– لبرلزم کا تعارف اور لبرلزم کے سیاسی نظریات ؛
لبرلزم کیا ہے؟ اگر یہ سوال ہمارے ملک کے کسی عام آدمی سے کریں تو زیادہ تر یہی جواب ملے گا کہ یہ کوئی اسلام مخالف نظریہ ہے یا کوئی یہودی سازش ہے، بہت مثبت جواب بھی مل گیا تو وہ یہ ہوگا کہ یہ آزادی اظہار کی بات کرتا ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ جبکہ لبرلزم مکمل ملک چلانے کا نظریہ ہے اور اس تحریر میں اسی مبہم موضوع کو سمجھانے کی کوشش کرونگا۔
– لفظی معنی
لفظ “لبرل” لاطینی لفظ “لبر” سے نکلا ہے جس کے معنی “آزاد” ہیں۔
– تاریخی پسِ منظر
لبرلزم کا آغاز سترویں صدی میں انگلستان سے ہوا یوں تو اس کو ایک نظریے کے طور پر مشہور برطانوی فلسفی جدید تجربیت پسندی کے بانی جون لاک نے پیش کیا لیکن اس نظریے کی غیر مکمل اور ٹوٹی پھوٹی شکل ہمیں قدیم یونانی فلسفیوں کے کام میں بھی نظر آتی ہے۔ تو بات کچھ ایسے شروع ہوتی ہے کہ جب روشن خیالی کا دور شروع ہوا تو بادشاہ کے حکومت کرنے کے حق پر سوال اٹھنے لگے جیسے بادشاہت ہی کیوں ہو؟
بادشاہ کو یہ حق کس نے دیا ہے؟ وغیرہ۔ جس کے جواب میں کتھولک چرچ (جو بادشاہ کی طاقت میں شریک تھا) کہتا آرہا تھا کہ بادشاہ کو حکومت کا اختیار خدا دیتا اور جو اس اختیار کو چلینج کرتا ہے تو وہ درحقیقت خدا کو چلینج کررہا ہے۔ یہ بات قرون وسطیٰ کی معصوم اور انپڑھ عوام کو ڈرانے کے لیے اور بادشاہ کو خدا کا سایہ منوانے کے لیے کافی تھا۔
– رنئیسنس (Renaissance)
لیکن حالات تب بدل گئے جب رنئیسنس کے دور میں ہیومنزم (Humanism) کا فلسفہ سامنے آیا جس کے بطابق انسان ہی ہر چیز کی کسوٹی تھا اور کسی بھی چیز کی اچھائی برائی اسی طرح دیکھی جاسکتی ہے کہ یہ انسان کے لیے کیسی ہے؟ اور جس چیز کو انسان جیسا مانتا ہے وہ چیز ویسی ہی ہے۔ اب بات صرف فلسفے کی ہوتی تو شاید پھر بھی بادشاہت چل جاتی لیکن اس فلسفے سے متاثر ہوکر پروٹسٹنٹزم کے بانی “مارٹن لوتھر” نے بھی یہ کہہ دیا کہ خدا کی نظر میں سب برابر ہیں اور عبادت اور خدا کے قرب کے لیے کسی تیسرے کی ضرورت نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ پوری عیسائی دنیا کی طرح انگلستان پر بھی پروٹسٹنٹزم کے اثرات پڑ رہے تھے۔
ہنری ہشتم کے دور میں انگلستان بھی پروٹسٹنٹزم اختیار کر چکا تھا اور بادشاہ کی طاقت پر سوال اٹھ رہے تھے۔ ویسے تو کنگ جون کے وقت سے ہی بادشاہ کی طاقت کو کم کرنے کی کوششیں ہورہی تھی اور کافی کامیاب بھی رہی۔
– گلوریس روولوشن ( Glorious Revolution)
لیکن اگر کوئی ایک واقعہ دیکھا جائے تو وہ ہوگا “گلوریس روولوشن” جس سے فیصلہ کن طور پر پارلیمنٹ کو بادشاہ سے زیادہ طاقت دی گئی۔ لیکن ابھی ایسے لوگ موجود تھے جو ابھی بادشاہ کے “خدائی اختیارات” کے قائل تھے۔ اسی طرح کے ایک فلسفی سر “روبرٹ فلمر” نے اپنی کتاب “پیٹریارکہ” میں بادشاہ کے اختیارات کا دفاع کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ خدا نے انسان کو زمین پر اپنے چننے گئے لوگوں کی اطاعت کا ہمیں حکم دیا ہے۔ اس کتاب میں مزید دلائل بھی دیے گئے کہ خدا بادشاہ کو ایسا پیدائشی شعور دیتا ہے جو اسے ملک چلانے میں مدد دیتا ہے۔ اسی وقت میں ایک بڑے فلسفی “تھامس ہوبز” نے بھی اپنی کتاب “لِویاتھن” اسی سوال کا جواب کہ کیا چیز حکمران کو حکومت کا حق دیتی ہے؟ دینے کی کوشش کی۔ انہوں نے اس بات پر کہ بادشاہ کا اختیار خدا دیتا ہے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جن بادشاہوں کی حکومت چلی جاتی ہے تو ان کا خدائی اختیار کدھر جاتا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ بادشاہ کی حکومت کرنے کا اختیار خدا کی طرف سے نہیں بلکہ عوام سے آتا ہے۔ جتنے اچھے سے وہ عوام کو پرامن رکھ سکے چاہے جس بھی طریقے سے رکھے۔
– سٹیٹ آف نیچر ( State of Nature )
تھامس ہوبز نے ایک خیالی وقت جب کوئی حکومت نہیں تھی کا ذکر کرتے ہوئے جسے انہوں نے “سٹیٹ آف نیچر” کہا ہے، کہا کہ ایسے حالات میں ہر شخص دوسرے سے حالت جنگ میں ہوگا اور کوئی ترقی نہیں کر پائے نہ ہی کوئی اچھی زندگی جی پائیگا۔ اسی لئے ہم سب انسانوں نے آپس میں امن و امان سے رہنے کا معاہدہ کرلیا ہے اور حکومت کا کام اس معاہدے پر عمل نہ کرنے والوں کو سزا دینا ہے اور اس امن و امان کو برقرار رکھنا ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایسی کتابوں کی اشاعت دیکھتے ہوئے، “جون لاک” نے بھی ایک کتاب بغیر اپنے نام کے چھپوائی جس کا نام تھا “ٹوٹیریٹز آف گورنمنٹ” اس کتاب کے پہلے حصے میں “روبرٹ فلمر” کی کتاب کی جملہ بجملہ نفی تھی۔ انہوں نے فلمر کے دلائل کو مکمل طور پر غلط کہا اور یہ کہا کہ خدا نے ہم سب کو برابر اور کچھ خاص حقوق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ جو ہم سے کوئی نہیں لے سکتا چاہے وہ بادشاہ ہی کیوں نہ ہو۔
لاک نے استدلال کیا کہ حکمران کا حکومت کرنے کا حق عوام سے آتا ہے نہ کہ خدا کی طرف سے اور دوسرے حصے میں تھومس ہوبز کی “سٹیٹ آف نیچر” کو زیر بحث لاتے ہوئے ہوبز کی اس بات سے تو اتفاق کیا کہ حکومت کے بغیر ایک “سٹیٹ آف نیچر” ہو گی لیکن جو بھیانک نقشہ ہوبز نے “سٹیٹ آف نیچر” کا کھینچا۔
لاک نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ بےشک
“سٹیٹ آف نیچر” میں کوئی قانون موجود نہیں ہوگا لیکن پھر بھی ایک نیچرل لاء ضرور ہوگا یعنی انسانی عقل جو ایسے حالات (جیسے ہوبز بیان کر رہے ہیں) پیدا نہیں ہونے دے گی۔ بلکہ ادھر انسان آزاد ہوگا، اپنی زندگی گزار سکے گا اور محنت کرکے وہ اپنی ملکیت بھی بنا سکے گا اور یہ ساری آزادیاں قدرت کی طرف سے ہمارے پاس ہیں اور جب حکومت بھی بنائی جائے تو ان حقوق کا تحفظ لازم ہے کیونکہ یہ قدرتی حقوق ہے اور افراد کے ان حقوق کا تحفظ کرنے والی حکومت صحیح ہے اور جو حکومت یہ حقوق نہ دے یا نہ دے سکے اس کے خلاف بغاوت عوام کا حق ہے۔ اس کے علاوہ لاک نے اپنی ایک اور کتاب “اسے کنسرننگ ہیومن انڈرسٹینڈنگ” میں پیدائشی معلومات اور شعور کو مسترد کرتے ہوئے، مشاہدات اور تجربات کو معلومات اور شعور کا ماخذ قرار دیا۔ جو ظاہر ہے فلمر کی بات کہ بادشاہ کسی خاص شعور کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں کا رد تھا۔
