہ اور ڈیڈکٹو (قیاسی) سائنس کا نقطہ آغاز ہیں، لیکن ایسا قیاس جو تجرباتی عمل سے ثابت ہو۔
ایک نظریہ نہ صرف معلوم حقائق کی وضاحت کرتا ہے بلکہ یہ سائنس دانوں کو یہ پیشین گوئی کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے کہ اگر کوئی نظریہ درست ہے تو انہیں کیا مشاہدہ کرنا چاہیے۔ سائنسی نظریات قابل امتحان ہیں۔ نئے ثبوت ایک نظریہ کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہئے
سائنس میں جب ہمارے پاس دلائل یا حقائق موجود ہوں تو ہم ان کی مخصوص تعبیر کرتے ہیں یہ مخصوص تعبیر جو کہ دلائل اور ثبوتوں کی بنیاد پر ہوتی ایک نظریے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ سائنسی طرز استدلال میں حقیقت اور نظریہ دو مختلف چیزیں ہیں۔
آج چند بنیادی سائنسی تھیوری یا نظریات کی بدولت ہم ان سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں یا کم از کم کوشش کر سکتے ہیں، جنہوں نے صدیوں سے انسان کو پریشان کررکھا ہے۔ ان جوابات نے ہمارا کائنات کے بارے میں اور خود اپنی روزمرہ زندگی کے بارے میں تصور بدل کر رکھ دیا ہے۔ آج ہم جن چیزوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے وہ بھی بنیادی سائنس اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں اور یہ دونوں ایک دوسرے کو آگے بڑھاتی ہیں۔
تقریباً ہر ایجاد کے پیچھے ایک یا ایک سے زیادہ بنیادی تھیوریز اور دریافتیں ہوتی ہیں۔ بعض اوقات یہ بنیادی دریافت صدیوں پرانی ہوتی ہے،لیکن وقت کی گرد کے تحت لوگ اسکو فراموش کردیتے ہیں۔ لیکن کسی سائنسدان کی محنت کے سبب وہ دوبارہ سے لوگوں میں عام ہوجاتی ہے۔
ان پچھلے دو تین سو سالوں میں سائنس میں کئی بڑے لمحے آئے۔ جیسے ڈی این اے کی ساخت کی دریافت۔ لیکن خود یہ دریافت بھی ڈارون اور مینڈل کی وجہ سے ممکن ہو سکی اور اس نے بعد میں بائیو ٹیکنالوجی کے دروازے کھول دیے۔ آج ہم انسان کے مکمل ڈی این اے (جسے ‘جینوم’ کہتے ہیں) کا آسانی سے جائزہ لے سکتے ہیں۔
اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملی ہے کہ جینیاتی بیماریاں کیسے لاحق ہوتی ہیں اور انھیں کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں سائنس دانوں نے ایک بچی کے جینز میں تبدیلی لا کر اسے لاحق کینسر کا مرض دور کر دیا۔تاہم انسانی جینوم اس قدر پیچیدہ ہے کہ ہم نے یہ سمجھنا ابھی حال ہی میں شروع کیا ہے کہ جین کیسے ماحول کے ساتھ مل کر ہمارے جسم کا نظام چلاتے ہیں۔
بگ بینگ تھیوری نے ہمیں بتایا کہ کائنات کیسے وجود میں آئی۔ سو ڈیڑھ سو سال قبل اس سوال کا جواب صرف مذہب ہی دے سکتا تھا۔
جب ہمیں پتہ چلا کہ کائنات جامد نہیں ہے بلکہ مسلسل پھیل رہی ہے اور کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہٹتی جا رہی ہیں، تو اس سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ آغاز میں تمام مادہ ایک ہی جگہ پر مرکوز تھا اور کائنات ایک عظیم دھماکے کے نتیجے میں وجود میں آئی۔
