سوئس (جرمن زبان میں ) افسانہ
( 1969 , Ein Tisch ist ein Tisch )
پیٹر بیخسیل ( Peter Bichsel )
مترجم کا نوٹ
یہ 1857 ء کا سال ہے ۔ برصغیر ہند و پاک ، جو اس وقت فقط ہندوستان ہے ، میں مغل راج دم دے رہا ہے اور انگریزوں کے خلاف وہ بغاوت پھوٹی ہے ، جسے بعد ازاں سر سید احمد خان تک اپنی حیات میں بغاوت ہی کہتے رہے اور اس کے اسباب کے بارے میں لکھتے رہے ( یہ تو بہت بعد کی بات ہے کہ ہم دیسیوں کو خیال آیا کہ یہ تو ہماری جنگ ِآزادی تھی جو ہم نے برطانوی استعمار کے خلاف لڑی تھی ۔) ۔ یہ بغاوت ( جنگ آزادی) مئی میں شروع ہوتی ہے اور یکم نومبر 1858 ء تک جاری رہتی ہے ۔ اِدھر دیسی لوگ مغلوں کے ساتھ مل کر انگریزکے خلاف نبرد آزما ہیں اور اُدھر برطانیہ کے ہمسایہ ملک سوئزرلینڈ کے شہر جنیوا میں مشہور ماہر معدنیات ، ماہر حشرات الارض اور ماہر حیاتی انواع ’ ہنری لوئیس فریڈرک ڈی سوسوئر‘ کے ہاں 26 نومبر 1857 ء کو ایک بچہ پیدا ہوتا ہے ۔ اسے ’ فرڈی ننڈ ڈی سوسوئر‘ ( Ferdinand de Saussure ) کے نام سے بپتسمہ دیا جاتا ہے ۔ ہونہار بروا ہے اور اس کے چکنے چکنے پات ، بلوغت پانے سے پہلے ہی اس کے سکول کے استادوں کو نظر آنا شروع ہو گئے ہیں ؛ مارٹین انسٹی ٹیوٹ ، جہاں سے وہ اول درجے میں تعلیم مکمل کرتا ہے ۔ وہ لاطینی ، قدیم یونانی اور سنسکرت کے علاوہ دیگر کورسز کے ساتھ 1876 ء میں یونیورسٹی آف لیپ زیگ سے گریجویشن کا امتحان پاس کرتا ہے اور بعد ازاں 1880 ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کرتا ہے لیکن اس سے قبل ہی اس کا ’ انڈو۔ یورپی ‘ زبانوں کے حوالے سے واوین (Vowel) کے نظام پر ایک طویل مقالہ چھپ چکا ہے ۔ اس کا باقی کام اس کی زندگی میں نہیں چھپتا ۔ ’سوسوئر‘ زیادہ دیر زندہ نہیں رہتا اور 55 برس کی عمر میں 22 فروری 1913 ء کو فوت ہو جاتا ہے ۔ اس کا باقی کام ' Cours de linguistique générale ' ( عمومی لسانیات کا نصاب ) کی شکل میں 1916 ء میں ہی سامنے آ پاتا ہے ۔
اس بندے نے لسانیات (Linguistics) اور علامتوں (Semiotics) کے علوم کے حوالے سے کتنے مفروضے اور تھیوریاں پیش کیں ، اس کے لیے ایک تفصیلی مضمون الگ سے درکار ہے ۔ یہاں البتہ یہ کہا جا سکتا ہے اس نے ’ زبان‘ کی ساخت کے حوالے سے بیسویں صدی کے آغاز میں ہی اس علم ( سائنس ؟ ) کی بنیاد رکھی تھی جس نے آگے چل کر ماہرین لسانیات ( Linguists ) اور ماہرین علامت سازی ( Semioticians ) کو نئی راہیں دکھائیں ۔ اس کی چھیڑی بحث 20 صدی کی چھ ، سات دہائیوں تک جاری رہی اور ان دونوں علوم میں جو بھونچال آیا اور سوسوئر کا جو اثر ہوا ، اس نے لسانیات اور علامت سازی کو اس کے نام سے ہی مشروط کر دیا اورعلم لسانیات کے اعتبار سے ادوار یوں کہلائے جانے لگے ؛