– جون لاک کے خیالات
لاک مذہبی رواداری کے بھی داعی تھے۔ انہوں نے اس بارے میں بھی ایک کتاب لکھی اور اس میں حکومت کو مذہبی معاملات سے علیحدگی کا مشورہ دیا۔ انہوں نے مذہب کو مکمل طور پر انسان کا ذاتی معاملہ قرار دیا۔ مزید یہ کہ لاک نے اپنے دور کی ایک روایت کہ مرد اور عورت میں فرق پر بھی اعتراض کیا اور ان دونوں کو برابر قرار دیا۔ لاک کے یہی نظریات لبرلزم کی بنیاد بنے۔
– لبرلزم کی بنیادی اصول
لبرلزم کی بنیادی اصول یہ ہے کہ جو بھی حکومت بنے وہ عوام کی رائے سے بنے (یعنی جمہوریت ہو) اور ہر ایک کو بغیر کسی امتیازی سلوک کے ووٹ دینے کا حق ہو۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ انسان کی زندگی کی، مال کی اور آزادی کی حفاظت کرے۔ انسان جس مذہب پر چاہے ایمان رکھے یا چاہے کسی پر بھی نہ رکھے یہ اس فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔ تمام انسان برابر ہیں۔ مذہب اور ریاست معاملات کو الگ رکھنا۔ وغیرہ۔ اس کے علاوہ لبرلزم ایک شخص میں طاقت جمع کرنے کا بھی مخالف ہے جیسا کہ بادشاہت میں ہوتا ہے۔ یہ خیال سب سے پہلے ایک عظیم فلسفی اور نامدار لبرل تھیوریسٹ “موٹسکیو” نے پیش کیا۔
لبرل تھیوریسٹ “موٹسکیو” کے خیالات کو لیتے ہوئے ؛
لیبرل تھیوریسٹ “موٹسکیو” طاقت کو تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے تھے تاکہ کوئی بھی حصہ اگر اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرے تو دوسرا اسے روک سکے۔
پہلا حصہ ایک آزاد اور خودمختار عدلیہ جو حکومت کے دباؤ میں نہ آئے بلکہ ضرورت پڑنے پر حکومت کے خلاف بھی فیصلہ دے سکے اور اسے منوا بھی سکے۔
اس کے علاوہ حکومت میں بھی قانون بنانے والا حصہ الگ ہو اور اس پر عمل کروانے والا الگ۔ لبرلزم کا ماننا ہے کہ حکومت کم سے کم معاملات میں مداخلت کرنی چاہئے اور زیادہ سے زیادہ اختیارات فرد پر چھوڑنے چاہیے۔ اس لیے لبرلزم انفرادیت کا بھی قائل ہے اور مانتا ہے کہ فرد ہمیشہ آزاد ہونا چاہیے اور اس کے کسی بھی حق کو اسے نہ لیا جائے چاہے اسے حکومت اور معاشرہ کو فائدہ ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے علاوہ ہر شخص کو کسی بھی قسم کی سیاسی جماعت بنانے کا بھی حق حاصل ہے۔ کوئی قانون سے بالاتر نہیں اور سب قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ حکومت ایک آئینی طریقے سے چلنی چاہئے۔ اقلیتوں کے حقوق اور اگر اکثریت چاہے بھی تو بھی اقلیتوں کے حقوق نہیں لے سکتی۔ قوانین ایسے بننے چاہئیں جن سے پوری انسانیت کو فائدہ ہو۔ ہر ملزم کا ٹرائل پبلک ہونا چاہیے۔ سائنس کی ترقی پر حکومت کو خرچ کرنا چاہیے۔ آزادی صحافت اور آزادی اظہار ہونی چاہیے۔ آزادی اظہار کو بیان کرتے ہوئے لبرل فلسفی “والٹیئر” کہتے ہیں ؛ “مجھے شدید اختلاف ہے تمہاری بات سے لیکن میں مرتے دم تک تمہارے اس بات کو کہنے کے حق کا دفاع کرونگا”۔
