ملازمہ کے ہاتھ سے کرسٹل کا بھاری گلدان چھوٹا اور ایک چھناکے کی آواز سے کرچی کرچی ہوا تھا یہ چھناکا بہت مانوس سا تھا جیسے میں اس چھناکے کا برسوں سے منتظر تھا میرے اندر کچھ کرچی کرچی ہوکے دور تک بکھر گیا ہو ۔ بیوی کی دھاڑ بہت عرصے بعد مجھے بہت بھیانک معلوم ہوئی تھی ۔ ملازمہ بہت دبلی پتلی سی تھی اور بید مجنوں کی طرح لرز رہی تھی شائد اس لئے یا میرے اپنے دماغ سے کئی دنوں سے کشمکش چل رہی تھی اس لئے ۔۔ بیوی ملازمہ کے انتخاب میں ہمیشہ سے محتاط تھی جانے اس بار کیسے چوک گئی ۔
یہ گلدان بیوی نے چوتھائی صدی قبل ہنی مون کے دوران چائنہ سے اپنی سلامی کے پیسوں سے خریدا تھا تو ظاہر ہے اسکی شدید جذباتی وابستگی تھی اس ہنی مون کو میری بڑی سالی نے سپانسر کیا تھا ۔ دو تین دنوں میں ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ معمولی خد وخال والی میری بیوی اچھی خاصی خود پسند ہے ۔ ہنی مون کے دوران اس نے ایک بار بھی میری نیم دلی بلکہ مردہ دلی کو محسوس نہیں کیا لاعلمی بھی ایک نعمت ہے وہ یوں خوش ہو رہی تھی جیسے صرف اسکی شادی ہوئی ہے اور میں اس کا زرخرید ہوں حالانکہ اس شادی کے نتیجے میں میری انا بری طرح مجروح ہوئی تھی میں تو ایک طرح دار نازک اندام بیوی کے خواب دیکھتا تھا جس کا خاندان بھر میں کوئی ثانی نہ ہو لیکن یہاں تو یہ معاملہ تھا جیسے اس کےخاندان نے مجھے خریدا ہو ۔
میرا دل چاہ رہا تھا کاش میری بیوی آج اس ملازمہ کو کچھ نہ کہے اس کی جان بخش دے لیکن میں یہ بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ ممکن نہیں تھا ۔ مجھے اسکی چیخم دھاڑ چپ چاپ چاپ برداشت کرنے کی برسوں پرانی عادت پڑ چکی تھی جب تک وہ اپنے اندر کی ساری تکلیف اس ملازمہ کے اعصاب پہ سوار نہیں کر دیتی تب تک اس کا خاموش ہونا مشکل تھا ۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میں اندر سے مر چکا ہوں لیکن ڈھیٹ بنا جئے جا رہا تھا اس وقت شدید خواہش کے باوجود میں اس کے سامنے چوں بھی نہیں کر سکتا تھا اس لئے خود کو تکلیف سے بچاتے ہوئے لان میں نکل آیا اور ہری گھاس پہ رکھی کرسیوں پہ بیٹھ کے سگریٹ سلگا لیا ۔ سگریٹ کا کش اور اس میں سے نکلنے والا دھواں مجھے ماضی کی بھول بھلیوں میں لے گیا ۔
میں بلند اقبال اپنے غریب ماں باپ کا سب سے چھوٹا اور چوتھا بیٹا تھا ۔ والدین کو اپنے بچوں کو اعلیٰ درجوں پہ لے جانے کی شدید خواہش تھی لیکن آمدنی محدود تھی اگرچہ ہم سرکاری سکول میں ہی پڑھے تھے بلکہ اس زمانے میں زیادہ تر سرکاری سکول ہی تھے جس کی چوّنی اٹھّنی فیس دینا بھی والدین کے لئے کار دشوار تھا یا شاید کمانے والے دو ہاتھ اور لقمے توڑنے والے بارہ ہاتھ تھے تو کمائی کرنے والے ہاتھ اضافہ چاہتے تھے پھر بھی والدین کی یہی خواہش تھی کہ ہمیں بہت سا پڑھائیں ۔