’ قبل از سوسوئرین ‘ ، ’ سوسوئر ین ‘ ، ’ سوسوئرین مخالف ‘ ، ’ پوسٹ سوسوئرین ‘ یا پھر ’ نان ۔ سوسوئرین ‘
میں نے یہ تمہید اس لیے باندھی ہے کہ سوسوئر اور اس کے پیروکاروں کا اثر ادب پر بھی ہوا اور کچھ ادیبوں نے فکشن میں بھی سوسوئر کے کہے کو استعمال کیا ، جس کی ایک مثال ’ پیٹر بیخسیل ‘ ( Peter Bichsel ) کا وہ افسانہ ہے جو آپ پڑھنے جا رہے ہیں ( اس سے قبل ، آپ بورخیس کا افسانہ ’ ناقابل فراموش فیونز ‘ (Funes el memorioso ) بھی پڑھ چکے ہیں ، اس میں بھی سوسوئر کی پیش کردہ تھیوریوں اور مفروضوں کا اثر نظر آتا ہے ۔) ۔
پیٹر بیخسیل 24 مارچ ، 1935ء کو’ لوسرن‘ ( Lucerne ) ، سوئزرلینڈ میں پیدا ہوا ۔ وہ ایک محنت کش کا بیٹا ہے ۔ سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے تدریس کی تعلیم حاصل کی ، کچھ عرصہ فوج میں رہا اور پھر تدریس سے ہی وابستہ ہوگیا ۔ وہ 1968 ء تک ’ ابتدائی سکول‘ کا استاد رہا ، بعدازاں وہ کچھ عرصہ سوئس فیڈرل کونسل کے رکن ’ وِلی ‘ کی تقاریر لکھتا رہا ۔ شروع شروع میں ، اس نے مختصر گیت لکھے لیکن 1960 ء میں اس نے نثر نگاری بھی شروع کر دی اور جلد ہی اس میں نام پیدا کر لیا ۔ اس کی پہلی اہم کتاب ’’ فراو ’ بلم ‘ ، دراصل ، دودھ فروش سے ملنا چاہتی ہے “ ( Eigentlich möchte frau blum den milchmann kennenlernen) تھی ؛ 21 کہانیوں پر مشتمل یہ مجموعہ 1964 ء میں شائع ہوا تھا ۔ اس کا ناول ' Die Jahreszeiten ' ( مختلف موسم ) 1967 ء میں شائع ہوا ۔
اس کی کہانیوں کی اگلی کتاب ' Kindergeschichten ' کے نام سے 1969ء میں شائع ہوئی ؛ یہ دو ناموں سے انگریزی میں شائع ہوئی ؛ ' امریکہ نامی کوئی جگہ نہیں ' اور ' بچوں کے لیے کہانیاں ' ؛ یہ کہانیاں تشکیک (skepticism) اور ابلاغ کے فقدان (miscommunication ) کے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں ؛ درج ذیل افسانہ بھی اسی کتاب سے لیا گیا ہے ۔