لبرل فلسفی آزادی اظہار کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ چیز پر تنقید سے اس میں بہتری آتی ہے اور ہر چیز ایک شخص یا کسی ایک ادارے یا کسی ایک گروہ کو معلوم نہیں ہو سکتے اس لیے ہر ایک کو آزادی اظہار ہونی چاہیئے تاکہ معاشرے میں ترقی کا سلسلہ نہ رکے اور جہالت کا راج نہ ہو۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن پر تمام لبرلز کا اتفاق ہے اس کے علاوہ سوشل لبرل بہترین تعلیم اور علاج کو بھی حکومت کی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ ویسے لبرلزم کے فلسفی زیادہ تر مرد ہیں لیکن عورتوں کا بھی اس میں کافی اہم کردار ہے۔ اس میں سب سے زیادہ کام جس عورت کا ہے وہ ہے میری “وولسٹونکرافٹ” انہوں نے اس بات پر استدلال کیا کہ عورتیں مرد سے کسی لحاظ سے کم نہیں یہ صرف سماجی روایات ہیں جو عورت کو اس طرح بنادیتی ہیں کہ عورتیں دماغی طور پر مردوں سے کمتر محسوس ہوتیں ہیں۔ان کا ماننا تھا کہ اگر مرد کو بھی ایسے ہی پابند کیا جائے تو اس میں بھی عورت والی خامیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔اب تک ہمیں اندازہ ہوچکا ہے کہ لبرلزم کا مرکزی مقصد فردی آزادی ہے۔ لیکن کتنی آزادی تو لبرلز کا ماننا ہے کہ صرف ان جرائم کی سزا ہونی چاہیئے جس میں کسی فرد کو نقصان ہو یا اس کا کوئی حق مارا جائے۔ اس کے علاوہ انسان ہر طرح کے عمل میں آزاد ہونا چاہیے۔ اس بات کو لبرل نظریات رکھنے والے عظیم جرمن فلسفی “امانوئل کانٹ” کہتے ہیں: “میرا ہاتھ حرکت کرنے کے لیے آزاد ہے لیکن جہاں سے تمہارے جسم کی حدود شروع ہوتی ہے وہاں سے میرے ہاتھ کی آزادی ختم ہو جاتی ہے”۔
– لبرلزم کے معاشی نظریات
(Economical ideologies of Liberalism)
لبرلزم کے معاشی نظریات پر ابتدائی طور لبرلزم مکمل معاشی آزادی کا قائل تھا اور ہر طرح کے ٹریڈ بیریر، ٹیکسز اور حکومتی مداخلت کا خوب مخالف تھا۔ جس لبرلزم کی شکل کو ہم آج “کلاسکل لبرلزم” کے نام سے جانتے ہیں۔
– کلاسکل لبرلزم ( Classical Liberalism)
اس لبرلزم کی اس شکل کا معاشی نظام سرمایہ داری نظام اور جدید معاشیات کے بانی “اِڈم اسمتھ” کے نظریات کے گرد گھومتے ہیں۔ اسمتھ کے مطابق حکومت کو طلب و رسد، کاروباری مقابلے اور قیمتوں کو مارکیٹ پر چھوڑنا چاہئیے اور رحم دِلی کے بجائے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے پر توجہ دینی چاہیے۔ کلاسکل لبرلزم لیبر یونینز کا بھی مخالف تھا اور مزدوروں کو کم سے کم تنخوا دینے کا قائل تھا۔ اسمتھ کے مطابق مزدور کو صرف اتنی تنخوا ملنی چاہیے کہ وہ زندہ رہ سکے۔ یہ سب اس لیے تھا کیونکہ کلاسکل لبرلزم دراصل میں امیروں کا فلسفہ تھا اور یہ امیر لوگ اپنی دولت اور غریب کی غربت کو “سوشل ڈارونزم” کہتے تھے اور بھوک سے مرنے والوں کی اموات کو “سرواول آف دی فٹیسٹ” کہہ کر نظر انداز کر دیا کرتے تھے۔ ایسے حالات میں ایک سویز لبرل ماہرِ معاشیات “جین چارلس دے سسمنڈی” نے کلاسکل لبرلزم کی معاشی نظریات پر تنقید کی اور اسے دھوکا قرار دیا۔ ان کی اس تنقید سے متاثر ہوکر لبرلز میں ایک نیا گروہ نکلا جو “سوشل لبرلز” کہلاتے ہیں۔
