ہم برصغیر کے اس حصے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں جذبات کی اہمیت عقلی بات کی نسبت بہت زیادہ ہے۔فہم و شعور کے چراغ ہمیں گستاخ،زبان دراز،کافر،مشرک اور غدار لگتے ہیں۔وقت گزرتا ہے تو یہی کافر اور غدار سچائی کے علمبردار نظر آتے ہیں۔کاش ان کی باتیں پہلے مان لی جائیں تو حادثات سے نجات ممکن ہو۔
مسئلہ کشمیر بے حل کیلئے ابتدائی مذاکرات اکتوبر 1948 کو لندن اور پیرس میں شروع ہوئے۔پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم اپنے وفود کے ساتھ اجلاس میں شرکت کیلئے آئے۔دوسری طرف برطانیہ اور امریکہ بھی مسئلے کے حل کیلئے کوشاں تھے۔یہ مذاکرات مختلف مقامات پر ہوتے رھے۔
مذاکرات کے حتمی دور میں نہرو نے لیاقت علیخان کے سامنے دو تجاویز رکھیں۔اؤل یہ کہ پاکستان حق خود ارادیت کی شرط مان لے۔اسکی کوشش کرے۔دوسری یہ ہے کہ موجود علاقے پر موجود قبضے کو مانتے ہوئے کشمیر تقسم کر دیا جائے۔یہی شرط ستر سال بعد مان لی گئ۔سو نہرو کا ستر سال پہلے کا موقف جیت گیا۔
14نومبر 1948 کو وزیر اعظم لیاقت علی خان نے بھارتی مبصر سری پرکاش کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان کشمیر پر استصواب رائے کیلئے تیار ہے۔نہرو نے اس کو تسلیم کیا۔انکے بقول یہ مسئلہ اب پاکستان اور بھارت حل نہیں کر سکتے۔
13اگست 1948 کو اقوام متحدہ نے ایک قرارداد پاس کی۔اس کی روشنی میں استصواب رائے ہونا تھا۔جس کا اعلان لیاقت علیخان نے کیا۔اس قرارداد کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ پاکستان آزاد کشمیر سے اپنی فوج پہلے نکالے گا۔کیونکہ پاکستان نے کشمیر پر پہلے حملہ کیا۔جسے تسلیم بھی کیا گیا۔
دوسری شرط یہ رکھی گئ پاکستان ان قبائلی لوگوں اور غیر مقامی لوگوں کا وادی سے انخلا ممکن بنایا جائے گا۔اس شرط کی وجہ یہی تھی کہ 198 کی لشکر کشی میں قبائليوں کو وہاں بسایا گیا۔یا انہوں نے مال غنیمت کے طور پر ہندوؤں اور سکھوں کے گھروں پر قبضہ کر لیا۔اور بسنے لگے۔
تیسری تجویز یہ تھی کہ پاکستان کے خالی کردہ علاقوں پر مقامی انتظامیہ اور اقوام متحدہ کا کمیشن مل کر نگرانی کرینگے۔اب مقامی انتظامیہ سے کیا مراد تھی۔اس کی تشریح ادھوری ہے۔آیا سری نگر حکومت نگرانی کرے گی یا آزاد کشمیر حکومت۔۔دونوں اطراف انتظامیہ کتنی بااختیار ہے سب جانتے ہیں۔
پاکستان۔بھارت کے لئے اقوام متحدہ کا کمیشن حکومت بھارت کو پہلی دونوں شرائط کی تکمیل کے بعد اطلاع دیگا۔اس کے بعد بھارت اپنی فوج مقبوضہ علاقے سے نکالے گا۔مگر یہ بات طے تھی کہ اس کوشش کا آغاز پاکستان کو کرنا تھا۔جسے تسلیم بھی کیا گیا۔
پانچویں تجویز یہ تھی کہ مقامی انتظامیہ کی مدد کے لئے قلیل تعداد میں فوج کشمیر میں موجود رھے گی۔یہ حق بھارت کو دیا گیا تھا۔مگر ساتھ میں یہ بھی کہا گا کہ کمیشن اس بات کو یقینی بنائے گا کہ فوج کی تعداد کم ہو۔اس کام کیلئے مبصر تعینات کئے جائیں گے۔
چھٹی اور آخری تجویز یہ تھی کہ حکومت بھارت اس بات کی یقین دھانی کروائی گی کہ حکومت کشمیر ہر لحاظ سے بااختیار ہے اور وہ امن و اماں،سیاسی اور مذھبی حقوق کا تحفظ کرے گی۔ان شرائط کو مان کر استصواب رائے ہونا تھا۔پاکستانی اداروں نے ہمیشہ ان سے دامن بچایا اور عوام کو گمراہ کیا۔
فوجی حکمرانوں کو مسئلہ کشمیرہمیشہ سے بار لگا ہے۔سب سے پہلےایوب خان نے شیخ عبداللّہ کومشورہ دیا کہ وہ اپنی مرضی سے بھارت کیساتھ سمجھوتہ کرلیں۔پاکستان کو چھوڑیں۔مگر شیخ عبداللّہ جوحالات سےواقف تھے۔انہوں نے انکارکیا۔ایسی ہی ایک کوشش ضیاالحق نے کی تھی۔اورمشرف صاحب تو کل کی بات ہیں۔
پاکستان کی سویلین قیادت ہمیشہ سے اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کا حل چاھتی ہے۔مگر مقتدر ادارہ ہمیشہ ہی سے دوسرے حل کی طرف گامزن رہا ہے۔ایوب سے مشرف تک سب ہی کشمیر کی علاقائی تقسیم کے قائل رھے ہیں۔اب یہ بات واضح ہوتی ہے کشمیر کا موجود مقدمہ کس نے لڑا ہے۔