کیا ڈارک میٹر کا واقعی کوئی وجود ہے؟
ترجمہ: قدیر قریشی
اگست 25، 2018
ڈارک میٹر کی پیش گوئی نظریہ اضافت اور نیوٹن کے کششِ ثقل کے قوانین دونوں سے ہوتی ہے- اگر ہم نظامِ شمسی کے سیاروں کی سورج کے گرد مداری حرکت کی رفتار کا مشاہدہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ جو سیارہ نظامِ شمسی کے مرکز یعنی سورج سے جتنا زیادہ دور ہے اتنی ہی سست رفتاری سے وہ اپنے مدار میں حرکت کر رہا ہے- اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ کسی سیارے کا سورج سے فاصلہ جس قدر زیادہ ہو گا، سورج کی کششِ ثقل اس فاصلے کے مربع کے معکوس تناسب سے کم ہوتی جائے گی- اگر سورج کا ماس دگنا ہو جائے تو ان سیاروں کی حرکت کی رفتار بھی دگنی ہو جائے گی- یہ نتیجہ ہم نیوٹن کے قوانین سے بھی اخذ کر سکتے ہیں اور نظریہِ اضافت سے بھی- لیکن کہکشاؤں کے مشاہدے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کہکشاؤں کے مرکز سے دور ستارے بھی تقریباً اسی رفتار سے کہکشاں کے مرکز کے گرد گھوم رہے ہیں جس رفتار سے مرکز کے قریب ستارے گھوم رہے ہیں- اگر ہم کہکشاں کے تمام ستاروں کا ماس کیلکولیٹ کریں تو نظریہ اضافت اور نیوٹن کے قوانین کی رو سے ان دور دراز کے ستاروں کو بہت سست رفتار ہونا چاہیے تھا- اگر نظریہ اضافت درست ہے اور ان ستاروں کی مشاہدہ شدہ رفتار بھی درست ہے تو اس کا لازم نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کہکشاؤں کا کل ماس نظر آنے والے ستاروں کے ماس سے کہیں زیادہ ہے- اس نظر نہ آنے والے ماس کے حامل مادہ کو ڈارک میٹر کا نام دیا گیا ہے- سوال یہ ہے کہ کیا ڈارک میٹر واقعی موجود ہے یا ڈارک میٹر کی پیش گوئی کرنے والے نظریات غلط ہیں–
نظریہ اضافت کو بہت سے تجربات میں انتہائی حساس آلات کے ساتھ پرکھا جا چکا ہے اور اس نظریے کی تمام پیش گوئیاں تمام حالات میں درست ثابت ہوئی ہیں- ہم نے نظریہ اضافت کی پیش گوئیوں کو نظامِ شمسی کے سیاروں، دور دراز کے ستاروں، مصنوعی سیاروں کے علاوہ لیبارٹری کے تجربات میں ٹیسٹ کیا ہے اور ہر دفعہ اس نظریے کو درست پایا گیا ہے- بات خواہ مصنوعی سیاروں کے مدار کی ہو، فلکی اجسام کے ماس کی وجہ سے وقت کی رفتار میں تبدیلی کی (جسے gravitational time dilation کہا جاتا ہے)، دوسرے فلکی اجسام سے زمین پر موصول ہونے والے ریڈیو سگنلز میں پائی جانے والی delay کی، binary pulsar ستاروں کے مدار کی تبدیلی کی، یا نیوٹران ستاروں کے ضم ہونے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ثقلی لہروں کی، اس نظریے کی پیش گوئیوں کو ہمیشہ درست پایا گیا ہے–