پیٹر بیخسیل نے مختلف اخبارات میں کالم لکھے اور گاہے بگاہے بطور ' writer in residence ' امریکی یونیورسٹیوں میں لیکچر بھی دئیے ۔ پیٹر بیخسیل نے افسانے ، بچوں کی کہانیاں ، ناول ، انشائیے اور کالم بھی لکھے ۔ پیٹر بیخسیل اختصار پسند ہے اور اس کی تحریریں بھی اسی کی مظہر ہیں لیکن ان میں قاری کو چونکانے کے لیے کافی کچھ ہوتا ہے۔ ان میں سے کئی خودآگاہی کی عمدہ مثال بھی ہیں ۔ پیٹر بیخسیل سوئس فکشن کا ایک اہم نام ہے ۔ البتہ اس نے اپنی تمام تحاریر جرمن زبان میں لکھیں یوں وہ جرمن ادب میں بھی ممتاز ہے ۔ پیٹر بیخسیل کی لگ بھگ 24 کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں سے آخری ’ کالم ہی کالم ‘ ( Kolumnen Kolumnen ) 2005 ء میں سامنے آئی تھی ؛ یہ اس کے کالموں کی دوسری کتاب ہے، پہلی ’ غلط سمے کی کہانیاں ‘ (Geischichten zur falschen Zeit) 1979 ء میں شائع ہوئی تھی ؛ وہ اپنے کالموں میں سوئس حکومت پر تنقید کے تیر برسانے سے کبھی باز نہیں رہا ۔
اِس تحریر کو لکھتے وقت ، وہ 85 برس کا ہے ۔
*************************
میں آپ کو ایک بوڑھے بندے کی کہانی سنانا چاہتا ہوں ، ایک ایسے بندے کی جو اب ایک لفظ بھی نہیں بولتا ، جس کا چہرہ تھکان سے بھرا ہوا ہے؛ وہ اتنا تھکا ہوا ہے کہ مسکرا بھی نہیں سکتا اور تھکن نے اسے اتنا لاچار بنا دیا ہے کہ کسی سے ناراض بھی نہیں ہو سکتا ۔ وہ ایک قصبے کی ایک سڑک کی نکڑ ، جو چوراہے کے قریب ہے ، پر رہتا ہے ۔ اس کی شخصیت کا نقشہ کھینچنا بے معانی ہے ، اس میں ایسا کچھ خاص ہے ہی نہیں ، جو اسے دوسروں سے ممتاز کرے ۔ اس نے سلیٹی رنگ کی پتلون اورکوٹ پہنا ہوتا ہے اور سر پر اسی رنگ کا ہیٹ لیا ہوتا ہے ، سردیوں میں ، البتہ ، اس نے سلیٹی اوور کوٹ بھی پہنا ہوتا ہے ۔ اس کی دبلی پتلی گردن کی جلد خشک اورجھریوں سے بھری ہوئی ہے جس کے لیے اس کی سفید قمیض کا کالر بہت ہی ڈھیلا ہے ۔ وہ مکان کی سب سے اوپرلی منزل کے ایک کمرے میں رہتا ہے ۔ وہ ، شاید ، کبھی شادی شدہ ہو گا اور اس کے بچے بھی ہوں گے ، یا شاید پہلے وہ کسی اور شہر میں رہتا ہو گا ۔ وہ یقیناً کبھی بچہ بھی رہا ہو گا ، لیکن یہ وہ وقت رہا ہو گا جب بچوں کو بھی بڑوں جیسا لباس پہنایا جاتا تھا ۔ ایسا ، آپ اسے ، اس کی دادی کی فوٹو البم میں ، دیکھ سکتے ہیں ۔ اس کے کمرے میں ایک پلنگ ، ایک الماری ، ایک میز ، دو کرسیاں اور ایک قالین ہے ۔ چھوٹی میز پر ایک الارم کلاک پڑا ہے ، جس کے پاس ایک فوٹو البم اور پرانے اخبار دھرے ہیں ۔ پاس ہی دیوار پر ایک آئینہ اور فریم میں جڑی ایک فوٹو ٹنگی ہے ۔
یہ بوڑھا ہر صبح اورہر سہ پہر کو سیر کے لیے جاتا ، اپنے ہمسایوں سے کچھ باتیں بھی کرتا اور شام میں اپنی میز پر آ بیٹھتا تھا ۔