بڑے تینوں بھائی اپنی اپنی ڈگری کر کے اپنی ڈگر منتخب کر چکے تھے میں نے جانے کیا سوچ کے مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے کا اعلان کر دیا ۔ ماں خوشی سے نہال ہوگئی اور اپنے کنٹھے میری تعلیم پہ بخوشی وارنے کو تیار ہوگئی ۔
کنٹھے بہت قیمتی نہیں تھے لیکن میری فیسوں کا بوجھ سہار گئے ۔ بیوی کے بھائی جانے کہاں سے میری پڑھی لکھی سن گن پا کے آئے اور مجھے ابا سے اپنی بہن کے لئے مانگ لیا سیدھے سادے ابا نے ڈاکٹر صاحب کی بیٹھک میں بیٹھے بیٹھے باروبار رشتہ قبول کر لیا کہ بیٹی والے جانے کہاں کی کھے کھاتے کھاتے چل کے آئے ہیں تو نامراد لوٹانا غرور کی علامت ہے اور غرور رب کو سخت ناپسند ہے ہم نے بلند اقبال کی شادی کرنی تو ہے ہی یہیں سہی بلکہ اچھا ہے ہم جوتیاں چٹخانے سے بچ گئے ۔ ویسے بھی ابا نے کسی بھی اہم فیصلے میں کبھی اماں کو شامل نہیں کیا تھا تو یہ فیصلہ بھی انہوں نے تنہا ہی کرنا تھا بلکہ مجھ پہ لادنا تھا ۔ شادی کے پیپرز سائن کرتے مجھ پہ ایٹم بم گرا کہ چار سال بڑی بھی ہے اس سے پہلے منگنی کی تصویریں آئیں تو میں پہلے ہی متنفر ہوکے درد دل میں مبتلا ہو چکا تھا اور اندر سے تھوڑا سا مر گیا تھا چاہتے ہوئے بھی شادی سے مفر ممکن نہیں تھا شائد رب چاہتا تھا میں تھوڑا تھوڑا مرتا رہوں ۔
۔
شادی کے شروع دنوں سے لیکر دو تین سال تک بیوی مجھے سخت ناپسند رہی تھی یہ نہیں کہ دو تین سال بعد وہ مجھے پسند آگئی تھی بلکہ مجھے خوب اچھی طرح ادراک ہوگیا تھا گلے میں پڑا یہ ڈھول مجھے تمام زندگی بجانا پڑے گا تو مجبوراً میں عادی ہوگیا تھا ۔ گھونگھٹ اٹھاتے ہی میرے خواب بھی اسی زور دار چھناکے سے ٹوٹے تھے ۔۔ میرے ہاتھوں میں اندر کانپتی ملازمہ کی طرح لرزا چڑھا تھا اور میں نے گھونگھٹ چھوڑ دیا تھا بلکہ میرے ہاتھوں سے ٹشو کا دوپٹہ پھسلتا ہوا خود بخود ہی گر گیا تھا لیکن الماری میں رکھے بڑے سے ہینڈ بیگ میں سسرال کی طرف سے ملنے والی سلامی کی موٹی سی رقم کی گرمی نے میرا لرزا کم کر کے ہمت اکٹھی کرنے میں میری مدد کی تھی کچھ یوں کے میں نے پھر سے چھوٹا ہوا گھونگھٹ اس بار ذرا مضبوط ہاتھوں سے تھام لیا اور طوعاً کرہاً وہ سب کچھ کیا جو سہاگ رات کا تقاضہ ہوتا ہے ۔ یعنی ٹوٹے ہوئے دل سے اسکی دل کھول کے تعریف بھی کی اور آدابِ زوجیت بھی نبھائے ۔
میں اچھا خاصا سخت مزاج لڑکا تھا میری گذشتہ زندگی اکثر ضرورت کی چیزوں کی قربانی سے پروان چڑھی تھی لیکن اب میں اپنے زور بازو پہ سب کچھ حاصل کر لینا چاہتا تھا یا یوں سمجھئے دنیا سے اپنا حصہ چھین لینا چاہتا تھا جس میں سرِ فہرست ایک ہینڈسم جاب , خوبصورت بیوی اور شاندار گاڑی میرا خواب تھیں ۔ میری خواہش تھی میری بیوی بہت خوبصورت اور نازک سی ہو بالکل کسی شیشے کے گلدان کی طرح ۔۔ بلکہ خاندان برادری میں اس سے پہلے ایسی طرح دار بیوی کسی کی نہ ہو جسے میں اپنے دوستوں میں ایک شان سے متعارف کروا سکوں اور چوڑے شانے کر کے اعزاز کے ساتھ گھوما کروں ان دنوں مادھوری کا جادو سر چڑھ کے بول رہا تھا اور ایشوریہ رائے کامیابی اور خوبصورتی کے زینے تیزی سے طے کر رہی تھی ۔ میری خواہش تھی میری بیوی ان جیسی شکل و صورت کی ہو میری خواہش میرا خواب تھا لیکن شائد میری نادان عمر کا ایک فضول تقاضہ تھا زندگی میں سب کچھ من چاہا نہیں ملتا تدبیر پہ تقدیر بھاری پڑتی ہے ۔ ازل نے میری قسمت میں عمر سے چار سال بڑی یہ بارہ من کی دھوبن لکھ دی تھی ۔ مجھے دبلی پتلی نازک کمر پہ سنہری لہراتے بال پسند تھے اسکے بال گردن سے پہلے ہی ختم ہو جاتے تھے مجھے ہلکے رنگ پسند تھے جبکہ وہ ہر وقت شوخ اور چیختے رنگوں کے گولا گنڈا سے رنگ پہنتی تھی جولاہوں اور اڈنیوں والے میل خورے رنگ چڑھائے رکھتی تھی ۔ ہلکے رنگوں والے سرسراتے ملبوسات جو طبعیت کو ایک تاثر کے ساتھ ٹھنڈک اور نزاکت بخشتے ہوں میری پسند تھے لیکن اسے سخت ناپسند تھے ملبوسات خریدتے وقت وہ اسی ریک کا انتخاب کرتی جہاں چبھنے والے شوخ رنگ سجے ہوتے ۔ کئی طرح کی مہنگی کریموں کے استعمال کے بعد بھی سردی گرمی میں پیروں کی ایڑھیاں پھٹی رہتی تھیں اور پھٹی ایڑھیوں سے مجھے ابکائی آنے کی حد تک نفرت تھی اور ہے ۔ میں چاہتا وہ نازک سا بریسلیٹ پہنے اسے اپنی خاندانی امارت اور خوشحالی کے دکھاوے کے لئے ہر وقت بھاری سونے کے زیورات لٹکانے کی عادت تھی جسے اس نے باوجود میری شدید خواہش کے کبھی اپنانے کی کوشش نہیں کی ۔ میں نے غصے سے سر پٹخا ۔ میری بے ربط سوچوں کا سلسلہ پھر بھٹکا اور ماضی کی مزید تنگ گلی میں جانکلا ۔۔
سی ایس ایس میں ملک بھر میں ساتویں پوزیشن لے کے کامیاب ہوا تھا اور امتیازی طور پر میں نے اپنے لئے فارن منسٹری کا شعبہ چنا تھا کیونکہ مجھے ملکوں ملکوں گھومنے کا شوق تھا ۔ جاب سے یہ شوق تو پورا ہو رہا تھا لیکن دل مر چکا تھا ۔ کامیابی کے بعد اور کئی سالوں کی ترقی کے بعد اب میں دنیا کے آدھے ممالک تو دیکھ ہی چکا ہوں لیکن اس طرح گھومنے پھرنے کی خواہش کبھی نہیں تھی ۔ نوکری کے دوران پنجاب میں اور فیڈرل میں کئی قیمتی پلاٹ میری نظر کئے گئے گنتی کے چند برسوں بعد میری ریٹائرمنٹ دستک دے رہی ہے اس ناپسندیدہ بیوی سے ہونے والے میرے تینوں لڑکے کب میرا قد پھلانگ گئے تھے مجھے پتہ ہی نہیں چلا ۔ میں عہدہ دار تھا دن میں آٹھ گھنٹوں کے لئے باقی کے گھنٹوں میں بیوی اس عہدے کا بھرپور استعمال کرتی ۔ خاندان بھر میں صاحب کی بیوی گردن اکڑا کے گھومتی رہتی لیکن میرے عہدے کا دبدبہ کبھی میرے کسی بہن بھائی کے کام نہیں آنے دیا مجھ سے پہلے میری بیوی تمام ضرورت مندوں کو باہر ہی باہر سے نمٹا دیتی جس سے میرے عزیز رشتے دار مجھ سے کھنچ گئے ۔ دنیا کی کونسی آسائش تھی جو میرے قدموں میں نہیں تھی ۔۔ گاڑی میں ہر سال چھ ماہ بعد بدل لیتا تھا ایک سے بڑھ کے ایک گاڑی میرے نیچے رہتی تھی لیکن اصل کمی رہ گئی تھی جو اب ایک خلش بن گئی ہے ۔