آج کے دور کی ایک انتہائی عام چیز یعنی سمارٹ فون بھی کئی بنیادی دریافتوں کی مرہونِ منت ہے۔ اس کے اندر موجود کمپیوٹر انٹی گریٹڈ چپ کی مدد سے کام کرتا ہے۔ خود انٹی گریٹڈ چپ ٹرانزسٹروں سے بنی ہوتی ہے، جن کی دریافت کوانٹم مکینکس کی تفہیم کے بغیر ممکن نہیں تھی۔
فون کے اندر موجود جی پی ایس آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت میں وقت کے تصور کی تفہیم پر کام کرتا ہے۔ حالانکہ ایک زمانے میں لوگوں کا خیال تھا کہ یہ نظریہ عام زندگی پر کوئی اثر نہیں ڈال سکے گا۔
ایسی ہی چند طاقتور تھیوریز ہیں جو اپنے وقت سے بہت پہلے چند زہین ترین سائنسدانوں کے زرخیز زہن میں ابھریں اور انکو پیش کیا گیا، لیکن یہ اتنی طاقتور ہیں کہ یا تو انکو بغیر ثبوت پیش کیے دنیا کے سامنے رکھا گیا، یا پھر انتظار کیا گیا کہ مناسب وقت تک انکے ثبوت خود ہی دنیا کے سامنے آجائیں گے اور پھر یہ تھیوریز تجرباتی بنیاد پر تصدیق شدہ ہوجائیں گی، لیکن یہ اتنی طاقتور اور جامع تھیں کہ لوگ انکو مسترد کرہی سکے اور انکو تسلیم کرتے ہیں بن پڑی۔ ان تھیوریز میں
بلیک ہول کی تھیوری جو 1916 میں تجویز کی گئی، لیکن 55 سال بعد 197ٍ1 میں پہلی دفعہ بلیک ہول کی تصدیق ہوئی
1928 میں ضد مادہ یعنی اینٹی میٹر کی تھیوری پیش کی گئی اور اسکے چار سال بعد 1932 میں اسکی تجرباتی تصدیق ہوئی۔
1964 میں ہگز بوزون (گاڈ پارٹیکلز) کے لیے تھیوری قائم کی گئی ، لیکن اسکے 48 سال بعد ہی 2012 اسکی تجرباتی تصدیق ہوسکی۔
ثقلی لہروں کے بارے میں آئن شٹائن نے اپنی اضافیت کی تھیوری میں 1916 میں انکی موجودگی کا مفروضہ پیش کیا تھا، لیکن پہلی دفعہ تجرباتی تصدیق 99 سال بعد 2015 میں ہوئ، یعنی قریبا سو سال تک ثقلی لہروں کے بغیر تجربہ کے ثبوت کے تسلیم کیا گیا۔
اسی طرح ارتقاء کی تھیوری بھی ایک سائنس کی مستند ترین اور معتبر ترین طاقتور تھیوری ہے جو چارلس ڈارون نے 1859 میں اپنی کتاب “انواع کے ماخذ origin of species ” میں پیش کی تھی، لیکن ڈارون نے جو ثبوت پیش کیے تھے اور نامکمل تھے اور کہیں کہیں سائنسی کمیونٹی نے مسترد بھی کیے۔ پھر بھی یہ ارتقاء کی تھیوری مکمل طور پر رد نہیں کی گئی اور آنے والے کئی سالوں میں ڈارون کے بعد بھی کئی سائنسدانوں نے اسکے مختلف پہلوؤں سے اس تھیوری کی تجرباتی تصدیق کرتے رہے ۔ اب اس تھیوری کے اتنے تجرباتی ثبوت سامنے آچکے ہیں کہ گزشتہ 163سالوں میں شائد ہی سائنسی تھیوری ایسی ہوگی جو اتنے ثبوتوں کے ساتھ ثابت ہے اور دنیا کے کثیر تعداد کے سائنسدان اس تھیوری پر متفق ہیں۔
علامہ اقبال يا اکبر علی ايم اے اصل رہبر کون؟
کسی بھی قوم کا اصل رہبر کون ہوتا ہے خواب بیچنے والا شاعر يا حقیقت کو سامنے رکھ کر عملیت...