اس کا یہ معمول نہ بدلا ، بلکہ وہ اتوار کے روز بھی ایسا ہی کرتا ۔ وہ شام کو جب بھی میز پر بیٹھتا تو الارم کلاک کی ٹِک ٹِک کو ہی سنتا ؛ اسے ہمیشہ الارم کلاک کی ٹِک ٹِک ہی سنائی دیتی ۔
اور پھر ، ایک خاص دن چڑھا ، سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا ۔ یہ دن نہ زیادہ گرم تھا اور نہ ہی زیادہ سرد ، پرندے چہچہا رہے تھے ، لوگ دوستانہ ماحول میں خوش تھے اوربچے کھیل رہے تھے ۔ ۔ ۔ اس دن کی خاص بات یہ تھی کہ یہ سب ، اس بوڑھے بندے کواچانک اچھا لگا اور وہ مسکرایا ۔
” اب ہر شے بدل جائے گی ۔“ ، اس نے سوچا ۔ اس نے اپنی قمیض کا سب سے اوپروالا بٹن کھولا ، ہیٹ ہاتھ میں تھاما اور اپنی رفتار تیز کر دی اورگو ، اس کے گھٹنے جھولنے لگے تھے لیکن وہ خوش تھا ۔ وہ گلی میں پہنچا ، بچوں کو آشیرباد دی ، اپنے گھر گیا ، سیڑھیاں چڑھا ، تھیلے سے چابی نکالی اور اپنے کمرے کے دروازے کا تالا کھولا ۔
کمرے میں ، لیکن ، ایک میز ، دو کرسیاں ، ایک پلنگ بلکہ ہر شے پہلے جیسی ہی تھی ۔ اور وہ جب کرسی پر بیٹھا تو اسے گھڑی کی ٹِک ٹِک پھر سے سنائی دی ۔ اس ٹِک ٹِک کا سننا تھا کہ اس کی ساری مسرت ہوا ہو گئی کہ کچھ بھی تو نہ بدلا تھا ۔ اسے سخت غصہ آیا ، اس نے اپنے چہرے کو آئینے میں ، لال ہوتے دیکھا ، اس نے دیکھا کہ اس نے اپنی آنکھیں کیسے میچی ہوئی تھیں ؛ پھر اس نے اپنے ہاتھوں کو مُکوں کی شکل دی ، انہیں ہوا میں بلند کیا اورانہیں میز پر دے مارا ۔ اس نے ایسا ایک بار کیا ، پھر دوسری باراور پھر اس نے میز پر مُکوں کی بارش کر دی ، وہ ساتھ میں بار بار چِلا بھی رہا تھا ؛
” کچھ تو بدلنا چاہیے ۔“
جب وہ ایسا کر رہا تھا تو اسے الارم کلاک کی آواز نہ آئی تھی ۔ اس کے ہاتھ درد کرنے لگے ، اس کی آواز نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا اور اسے پھر سے گھڑی کی آواز سنائی دینے لگی ۔ کچھ بھی نہ بدلا تھا ۔
” یہ میز ہمیشہ سے میز ہی رہی ہے ۔“ ، بوڑھے نے کہا ، ” کرسیاں ، پلنگ ، تصویربھی وہی ہی ہیں ۔ اور میں میز کو میز کہتا ہوں ، تصویر کو تصویر کہتا ہوں ، پلنگ ، پلنگ کہلاتا ہے اور کرسی ، کرسی ہی کہلاتی ہے ۔ لیکن اصل میں ایسا کیوں ہے ؟ “ فرانسیسی پلنگ کو ” لی“(lit) کہتے ہیں ، میز کو ” تبل “ (tabl) ، تصویر کو ” تابلو “ ( tablo ) اور کرسی کو ” شیز “ ( schäs) اور وہ ایک دوسرے کی بات کو سمجھتے بھی ہیں اور ۔ ۔ ۔ اوراسی طرح چینی بھی تو ایک دوسرے کی بات سمجھ لیتے ہیں ۔ ” پلنگ کو تصویر کیوں نہیں کہا جاتا ؟ “ ، بوڑھے نے سوچا اور مسکرایا ، پھر اس نے زور زور سے قہقہے لگانے شروع کر دئیے ، یہاں تک کہ اس کے ہمسایوں نے دیوار پر مُکے برسانے شروع کر دئیے اور چلائے ؛ ” خاموش رہو ۔“