– سوشل لبرلز (Social Liberals)
جین چارلس دے سسمنڈی Jean Charles de Sismondi
سے متاثر ہونے والوں میں سوشل لبرلزم کے بانیان انگریز فلسفی “جون سٹوارٹ مِل” اور “تھومس ہل گرین” شامل تھے۔
– تھومس ہل گرین کے نظریات
(Ideologies of Thomas Hill Green)
گرین نے اسمتھ کے ذاتی فائدے پر مربوط نظریے پر تنقید کی اور حکومت کے لئے لوگوں کو اس بات پر مجبور کرنا لازمی قرار دیا کہ وہ سماج سے کمانے کے ساتھ ساتھ سماج میں کچھ حصہ بھی ڈالیں تاکہ حکومت سب کی مدد کرسکے۔ گرین نے منفی آزادی اور مثبت آزادی کا فلسفہ بھی پیش کیا جس کے مطابق منفی آزادی کسی بیرونی مداخلت سے آزادی قرار دیا۔ جبکہ مثبت آزادی فرد کو اس قابل بنانے کو قرار دیا کہ انسان اپنی مرضی سے فیصلہ کرسکے اور انہوں نے ان دونوں میں سے کسی ایک کی بھی عدم موجودگی کو مکمل آزادی کی عدم موجودگی قرار دیا۔ انہوں نے اور “جون سٹوارٹ مِل” نے ایک فلاحی ریاست کا خیال پیش کیا اور امیروں پر زیادہ ٹیکسز اور ایک کم از کم تنخوا کو بھی ضروری قرار دیا۔ جو اب “ماڈرن لبرلزم” کی بنیاد ہے۔
– ماڈرن لبرلزم (Modern Liberalism)
کہا جاتا ہے کہ لبرلزم کی یہ شکل کو اتنی زیادہ اور جلد پزیرائی اسلئے ملی کیونکہ اس وقت “سوشلزم” زور پکڑ رہا تھا۔ اس پر سوشلزم کے حمایتی توڑنے کا بھی الزام ہے اور ایک مشہور لبرل تھیوریسٹ “لیونارڈ ہوبہاؤس” نے تو اسے “لبرل سوشلزم” قرار دیا تھا۔ لیکن اس کے بعد بھی وہ مسائل جن کی طرف کلاسکل لبرلزم کے حامی اشارہ کرتے تھے پیدا ہونے لگے “دی گریٹ ڈپریشن” کو بھی گرین اور مل کے نظریے کی ناکامی قرار دیا گیا اور بےروزگاری کی وجہ لیکن تب ایک عظیم دماغ کے مالک سیاسی معاشیات کے ماہر جون مینارڈ کینز نے بتایا کہ یہ تباہی سوشل لبرلزم کی وجہ سے نہیں بلکہ کلاسکل لبرلزم کی ہی ایک ڈوکٹرائن عدم مداخلت کی وجہ سے ہے۔ کینز کے مطابق حکومت کو مارکیٹ میں مداخلت کرنی چاہیے خاص طور پر طلب بڑھانے کے لئے، انہوں نے اس بات کو مسترد کر دیا کہ رسد اپنی طلب خود پیدا کرلیتی ہے۔ یہ کینزینزم ماڈرن لبرلزم کی بنیاد ہیں۔ اس کی مخالفت میں آنے والے نیولبرل کہلاتے ہیں جن آج کے لبرلزم سے کوئی تعلق نہیں۔
لبرلزم اپنی تاریخ میں بڑے بڑے نظاموں کو ہرایا ہے چاہے وہ بادشاہت ہو یا تنگ نظری۔ چاہے وہ ہٹلر کا نازیزم ہو یا موسولینی کی فسطائیت اور آج بھی ایک مقبول نظام ہے اور وہ ملک بھی ایک حد تک لبرل اصولوں پر چلتے ہیں جہاں اس کے مخالفین ہیں اور جہاں لوگ اسے ٹھیک سے جانتے بھی نہیں۔ آج کسی بھی جمہوری ملک چلے جائیں۔ آپ کو آزادی اظہار اور آزادی مذہب جیسی آزادیاں (کم از کم قانون کی کتاب میں لکھی ہوئی) ضرور نظر آئے گی یہ لبرلزم کی ایک بہت بڑی فتح ہے۔
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...