مسخرستان کا پہلا آمر مطلق عیوب خان تھا۔ ہر آمر کی طرح اس کا خیال تھا کہ وہ آئین سے بالاتر ہے۔ مگر مشکل یہ آن پڑی تھی کہ مہذب دنیا میں مارشل لاء کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے چنانچہ آئین کا نفاذ عیوب خان کی ضرورت تھا۔ اس نے اپنا آئین نافذ کرنے سے پہلے 26 اکتوبر 1959 کو ایک نادر روزگار منصوبہ پیش کیا جس کو بنیادی جمہوریت کا نام دیا گیا۔ پروگرام کے مطابق جنوری 1960 تک بنیادی جمہوری اداروں کے انتخابات مکمل کر لیے گئے۔ یہ انتخابات غیر سیاسی بنیادوں پر کروائے گئے تھے۔ عیوب خان نے یہ سارا ڈرامہ اپنی آمرانہ غیر منتخب حکومت کو آئینی جواز فراہم کرنے کے لیے رچایا تھا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے 14 فروری 1960 کو مسخرستان میں ریفرنڈم کروایا جس میں بی-ڈی ممبروں سے ایک سوال پوچھا گیا کہ
"کیا آپ کو صدر فیلڈ مارشل عیوب خان ہلالِ پاک، ہلالِ بہادر پر اعتماد ہے؟؟؟"
یہ سوال ایک پرچی پر طبع کروایا گیا۔ بی-ڈی ممبروں نے حرف "ہاں" یا "نہیں" میں جواب دینا تھا۔ عیوب خان کو کُل ڈالے گئے ووٹوں میں سے 95.6 فیصد ووٹ ملے۔ اس طرح اپنے تیئں عیوب خان مسخرستان کا آئینی صدر بن گیا۔ یہ محض ایک ڈھونگ ہی تھا۔ وقت گزرتا گیا اور مسخرستان کی عوام ظلم کی چکّی میں پستی گئی یہاں تک کہ مسخرستان کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ مسخرستان میں آمر کی شیلف لائف اوسطاً دس سال سے زیادہ نہیں ہوتی اس لیے عیوب خان کو جانا پڑا اور مسخرستان کے وہ لوگ جو سنجیدہ مزاج تھے یعنی جن کے لیے مسخرستان کا احمقانہ ماحول ناقابلِ برداشت ہو گیا تھا انہوں نے اپنے لیے ایک علیحدہ مُلک بنا لینے میں ہی عافیت سمجھی۔
یہ تو ہم سب ہی دانشمند لوگ جانتے ہیں کہ ہر آمر اپنی آمریت کو جواز فراہم کرنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے چاہے وہ کتنے ہی اوچھے ہی کیوں نہ ہوں اور پھر مسخرستان میں احمقانہ روائتیں جس تیزی سے دوھرائی جاتی ہیں اس کا بھی اپنا ایک مزہ ہے۔ چنانچہ مسخرستان کے ایک اور آمر "جنرل جہاز البھک" نے بھی سابقہ عیوبی ریت روایات سے کام لیتے ہوئے ریفرنڈم کا اعلان کر دیا۔ جنرل جہاز البھک نے یکم دسمبر 1984 کو ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اپنی پالیسیوں کی تائید حاصل کرنے کے لیے پورے مسخرستان میں ریفرنڈم کرائے گا اور اس طرح یہ ریفرنڈم 19 دسمبر 1984 کو خودساختہ الیکشن کمیشن کی نگرانی میں منعقد ہو گا۔ پھر مسخرستان کی عوام نے دیکھا کہ 19 دسمبر کو ریفرنڈم کا بھرپور طریقے سے انعقاد ہوا۔ جن سوالوں پر یہ ریفرنڈم ہوا تھا وہ درج ذیل ہیں؛
"کیا آپ صدر مسخرستان جنرل جہاز البھک کے اس عمل کی تائید کرتے ہیں جو انہوں نے مسخرستان کے قوانین کو الہامی کتاب کے مطابق اور مذہبی احکامات سے ہم آہنگ کرنے اور نظریہ مسخرستان کے تحفظ کے لیے شروع کیا ہے۔ کیا آپ اس عمل کو جاری رکھنے، مزید استوار کرنے اور منظم و پُرامن طریقے سے اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے حوالے کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔۔۔؟"
مسخرستان کی عوام نے مندرجہ بالا ان تمام سوالات کے جوابات ہاں میں دیے اور یوں جنرل جہاز البھک نے 97 فیصد ووٹ حاصل کر کے ریفرنڈم کو شاندار طریقے سے جیت لیا۔ اس ریفرنڈم میں جن ڈھائی فیصد لوگوں نے جنرل جہاز البھک کو ووٹ نہیں دیا تھا ان کو کوڑوں کی سخت ترین سزائیں دی گئیں، یاد رہے کہ جنرل جہاز البھک کے کارندوں نے نہایت ہوشیاری سے اُن ڈھائی فیصد لوگوں کے ذاتی کوائف فوراً ہی حاصل کر لیے تھے۔