آج اس گلدان کے چھناکے سے میں ہوش میں آگیا تھا میری آنکھوں نے گرد و پیش کو ایک اجنبیت سے دیکھا ۔۔ مجھے آج پھر اپنی بیوی سے اتنی ہی شدید نفرت محسوس ہوئی جتنی شادی کے اولین دنوں میں ہوا کرتی تھی ۔ عمر میں بڑی تھی اور بے حد کائیاں تھی سال بھر میں میری بے رغبتی کو بھانپ گئی ہم ترکی کے دورے سے واپس آئے تو اس نے اپنے بھائیوں سے میری شکایت کر دی اور انہوں نے بڑی حکمت سے مجھے ہینڈل کیا مجھے کئی طرح کی سہولیات کے لالی پاپ دے کر بہلا لیا اور زیر بار کر لیا ۔ میں اگر اچھے لائف سٹائل کا خواہاں نہ ہوتا تو شائد نہ بہلتا انہوں نے میری کمزوری سے فائدہ اٹھا لیا جیسے بچوں کو کھلونوں سے بہلایا جاتا ہے سب سے پہلے ہر ہفتے گھر میں بھاری بھرکم دعوتوں اور قیمتی تحائف کی بارش کی پھر ہم دونوں کے لئے تین چار ممالک کے وزٹ ویزے کا بندوبست کیا اور مہینے بھر کے لئے سیر پہ بھیج دیا ۔ واپس آکے وہ میری جان کو ہی چمٹ گئی کبھی ایک لمحے کے لئے مجھے تنہا نہ چھوڑتی ۔ انتہائی ضروری ذاتی کاموں کے لئے بھی میں کبھی اکیلا نہیں گیا میرے یار دوست بہن بھائی سب ہی چھوٹ گئے ۔ اسے میرے بہن بھائیوں سے ملنا پسند نہیں تھا میرا منہ سسک کے احتجاجاً بند ہوگیا ۔۔ ہم صرف ان فیملیز سے ملتے جن سے ملنا اور روابط بڑھانا اسے پسند ہوتا ۔ دل نے خواہش کرنا اور میری تال پہ دھڑکنا چھوڑ دیا تھا ٹائی خوشبو اور قیمتی سوٹ کے پیچھے میں ایک مکمل روبوٹ بن چکا تھا ایک سال کے مختصر عرصے میں بیٹے کا باپ بن کے اپنی کئی خواہشات کو تھپک کے سلا چکا تھا ۔ بیٹے کی ماں بننا بھی اس کی خوش بختی کو نگینے جڑگیا کہ اس سے پہلے میرے بڑے بھائیوں کی بیٹیاں ہی تھیں ۔ وہ بیٹا ہونے کو بھی اپنی عقلمندی سے تعبیر کرتی ۔۔
وہ جوانی تھی بہت سی مصروفیات نے مجھے بہلا لیا تھا لیکن عمر کے اس حصے میں جب کہ میری ریٹائر منٹ چند برسوں کی دوری پہ ہے مجھے کوئی مجبوری بہلا نہیں پا رہی تھی ۔ اندر لاؤنج میں خاموشی کا راج تھا ملازمہ کب سے روتی دھوتی فارغ کر دی گئی تھی لیکن گلدان کے چھناکے سے جاگ جانے والی یہ خلش جانے کب بیٹھے گی بیٹھے گی بھی یا نہیں ۔ میں اس عمر میں اس سے چھٹکارا پانا چاہتا ہوں جیسے کسی اسیر کی رسیاں اچانک کٹ گئی ہوں جیسے میں وینٹی لیٹرز سے روم میں شفٹ کر دیا گیا ہوں ۔ ورنہ بیتے برسوں میں میں شیر سے گیڈر بن چکا تھا ۔ اتفاق سے اسکے چاروں بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہے ایک کر کے گزر چکے ہیں ۔۔اب کون مجھے کسی لالی پاپ سے بہلائے گا ۔ میں چونک کے ہوش میں آیا تو تین انچ کا گل میری انگلیوں میں دبا ہوا تھا جسے میں نے بے ساختہ انگوٹھے اور درمیانی انگلی کی مدد سے جھٹک دیا ۔۔
نظم نزول ِقرآن
نظم : ۔۔۔۔ ۔ نزول ِقرآن ۔۔۔۔۔۔۔ نظم نگار : سید فخرالدین بَلّے چار سو جلوۂ لَولَاکَ لَما رقص میں...