” اب یہ سب بدل جائے گا ۔“، وہ خود بھی چِلایا اور تبھی سے اپنے پلنگ کو تصویر کہنے لگا ۔
” میں تھک گیا ہوں اور میں اپنی ’ تصویر‘ پر لیٹنا چاہتا ہوں ۔“ ، اس نے کہا ، اور جب سحر ہوتی تو وہ اکثر دیر تک’ تصویر‘ پر ہی لیٹے رہتا اور سوچتا کہ وہ کرسی کو کیا کہے ؟ اور پھر اس نے کرسی کو ’ الارم کلاک ‘ کہنا شروع کر دیا ۔ اب وہ اکثر و بیشتر خواب بھی اپنی نئی زبان میں دیکھنے لگا تھا ، پھر اس نے اپنے بچپن کے گیت بھی اپنی ، اس نئی زبان میں ترجمہ کیے اور وہ انہیں منہ ہی منہ میں گنگناتا بھی رہتا ۔
وہ ، پھر ، تصویر پر سے اٹھتا ، کپڑے پہنتا اور ’ الارم کلاک ‘ پر بیٹھ جاتا اور اپنے بازو میز پر ٹکا دیتا ۔ لیکن اب میز ، میز نہ رہی تھی ، وہ اسے اب ’ قالین ‘ کہتا ۔ وہ ، چنانچہ صبح ’ تصویر‘ پر سے اٹھتا ، کپڑے پہنتا ، ’ الارم کلاک ‘ پر بیٹھتا اور ’ قالین‘ پر ہاتھ ٹیکے سوچتا رہتا کہ وہ اب کس شے کو کونسا نیا نام دے ۔
یوں نئی زبان کی ترتیب کچھ یوں بنی ؛
اس نے پلنگ کو’ تصویر‘ کہا ۔
اس نے میز کو’ قالین‘ کہا ۔
اس نے کرسی کو ’ الارم کلاک‘ کہا ۔
اس نے اخبار کو ’پلنگ ‘ کہا ۔
اس نے آئینے کو’ کرسی‘ کہا ۔
اس نے الارم کلاک کو ’فوٹو البم‘ کہا ۔
اس نے الماری کو ’ اخبار ‘ کہا ۔
اس نے قالین کو الماری کہا ۔
اس نے تصویر کو ’ میز‘ کہا ۔
اور
اس نے فوٹو البم کو ’ آئینہ‘ کہا ۔
تو بات یوں بنی : صبح کے وقت ؛
بوڑھا آدمی اپنی’ تصویر ‘ پر دیر تک لیٹا رہا ، نو بجے اس کا ’ فوٹو البم ‘ بجا ، وہ اٹھا اور’ الماری ‘ پر کھڑا ہوا تاکہ اس کے پیروں کو سردی نہ لگے ، پھراس نے’ اخبار‘ میں سے اپنے کپڑے نکالے ، انہیں زیب تن کیا ، دیوار پر لگی ’ کرسی ‘ کو دیکھا ،’ الارم کلاک ‘ پر بیٹھا اور ہاتھ ’ قالین ‘ پر رکھے’ آئینے‘ کے پنّے پلٹنے لگا یہاں تک کہ اسے اپنی ماں کی ’ میز‘ مل گئی ۔
بوڑھے کو اس مشق میں مزہ آنے لگا تھا اور وہ دن بھر نئے نئے الفاظ سیکھنے میں لگا رہتا ۔ اب اس نے ہر شے کو مختلف انداز میں نام دئیے ؛ وہ ، اب آدمی نہ رہا تھا بلکہ ’ پیر ‘ ہو گیا تھا ، اس کا پیر اب ’صبح ‘ تھا اور صبح اب ’ آدمی‘ تھی ۔ اب آپ اس کہانی کو لکھنا خود بھی جاری رکھ سکتے ہیں اور پھر، جیسا کہ وہ بوڑھا بندہ کرتا تھا ، آپ بھی دیگر الفاظ بدل سکتے ہیں ؛