جنرل جہاز البھک کے خاتمے کے تقریباً دس سال بعد مسخرستان میں ایک اور جنرل اپنے دو پالتو کتّوں کے ساتھ نمودار ہوئے، سابقہ دو آمروں کی طرح انہوں نے بھی قبضے کے فوراً بعد قوم سے خطاب فرمایا۔ اپنی سرکاری پروپیگنڈہ مشینری کی مدد سے عوام سے ہمدردیاں سمیٹنے کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو قوم کا واحد نجات دہندہ ڈکلیئرڈ کر دیا اور یوں مسخرستان کے صدر جنرل بے مصرف نے بالآخر مزید پانچ سال کے اقتدار کے لیے تیس اپریل ۲۰۰۲ء کو ریفرنڈم کرانے کا حتمی فیصلہ فیصلہ کر لیا۔ ان کے اس فیصلے کی تائید میں پورے مسخرستان کی سیاسی و سماجی فضا میں وردیوں کی یلغار ہو گئی۔ جو اس وردیانہ یلغار کے خلاف آواز اٹھاتا اسے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا تھا۔ ریفرنڈم سے قبل دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کی مکمل حمایت اور پھر ریفرنڈم کے کچھ سال بعد مسخرستان کے سنگلاخ پہاڑی علاقے چیستان میں نواب صاحب کے خلاف فوج کشی کے بعد مسخرستان کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگ غائب کر دیے گئے۔ جگہ جگہ بم دھماکوں نے پورے مسخرستان کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔ ایک طرح سے وہ پورا دور ہی بھیانک تھا لیکن اُس بھیانک دور میں جنرل بے مصرف اور ان کے پالتو کُتّے ڈالروں کی برسات میں کھیلتے رہے کیونکہ ریفرنڈم کے نام پر وہ مسخرستان کے مالک بن بیٹھے تھے۔
اُن دنوں جنرل بے مصرف اپنی پریس کانفرنسوں اور جلسوں میں بارہا یہ وضاحت فرماتے نہیں تھکتے تھے کہ
"ریفرنڈم کا اعلان انہوں نے آئینی ماہرین سے مشورے کے بعد ہی کیا ہے"
مگر یہ آئینی ماہرین آخر تھے کون اور کہاں سے آئے تھے؟؟؟ غالب امکان یہی ہے کہ وہ خودساختہ آئینی ماہرین امریکہ سے امپورٹ کیے گئے تھے اور انہیں امریکی عزائم کی مکمل سرپرستی بھی حاصل تھی۔
جنرل بے مصرف نے ریفرنڈم کے متعلق پہلی مرتبہ ۵ اپریل کو اپنے طویل ترین خطاب میں کھل کر اظہارِ خیال کیا تھا۔ اس تقریر میں انہوں نے عوام کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی کہ آخر انہوں نے ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیوں کیا ہے؟ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا؛
"اے لوگو! مجھے بتایئے، آپ کو میری ضرورت ہے یا نہیں؟ مجھے یقین تو ہے لیکن جب آپ مجھے بتائیں گے تو مجھ میں یقین اور طاقت بڑھے گی۔ مجھے آپ کی طاقت چاہئے۔ دنیا کو پتہ ہونا چاہیے بالخصوص ان لوگوں کو جو ہمیں عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتے ہیں کہ میں اکیلا نہیں ہوں میرے پیچھے 15 کروڑ عوام ہیں۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر حال میں ریفرنڈم ہو گا۔ میں تمام اخبارات کو دیکھ رہا ہوں، زیادہ تر لوگ اس کے خلاف لکھ رہے ہیں۔ مجھے معلوم ہے، پھر میں کیوں اڑا ہوا ہوں؟ میں ریفرنڈم کیوں کرانا چاہ رہا ہوں؟ مجھے یقین چاہیے کہ پوری قوم میری اصلاحات کے تسلسل کے حق میں ہے؟ سب سے بڑی ریفارم لوکل گورنمنٹ کا قیام، اقتصادی بحالی اور Diplomatic Standing اور جو کچھ ہماری Achievements ہیں، ان کے تسلسل کے حق میں، مجھے یقین چاہیے تا کہ مجھے اور پوری دنیا کو یقین ہو۔ مجھ میں اس سے ذاتی طور پر خود اعتمادی آئے گی۔ ایک اخلاقی بلندی ملے گی کہ میرے ساتھ عوام آپ سب ہیں۔ اگر ریفرنڈم ہو گیا تو معاشی فضا میں استحکام، سیاسی عدمِ ا ستحکام میں کمی اور ترقی کی فضاپیدا ہو گی۔ حقیقی جمہوریت آئے گی۔ اسمبلیوں میں بہتر ماحول ہو گا"
جنرل بے مصرف نے اس سوال کی بنیاد پر ریفرنڈم کا انعقاد کیا تھا۔۔۔
"سوال؛ مقامی حکومت کے نظام کی بقا، جمہوریت کے قیام، اصلاحات کے استحکام وتسلسل فرقہ واریت اور انتہا پسندوں کے خاتمے اور بانیِ اعظم کے تصور کی تکمیل کے لئے، کیا آپ صدر جنرل بے مصرف کو آئندہ پانچ سال کے لیے مسخرستان کا صدر بنانا چاہتے ہیں؟؟؟؟ ہاں / نہیں؟؟؟؟"
مسخرستان کا آئین توڑ کر یہ جنرل لوگ کس طرح سے پارلیمنٹ کا وقار بحال کر سکتے ہیں۔۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ غیرآئینی طور پر آنے والے قابض قبیلے کے لوگ آئینی لوگوں کو ہٹا کر عوام کے ووٹ، الیکشن اور جمہوریت کی بالادستی کو مستحکم کرنے کی باتیں کریں۔ اس سے بڑا دھوکہ اور کیا ہو گا جو یہ ہر دس، بارہ سال بعد دینے کے لیے عوام پر مسلط ہو جاتے ہیں۔۔۔ افسوس کہ ایک بار پھر ایسے ہی حالات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ مسخرستان پھر سے ریفرنڈم والوں کے رحم و کرم پر ہے۔
“