لیکن اب اس مسئلے کا کیا علاج کیا جائے کہ کہکشاؤں میں ستاروں کی مداری حرکات کی رفتار اس نظریے کی پیش گوئی کے مطابق نہیں ہے- جب ایسا نظریہ جسے ہزاروں دفعہ پرکھا جا چکا ہو اور اس نے ہر دفعہ درست نتیجہ دیا ہو کسی ایک مخصوص مظہر کے بارے میں بظاہر غلط پیش گوئی کرے تو کیا کرنا چاہیے؟ اس صورت میں دو امکانات ہو سکتے ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے ہم سائنس کی تاریخ کے دو قصوں پر نظر ڈالتے ہیں- ان میں سے ایک زحل کے مدار سے باہر یورینس سیارے کی دریافت ہے اور دوسری عطارد کے مدار کے اندر وولکن نامی سیارے کی موجودگی کی پیش گوئی–
اٹھارویں صدی میں نیوٹن کے کششِ ثقل کے قوانین پر بہت سا کام ہو رہا تھا اور انہیں سو فیصد درست تسلیم کیا جاتا تھا- ان قوانین کی مدد سے سیاروں کے مدار یعنی ستاروں کی پوزیشن کی کئی دہائیوں پہلے پیش گوئی کی جا سکتی تھی- تاہم زحل سیارے کا مشاہدہ شدہ مدار نیوٹن کے قوانین کی رو سے پیش گوئی کردہ مدار سے مختلف تھا- چونکہ سائنس دانوں کو اس بات پر پورا اعتماد تھا کہ نیوٹن کے قوانین کی پیش گوئیاں درست ہوتی ہیں چنانچہ زحل کے مدار کے بارے میں اکثر سائنس دانوں کی رائے یہ تھی کہ زحل کے مدار پر کسی ان دیکھے سیارے کی کششِ ثقل کا اثر ہے- چنانچہ نیوٹن کے قوانین کی ہی مدد سے سائنس دانوں نے زحل کے مدار میں مشاہدے اور پیش گوئی کے فرق کا تجزیہ کیا گیا اور ایک نئے مفروضاتی سیارے کی پوزیشن کی پیش گوئی کی گئی جس کی وجہ سے زحل کا مدار پیش گوئیوں سے مختلف پایا گیا تھا- چنانچہ اس پیش گوئی کے عین مطابق 1781 میں ایک نیا سیارہ دریافت کر لیا گیا جس کا نام یورینس رکھا گیا–
اس کے تقریباً سو سال بعد سائنس دانوں کو اسی قسم کے ایک اور مسئلے کا سامنا کرنا پڑا- اس زمانے کی جدید ترین دوربینوں سے کیے گئے مشاہدات سے یہ معلوم ہوا کہ سورج کے قریب ترین سیارے یعنی عطارد کا مدار بھی پیش گوئیوں سے کچھ مختلف ہے- اس کے مدار میں بھی کسی وجہ سے مسلسل تبدیلی آ رہی تھی جو نیوٹن کے قانون کے مطابق نہیں ہونی چاہیے تھی- بہت سے سائنس دانوں کا خیال تھا کہ اس فرق کی وجہ ایک ایسا سیارہ تھا جو عطارد کی نسبت سورج کے بہت زیادہ قریب تھا لیکن سورج کی چمک کی وجہ سے اسے دیکھنا ناممکن تھا- اس ممکنہ سیارے کو وولکن کا نام دیا گیا- لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا- اس دفعہ سائنس غلط تھی- نیوٹن کے قوانین اتنے درست تو ہیں کہ عمومی طور پر درست نتائج دیتے ہیں لیکن سو فیصد درست نہیں ہیں- سورج کے بہت نزدیک (جہاں عطارد ہے) سورج کی کشش اتنی زیادہ ہے کہ نیوٹن کے قوانین وہاں درست پیش گوئی نہیں کر سکتے- اس کے برعکس آئن سٹائن کا نظریہِ اضافت اس حالت میں بھی درست پیش گوئیاں کرتا ہے اور عطارد کے مدار سے متعلق اس نظریے کی پیش گوئی عطارد کے مشاہدہ کردہ مدار کے عین مطابق ہے- دوسرے الفاظ میں نیوٹن کا نظریہ غلط ثابت ہوا اور ایک بہتر نظریہ میسر آ گیا جس کی رو سے عطارد کا مدار پیش گوئی کے عین مطابق ہے–