بجنے کی بجائے’ رکھنا ‘
ٹِھٹھرنے کی بجائے ’ دیکھنا ‘
لیٹنے کی بجائے’ بجنا ‘
کھڑے ہونے کی بجائے’ ٹِھٹھرنا ‘
رکھنے کی بجائے ’ ورق گردانی کرنا ‘
تو یوں بندہ ، پھر یوں کہے گا ؛ بوڑھا پاﺅں دیر تک تصویر پر بجتا رہا ، نو بجے فوٹو البم نے اپنا آپ رکھ دیا ۔ پاﺅں ٹھٹھرا اوراس نے الماری کی ورق گردانی کی تاکہ صبح کو دیکھا نہ جا سکے ۔
بوڑھے نے نیلے رنگ کی کاپیاں خریدیں اور سارے نئے لفظ ان میں درج کر دئیے ۔ وہ اس کام میں خاصا مصروف رہا اور گلی میں کم کم ہی نکلتا ۔ پھر اس نے سارے نئے نام حِفظ کر لیے اور ایسا کرنے سے وہ اشیاء کے پہلے والے نام بھولنے لگا ۔ اب اس کے پاس ایک نئی زبان تھی جو کسی اور کی نہیں ، صرف اور صرف اس کی اپنی ہی تھی ۔ جلد ہی اسے ترجمہ کرنے میں دِقت پیش آنے لگی ۔ وہ اپنی پرانی زبان تقریباً بھول چکا تھا اور اسے ، نیلی کاپیوں میں اصل الفاظ کو ڈھونڈنا پڑتا ۔ وہ ، اب ، دوسرے لوگوں سے بات کرنے سے ڈرنے اور کترانے لگا ۔
اسے ، اب ، یہ جاننے کے لیے خاصی دیر تک سوچنا پڑتا کہ لوگ چیزوں کو کیا کہہ کر بلاتے تھے ۔
وہ اس کی تصویر کو ’ پلنگ ‘ کہتے ۔
وہ اس کے قالین کو ’ میز‘ کہتے ۔
وہ اس کے الارم کلاک کو ’ کرسی‘ کہتے ۔
وہ اس کے پلنگ کو ’ اخبار‘ کہتے ۔
وہ اس کی کرسی کو ’ آئینہ‘ کہتے ۔
وہ اس کے فوٹو البم کو ’ الارم کلاک ‘ کہتے ۔
وہ اس کے اخبار کو ’ الماری‘ کہتے ۔
وہ اس کے آئینے کو ’فوٹو البم‘ کہتے ۔
وہ اس کی میز کو ’ تصویر‘ کہتے ۔
اور پھر بوڑھا ، لوگوں کو یوں باتیں کرتے ، سنتا تواسے ہنسنا پڑتا ۔
وہ تب بھی ہنستا جب وہ کسی کو یہ کہتے ہوئے سنتا ؛ ” کیا تم بھی ، صبح فٹ بال کھیلنے کے لئے جا رہے ہو ؟ “ یا کوئی کہتا ؛ ” دو ماہ سے مسلسل بارش کا سلسلہ جاری ہے ۔“ یا پھر جب کبھی کوئی کہتا ؛ ” میرے ایک چچا ہیں جو امریکہ میں رہتے ہیں ۔“
وہ اس لیے ہنس دیتا کہ وہ یہ سب سمجھ ہی نہیں پاتا تھا ۔
لیکن یہ کہانی مضحکہ خیز نہیں ، یہ آغاز میں بھی ایک اداس کر دینے والی کہانی تھی اور اس کا انجام بھی ایک المیہ ہے ۔ سلیٹی رنگ کے کوٹ میں ملبوس بوڑھا آدمی ، اب دوسرے لوگوں کی بات سمجھ نہیں پاتا ، یہ شاید زیادہ بری بات نہ تھی ۔ اس سے زیادہ خراب بات تو یہ تھی کہ لوگ ، اب ، اس کی بات نہیں سمجھتے تھے ۔
اس نے ، اسی لیے ، اب کچھ کہنا ہی چھوڑ دیا تھا ۔
وہ خاموش رہتا ، لوگوں سے سلام دعا بھی نہ لیتا ، بس خود سے ہی باتیں کرتا رہتا ۔
**************