آج ہم کاسمالوجی میں بھی اسی قسم کے مسئلے سے دوچار ہیں- ہمارے کچھ مشاہدات ہمارے نظریات کی پیش گوئیوں سے مطابقت نہیں رکھتے- لیکن اس صورت میں پیش گوئی اور مشاہدات میں فرق معمولی نہیں بلکہ بہت ہی زیادہ ہے- نظریہِ اضافت تو دور کی بات ہے، اگر ہم نیوٹن کے قوانین استعمال کریں تو بھی پیش گوئی اور مشاہدات میں فرق بہت زیادہ ہے اور کائناتی فاصلوں پر دونوں نظریات غلط پیش گوئیاں کرتے نظر آتے ہیں- اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سائنس دان ہر ممکنہ حل پر کام کر رہے ہیں- ماہرین کی ایک کثیر تعداد ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کو درست حل تسلیم کرتی ہے کیونکہ ان کے استعمال سے فزکس کے ماڈلز کی پیش گوئیاں مشاہدات کے عین مطابق ہو جاتی ہیں- لیکن ہمیں یہی نہیں بھولنا چاہیے کہ عطارد کے مدار میں مشاہدات اور پیش گوئیوں کے فرق کو مٹانے کے لیے وولکن سیارے کی مجوزہ موجودگی بھی پیش گوئیوں کو مشاہدات کے عین مطابق بنا دیتی تھی- تاہم اس صورت میں وولکن سیارے کی موجودگی کی تجویز درست ثابت نہیں ہوئی–
چنانچہ جب تک ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کا براہِ راست مشاہدہ نہیں ہوتا تب تک انہیں محض ایک مفروضہ سمجھنا ہی درست ہے اور مشاہدات اور نظریاتی پیش گوئیوں کے فرق کو دور کرنے کے لیے ڈارک میٹر کے علاوہ دوسرے مفروضات کی طرف بھی دھیان دینا چاہیے جن میں کششِ ثقل کے ماڈلز کو بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے- مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک تجویز کیے گئے تمام ایسے 'بہتر' ماڈل ناکام رہے ہیں- مثال کے طور پر یہ 'بہتر' ماڈل ہمارے نظام شمسی میں ان مظاہر کی توجیہہ میں ناکام رہتے ہیں جن کی توجیہہ نظریہِ اضافت سے بخوبی ہو جاتی ہے، یہ بائنری پلسار ستاروں کے مدار کو درست طور پر ماڈل نہیں کر پاتے، بہت تیز رفتار بنیادی پارٹیکلز مثلاً نیوٹرینوز کے مشاہدات میں time dilation کے مظہر کی وضاحت نہیں کر پاتے اور روشنی اور ثقلی لہروں کی یکساں رفتار کی وضاحت نہیں کر پاتے اگرچہ یہ تمام مظاہر مشاہداتی طور پر تسلیم کیے جا چکے ہیں- چنانچہ فی الوقت ڈاک میٹر ہی اس مظہر کا بہترین ماڈل ہے اگرچہ ڈارک میٹر کا براہِ راست مشاہدہ ابھی تک نہیں ہوا اور نہ ہی کوانٹم فزکس کا کوئی مفروضہ موجود ہے جو ڈارک میٹر کو بنیادی ذرات کی رو سے بیان کر سکے–
آرٹیکل کا لنک
https://www.quora.com/Is-general-relativi…/…/Viktor-T-Toth-1
اردو زبان میں سائنس کے ویڈیوز دیکھنے کے لیے ہمارا یوٹیوب چینل وزٹ کیجیے
https://www.youtube.com/sciencekidunya
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